New Age Islam
Sat May 17 2025, 04:57 AM

Urdu Section ( 14 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Dogs of the Hell or Princes of Paradise? جہنم کے کتے یا جنت کے شہزادے؟

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

14 ستمبر 2023

گزشتہ ماہ اگست کی 16 تاریخ کو پاکستان کے ضلع فیصل آباد کے عیسائی اکثریت والے شہر جڑانوالہ میں انتہاپسند مسلمانوں کے ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں مسیحی برادر ی کے درجنوں مکانات کو جلایا اور مسمار کیا اور 4 گرجا گھروں کو جلادیا۔ وہاں موجود مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کی گئی اور جلایا گیا۔ اس تشدد کے سرغنہ یاسین اور 100 دیگر فسادیوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور 600 سے زائد نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اس سارے واقعے کا ماسٹر مائنڈ یاسین ہے جس نے مسجد سے لاؤڈاسپیکر پر اشتعال انگیز تقریر کرکے عوام کو جمع ہونے اور تشدد بھڑکانے کے لئے اکسایا۔

پاکستان میں مسجد سے عوام کو مسلکی یا مذہبی معاملات میں لاؤڈاسپیکر پر اشتعال دلانے یا تشدد بھڑکانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔وہاں مسجد سے لاؤڈاسپیکر پر عوام کو کسی کے خلاف بھڑکانا عام بات ہے۔اس سے قبل ایک حافظ قرآن کو بھی عوام نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا تھا۔ اس کے خلاف بھی کسی شخص نے مسجد سے اشتعال انگیز تقریر کرکے عوام کو اکٹھا کیا تھا۔ وہ گھر میں قرآن کی تلاوت کررہا تھا اور اس کی بیوی نے چولھے پر دودھ گرم کرنے کے لئے چڑھایا تھا اور پاس کی دکان سے شکر خریدنے چلی گئی تھی۔ اسے آنے میں دیر ہوگئی اور دودھ ابلنے لگا۔ حافظ قرآن نے جب دودھ ابلتے دیکھا تو قرآن کو ہاتھ میں لئے ہوۓ اٹھا اور لپک کر دودھ کو چولھے سے اتارا۔ ایسا کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے قرآن چھوٹ کر چولھے پر گرگیااور قرآن کے کچھ صفحات جل گئے۔ یہ بات پڑوس کی عورت کو معلوم ہوگئی اور تھوڑی ہی دیر میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح محلے میں پھیل گئی کہ حافظ نے قرآن جلا دیا ہے۔ فوراً ایک شخص مسجد میں گیا اور اس بات کا اعلان مسجد کے لاؤڈاسپیکر پر کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مشتعل ہجوم نے اس کے گھر کو گھیر لیا۔ اس نے گھر کا دروازہ بند کرلیا اور کھڑکی سے لوگوں کو بتایا کہ اس نے جان بوجھ کر قرآن نہیں جلایا۔ وہ تو خود ایک حافظ قرآن ہے وہ کیسے قرآن کو جلا سکتا ہے۔ لیکن ہجوم اس کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ وہ اسے سزا دینے پر بضد تھا۔ پولیس کو اس واقعے کی خبر ملی تو وہ حافظ کے گھر پہنچی اور اسے اپنی حفاظت میں تھانے لے گئی تاکہ اسے ہجوم سے بچایا جاسکے۔ لیکن وہاں کچھ انتہا پسند ملا پنہچ گئے اور پولیس پر اسلام کے دشمن کو بچانے کا الزام لگایا اور ہجوم کو بھڑکایا کہ وہ حافظ کو تھانے سے نکال کر خود ہی سزا دیں۔ اس کی ترغیب پر مشتعل ہجوم تھانے میں گھس گیا اور اسے تھانے سے نکال کر لے گیا اور اسے سڑک پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا اور پھر اس کی لاش کو آگ لگادی۔ ان کے مطابق قرآن کو جلانے کی یہی سزا تھی۔

جڑانوالہ فسادات کے بعد پولیس اور حکومت دونوں حرکت میں آئی اور فسادیوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا۔ جن مسیحیوں کے گھر اور اسباب تباہ ہوئے انہیں بیس بیس لاکھ روپئے کا چیک بطور ہرجانہ ادا کیا۔ ان فسادات میں تقریباً تین کروڑ پاکستانی روپئے کا نقصان ہوا۔

پاکستان کی مسیحی برادری پر حملے بھی نئے نہیں ہیں۔ ماضی میں بھی ان کی بستیوں اور گرجاگھروں پر مسلم انتہا پسندوں کے حملے ہوچکے ہیں۔ ان سب واقعات کے پیچھے توہین مذہب کا الزام ہوتا ہے۔

اکثر افراد کے خلاف توہین کا الزام لگا کر انہیں ہجوم کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ملزم کے لئے قانونی چارہ جوئی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ اگر عدالت کسی ملزم کو بے قصور قرار دے کر بری بھی کردیتی ہے تو اسے کسی انتہا پسند تنظیم سے وابستہ کوئی دہشت گرد موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔توہین کے یہ الزامات عام طور پر جھوٹے ہوتے ہیں اور عدالتوں میں ثابت نہیں ہوتے۔ ایسا نہیں ہے کہ توہین کے الزامات صرف اقلیتوں کے خلاف لگائے جاتے ہیں بلکہ مسلمانوں پر بھی توہین مذہب کا الزام لگا کر انہیں پرتشدد ہجوم پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیتا ہے۔ 2017 میں مشعال خان نامی ایک شخص کو ان کی یونیورسٹی میں ماب لنچنگ کرکے ہلاک کردیا گیا کیونکہ ان پر توہین مذہب کا الزام تھا۔پاکستان میں گذشتہ 30 برسوں میں 60 افراد کو توہین مذہب کے الزام میں ماب لنچنگ کرکے ہلاک کردیا گیا ہے۔

ان سب کے باوجود پاکستان کی حکومت ماب لنچنگ اور فسادات کے خلاف کوئی سخت قانون نہیں لا پائی ہے۔ ہر فساد یا ماب لنچنگ کے بعد وزیر اعظم اور دیگر وزراء کھوکھلے بیانات دیتے ہیں اور پھر معاملہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ قرآن میں فساد پھیلانے کی سزا مقرر کردی گئی ہے۔ اس کے باوجود فسادیوں اور ماب لنچنگ کرنے والوں کو سخت سزا نہیں دی جاتی۔ دکھاوے کے لئے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور پھر کچھ دنوں کے بعد ثبوت وشواہد ناکافی ہونے کے باعث انہیں رہا کردیا جاتا ہے یا پھر معمولی سزا ہوتی ہے۔

پاکستان میں مسجدوں سے اقلیتی برداری یا افراد کے خلاف اشتعال انگیزی عام بات ہے لیکن حکومت نے مساجد کے غلط استعمال کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا ہے ۔

پاکستان میں دہشت گردانہ واقعات اور خود کش حملے بھی عام ہیں ۔ گزشتہ چند مہینوں میں پاکستان میں چند بڑے دہشت گردانہ واقعات ہوئے ہیں جن میں سینکڑوں افراد کی جانیں گئی ہیں۔ پاکستانی حکومت کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ان دہشت گردوں کو جہنم کے کتے کہا۔ اور ان سے سختی سے نپٹنے کے عزم۔کا اعادہ کیا۔ پاکستان نے چند سال قبل ان دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب اور ردالفساد نامی فوجی مہم چلائی تھی لیکن جہنم کے یہ کتے پاکستانی فوج پر بھاری پڑگئے۔ اب پاکستانی وزراء اعظم صرف ان جہنم کے کتوں کے خلاف کھوکھلے بیانات دیتے ہیں اور ان کا قلع قمع نہیں کرسکتے کیونکہ وہ ان دہشت گردوں کو لاکھ جہنم کے کتے کہیں پاکستان کی انتہا پسند مذہبی تنظیموں سے وابستہ ملا اور مفتی انہیں مجاہد اور جنت کے شہزادے قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسکولوں اور مسجدوں میں خودکش حملوں کے بعد بھی یہ ملا متحد ہوکر ان کے خلاف سڑکوں پر نہیں اترتے۔ ہاں رسمی طور پر مذمت کے بیان آجاتے ہیں۔

پاکستان میں فسادات اور ماب لنچنگ کا سلسلہ تب تک نہیں رک سکتا جب تک کہ مسجدوں سے پاکستان میں مذہبی اور سماجی اصلاح کی تحریک نہیں شروع ہوتی۔ پاکستان میں مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال اور مسلکی منافرت پر مبنی تقریروں کا,سلسلہ بھی بند ہونا چاہئے۔ قرآن مسلکی فرقہ بندی کی مذمت کرتا ہے۔ اس لئے ماب لنچنگ یا سیاسی دشمنی نکالنے کے لئے مساجد اور امام مسجد کا استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ امام مسجد کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس کی کسی تقریر سے معاشرے میں منافرت اور انتشار نہ پھیلے اور شر پسندوں کو کسی کے خلاف اپنی سیاسی اور ذاتی دشمنی نکالنے کا موقع نہ ملے۔ امام کی کسی تقریر سے انتشار پھیلتا ہے تو وہ دنیا میں اپنے عہدے کا رعب دکھا کر بچ سکتا ہے لیکن آخرت میں اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔

-------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/dogs-hell-princes-paradise/d/130675

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..