کنیز فاطمہ، نیو ایج اسلام
29 ستمبر،2023
اگر ہم طلاق
کے رجحان کی وجوہات کو روکنا چاہتے ہیں تو مردوں کو پہل کرنی چاہیے
اپنے گزشتہ مضمون میں، میں نے گفتگو کی تھی کہ طلاق کے بڑھتے رجحان میں ایک سبب عورتوں کی ضد ہے ۔اس رجحان کے علاج
پر بھی گفتگو کی تھی کہ عورتوں کو چاہیے کہ وہ صبر و تحمل، نرمی اور قوت برداشت سے
کام لیکر مشکلات کی آندھی کو گزرنے دیں ۔ ان کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کے نرم
اور صابرانہ عمل کی وجہ سے بہت سارے مشکلات
کا خاتمہ ہو سکتا ہے بالخصوص ان کے بچوں کا مستقبل خراب ہونے سے بچ
سکتا ہے ۔اس کے بر عکس اگر انہوں نے عدم برداشت اور اپنی ضد کا مظاہرہ کیا تو نہ صرف
ان کی زندگی برباد ہو سکتی ہے بلکہ ان کے بچوں کا مستقبل بھی خراب ہوگا اور اس کے ساتھ
وہ ایک شخص کو بھی کھو دیں گی جو ان سے بہت محبت کرتا تھا اگرچہ اس کے اندر تھوڑا غصہ
کرنے کی عادت تھی ۔
آج کے اس دور میں جبکہ عالمی حالات کا جائزہ بآسانی لیا جا سکتا
ہے ، سوشل میڈیا چینلز کی کثرت ہے اور ہمارے لیے یہ جاننا بہت ہی آسان ہے کہ بہت ساری
عورتیں ہیں جن کو طلاق کے بعد ان کی سابقہ ازدواجی زندگی کے مشکلات سے بھی زیادہ بڑے
مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ تو بتانا یہ مقصد تھا کہ اگر وہ ازدواجی زندگی کے
مراحل میں کبھی کبھار ہونے والے مصائب پر صبر اور عفو و در گزر سے کام لیں تو عورتیں بہت سے مستقبل کے بڑے مصائب سے محفوظ
ہو جائیں گی لیکن اگر انہوں نے اپنی ضد کا
مظاہرہ کیا تو نوبت طلاق تک پہنچے گی پھر اس
طرح وہ خود کو بڑی مصیبتوں میں ڈال دیں گی
اور اس وقت دوسرے نہیں بلکہ وہ خود ذمہ دار ہوں گے ۔
اس مضمون میں، میں مختصراً
جائزہ پیش کروں گی کہ ہمارے مرد
حضرات کس طرح طلاق کے بڑھتے رجحان کا سبب بن رہے ہیں۔ ہمارے مرد حضرات ایسا سبب کیوں بن رہے ہیں اس کے پیچھے ان کے والدین
بھی ذمہ دار ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو تربیت نہیں دی ، خاص طور پر اس وقت جب وہ شادی کی عمر کو پہنچ گئے تھے
کہ کس طرح انہیں خاندان اور ازدواجی
زندگی کی ذمہ داریوں کو نبھانا ہے۔ آج جب کہ سوشل میڈیا اور موبائل کے استعمال کی
کثرت کا دور ہے تو ہم دیکھتے ہیں والدین خود
سوشل میڈیا پر اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ اپنے
بچوں کو اخلاقی تربیت دینے سے قاصر ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے
بچوں کا داخلہ ایسی جگہوں پر کراتے ہیں جہاں
صرف پروفیشنل تعلیم پر توجہ تو ہوتی ہے مگر
اخلاقی تعلیم پر ضروری توجہ نہیں ہوتی ہے
۔
بیوی کے حقوق میں کوتاہی کرنے
والے شوہر کے لیے نصیحت
خاندانی مسائل کے تعلق سے
گفتگو کے دوران میں نے بہت سی ایسی خواتین کو سنا ہے جو مردوں کے ظالمانہ رویے کے قصے سناتی ہیں ۔بعض خواتین ایسی ہوتی ہیں
جو ظلم وستم سہنے کے باجود اپنے بچوں کی خاطر
صبر و تحمل کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں۔ بعض خواتین پر شوہر کا ظلم اس قدر بڑھ جاتا ہے
کہ ان کو طلاق مانگنے پر مجبور کردیتا ہے اور
ناقابل برداشت ازدواجی گھونسلے میں
رہنے کی بجائے طلاق کے بعد زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
اس بات سے مجھے انکار نہیں کہ ان میں سے
بعض خواتین اگر چاہیں تو اپنے شوہروں
کی ظالمانہ رویہ کے باوجود اس دردناک زندگی کو
اپنے صبر و حکمت اور قوت برداشت اور عقلمندی سے خوشگوار زندگی میں تبدیل کر
سکتی ہیں ۔ لیکن وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں ۔اس کی وجہ یا تو حکمت و دانشمندی سے لا علمی ، لا شعوری یا تربیت میں کمی ہوتی ہے ۔ یا پھر اس کی وجہ یہ
ہوتی ہے کہ وہ انتہائی آسان اور آرام دہ زندگی کرنے کی خواہش رکھتی ہیں یا پھر وہ
کسی بھی قسم کی قربانی دینے کے لیے نفسیاتی طور پر تیار نہیں ہوتی ہیں کہ جس کی وجہ سے وہ اپنے مطالبات پر مصر رہتی ہے
اور پھر وہ اپنے ظالم شوہر کے ظلم کا شکار ہوتی رہتی ہیں ۔ لیکن عورتوں کے اندر ان
صلاحیتوں کے فقدان کے باوجود ، ہم مرد حضرات کو بری الذمہ نہیں سمجھتے ۔بلکہ مرد بھی
اپنے ظالمانہ رویوں کی وجہ سے طلاق کے رجحان کے پھیلاو کے ذمہ دار ہیں ۔طلاق کے اس
رجحان میں کمی لانے کے لیے مرد کو بھی اپنی طرف سے پہل کرنے کی حد درجہ ضرورت ہے ۔
مردوں کو یہ بات جان لینا چاہیے کہ عورت ، مالدار اور خوبصورت آدمی سے زیادہ اس آدمی کو پسند کرتی ہے جو اس
کی آنکھوں کو سمجھے ، اس کے ساتھ ہمدردی رکھے اور اس پر لطف و رحمت سے پیش آئے
۔ اگر مرد نرمی اور محبت کا رویہ رکھے تو
وہ اپنی بیوی سے جو چاہے مطالبہ کرے اس کی بیوی اس کے لیے ہر چیز قربان کرنے کے لیے
تیار ہو جائے گی ۔
بیوی سے محبت کی باتیں کرنا پیسے سے زیادہ اہم ہو سکتی ہے، ٹھیک اسی طرح
جس طرح شوہر کی عزت ہر چیز سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔اپنے خاندان کو ہمیشہ خوش رکھنے
کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان محبت اور احترام کا تبادلہ بہت ضروری ہے۔اگر آپ اپنی
بیوی کی تعریف کریں گے تو اس سے اس کے جمال اور محبت میں بھی بھرپور اضافہ ہوتا چلا
جائے گا ۔ جتنی بار آپ اپنی بیوی کو محبت بھری نگاہ سے دیکھیں گے اتنا ہی اس کی نفسیاتی
اور جسمانی صحت کو سہارا ملے گا اور اس سے اس کے دماغ میں نسوانی مراکز کو روشنی ملے
گی ۔سب سے ذہین شوہر وہ ہوتا ہے جو اپنی بیوی کو سب سے زیادہ پیارے ناموں سے پکارتا
ہے ۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ بیوی کی فطرت مرد کی فطرت کے برعکس وقت کے ساتھ ساتھ شوہر
کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہے، کیونکہ عورت مرد
پر جلد اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک
قابل شوہر بیوی کے لیے تحفظ کا ذریعہ ہوتا ہے، دہشت اور خوف کا ذریعہ نہیں ہوتا۔
شوہر کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اپنی بیوی کو اپنے رویے کو تبدیل کرنے کا حکم
دینا کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک کہ آپ جو
ہیں اسی پر اڑے رہیں۔
۔۔۔
کنیز فاطمہ عالمہ و فاضلہ
اور نیو ایج اسلام ویب سائٹ کی مستقل کالم نگار ہیں ۔
--------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism