گریس مبشر، نیو ایج اسلام
14 ستمبر 2023
یہ ایک بہت ہی دلچسپ موضوع
ہے کہ اسلام کس طرح معذوروں کے مسائل کو حل کرتا ہے۔ اسلام اس مسئلے پر اس انداز
میں بحث کرتا ہے اور رہنما اصول فراہم کرتا ہے جس کی مثال کسی دوسری ثقافت یا نظریہ
میں نہیں ملتی۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے
متعلق اس وقت ایک آیت نازل ہو گئی جب ایک نابینا صحابی کی طرف آپ نے التفات نہیں
کیا کیونکہ آپ مکہ کے رہنماؤں سے گفتگو میں مصروف تھے۔
دریں اثنا، جب ہم اپنے
سماجی نظام کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہمیں بچپن کی کہانیوں میں اکثر اندھوں کو بینائی
دیے جانے اور لنگڑوں کی ضروریات پوری کیے جانے کی کہانیاں ملتی ہیں۔ ان کہانیوں کے
ذریعے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اندھا پن اور لنگڑا پن نقص ہے اور انسان کا کمال
انہیں ٹھیک کرنے اور بصارت والا بننے میں مضمر ہے۔ کمال ایک معذور جسم کو ایک مکمل
اور غیر معذور جسم سے تبدیل کرنے میں سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بالعموم یہ رجحان
پایا جاتا ہے کہ ہم معذور افراد کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتے، ان پر ترس کھاتے اور
ان کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں دریافت کرتے ہیں اور ان کے معذور جسموں کو
تسلیم کیے بغیر انہیں اپنی معذوری سے چھٹکارا حاصل کرنے مجبور کرتے ہیں۔
Photo
courtesy/About Islam
-----
لیکن اس نابینا صحابی کے
معاملے میں جس کا پہلے ذکر کیا گیا، اسلام نے اس کی معذوری ٹھیک کرنے کے بجائے اسے
ایسے ہی رکھنے اور معاشرے میں اس کے وجود کو ایک نابینا فرد کے طور پر قبول کرنے
کی تعلیم دی ہے۔ امید ہے کہ مسلمان اپنی مساجد میں ریمپ بنا کر ایسے لوگوں کے وجود
کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ اس طرح کے مسائل پر معاشرے کے نقطہ نظر کی
خامیوں کو جنسی اقلیتوں کے معاملے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان
مسائل کو مناسب طریقے سے حل نہیں کر رہے ہیں جن کا انہیں سامنا ہے۔ ہمارے پاس بہت
سی اچھی مثالیں ہیں۔ لیکن ہم انہیں تخلیقی طور پر اپنی ثقافت میں شامل کرنے کو
تیار نہیں ہیں۔
ہر انسان کو ایک ہی خالق
نے پیدا کیا ہے اور ہر انسان کی اپنی منفرد صلاحیتیں ہیں۔ ہر ایک کے خیالات،
نظریات اور صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں۔ مومن کا کام ہے کہ انہیں اسی انداز میں قبول
کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان کا مشن یہ ہے کہ ہم نے اسے نمائندہ
(خلیفہ) مقرر کیا ہے۔ ہر ایک کی خلافت مختلف ہو گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں اسی کے
مطابق جسم، صلاحیت اور استطاعت دیتا ہے۔ معذور افراد کو بھی زندگی کے مختلف مشنوں
کو پورا کرنے کے لیے مختلف انداز میں تخلیق کیا گیا ہے۔ اسلام ان مختلف معذور
افراد کی مختلف صلاحیتوں کو تسلیم کرتا ہے۔ ہمیں اس بنیادی عقیدے سے رہنمائی حاصل
کرنی چاہیے کہ ہر انسان کے اندر اپنا ایک منفرد کمال ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے
کہ اسلام کبھی بھی قابلیت کو جسم سے نہیں جوڑتا۔ بلکہ اس کا تعلق پوری روح سے ہے۔
روح کے لیے معذوری نام کی
کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر ہے تو وہ انسانوں کی بنائی ہوئی ہے۔ بلکہ ہمیں اسے پوری طرح
سے قبول کرنا اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہی تمام انسانوں کی
تقدیر ہے۔
ہماری روزمرہ کی زندگی میں
معذوری کو اکثر خطرناک مانا جاتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے ہم لفظ معذوری استعمال کرتے
آئے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے لیے مختلف اصطلاحات کی گئیں اور انگریزی میں اس
کے لیے differently abled کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی۔ بلآخر وزیر اعظم نریندر مودی نے
ایسے لوگوں کے لیے دیویانگ کی اصطلاح استعمال کی۔ درحقیقت دیویانگ کا جملہ، جس کا
مطلب ہے خدائی جسم ہے، بھی خطرناک ہے۔ کیونکہ یہ انسانی جسم ہے۔ بطور انسان کے ایک
معذور کے وجود کو تسلیم کیے بغیر اسے خدائی درجہ دینا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ
''معذور'' کا لفظ۔ معذور کے لیے ایسی اصطلاحات استعمال کرنے سے یہ تاثر پیدا ہونے
کا بھی خطرہ ہے کہ وہ تمام حدود سے بالاتر ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
یہاں پریشانی یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اس مسئلے سے کافی حد تک آگاہ نہیں ہے۔ ہر
معذور شخص مریض نہیں بلکہ فرد ہوتا ہے۔ اس لیے ہر معذور فرد کے وجود کو بطور فرد
معاشرے میں قبول کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے اہم چیز انسان کی
شناخت کو قبول کرنا ہے۔ ایک معذور شخص کو اس کی معذوری سمیت بطور انسان قبول کرنا
اس کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں یہ معاملہ اس مقام پر پہنچ
چکا ہے کہ وہاں معذور افراد کی جنسیت اور اس کے امکانات پر مطالعہ کرنے کے مقصد سے
خصوصی مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔
معذوروں کا خیال اور
ناگزیر تبدیلیاں
معذور افراد ایک ایسی
برادری ہیں جنہیں بعض اوقات سخت نظر، چہرے کے تاثرات، الفاظ یا کچھ ہمدردانہ رویہ
کے ذریعے تکلیف پہنچا دیتے ہیں اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔ جسمانی یا
ذہنی طور پر معذور افراد کو انگریزی میں differently abled یا پرعزم لوگ کہا
جاتا ہے۔ ڈس ایبیلیٹی ایکٹ 2016 کے مطابق، 6 طبقات میں 21 قسم کی شرائط معذوری کے
زمرے میں شامل ہیں۔
1. جسمانی معذوری:
لوکوموٹر ڈس ایبیلیٹی، لیپروسی کیورڈ، کیریبل پالسی، ڈوارفزم (بونا ہونا)، مسکیولر
ڈسٹروفی، تیزاب کے حملے کا شکار، نابینا پن، دور کی نظر خراب ہونا، سماعت کی
خرابی، اپھیکسیا
2. دانشورانہ معذوری: کچھ
مخصوص سیکھنے سے معذوری، بولنے اور زبان کی معذوری، آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر۔
3. ذہنی بیماری
4. دائمی اعصابی بیماریاں:
ملٹیپل سکلیروسیس، پارکنسنز، ہیموفیلیا، تھیلیسیمیا، سکلز انیمیا
5. ملٹیپل دس ایبیلیٹی
ڈسیز
6. تمام صورتوں میں زیادہ
سنگین اور کم سنگین حالات ہوتے ہیں۔ یہ سب معذور افراد کے زمرے میں آتے ہیں لیکن
جن لوگوں کو جسمانی اور ذہنی معذوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کے حالات انتہائی
قابل رحم ہوتے ہیں۔
معذوری کے زمرے میں،
پیدائشی یا ابتدائی نشوونما کی معذوری کے کچھ وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ حمل کے
دوران غیر صحت بخش خوراک، حادثات، انفیکشن، نگہداشت کی کمی، والدین کی جانب سے
منشیات کا استعمال، قریبی رشتے میں شادیاں، ذہنی بیماری اور نشوونما سے معذور
افراد سے شادی کرنا پیدائشی نقائص کا سبب بن سکتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وجوہات
کا ذکر ہمارے اسلامی لٹریچر میں توجہ دلانے کے لیے کیا گیا ہے لیکن ہمارے اکثر
خاندانوں میں پایا جاتا ہے۔
جلد تشخیص اور علاج و
معالجہ
ایسی حالت میں پہنچنے
والوں کے لیے اعداد و شمار اور وجوہات شاید ضروری نہ ہوں، لیکن ان کی اس حالت کو
بدلنا ضروری ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں اپنے بچے کی حالت کو اچھے طریقے سے جاننا اور
پہچاننا ہوگا اور اس کی بنیاد پر ضروری علاج و معالجہ فراہم کرنا ہوگا۔ نقل و حرکت
کی دشواریوں، بولنے کی دشواریوں، سماجی تعامل میں رکاوٹوں، یا دیگر اعصابی مسائل
کی شناخت اور مناسب علاج کے لیے ماہر نیورولوجسٹ یا اطفال کے ماہرین سے ملیں۔
چونکہ ایسی حالتوں میں دوائیں زیادہ اثر نہیں کرتیں، اس لیے فزیوتھراپی، اسپیچ
تھراپی، آکیوپیشنل تھراپی، بیہیورل تھراپی سے ذیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
ہمارے اداروں کا کردار
یہ کہا جا سکتا ہے کہ
ہندوستان میں مسلمانوں کے زیر انتظام بہت کم ادارے ہیں جو معذور لوگوں کو سائنسی
علاج فراہم کرتے ہیں۔ اگرچہ نسبتاً شہری علاقوں میں کچھ پائے جاتے ہیں، لیکن ان
میں سے زیادہ تر ادارے نجی ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے یتیم خانے، عربی کالج اور دیگر تعلیمی
ادارے ان شعبوں پر توجہ مرکوز کریں تو معذور افراد میں بھی بنیادی دینی تعلیم ممکن
ہو سکے گی۔
قوم کو قدم بڑھائے کی
ضرورت
اگر قوم معذوروں کے فروغ
کے لیے اقدامات کرے تو معذوروں کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔ تمام دینی ادارے
معذوروں کے لیے مدد کا ہاتھ آگے بڑھا کر اس کی شروعات کر سکتے ہیں۔ وہ وہیل چیئرز
اور تھری وہیلر میں مساجد اور مدارس آتے ہیں۔ عبادات کو احسن طریقے سے انجام دینے
کے لیے انتظامات کیے جائیں۔ مساجد میں وہیل چیئر اور وہیل چیئر کے لیے موزوں پیشاب
خانے اور نقل و حرکت کے دیگر ذرائع کا انتظام اسی طرح کیا جانا چاہیے جس طرح نماز
کے لیے کرسیوں کا انتظام ہر جگہ ہوتا ہے۔
مدارس میں معذور افراد کے
لیے خصوصی انتظامات اور سائنسی سہولیات کو ممکن بنایا جانا چاہیے۔ ضرورت مندوں کی
شناخت اور ان تک امداد کی رسد، تعاون فراہم کرنے کے لیے انفارمیشن مراکز اور پیرنٹ
ایسوسی ایشن کا قیام، طویل مدتی طبی ضروریات کی وجہ سے معاشی طور پر پسماندہ افراد
کی مدد، حصول روزگار کی تربیت اور مالی تحفظ کے لیے بنیادی سہولیات فراہم کرنا،
والدین اور بچوں کو مشاورت فراہم کرنا اور سیکھنے میں دشواری کا شکار بچوں کے لیے
تدارک کے اقدامات کرنا، یہ تمام باتیں معذوروں کی جامع ترقی کے لیے بہت اہم ہیں۔
تعلیم دینے کے لیے مدارس کی عمارتوں اور پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز کو خصوصی
مالیاتی تحفظ کے حصول کے لیے استعمال کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے معذوروں کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔
اسلام کی تاریخ اور نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہم معذور افراد کے ساتھ حسن سلوک کا مشاہدہ کر
سکتے ہیں۔ عبداللہ بن ام مکتوم ممتاز صحابہ کرام
میں سے ہیں ، وہ حافظ قرآن اور ایک
عظیم عالم تھے جن کی نظر کمزور تھی۔ ایک مرتبہ جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کے پاس قرآن پڑھنے کے لیے گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے سرداروں کے ساتھ
محو گفتگو تھے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام مکتوم کو نظر انداز کر دیا،
جس کی وجہ سے ان مکتوم کو تھوڑی تکلیف ہوئی، اور فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر
وحی نازل ہوئی۔ "کیا تم منہ پھیر لیتے ہو جب کوئی اندھا تمہارے پاس آتا
ہے" (سورہ عبس 1، 2) یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نابینا شخص کی
صلاحیتوں کو پہچاننے کا خیال کیا اور اسے
اس کے مطابق عہدے اور مواقع عطا فرمایا۔
اسی طرح ایک مرگی والی
عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور شکایت کی کہ بیماری کے دوران میں
بے ہوش ہو جاتی ہوں اور اس کی وجہ سے میرے جسم کا حصہ بے پردہ ہو جاتا ہے، رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اللہ نے تمہارے صبر کی وجہ سے تمہیں
جنتی بنا دیا ہے۔ اور انہوں نے اسے بخوشی قبول کر لیا۔ اس مقام پر قابل غور بات یہ
ہے کہ نبی اکرم صلی علیہ وآلہ وسلّم نے ان کی بیماری کو سمجھا اور انہیں تسلی دی
اور اسی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی تلقین دی۔
آگے بڑھنے کا راستہ
معذور لوگوں کی دیکھ بھال
ایک اہم شعبہ ہے جس کے لیے ہماری امت مسلمہ کو بہت سے شعبوں میں آنکھیں کھولنے کی
ضرورت ہے۔ خاص طور پر معذور افراد کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کرنے اور انہیں
منظم انداز میں علاج و معالجہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اسے اپنی خصوصی عطیات
اور زکوٰۃ کے ذریعے ممکن بنا سکتے ہیں۔ لیکن صرف سائنسی طریقوں کو اختیار کرکے ہی
ہم مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے مذہبی اداروں اور سماجی شعبوں میں
مداخلت کے لیے نئے مطالعے اور فعال تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔
اگر ہم پوچھیں کہ معاشرے
کی ذہنیت میں تبدیلی کیسے پیدا کی جائے تو جواب ہے کہ معاشرے کو اس انداز میں
تبدیل کیا جائے کہ یہ سب کے لیے دستیاب ہو۔ مخصوص جگہوں کے علاوہ، ایک ایسا ماحول
قائم کیا جائے جہاں معذور افراد کو قبول کیا جائے اور عام معاشرے کا حصہ بنایا
جائے۔ مسلمانوں کی مختلف جماعتوں اور تنظیموں میں ایسے لوگوں کی نمائندگی نیچے سے
اوپر تک ہونی چاہیے۔ ان کی آواز سنی جائے۔
معذوروں لوگوں میں، خواتین
کو درپیش مسائل بہت زیادہ ہیں۔ پدرسرانہ معاشرے میں ہم نے اس پر بالکل بھی توجہ
نہیں دی۔ اس کے کرب و الم کو سمجھنے کے لیے ہمیں صرف یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہیل
چیئر پر باہر نکلنے والی عورت کو معاشرہ کس نظر سے دیکھے گا، بالکل اسی طرح جس طرح
ایک معذور مرد جو عام طور پر باہر جانا چاہتا ہے۔
عرب دنیا میں، اس کی
شاندار ثقافت کے پیش نظر، ان کی مساجد اور مکانات خالی جگہوں اور ریمپ کے ساتھ
تعمیر کیے گئے تھے، تاکہ ہر قسم کے معذور افراد کے لیے سہولیات پیدا کی جا سکیں۔
یہ روایت آج بھی عرب دنیا کی مساجد میں جاری ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہم ایسی جگہوں پر
گھر کی تعمیر اور عبادت گاہوں کی تعمیر کے جدید طریقوں کو مکمل طور پر اپناتے ہیں
اور ان کے ایئر کنڈیشنر، آرائشی لائٹوں اور ہر چیز کی نقل کرتے ہیں، تب بھی ہمارے
نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم معذوروں کا خیال کرتے ہوئے ایک ریمپ تک
بنوانا پسند نہیں کرتے۔
ایک اور اہم مسئلہ وہ
تبدیلیاں ہیں جو اس سلسلے میں ہمارے تعلیمی نظام کو کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے مذہبی
نظام تعلیم میں پولیو سے متاثر نوجوان طلباء کو اونچی تعلیم نہیں دی جاتی جو کہ
یقینا ایک بہت بڑی خامی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مدارس کے نصاب میں ایسے لوگوں کے
فقہی احکام کو شامل کرنے سے انہیں چیزیں سیکھنے اور تمام طلباء میں ایسے لوگوں کے
بارے میں بیداری پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ وہ صرف معذوری کی وجہ سے اسکولوں سے
دور ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کیا معذور افراد ایسی مذہبی درس گاہوں میں
آتے ہیں اور پڑھتے ہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا طلبہ کی نسل پروان چڑھے گی
اور ایسے لوگوں سے واقف ہو گی۔ انہیں یہ باور کرانا کہ دنیا میں ابھی بھی چند ایک
موجود ہیں ان کے وجود کو تسلیم کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایسے لوگوں کو نصابی کمیٹیوں
میں جگہ دینے سے ہی ان کے مسائل کا صحیح حل اور ٹھوس علاج نکالنا جا سکتا ہے۔
اس حقیقت سے یکسر انکار
ضروری نہیں کہ بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں اور ہوتی رہیں گی جو امید کی کرن پیدا
کرتی ہیں، لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی اس دنیا کے تناظر میں چھوٹی جھوٹی کامیابیوں پر
رکے بغیر مزید تبدیلیاں لانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ہمیں اس ماحول میں مزید اپ
ڈیٹ ہونے کی ضرورت ہے جہاں ترقی یافتہ ممالک نے بھی ایسے لوگوں کی جنسیت کے
امکانات کا مطالعہ شروع کر دیا ہے، اس شعور کے نتیجے میں کہ انسانی بقا کے لیے نہ
صرف ہوا، پانی اور خوراک ضروری ہیں بلکہ دیگر تمام جذبات اور سماجی تعامل بھی
ناگزیر ہیں۔
English
Article: How Disability-Friendly Is Muslim Community?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism