سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
28 ستمبر،2023
قرآن پاک 114 سورتوں پر
مشتمل ایک ضخیم آسمانی کتاب ہے جس میں اللہ نے مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی
زندگی کے اصول بیان کردئے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے لئے مکمل ضابطہء حیات ہے جس میں ایک
صحت مند، ترقی پسند اور پر امن سماج کی تشکیل کے لئے رہنما اصول بیان کردئے گئے
ہیں۔ اس میں مسلمانوں کو روحانیت اور سائنسی دونوں طرز فکر میں ایک توازن اور
اعتدال قائم کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن مسلمانوں کو نہ تو کلی طورپر راہبانہ
زندگی اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور نہ ہی پورے طور پر روحانیت سے عاری مادی
طرز فکر اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
قرآن کے 114 سورتوں میں
دنیا اور کائنات سے متعلق تمام موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں عائلی زندگی
کے مسائل سے لیکر سماجی، سیاسی ، سائنسی ، تاریخی اور معاشی موضوعات پر مسلمانوں
کی رہنمائی کی گئی ہے۔سائنس میں بھی علم طبیعیات ، علم حیوانات ، علم فلکیات اور
دیگر سائنسی علوم کی طرف معنی خیز اشارے دئیے گئے ہیں جن پر تحقیق کرکے ابتدائی
دور کے مسلمانوں نے اہم سائنسی دریافتیں اور ایجادات کئے اور ان کے علم اور تحقیق
سے استفادہ کرکے یوروپی سائنسدانوں نے سائنسی تحقیقات کو آگے بڑھایا۔
لیکن رفتہ رفتہ مسلمانوں
نے قرآن کی سائنسی جہت کو نظرانداز کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے وہ سائنس اور
تکنالوجی کے میدان میں پچھڑتے چلے گئے۔ ان میں ایسے مفسرین آئے جو سائنس اور دیگر
سماجی علوم سے واقفیت نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے قرآن کی خالص مذہبی تفسیریں پیش
کیں۔ جن آیتوں میں سائنسی حقائق بیان کئے گئے تھے انہیں نظر انداز کیا۔ قرآن کی
سینکڑوں حجم پر مشتمل تفسیریں لکھی گئیں لیکن ان میں سائنسی حقائق پر بہت کم
تحقیقی باتیں ملتی ہیں۔ یہ تفسیریں زیادہ تر عربی میں لکھی گئیں ۔ قرآن کے ترجمے
پر بہت کم توجہ دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نےعرب کے باہر جن خطوں میں
حکومت قائم کی وہاں وہ قرآن کا پیغام منظم طریقے سے نہ پہنچا سکے اور ابتدائی
اسلامی حکومتوں میں قرآن کی حکمت و دانش اور سائنسی طرز فکر کی اشاعت نہ ہو سکی۔
ہندوستان کی ہی مثال لیں۔ یہاں مسلمانوں کی حکومت گیارہوں صدی میں ہی قائم ہوچکی
تھی لیکن قرآن کا ہندوستان میں پہلا فارسی ترجمہ شاہ ولی اللہ نے اٹھارہویں صدی
میں کیا۔ اس کے بعد اٹھارہویں صدی کے
اواخر میں ان کے بیٹے شاہ عبدالقادر نے قرآن کا پہلا اردو ترجمہ کیا۔ اس طرح سات
صدیوں تک ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس قرآن کا فارسی یا اردو ترجمہ دستیاب نہیں
تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان کے مسلمان نہ خود قرآن کے مکمل پیغام اور
اسلام کی صحیح اسپرٹ سے واقف ہو سکے اور نہ ہی غیر مسلموں میں قرآن کا پیغام
پہنچاسکے۔ اتنا ہی نہیں ابتدا میں قرآن کے کسی بھی دوسری زبان میں ترجمے کو غیر
اسلامی اور کفریہ فعل قرار دیا گیا اور قرآن کا فارسی ترجمہ کرنے پر شاہ ولی اللہ
کے خلاف کفر کا فتوی لگایا گیا اور ایک دن مسجد کے باہر ان کے قتل کی بھی کوشش کی
گئی لیکن وہ کسی طرح بچ نکلے۔
بعد کے ادوار میں
ہندوستان اور پاکستان کے کئی علماء نے قرآن کے تراجم اور تفاسیر لکھیں لیکن عام
عقیدہ یہی بن گیا کہ مسلمانوں کو قرآن کا ترجمہ نہیں پڑھنا چاہئے اور صرف علماء سے
ہی قرآن سمجھنا چاہئے۔ اس عقیدے نے مسلمانوں میں تخلیقی اور تحقیقی طرز فکر کی
بجائے تقلیدی طرز فکر کو فروغ دیا۔ مختلف مکتب فکر اور مسلک سے وابستہ علماء نے
قرآن کی آیتوں کا ترجمہ اور تفسیر اپنے اپنےعقیدے اور مکتب فکر کے مطابق کی اور
اپنے مسلک اور مکتب فکر کے پیرو کاروں کے لئے ان کے ترجمے اور تفسیر پر ایمان
رکھنا لازمی قرار دیا گیا۔ عام مسلمانوں کے قرآن کو خود سے پڑھ کر سمجھنے اور آیات
پر اپنی رائے قائم کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی اس لئے سائنس کے طالب علم قرآن کی
سائنسی آیتوں پر غور وفکر کرکے ان کی شرح سائنسی نقطہء نظر سے نہ کرسکے اور علماء
کے اندر سائنسی علم کی کمی کی وجہ سے ان آیات کی سائنسی تفسیر ممکن نہ ہو سکی۔ اس
لئے جس طرح ابتدائی دور کے مسلم سائنسدانوں نے قرآن کی آیتوں سے مدد لیکر اس
سائنسی حقیقت کی دریافت کی تھی کہ سیارے اپنے اپنے مدار میں گردش کرتے ہیں اس طرح
بعد کے مسلم سائنسداں قرآنی حکمت سے استفادہ نہ کرسکے جبکہ دوسری قوموں نے سائنسی
طرز فکر کو اپنایا اور وہ سائنسی حقائق سامنے لائے جن کی طرف قرآن چودہ سو سال قبل
اشارہ کرچکا تھا۔
قرآن سے اس دوری کا نتیجہ
یہ ہوا کہ مسلمان نہ صرف ساینسی میدان میں پچھڑ گئے بلکہ ان کے اندر ایسے عقائد
مقبول ہو گئے جن کی بنیاد قرآن میں نہیں ہے۔ علماء نے مسلک پسندی کو فروغ دیا جبکہ
قرآن مسلک پسندی اور فرقہ بندی کی مذمت کرتا ہے اور اسے خدا کے عذاب کی ہی ایک شکل
قرار دیتا ہے۔ یہ بڑی افسوس ناک اور تعجب خیز بات ہے کہ مسلمان عذاب کو نعمت سمجھ
کر اس پر اظہار تفاخر کرتے ہیں۔قرآن سے دوری اور اس کی اصل تعلیمات سے غفلت کی وجہ
سے ہی مسلمان فروعی مسائل کو دین کا بنیادی جز سمجھ کر ایک دوسرے کی تکفیر کرتے
رہتے ہیں ۔
دوسرے مذاہب کے پیروکاروں
نے اپنے مذہبی صحیفوں کو چھوڑ دیا لیکن سائنسی طرز فکر کو اپنا کر سائنس کے میدان
میں مسلمانوں سے آگےنکل گئے۔ جبکہ مسلمانوں نے قرآن کو بھی چھوڑا اور سائنسی طرز
فکر بھی اپنا نہ سکے۔لہذا وہ دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوئے اور اپنی عاقبت بھی
خراب کرلی۔ اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ قرآن میں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور خشک وتر چیز
کا ذکر کردیا ہے لیکن مسلمانوں کی مذہبی گفتگو میں صرف چند مسائل اور موضوعات ہی
موضوع گفگو بنتے ہیں ۔ 114 سورتوں پر مشتمل اس ضخیم آسمانی کتاب میں ایسی بہت سے
آیتیں ہیں جو مسلمانوں سے غوروفکر کا تقاضہ کرتی ہیں لیکن مسلمانوں میں فکری جمود
انہیں قرآن میں چھپی دانش و حکمت کی باتوں کی گہرائی میں اترنے کی ترغیب نہیں
دیتا۔ وہ چند فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور مسلک پسندی ، فرقہ بندی اور
تکفیریت کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔۔
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism