ڈاکٹر قرۃ العین
12 نومبر،2023
ہندوستان پوری دنیا میں
اپنے تہذیبی اور اپنی تہواروں کیلئے مشہور ہے۔یہاں ہر ماہ کسی نہ کسی تہوار کا جشن
منایا جاتاہے۔ ہندوستان ایک ایساجمہوری ملک ہے جہاں مختلف مذاہب،عقائد،تہذیبوں اور
ذاتوں کے لوگ بڑی تعداد میں ایک ساتھ رہتے ہیں او رمذہب وعقیدہ کے ماننے والوں کے
اپنے اپنے تہذیبی اور روایتی تہوار ہیں جن میں کچھ تہوار ایسے ہیں جو سب مل کر
مناتے ہیں۔غیر ممالک میں مقیم ہندوستانی بھی وہاں ان تہوار وں کو پورے جوش وخروش
اور عقیدت کے ساتھ مناتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جو عدم مشابہت کے باوجود یکجہتی
کی عظیم مثال ہے۔یہاں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بدھ، جین، یہودی اور پارسی وغیرہ
ایک ساتھ مل جل کر رہتے ہیں جو کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کی سب سے عمدہ
مثال ہے۔ہندوستانی تہوار وں کو موسم کے کے لحاظ سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاتاہے۔
پہلے حصے کے تہواروں کا آغاز راکھی کے تہوار سے ہوتاہے۔ تہواروں کے اس پہلے حصے کا
خاتمہ دیوالی پر اور دوسرے کاہولی پر ہوتاہے۔دیوالی کی ہر رات چراغاں کیاجاتا ہے،
ہولی دن میں منائی جاتی ہے۔ اس موقع پر خوشی ومسرت کااظہار ایک دوسرے پر رنگ وگلال
ڈال کرکیاجاتاہے۔دیوالی ہندوستان میں منائے جانے والے سماجی او رمذہبی نقطہ نظر سے
ایک اہم تہوار ہے اسے دیپ اتسو بھی کہتے ہیں۔ اس تہوار کو ہندوؤں کے ساتھ ساتھ
سکھ، بودھ اور جین مذاہب کے ماننے والے بھی مناتے ہیں۔ اس تہوار کا رشتہ بھی شری
رام چندر جی کی عظیم شخصیت سے وابستہ ہے جب وہ چودہ سال بن باس کے بعد واپس آئے تو
ان کے استقبال میں اودھ اور کے اطراف میں ہر طرف گھی کے دیے جلائے گئے۔
دیوالی کے تہوار میں
مسلمان بادشاہ بھی شامل ہوتے تھے۔ شاہ عالم آفتاب کے ہندی اردو کلام سے یہ بات
ثابت ہوتی ہے کہ اس عہد میں قلعہ معلی میں بھی عید،بقرعید کی طرح دیوالی بھی کافی
دھوم دھام سے منائی جاتی تھی۔ اماوس کے روز سرسوتی پوجا کا اہتمام کیاجاتاتھا، جگہ
جگہ چراغ روشن کئے جاتے تھے،آتش بازی کے کھیل ہوتے تھے، خواتین بن سنورکر شامل
ہوتی تھیں اور منگل گان ہوتے تھے۔ گویا اس دور میں ہندوستان کے مقامی تہوار سماجی
میل جول او رآپسی رواداری کا مرقع بن گئے تھے،دیوالی اور شب برات میں کافی حدتک
مماثلت پیدا ہوگئی تھی اور دیوالی کی طرح شب برات کی آتش بازیاں بھی رواج کا حصہ
تھیں۔ اردو زبان میں کئی ایسے شعراء ہیں جنہوں نے اس موضوع کو اپنی شاعری میں جگہ
دی جن میں قلی قطب شاہ، حاتم، نظیر اکبر آبادی، تاباں، ظفر علی خاں، آل احمد سرور،
شاد عارفی،نذیر بنارسی، حیدر بیابانی، بیکل اتساہی، عزم شاکری او رممتاز گورمانی
کے نام قابل ذکر ہیں۔ اردو مثنویوں سے بھی اس کی بخوبی تصدیق ہوتی ہے۔ حاتم کی
مثنوی ’بہاریہ‘ میں ہندوستان کی ملی جلی معاشرت کایہ پہلو نمایاں طور سے دیکھا
جاسکتا ہے۔روشنیوں کی اسی جگمگا ہٹ کو حاتم نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔ شعر ملاحظہ
ہوں:
قطار ایسے چراغوں کی
بنائی
کتابوں پر ہو جوں جدول
طلائی
در و دیوار بام و صحن و
گلشن
چراغوں سے ہوا ہے روز
روشن
اردو شاعری میں ہندوستانی
تہذیب وتمدن او رتہواروں کا ذکر ہوتو سب سے پہلے ہماری نظر نظیر اکبر آبادی پر
پڑتی ہے۔نظیر کی شاعری میں ہندوستان او رہندوستانیت بولتااور چلتا پھرتا دکھائی
دیتاہے۔آپ اپنی تہذیب کے کسی بھی رنگ کو دیکھیں نظیر وہاں اس کا جشن مناتادکھائی
دے گا۔ ایک جگہ دیوالی کے معاشرتی کو ائف کو نظر اکبر آبادی نے بڑی خوبصورتی سے
اجاگر کیاہے:
ہر اک مکاں میں جلا پھر
دیا دیوالی کا
ہر اک طرف کو اجالا ہوا
دیوالی کا
سبھی کے دل میں سماں بھا
گیا دیوالی کا
کسی کے دل کو مزا خوش لگا
دیوالی کا
عجب بہار کا ہے دن بنا
دیوالی کا
قومی یکجہتی اور حب
الوطنی سے سرشار نظم نگاری میں آل احمد سرور بھی عروج پرنظرآتے ہیں۔ ان کی نظمیں
ایسی ہیں جو قومی ہمدردی، انسانیت اورجذبہ آزادی کا سرچشمہ ہے۔ ان کی تمام نظمیں
اپنے وقت کی بے حد مشہور اور مقبول نظمیں ہیں۔ جو آج بھی اپنی معنویت، سلاست اور
غنائیت کے باعث متاثر کرتی ہیں۔ آل احمد سرور اپنی نظم ”دیوالی“ میں، دیوالی کے
روشن چراغوں سے دکھوں اورغموں کے اندھیرو ں کو دور کر نے کی معنویت تلاش کرتے ہیں۔
یہ بام ودر، یہ چراغاں،
یہ قمقموں کی قطار
سپاہ نور سیاہی سے برسر
پیکار
یہ زرد چہروں پہ سرخی،
فرسودہ نظروں میں رنگ
بجھے بجھے سے دلوں
کواجالتی سی امنگ
غلام ربانی تاباں کا شمار
اردو کے ممتاز ترقی پسند شعراء میں ہوتاہے۔ انہوں نے نہ صرف شاعری کی سطح پر ترقی
پسند فکر او رنظریے کو عام کرنے کی کوشش کی بلکہ اس کے لئے عملی سطح پر بھی زندگی
بھر جدوجہد کرتے رہے۔ ان کے یہاں خالص فکری اور انقلابی سروکاروں کے باوجود بھی
ایک خاص قسم تخلیقی چمک نظر آتی ہے۔”دیوالی“ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں غلام
ربانی تاباں جنگ وجدال کی ہولناک کیوں پر امن وامان کی جیت کی تمنا کرتے نظر آتے
ہیں۔ اس نظم میں تاباں نے جنگ کے خلاف آواز اٹھائی ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے
کہ اس وقت انسان کو جنگ نہیں بلکہ امن وآشتی کی ضرورت ہے۔
وقار روح کے تاروں کو
کیوں چھوا تم نے
تمہاری نظم”دیوالی“ بہت
ہے اچھی ہے
مگر چہ رات کی گردن میں
دیپ مالائیں
ساہیوں میں اجالے کے
بدنمادھبے
غریب وحشی کو جیسے جزام
ہوجائے
یہ ٹمٹماتے دیئے صبح کا
بدل تو نہیں
میں سوچتا ہوں کہ اس چین
و برما میں
کسی محاذ پر کتنے دیئے
جلے ہوں گے
نذیر بنارسی کا شمار اردو
کے نمائندہ شاعروں میں ہوتاتھا۔ گنگ وجمن، جواہر سے لال تک، غلامی سے آزادی تک،
چیتنا کے سور، کتاب غزل، راشٹر کی امانت راشٹر کے حوالے وغیرہ ان کی اہم تخلیقات
ہیں۔ نذیر نے اپنی پوری زندگی بنارس میں ہی گزاری۔ اس شہر کی مشترکہ تہذیب وروایت
سے انہیں گہرا او رجذباتی لگاؤ تھا۔ہندو مسلم اتحاد کے لیے وہ ہمیشہ سرگرم رہے۔ ان
کی شاعری میں قومیت او رمقامی موضاعات کی کارفرمائیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ہندی
اوراردو دونوں حلقوں میں انہیں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔نذیر بنارسی نے عام موضوعات
کو سیدھے سادے انداز میں عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس لیے ان کے کلام میں سادگی
اور تاثیر نمایاں ہے۔ ان کی مشہور نظم ہے ’دیپاولی‘ جس کے چند مصرعے پیش خدمت ہیں:
مری سانسوں کو گیت او
رآتما کو ساز دیتی ہے
یہ دیوالی ہے سب کو جینے
کا انداز دیتی ہے
ہردے کے دوار پر رہ رہ کر
دیتاہے کوئی دستک
برابر زندگی آواز پر آواز
دیتی ہے
سمٹتا ہے اندھیرا پاؤں
پھیلاتی ہے دیوالی
ہنسائے جاتی ہے رجنی ہنسے
جاتی ہے دیوالی
بیکل اتساہی کا نام اردو
شاعری کے حوالے اہم ہے ان کا شمار ایسے شعرا میں ہوتاہے جنہیں اپنی مٹی سے لگاؤ
ہے۔ موصوف کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب وثقافت،تہوار، گاؤں،دیہات کی سادہ زندگی،
کھیت،کھلیان کی پر کشش عکاسی نظر آتی ہے۔ ان کے اشعار میں اپنی مٹی کی بھینی بھینی
خوشبو ملتی ہے۔انہوں نے دیپاولی کے عنوان سے ایک نظم کہی ہے جس چندحصے ملاحظہ
کیجئے:
کاہکشاں ہر شاخ کو ہر اک
پھول کو چاند بناناہے
یوں اپنا باغ سجانا ہے
کلیوں کامنہ چوم چوم کے
پروائی اٹھلاتی ہے
فصل گل کی انگنائی میں
امرت رس برسانا ہے
یوں اپناباغ سجانا ہے
دیوالی کے موضوع پر شاد
عارفی کی بھی ایک خوبصورت نظم ہے جس کا عنوان”دیوالی“ ہے۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ
کیجئے:
ہورہے ہیں رات کے دیوں کے
ہر سو اہتمام
صبح سے جلوہ نما ہے آج
دیوالی کی شام
ہوچکی گھر گھر سپیدی دھل
رہی ہے نالیاں
پھرتی ہیں کوچوں میں مٹی
کے کھلونے والیاں
بھولی بھالی بچیاں چنڈول
پاپا کر مگن
اپنی گڑیوں کے گھر وندوں
میں سجی ہے انجمن
اردو شعر وشاعری میں اکثر
تشبیہات،تمثیلات، و استعارات کا استعمال عام ہے۔ عام طور پر غزلوں کے اشعار میں
دیوالی کو تشبیہ اور استعار کے طور پر استعمال کیا جاتاہے۔ حالانکہ نظموں میں بھی
یہ رنگ اکثر وبیشتر نظر آتا ہے۔حفیظ بنارسی لکھتے ہیں:
سبھی کے دیپ سند ر ہیں
ہمارے کیا تمہارے کیا
اجالا ہر طرف ہے اس کنارے
اس کنارے کیا
انس معین نے دیوالی
کواپنے شعر میں اس طرح بیان کیاہے:
تھا انتظار منائیں گے مل
کے دیوالی
نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ
وقت شام ہوا
اس ضمن میں ماجد الباقر ی
کایہ شعر ملاحظہ کیجئے:
بیس برس سے اک تارے پرمن
کی جوت جگاتا ہوں
دیوالی کی رات کو تو بھی
کوئی دیا جلایا کر
عزم شاکری کا شعر دیکھئے:
آج کی رات دوالی ہے دیے
روشن ہیں
آج کی رات یہ لگتا ہے میں
سوسکتا ہوں
ممتاز گورمانی کہتے ہیں:
میلے میں گر نظر نہ آتا
روپ کسی متوالی کا
پھیکا پھیکا رہ جاتا
تہوار بھی اس دیوالی کا
ادب اطفال کے حوالے سے
حیدر بیابانی ایک نمایاں نام ہے۔ ان کا شمار بچوں کے ایک اہم شاعروں میں ہوتاہے۔
تین درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے چھتیس بچوں کی نظموں پر مشتمل ہیں
اور ادب اطفال میں ایک اہم اضافہ ہیں۔ سب سے پہلے’ننھی منی باتیں‘ کے نام سے بارہ
کتابیں شائع کیں جن میں بچوں کی دلچسپی کے مختلف موضوعات پر نظمیں شامل ہیں۔ ان کی
بھی خوبصورت نظم دیوالی کے حوالے سے ہے۔نظم ملاحظہ کیجئے:
دیوالی کے دیپ جلے ہیں
یار سے جانب یار جلے ہیں
چاروں جانب دھوم دھڑاکا
چھوٹے راکٹ اور پٹاخہ
گھر میں پھلجھڑیاں چھوٹے
آج تو سارے غیر بھلے ہیں
دیوالی کے دیپ جلے ہیں
ان نظموں کے علاوہ بھی
اردو کے بہت سارے شعراء نے دیوالی اور دیگر تہواروں پر ایسی نظمیں کہی ہیں جو
کلیات کی زینت اور اردو شاعری کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتاہیکہ اردو وسیع
القلب لوگوں کی زبان ہے او راس کے خمیر میں سیکولرزم بسا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
اردو کے شعر ا وادبا نے کسی بخل سے کام نہیں لیا بلکہ فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
ہر موقع پر اشعار کہے ہیں اور تاثرات کو اشعار کے سانچے میں ڈھال کر اسے ہمیشہ کے
لیے زندہ وجاوید بنا دیا۔
12 نومبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism