New Age Islam
Thu May 15 2025, 05:56 PM

Urdu Section ( 26 Jun 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Divine Heavenly Books and Shriah Rules Stress the Value of Medical Knowledge صحف آسمانی اور احکام شرعیہ میں علم طب کی اہمیت

محمد شاہد رضا نعمانی مصباحی، نیو ایج اسلام

26 جون 2023

علم طب ایسا علم ہے جس سے انسان کے اعضائے ظاہری واعضائے باطنی کی صحت و حفاظت کے اصول اور ان کی باہمی ترکیب اور اس کے اثرات معلوم ہوتے ہیں۔اس کا موضوع بدن انسانی ہے۔ غرض و غایت حفظ صحت کے اصول اور امراض سے شفا حاصل کرنے کی تدابیر معلوم کرنا ہے۔

علم طب دیگر فنون کی بنسبت اعلی واشرف اور منفعت بخش ہے، صحف آسمانی اور احکام شرعیہ میں اس کی عظمت کا تذکرہ آیا ہے۔

طب کا سفراتنا ہی پرانا ہے جتنا انسان ۔ جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گیا اس کی ضروریات میں اور تبدیلیاں ہوتی گئیں۔ ظاہر ہے جب انسان دنیا میں آیا ہو گا تو سکون کے ساتھ ساتھ تکلیف بھی ضرور پیش آئی ہوگی اور پھر جس طرح بھوک مٹانے کے لیے اسے کھانے کی تلاش نے پریشان کیا ہو گا ، پیاس کی تسکین کے لیے پانی کی جستجو ہوئی ہوگی۔ اسی طرح درد و تکالیف کے ازالہ کے لیے بھی انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز بنانے والی قوت اور اک نے تدابیر پر مجبور کیا ہوگا اسی نظریہ فکر کی بنا پر طب کی ابتداء کا مسئلہ بے حد پے چیدہ اور مختلف فیہ رہا ہے۔ ایک طبقہ اسے قدیم مانتا ہے اور اس کا خیال ہے جس طرح دنیا کی تمام اشیا قدیم نہیں اسی طرح طب بھی قدیم نہیں ہے۔ دوسرا طبقہ جس میں روسیو اور اس کے متبعین شامل ہیں ان کا خیال ہے کہ ابتدائی دور تک انسان اپنی زندگی کے فطری اسباب اور لاحق ہونے والے عوارض و امراض سے ناآشنا او نابلد تھا ۔ اسی طرح ایک طبقہ طب کے حادث ہونے کا قائل ہے اور اس کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ چونکہ تمام چیزیں حادث ہیں لہذا علم طب بھی حادث ہے ۔

 ایک فرقہ کے نزدیک یہ علم الہامی ہے اور الہام اور خوابوں کے ذریعہ پہلے انسان کو مرض کے ازالہ کا طریقہ بتایا گیا بعد میں تجربہ سے اس میں مزید ترقی ہوئی اس فرقہ کے اہم سیر و بقراط اور جالینوس ہیں۔

طب کے میدا اور اس کے موجد کے تعین کے بارے میں آئے دن نت نئے نظریات جنم لیتے ہیں اور پرانی باتیں قصہ پارینہ بن جاتی ہیں۔ اب تک ہوئی خشتی تختیوں پر تحقیقات کے مطابق علاقہ مابین النصرین (دجلہ اور فرات کی درمیانی پٹی) کو طب کا مرکز اولین قرار دیا : ہے۔ خشتی تختیوں کے عظیم محقق کریمر اور مارٹن لیوی نے سب سے پرانی خشتی تختی کو اولین طبی دستاویز قرار دیتے ہوئے ۱۹۵۲ء میں جو جائزہ پیش کیا ہے اس کے بموجب طب کی ابتدار دجلہ اور فرات کے درمیان ایک ایسے علاقہ میں ہوئی تھی جہاں ۳٠٠۰ ہزار سال قبل مسیح سمیر نام کی ایک قوم کے آباد ہونے کے نشانات ملتے ہیں تقریبا ۲٠٠۰ ہزار سال قبل میسح سمیری سلطنت شمال اور جنوب دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ شمالی حصہ آشوریوں کے قبضہ میں آیا اور جنوبی بابلیوں کے اس طرح آخور اور نینوا ان دو سلطنتوں کے مرکز قرار پائے۔

علم طلب کے موجد اور اس کے مرکز اولیں کی طرح طبیب اول کی تعین کا مسئلہ میں بھی مورخین مختلف الائے ہیں ، بہر حال اس بات کے حوالے کثرت سے ملتے ہیں کہ پہلا طبیب اسقلی بوس تھا۔ اس طبیب کو حضرت ادریس علیہ السلام کا شاگرد بتایا جاتا ہے۔ انتقلی بوس کے بعد جالینوس کے عہد تک آٹھ اہم اطباء کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے بقراط کے متعلق ایک عام خیال یہ ہے کہ اسی نے طب کی سب سے پہلے تدوین کی۔       مسلمانوں نے علم طب کے میدان میں جو کامیابیاں حاصل کیں اور ان میں نت نے ایجادات کے وہ کسی بھی دانا شخص سے مستور اور مخفی نہیں ہے ۔ خاص کر خلافت اسلامیہ میں جہاں پر دیگر میدانوں میں کام کیا گیا جن میں شہروں کے قیام ،تعلیم کی فراہمی ،مختلف علوم و فنون کے اہتمام کا آغاز ہوا تو اہیں پر مسلمانوں نے علم طب کو خاص طور پر اہمیت دی ۔اسلامی عہد میں مسلم اطبا ء متعدد شعبہ جات کے متخصص تھے جن میں آنکھوں کاشعبہ،سرجری کا شعبہ، علم نفسانی(علم سائیکالوجی)،بچوں اور خواتین کے امراض کے شعبہ جات وغیرہ شامل ہیں۔مسلم اطبا نے علم طب میں نمایاں خدمات پیش کیں جس کی وجہ سے بہت سے خاندان اسی شعبہ سے مشہور و متعرف ہوگئے تھے۔خلافت امویہ اور خلافت عباسیہ میں علم طب کو خاص طور پر اہمیت دی گئی یہی وجہ ہے کہ مشہور طبی مدرسہ مدرسہ نظامیہ کے نام سے موجود تھا ،اور اسی طرح اموی عہد میں ابی الحکم الدمشقی اور احمد بن ابراہیم بادشاہوں اور اغنیا و امرا کے مشہور طبیب تھے۔علم طب کے میدان میں عصر عباسی میں مایاں ترقی ہوئی ،جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بہت سے امراض کے انکشافات کے سلسلہ میں بہت سے تجربے کئے جن سے زمانہ سابق کی مہذب و طاقتور سلطنتیں غافل رہیں۔       طب سے مسلمانوں کی گہری اور اس سے وابستگی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا کہ اموی دور کے آغاز ہی میں جب ترجمہ نگاری کا رواج ہوا اور مختلف علوم وفنون کی کتابیں ،یونانی عبرانی، سریانی سنسکرت زبانوں سے عربی قالب میں ڈھالی گئیں تو طب اور فلسفہ کی سب سے زیادہ کتابیں ترجمہ کرائی گئیں، عباسی دور بالخصوص مامون کے عہد میں بے شمار یونانی کتابوں نے عربی کا لباس زیب تن کیا، اس طرح مسلمانوں کی طب سے دلچسپی بڑھنے لگی، آج جویونانی اطباء کی کتابیں ان کے اقوال اور ان کے تجربات موجود ہیں وہ سب مسلمانوں کے رہین منت ہیں کہ مسلمانوں نے اس کو عربی جامہ پہنا کر اور اس میں اضافہ وترمیم کر کے اسے زندہ جاوید بنادیا ورنہ حکماء یونان کے فلسفے اور طبی کارنامے دفتر گم گشتہ ہوچکے ہوتے ، دولت امویہ اور عباسیہ میں بالخصوص بقراط اور جالينوس جیسے یونانی اطباء کی بہت سی کتابوں کے ترجمے ہوئے۔ اسلامی دنیا میں طب کا باقاعدہ آغاز ابو بکر محمد بن زکریا رازی (۸۵۴- ۹۵۳ء) سے ہوتا ہے، اس نے تمام طبی کتابیں پڑھیں اور اپنے والد کے ساتھ ایک ہسپتال میں طب کا عملی تجربہ بھی کیا، کہتے کہ اپنی تحریروں اور نوشتوں کی ضخامت میں وہ جالینوس سے بھی سبقت لے گیا، اس نے دو سو سے زائد کتابیں لکھیں، جس میں نصف کتابیں طب پر ہیں، اسی طرح عمر بن عبد العزیز اور دیگر خلفاء نے علم طب کی نشر و اشاعت میں جو گراں قدر کام انجام دیا ہے قوم اسے کبھی فراموش نہیں کرے گی۔

طبی نکتۂ نگاہ سے مسلسل تحقیقات کا جاری رکھنا اور ہر بیماری کا علاج ڈھونڈ نکالنا ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر فرض ہے۔ ہر بیماری قابلِ علاج ہے۔ اِس حوالے سے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشادِ گرامی ہے:

ما أنزل الله مِن دآء إلا أنزل له شفآءٌ.

(صحيح البخاري، 2 : 847)

(جامع الترمذي، 2 : 25)

اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اُتاری جس کی شفا نازل نہ فرمائی ہو۔

یہ حدیثِ مبارکہ بنی نوعِ انسان کو ہر مرض کی دوا کے باب میں مسلسل ریسرچ کے پراسس کو جاری رکھنے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ تصور کہ بعض بیماریاں کلیتاً لاعلاج ہیں، اِس تصور کو اِسلام نے قطعی طور پر بے بنیاد اور غلط قرار دیا اور اِس تصور کو اپنانا ریسرچ کے تصور کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ اپنی تحقیق سے کسی مرض کا علاج دریافت نہ کر سکنے پر مرض کو ناقابلِ علاج قرار دینا جہالت کی علامت ہے۔

الغرض فن طب کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی اور کونسا انسان سب سے قبل کون سے مرض میں مبتلاء ہوا اور اس کا علاج کس نے کیا اور کون سی تدابیر روک تھام کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ تمام معلومات تاریخ طب میں محفوظ نہ رہ سکی لیکن یہ بات بھی تسلیم کرنا پرَ گا کہ علم طب اور علاج و معالجہ انسان کی کئی برسوں کی محنت تجربہ اور قیاسات کا ایک افضل ترین نمونہ ہے لیکن موجودہ دور میں طب ایک وسیع مضمون میں پھیل گیا ہے آج کے اس ٹکنالوجی کے دور میں بھی زمانہ قدیم کے تجربات و قیاسات کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف قسم کے معنوں سے مرض کی تشخیص کی جارہی ہے۔

-----------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/divine-shriah-rules-medical-knowledge/d/130077

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..