New Age Islam
Sat May 17 2025, 04:25 AM

Urdu Section ( 19 Aug 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Divine Power Adorned the Universe, Transforming Each Design into a Means to Complete Another-Concluding Part قدرت نےبزم عالم کواس طرح آراستہ کیا ہےکہ یہاں کا ہرنقش دوسرے نقش کی تکمیل کا ذریعہ بنتاہے

سیدجلال الدین عمری

(آخری حصہ)

18 اگست 2023

(5) حقوق میں مساوات: اسلام نے ترغیبی کلمات اور اخلاقی ہدایات پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس نے عورت اور مرد دونوں کے حقوق و ضوابط کا قانونی طور پر تعین بھی کردیا ہے اور اس کمال اعتدال اور شان توازن کے ساتھ کہ نہ عورت اپنی زیردستی کی شکایت اور نہ مرد اپنی زوردستی کا اظہار کرسکتا ہے۔ اسلام معاشرہ کو انسانی حقوق کا محافظ اور امن و امان کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک معاشرہ کا یہ فرض ہے کہ جو ہاتھ ظلم و تعدی کے لئے اٹھے اسے قلم کردے، اور جو قدم حق و انصاف کی پامالی کے لئے بڑھے اسے کاٹ پھینکے ، اس لئے اس نے اعلان کیا:

 ’’اے عقل والو! تمہارے لئے قانونِ قصاص میں زندگی ہے۔‘‘  (البقرہ:۱۷۹)

  شریعت کا یہ ایک کلی اصول ہے کہ قاتل سے قصاص لیا جائے خواہ وہ کسی مرد کو قتل کرے یا کسی عورت کو کیونکہ ایک عورت کی جان بھی ویسے ہی محترم و معزز ہے جیسے ایک مرد کی جان ہوسکتی ہے ، اور جو ہاتھ ان دونوں میں سے کسی کے بھی خون سے رنگین ہوگویا خود اس نے اپنے خون کی قیمت کھودی۔

  اسی طرح حدود شریعت کے اندر رہتے ہوئے اسلام مالیات کے میدان میں عورت اور مرد کو دوڑ دھوپ کی اجازت عطا فرماتا ہے اور ان کی محنت کے صلہ کو ان کا جائز حق تسلیم کرتا ہے جس پر قانوناً کوئی بھی شخص دست درازی نہیں کرسکتا حتیٰ کہ خاوند بھی بیوی کے مال میں تصرف کا مجاز نہیں ہے اور نہ بیوی کے لئے یہ جائز ہے کہ شوہر کی دولت میں اپنی مرضی نافذ کرے:

 ’’مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کیلئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘  (النساء:۳۲)

 قانون وراثت کے تحت یہ کلّیہ بیان ہوا:

 ’’مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے۔‘‘ (النساء:۷)

(6) مشترک قانون: قدیم مذاہب عورت اور مرد کو ایک حیثیت دینے کے لئے آمادہ نہ تھے اس لئے انہوں نے دونوں کے لئے زندگی کے الگ الگ قوانین تجویز کئے لیکن اسلام کی تعلیمات کا مخاطب جیسے مرد ہے ویسے عورت بھی ہے۔ اس کا پیغام ’’الناس‘‘ کیلئے ہے اس لئے یہ ’’رب الناس‘‘ اور ’’ملک الناس‘‘ کا پیغام ہے، ’’رب الرجال‘‘ یا ’’ملک الرجال‘‘ کا نہیں ۔ خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کا عہد صرف مردوں یا عورتوں نے نہیں بلکہ ’’الانسان‘‘ نے اٹھایا تھا لہٰذا دونوں اصناف ِ انسانی کو خدا کے دربار میں اپنی وفاداری کا ثبوت دینا ہوگا:

 ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کیلئے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور نادان ہے ۔اِس بار امانت کو اٹھانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ منافق مردوں اور عورتوں ، اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے اور مومن مَردوں اور عورتوں کی توبہ قبول کرے، اللہ درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے ۔‘‘

(الاحزاب:۷۲۔۷۳)

 ’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر اسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا ۔‘‘ (الاحزاب:۳۶)

 اسلام نے نہ صرف زوجین میں سے ہر ایک کے لئے زندگی کی راہ متعین کی ہے بلکہ ایک ہی راہ اور ایک دستور ِ حیات تجویز کیا ہے۔ اس نے عورت کو کمتر اور مرد کو برتر سمجھ کر جداگانہ قوانین نہیں وضع کئے بلکہ اس کی تعلیمات دونوں کو ایک ہی مرتبہ میں رکھ کر خطاب کرتی ہیں اور یکساں ہدایات دیتی ہیں ۔ اس کے ہاں نوع ِ انسانی نہ تو طبقات میں منقسم ہے اور نہ درجات میں بلکہ مرد اور عورت ایک ہی محاذِ جنگ کے سپاہی ہیں جن کے دائرۂ کار گو مختلف ہیں لیکن مقصد ِ کار اور نشانۂ اعمال ایک ہی ہے۔ اس نے عقائد و عبادات، اخلاق و عادات اور معاملات و تعلقات میں سے کسی میں بھی عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے ۔

(7) قانون زوجیت: قرآن مجید نے یہ دعویٰ کیا کہ کتابِ قانون میں ، اخلاق کے صحیفہ میں اور حقوق کی فہرست میں عورت اور مرد کو ایک ہی حیثیت دی جائے، دونوں کی عزت و ذلت کا معیار ایک ہو ، دونوں کے لئے ترقی و کامیابی کے مواقع ایک ہوں ، دونوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی یکساں حفاظت کی جائے ، کیوں ؟ دنیا کے موجودہ لٹریچر میں قرآن پاک نے سب سے پہلے اسی کا فلسفیانہ اور عقلی جواب دیا اور پوری قوت ِ استدلال اور نزاکت ِ فہم کے ساتھ اس کو انسانوں کے سامنے پیش کیا۔ دنیا تحقیق و تجربہ کے صدہا مراحل سے گزرنے کے باوجود مساوات ِ مرد و زن کی اس سے بہتر اور سائنٹفک توجیہ نہیں کرسکی۔

 اس نے کہا یہ کائنات ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت پیدا کی گئی ہے اور انتہائی نظم و ضبط اور ہم آہنگی و یگانگت کے ساتھ اس طرح مصروفِ عمل ہے کہ صدیاں بیت گئیں لیکن اس نگارخانہ کی رنگینیوں اور دلفریبیوں میں شمہ برابر فرق نہیں آیا۔ زمانہ کی گردشیں مسلسل اپنا کام کرتی چلی جارہی ہیں لیکن اس انجمن ِ زرنگار کی تابانی اور حیرت انگیزی جوں کی توں قائم ہے۔ آخر وہ کون سی قوت ہے جو اس کائنات کو آغوشِ فنا میں جاگرنے سے روکے ہوئے ہے؟ وہ کون سا قانون ہے جو اس کے لمحات ِ حیات کو دراز کئے چلا جارہا ہے؟ اس کا جواب قرآن یہ دیتا ہے کہ یہاں قانونِ زوجیت کی کارفرمائی ہے یعنی اس عالم کی ہر شے کے اندر اپنی نوع کی بقا کا جذبہ پایا جاتا ہے اور قدرت نے اس جذبہ کی آسودگی کے لئے خود اسی کی نوع سے ایک صنف مقابل کی تخلیق کی ہے ، یہ صنف مقابل اس کے جذبات و احساسات کو سوز و حرکت عطا کرتی ہے اور اسے مجبور کرتی ہے کہ بقائے نوع کا سامان کرے اور عروس عالم کی جمال و رعنائی اور نظرافروزی میں کوئی فرق نہ آنے دے:

 ’’جس نے تمہاری اپنی جنس سے تمہارے لئے جوڑے پیدا کئے، اور اسی طرح جانوروں میں بھی (اُنہی کے ہم جنس) جوڑے بنائے، اور اِس طریقہ سے وہ تمہاری نسلیں پھیلاتا ہے۔‘‘ (الشوریٰ:۱۱)

 ’’اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں ، شاید کہ تم سمجھ سکو۔‘‘  (الذاریات:۴۹)

 ’’پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود اِن کی اپنی جنس میں سے یا اُن اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں ۔‘‘ (یٰسین:۳۶)

 ان آیات نے صراحت کردی کہ قانون زوجیت اپنی وسعت میں کائنات کی ہر شے پر حاوی ہے ، اس سے نہ انسان مستثنیٰ ہے نہ دنیا کی کوئی دوسری چیز۔ اگر یہ نہ ہو تو تغیرات کی نیرنگی اور بازار حسن و جمال کی سحر آفرینی و دلربائی آناً فاناً ختم ہوجائے گی اور ہر شے سکون ناآشنا اور محروم تمنا رہ جائے گی۔

 قدرت نے بزم عالم کواس طرح آراستہ کیا ہے کہ یہاں کا ہر نقش دوسرے نقش کی تکمیل کا ذریعہ بنتا ہے۔ قانونِ زوجیت بھی اسی کی ایک جامع و مکمل شکل ہے۔ بالفاظِ دیگر دنیا کی ہر شے اپنے بعض ذاتی استعدادات اور نوعی خصوصیات کے اظہار کے لئے ایک میدان کی محتاج ہے اور صنف ِ مقابل یہ میدان فراہم کرتی ہے ۔ یہ ایک طرح کی نسبت ہے جو زوجین کے درمیان پائی جاتی ہے اور دونوں مساوی طور پر ایک دوسرے کے محتاج ہیں ۔ اس میں ذلت و حقارت اور عزت و سربلندی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ قرآن مجید نے بار بار نئے نئے اسالیب سے اس حقیقت کی توضحیح کی ہے۔ ایک مقام پر کہا:

 ’’وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔‘‘  (البقرہ:۱۸۷)

 غور کیجئے، کتنی لطیف تعبیر ہے ۔ گویا قرآن یہ کہنا چاہتا ہے کہ مرد کی زندگی میں بہت سے ایسے تشنہ پہلو ہیں جن کی آسودگی کا سامان عورت ہی کرسکتی ہے اور خود عورت کی زندگی کے متعدد گوشے مرد کے بغیر محتاج تکمیل رہتے ہیں ۔ ایک اور مقام پر قرآن نے کہا :

 ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہے اُن لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں ۔‘‘ (الروم:۲۱)یہ ہیں وہ اساسات جو اسلامی معاشرہ میں عورت کی حیثیت متعین کرتے ہیں ۔ ان اساسات کے بغیر اسلامی معاشرہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

18 اگست 2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------

Related Article:

Part: 1 – The Status of Women in Islamic Society-Part-1 اسلامی معاشرہ میں عورت کی حیثیت

Part: 2 - Islam Teaches That both Men and Women Are Necessary For Life-Part-2 اسلامی تعلیمات نے واضح کردیا کہ زندگی، مرد اَور عورت دونوں ہی کی محتاج ہے

URL: https://newageislam.com/urdu-section/divine-power-adorned-universe-concluding-part/d/130476

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..