خواجہ عبدالمنتقم
23 اگست،2023
نہ صرف ہمارے ملک بلکہ
دنیا کے تقریباً ممالک میں خواتین کی اختیار کاری اور صنفی مساوات اور ان کی عصمت
وعفت ووقار کی بظاہر فکر تو سب کو ہے اور ملکی وعالمی پیمانے پر قانونی تحفظات
فراہم کرانے میں بھی بڑی فراخدلی سے کام لیا گیا ہے مگر ان کے ساتھ جو سلوک کیا
جاتاہے وہ کاغذی حقیقت سے میل نہیں کھاتا۔ انہیں ادبی نقطہ نظر سے کبھی دیوی کا
روپ،کبھی پیمبر کی امت، کبھی راھا کی ہم جنسی تو کبھی زلیخا کی بیٹی کہا جاتاہے
مگر جب ذلیل کرنے کی بات آتی ہے تو ان کے لئے ایسے ایسے نازیبا کلمات استعمال کئے
جاتے ہیں جنہیں دہرانے میں بھی انسان شرم محسوس کرے گا۔ خواتین کے ساتھ مختلف شعبہ
حیات میں امتیاز برتے جانے اور ان پر قابو پانے کے لئے مختلف اداروں جیسے قومی
انسانی حقوق کمیشن قومی کمیشن برائے خواتین وغیرہ کی جانب سے وقتاً فوقتاً ہدایات
جاری کی جاتی رہی ہیں لیکن حالات جوں کے تو ں بنے ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے حال ہی میں
The
Handbook on Combting Gender Sterotypes (مستقل ایک ہی صنفی سوچ پر قدغن لگانے سے متعلق کتابچہ) کے نام سے
رہنما وہدایتی خطوط کی شکل میں ایک کتابچہ شائع کیا ہے جس میں ججز،قانونی،پیشہ
وروں اور قانونی امور سے متعلق افراد سے،حسب صورت، اپنے فیصلوں،تحریروں اور بیانات
میں بے راہ خواتین کے بارے میں کلمات نازیبا کے استعمال کے معاملے میں محتاط رویہ
اختیار کرنے، قدرے شائستگی وسلیقہ شعاری سے کام لینے اور روایتی بدزبانی سے کنارہ
کشی کرنے کی بات کہی گئی ہے او رکچھ ایسے الفاظ کا احاطہ کیا ہے جن کے صرف تجویز
کیے گئے مترادف الفاظ ہی استعمال کیے جائیں۔
درج بالا فہرست انگریزی
زبان میں مرتب کی گئی ہے۔ ہمارے ملک میں ذیلی عدالتوں میں علاقائی زبانوں میں بحث
کرنے اور فیصلے تحریر کرنے کی اجازت ہے۔ اس لئے ان ہدایات کو جب تک علاقائی زبانوں
بشمول اردو میں مرتب نہیں کیا جاتاتب تک انہیں عملی جامہ پہناناتقریباً ناممکن ہے
کیونکہ متعلقین کو کسی ایک لفظ کے مختلف مترادف الفاظ کے انتخاب میں دقت آئے گی۔
مثلاً اردو کی ہی بات لے لیجئے وہ adultress کے لئے فاحشہ،
زانیہ، یا شادی شدہ عورت کا اپنے ساتھی یعنی شوہر کے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلقات
رکھنا،میں سے کس متبادل کا انتخاب کریں گے۔اس فہرست میں کہیں کہیں تین کلمات بے
جاکے لیے ایک ہی مترادف لفظ کا سجھاؤ ہے۔ اس پر عمل کرنا بھی مشکل ہوگا چونکہ ان
کے مابین فرق کو ظاہر کرنامشکل ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر اس فہرست میں career,
women, chaste, woman, woman of easy virtue & fallen women سبھی کو انگریزی میں
women کہنے کا سجھاؤ دیا
گیا ہے۔ یہ مانا کہ یہ سب کی سب خواتین ہیں لیکن اگر ان سے متعلق کوئی معاملہ
عدالت کے روبروزیر سماعت ہوگا تو عدالت کو صرف عورت نہ کہہ کر انہیں ان کے پیشہ سے
بھی منسوب کرنا پڑسکتا ہے۔ اسی طرح لفظ Bastard کے لئے جائز اولاد،
حرامی، حرامزادی، دوغلی وغیرہ میں سے کسی کا انتخاب کرنے میں دشواری آئے گی چونکہ
خود ہماری سپریم کورٹ وقتاً فوقتاً ان اصطلاحات کی الگ الگ تعبیر کرتی رہی ہے۔ یہ
تو چند مثالیں ہیں ورنہ یہ فہرست تو تقریباً 50 / الفاظ پر مشتمل ہے اور ان میں سے
ہر ایک کا تجزیہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔
محمود فاروقی والے معاملے
میں دہلی ہائی کورٹ نے اپنی اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ جہاں تک عورت کے
برتاؤ،طور طریق، روش، چال چلن، کردار اور ردعمل کی بات تو اس کے آہستہ سے ’نہ‘
کہنے کا مطلب بھی ’ہاں‘ ہوسکتا ہے۔ ہمارے ملک کے موجودہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر
چوڑنے بھی اس معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ ججز کوبھی اپنے
فیصلوں کو تحریری شکل دیتے وقت لکیر کا فقیر بننے کی بجائے مجوزہ اصطلاحات والفاظ
کا استعمال کرناچاہئے۔
اس کے علاوہ قومی انسانی
حقوق کمیشن بھی وقتاً فوقتاً عورتوں کے مسائل پر غور کرتارہاہے۔ اس نے یہ اظہار
خیال بھی کیا ہے کہ ایسی عو رتوں کے لئے جن کے شوہر اب اس دنیا میں نہیں ہیں
انگریزی میں Widow،ہندی میں ودھوا اور اردو میں بیوہ جیسے الفاظ استعمال نہ کئے جائیں
بلکہ انہیں بالترتیب۔۔۔Wife of Late دھرم پتنی سورگیہ۔۔۔۔زوجہ مرحوم۔۔۔۔یا شہید۔۔۔کی بیوی کہا جائے۔
کمیشن نے یہ حکم جموں وکشمیر کے ایک NGO (Ueam)،جس کا پورا نام Uttam
Enviroment Awareness Mission ہے،کی درخواست پر صادر کیا تھا۔ کمیشن نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ
مالگزاری کے محکموں، اسکولوں، روزگار دفتروں او راس قسم کے دیگر دفاتر واداروں میں
اس قسم کے الفاظ کا استعمال نہ کیا جائے۔ ایسا کرنے سے ایسی خواتین پر منفی،
نفسیاتی اثر پڑتا ہے او رانہیں مایوسی و محرومی کا احساس ہونے لگتا ہے۔
اس کے علاوہ پریس کونسل
ودیگر اداروں کی جانب سے بھی میڈیا کو ضابطہ اخلاق پر عمل کرنے کی ہدایات جاری کی
جاتی رہی ہیں۔ تحقیقاتی صحافی کو خواتین سے متعلق خبریں محض قیاس آرائی یا ایسے
تصو رات کو اپنی خبر کی بنیاد نہیں بنا نا چاہئے جن کا کوئی سر پیر نہ ہو اور وہ
ایسی باتوں پر مبنی ہوں جو تاہنوز وجود میں ہی نہیں آئی ہیں۔ اس کے علاوہ رپورٹنگ
غیر جانبدانہ ہونی چاہئے چاہے واقعہ کشمیر میں ہو یا اتر پردیش میں۔خبریں کسی
مبالغے یاتوڑے مروڑے بغیر معروضی انداز میں دی جانی چاہئیں تاکہ اگر ان سے متعلق
کوئی معاملہ عدالت کے روبرو جائے تو وہاں انہیں سچ ثابت کیا جاسکے۔ رپورٹ کا انداز
اور اس کی زبان نہایت سنجیدہ، سائستہ اور پروقار ہونی چاہئے اور وہ جارحانہ،چبھنے
والی، طنز آمیز نہ ہو۔
یہ مانا کہ شائستگی کے
نقطہ نظر سے سپریم کورٹ کی ان ہدایات کو انتہائی معقول کہا جاسکتاہے۔عدالت تو
ہمیشہ یہ چاہتی ہے کہ خواتین کی تذلیل ہونی ہی نہیں چاہئے اور اگر کبھی ایسا ہوتا
بھی ہے تو اس تذلیل کا حوالہ دیتے وقت کم شدت کے الفاظ کو ترجیح ہی دی جانی چاہئے۔
لیکن یہ یاد رہے کہ ایسی صورت میں جرم کی شدت بھی کم ہوسکتی ہے۔نظیر ی عدالتوں نے
اپنے فیصلوں میں گالیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے انہیں اپنے فیصلوں کی بنیاد بنایا ہے۔
اگر کوئی عام گالی دی گئی ہو تو ہوسکتا ہے کہ فریق ثانی اس کا کوئی اثر نہ لے لیکن
گالی ماں یا بہن کے نام سے دی جاتی ہے تو فریق ثانی اشتعال میں آکر کسی جرم کا
ارتقاب کرسکتاہے۔ اگر مجرم شدید اور اچانک اشتعال کی وجہ سے اختیار ضبط سے محروم
ہوجائے تو اس کے جرم کی شدت میں کمی آجاتی ہے او راسے سزا کی مدت میں بھی رعایت
ملنے کا امکان رہتاہے۔
مذکورہ رہنما خطوط خواتین
کے حقوق اور ضمنی امور کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے لیکن اس پر نظر ثانی
کی ضرورت ہے چونکہ کچھ اصطلاحات میں ابہام ہے۔ اس کے لئے ماہرین قانون، ماہرین
لسانیات او رعلاقائی زبانوں کے ماہرین کو ایک ساتھ بیٹھ کر تمام ضروری پہلوؤں پر
غور کرنا ہوگا۔
23 اگست،2023،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism