New Age Islam
Wed Apr 23 2025, 07:43 AM

Urdu Section ( 29 Sept 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Divine Principle of Gradualism قرآن میں اصول تدریجیت کا بیان

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

29 ستمبر 2022

یہ کائنات خالق کائنات کے احکام کے تابع ہے۔ اس کائنات کے تمام امورو معاملات خالق کائنات کے وضع کردہ اصولوں کے تابع ہیں۔ اس کائنات میں ایک مستقل نظم و ضبط  قائم ہے۔ سورج، چاند، ستارے سبھی مسلسل گردش و حرکت میں ہیں اور سختی سے نظم وضبط کے پابند ہی۔

اس کائنات کے نظام کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ تدریجیت کے آفاقی اصول کا پابند ہے۔ ابتدا میں یہ کائنات ایک خام شکل میں تھی اور تدریجی اور ارتقائی عمل کے نتیجے میں موجودہ شکل میں پہنچی ہے۔ صبح تدریجی طور پر نمودار ہوتی ہے۔ اور رات بھی مرحلہ وار اترتی ہے۔لہذا، اس کائنات میں آنے والی تبدیلیاں اچانک نہیں آتیں بلکہ اصول تدریجیت کے تحت ہی مرحلہ وار آتی ہیں۔

اسی طرح، انسانوں اور دیگر جانداروں کے معاملات و امور بھی اسی اصول تدریجیت کے ماتحت ہیں۔ ایک جاندار پیدا ہوتا ہے، بڑھتا ہے، ضعیفی کی عمر کو پہنچتا ہے اور مرجاتا ہے۔ انسانی زندگی بھی اصول تدریجیت کے تابع ہے۔انسانوں کی زندگی کے حالات میں تبدیلی ان کی کوششوں اور اعمال یا بداعمالیوں کےنتیجے میں آتی ہے۔اگر کسی انسان کے اعمال اچھے ہیں اور وہ صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ محنت کرتا ہے تو اس کی مادی حالت بتدریج بہتر ہوتی ہے اچانک نہیں۔ اس طرح ، اگر وہ بداعمالیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور ترقی کے لئے کوشش نہیں کرتا تو اس کی زندگی رفتہ رفتہ تباہ ہوجاتی ہے۔ یہی تدرجی تبدیلی کا قدرتی قانون ہے۔

قرآن کے مطابق اچھے انسانوں کے حالات مرحلہ وار طریقے سے بہتری کی طرف جاتے ہیں۔ اور یہی اصول قوموں اور سلطنتوں کے معاملے میں بھی کام کرتا ہے۔ ہمارے سامنے افراد، قوموں اور سلطنتوں کے تدریجی عروج وزوال کی روشن مثالیں موجود ہیں۔ انہوں نے درجہ بدرجہ ترقی کی یا برباد ہوئے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرت یا قوت مطلق نیک انسانوں کو ان کی محنت و مشقت اور نیک اعمال کے تھوڑے سے مثبت نتائج دکھاکر انہیں مزید محنت کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتا ہے۔انسان جب اپنی محنت اور اعمال کے اچھے نتائج دیکھتا ہے تو اسے خوشی ہوتی ہے اور وہ مزید محنت کرتا ہے۔ اس طرح وہ درجہ بدرجہ اپنی محنت کےبل پر ترقی کرتا جاتا ہے۔ اسی طرح، قدرت برے اور کاہل افراد کو ان کی کاہلی اور تخریبی سرگرمیوں کا تھوڑا سا برا نتیجہ دکھا کر انہیں اپنی بد اعمالیوں سے خبردار کرتی ہے تاکہ وہ اپنی بد اعمایوں اور تخریبی سرگرمیوں سے باز آجائیں اور اپنی اصلاح کرلیں تاکہ تباہی و ناکامی سے بچ جائیں۔جو تھوڑا سا نقصان انہیں ہوتا ہے وہ ان کے لئے تنبیہ کا کام کرتا ہے۔ اسی لئے قدرت انہیں تباہ نہیں کرتی بلکہ انہیں سنبھلنے کا موقع دیتی ہے۔ لیکن اگر تنبیہ کے باوجود وہ اپنی بد اعمالیوں اور کاہلی سے باز نہیں آتے تو وہ درجہ بدرجہ تباہی کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔۔ پھر وہ اپنی ناکامی، بد حالی اور تباہی کے لئے خدا سے شکوہ نہیں کرسکتے۔

خدا قرآن کی چند,آیتوں میں اصول تدریجیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔۔

۔" تم۔بیشک درجہ بدرجہ سفر کروگے۔۔"۔(الانشقاق:19).

."اور انہیں ہم۔ایسی جگہ سے درجہ بدرجہ پستی کی طرف لائیں گے جہاں سے ان کو خبر بھی نییں ہوگی۔"(القلم:44).

۔"اور ہم۔سہج سہج پہنچائینگے تجھ کو,آسانی میں۔"(الاعلی:8).

۔"تو اس کو ہم سہج سہج پہنچائینگے آسانی میں۔"(الیل: 7).

۔۔۔"سو اس کو سہج سہج پہنچائینگے سختی میں۔"(الیل:10).

مندرجہ بالا آیات یقینی طور پر قدرت کے اصول تدریجیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ اصول سیکولر اور روحانہی و مذہبی دونوں معنوں میں لیا جاسکتا ہے۔ مذہبی معنوں میں ، نیک لوگ یا وہ لوگ جو خدا کے بتائے ہوئے راستے میں محنت اور جدوجہد کرتے ہیں وہ درجہ بدرجہ ترقی ، نیک نامی اور خوش حالی دیکھتے ہیں اور جو لوگ ظالم اور بداعمال ہیں اور نیک لوگوں کے دشمن ہیں وہ درجہ بدرجہ ذلت اور تباہی دیکھتے ہیں۔

غیر مذہبی اور سیکولر معنوں میں، جو لوگ محنت کرتے ہیں اور زندگی نظم ضبط کے مطابق گزارتے ہیں درجہ بدرجہ ترقی اور خوش حالی کی طرف بڑھتے ہیں اور جو لوگ فضول کاموں یا تخریبی سرگرمیوں میں وقت ضائع کرتے ہیں وہ رفتہ رفتہ تباہ ہوجاتے ہیں۔۔

اس اصول میں انسانوں کے لئے یہ پیغام۔بھی چھپا ہے کہ وہ معجزوں کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ سھرے نہ بیٹھے رہیں۔وہ یہ بات سمجھ لیں کہ انکی ترقی، خوش حالی اور دنیا اور آخرت کی کامیابی محنت و ریاضت ، دانش مندانہ منصوبہ بندی اور خلوص نیت پر منحصر ہے۔ خدا یہ چاہتا ہے کہ انسان اس پر بھروسہ تو کرے مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھی اعتماد رکھے جو اسے ودیعت کی گئی ہیں۔دوسری طرف خدا اسے یہ تنبیہہ بھی کرتا ہے کہ اگر وہ غلط راستے پر چلتا ہے اور اپنی بد اعمالیوں پر قائم رہتا ہے تو وہ درجہ بدرجہ اپنی تباہی کو پہنچے گا۔ ماضی میں بہت سے افراد، قومیں اور عظیم۔سلطنتیں اپنی بداعمالیوں، اور غلط طرز فکر کی وجہ سے برباد ہوگئیں۔ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ حالات کیسے ان کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے اور انہوں نے کیسے درجہ بدرجہ اپنا سماجی و مادی رتبہ کھو دیا۔سورہ الانشقاق کی آیت کی توضیح روحانی نقطہء نظر سے بھی کی جاسکتی ہے۔ ایک صوفی اپنے مرشد کی رہنمائی میں تقوی اور روحانی تربیت کے ذریعہ سے معرفت کی راہ میں درجہ بدرجہ بڑھتا ہے۔وہ سختی سے تقوی پر قائم۔رہتے ہوئے عبادت وریاضت کرتا ہے اور نفسانی خواہشات اور مادی آسائشوں کو ترک کردیتا ہے۔ وہ برسوں کی ریاضت کے ساتھ مرحلہ در مرحلہ مقام در مقام معردفت کے اعلی مقام پر پہنچتا ہے۔لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ تدریجیت کا قدرتی اصول انسانوں کی مادی اور روحانی دونوں زندگیوں کا احاطہ کرتا ہے۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/divine-principle-gradualism/d/128059

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..