New Age Islam
Sat Oct 12 2024, 11:42 AM

Urdu Section ( 19 Dec 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Differences in The Ummah and Ulama’s Responsibility اختلاف امت نے ہمیں کہاں لا کھڑاکیاہے؟

فہیم انور اعظمی ولید پوری

17 دسمبر 2020

طویل سفرمسا فت عبور کرنے کے بعد دل میں یہ خیا ل پیدا ہوا کہ چند منٹ آرام کرنے کے بچوں کو کھلونے د لا نے کی خو ا ہش کا احترام کرتے ہو ئے ان کی انگلی کو پکڑ کر عر س کے میلے کی جا نب چل دیا ، جب عر س کے کشا دہ میدان میں پہنچاتو ایک ٹو پی والا ایک چھاتے میں ر کھکر ٹو پیاں بیچ رہا تھا ، اس کے چھاتے میں منفرد قسم کی ٹو پیاں تھیں جب میر ے بھتیجے نے رنگ برنگ کو ٹو پیاں د یکھی تو اس نے کہا کہ کیا بہتر ہوتا کہ چچا جان  مجھے ایک ٹو پی دلا دیتے جب میں نے ٹو پی فرو ش کہا کہ مجھے ایک ٹوپی دے دو ،ٹو پی فرو ش نے مجھ سے کہا کہ آپ کو کو نسی ٹو پی چا ہیے میں ٹو پی فرو ش کی زبان سے نکلنے وا لے کلمات کو سنکرپر یشان ہو گیا  میں نے ٹو پی فرو ش سے سوال کیا ،بھائی آپ نے جو سوال کیا اس کا کیا مطلب ہے ؟ تو ٹو پی فروش نے جو اب دیا کہ ہما رے پا س ہر مسلک اور ہر فر قے کی ٹو پیاں دستیاب ہیں دبو یندی بر یلوی شیعہ سنی وہا بی اور بو ہرے آپ جس مسلک اور جس فر قے سے تعلق ر کھتے ہیں آپ اپنے من پسند کی ٹو پی خر ید سکتے ہیں ۔ ٹو پی فرو ش کی زبان سے  نکلنے والے کلمات نے مجھے آبدیدہ کر دیا اور میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی  اور میں سو چنے پر مجبور ہو گیاکہ میں ند امت اور شر مند گی کے سا تھ اپنے سر کو جھکا کر ٹو پی فر و ش سے کہا کہ کون سی ٹو پی کس مسلک کی ہے ۔ ٹو پی فرو ش نے مسکر اتے ہو ئے جو اب دیا کہ اگر آپ اہل سنت و الجما عت سے تعلق یا فتہ ہیں، ہری ٹو پی تبلیغی جما عت سے و ابستہ ہیں تو جا لی والی ٹو پی اعلی حضر ت علیہ ا لر حمہ سے تعلق یا فتہ ہیں تو لمبی ٹو پی شو کیش میں زر دوزی کے کام سے مزین ٹو پی بو ہرے جما عت کی ہے اور ہما رے پا س ہر مسلک اور ہر فر قے کی ٹو پیاں د ستیاب ہیں۔ ٹو پی فروش کی بات سے مطمئن ہو کر میں نے کہا کہ مجھے مو من وا لی ٹو پی دے دو ٹو پی فرو ش نے جیسے ہی میر ی با توں کو سنا اس کے چہرے پر مسکر اہٹ نمو دار ہو ئی ، اس نے معذرت طلب کر تے ہو ئے کہا کہ میرے پا س مو من و الی ٹوپی نہیں ہے میں نے پو چھا کیوں تو اس نے جو اب دیا کہ میر ے پا س کو ئی مو من والی ٹو پی خر ید نے ہی نہیں آتا ، اس لئے میں ر کھتا بھی نہیں ، ٹو پی فرو ش کی بات کو سنکر میں کشمکش میں مبتلا ہو گیا کہ ٹو پی خر یدوں یا و اپس چلوں ٹو پی فرو ش کی بات سنکر اپنے بھتیجے کو دلاسہ دے کر میں وہاں سے اپنے گھر کی جا نب چل دیا ، را ستہ میں میر ی عجیب کیفیت تھی ٹو پی فرو ش کی عجیب و غر یب با تیں میرے سا منے ملت اسلامیہ کے انتشار کی خو بیاں بیان کررہی تھیں کا ش آج ملت کے در میان اختلافات اور انتشار نہ ہو تے تو آج ایک نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے وا لی قوم منفرد گو شوں میں تقسیم نہ ہو تی اور آج  ایک نبی اور ایک قر آن پا ک  کے ما ننے وا لوں کی با زار میں منفرد قسم کی ٹو پیاں ہما رے اختلاف کو نہ بیان کر تیں آج افسوس کے سا تھ تحر یر کر نا پڑ رہا ہے کہ جس مذ ہب نے اتحا دو اتفاق  کی اہمیت و افا دیت پر زور دیا آج وہی امت منفرد گو شوں میں ستاروں کے ما نند بکھری ہو ئی ہے، آج وہی امت مصا ئب و آلام جبرو استبداد کے لا محا لہ حالات سے نبر آزما ہیں قرآن حکیم کے اندر ایمان و الوں کو منتبہ کیا گیا کہ اللہ کی ر سی کو مضبو طی کے سا تھ تھام لو اور آپس میں تفر قہ نہ ڈ الو بلکہ فرقہ فر قہ میں تقسیم نہ ہو مگر قر آن حکیم میں متنبہ کر نے کے با و جود بھی ایک قر آن اور ایک نبی ر حمت صلی اللہ علیہ و سلم کو ماننے و الی امت دنیا وی اصول و ضوا بط کو لے کر منفرد گو شو ں میں منقسم ہے جس کا نتیجہ یہ اخد ہو رہا ہے کہ دنیا کے منفرد گو شوں میں اس امت کو ذلت و خوار کی زند گی جینے پر مجبور ہو نا پڑ رہا ہے ۔ آج امت کے اندر اس قدر انتشا ر ہے کہ ہر مسلک کی الگ الگ مسجدیں ہیں اور الگ الگ مدا رس   ہیں اللہ کے پیا رے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دنیا میں اپنے امتی کو یہ پیغام دیا تھا کہ میر ا امتی  ایک جسم کے ما نند ہے اگر میرے امتی کو جسم کے کسی بھی حصے میں تکلیف لا حق ہو، اس امتی کا درد دو سرے امتی کو بھی محسو س ہو نا چاہیے اتنی سخت و عید ہو نے کے با و جود بھی آج امت کے علماء ایک دو سرے کو نیچا د کھانے کی فر اق میں ایک دو سرے پر  سبقت لینے میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑ رہے ہیں۔ آج دور حا ضر میں ہر مسلک اور ہر فر قہ  اپنے عقیدت مندوں کو جنت کا ٹکٹ دینے میں مشغو ل ہے مگر تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرقہ اور ہر مسلک کو شوں دور ہے جس کے سبب عصر حا ضر میں امت مسلمہ ظلم و ستم  کا شکا ر اور حقیقی آزادی و خود مختاری سے محرو م ہے ۔آزاد ہو نے کے با و جود غلامی کی  زنجیروں میں جکڑی ہو ئی ہے۔ آج پو را عا لم اسلام با ہمی انتشا ر اور اختلاف کے سبب قو م و ملت کا شیر ازہ بکھرنے کی جا نب گا مزن ہے۔ عا لمی حقوق انسانی کے علم بر دا روں نے  دوہرا معیار اپنا رکھا ہے وہ مسلمانوں کی حق تلفی اور ظلم و بر بر یت پر اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں ۔ بر ما کے مسلمان اپنے ہی ملک اور علا قے میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور پھر بھی ستم ظر یفی یہ ہے کہ کو ئی بھی ملک انہیں پناہ دینے پر را ضی نہیں یہ مہا جر ین بنیادی سہو لتوں سے محروم ہیں اور ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ان کی تکا لیف کا ذرا بھی احساس نہیں کتنے مہا جر ین دریا میں غر ق ہو گئے اور کتنی کشتیاں غر ق آب ہو گئیں اور کتنے پناہ گزین سمندر کی  گہر ائیوں میں جا بسے بعض بچوں کو پانی کی لہروں نے سا حل سمندر پر ڈال دیالیکن مسلم امہ کو  ان کی حا لات زار پر بھی تر س نہ آیا بلکہ خا موش تما شا ئی بن گئے ان حا لات میں اسلامی دنیا کی ذمہ داری اور بڑھ گئی ہے ،آج مسلم امہ میں اتحاد کی ضرورت ہے اور اختلاف و انتشار سے دور ر ہ کر زمینی سطح پر اتحا د کی ضرورت ہے جس سے کہ  ہماری قوت کا احساس ہمارے معاندین اور مخا لفین کو ہو سکے اور ہم خو ر شید مبیں بن کر ایک جسم کے ما نند قو م و ملت کے دکھ درد کو سمجھ سکے اور ایک دو سرے کی مدد کر اپنے نبی ر حمت صلی اللہ علیہ  و سلم کی تعلیمات پر عمل کر ایک در سرے مسلمان کے لئے آئینہ بن سکے ۔ آج ہمارے  فرو عی اختلافات و انتشار نے ہمیں ز مینی سطخ پر کھو کھلا کر دیا ہے آج ایک امت اور ایک نبی و حمت صلی اللہ علیہ و سلم کے ما ننے و الے با ہمی اختلاف کے سبب عا لمی سطح پر امت کے مضبوط شیرازہ کو  پارہ پارو کر چکے ہیں آج مسلکی اختلاف نے ہمیں اسلام کی اصل رو حا نیت اور اس کی افا دیت سے نا آشنا کر دیا ہے جس کی بنا ء پر عا لمی سطح پر امت مسلمہ یلغار اور د ہشت کے سا یہ میں زند گی گزا رنے پر مجبور ہے اور ہما رے با ہمی اختلاف کے سبب ہمارے معا ندین اور ہما رے مخا لفین  ہما رے صبر و تحمل کا امتحان لینے کی غر ض سے  اسلا می شبیہ پر انگشت نما ئی کر ہما رے زند ہ ضمیر کو مذ موم کرنے کی جا نب گا مزن ہیں  جس کی زند جا و ید تصو یر ہم نے فر انس اور دیگر مما لک کے اندر د یکھ چکے ہیں ۔ایسے پر آشوب دور میں علماء کرام کی ذمہ دا ری اور بڑھ جا تی ہے کہ فرو عی اختلاف و انتشار سے منحر ف ہو کر قو م و ملت کے در میان اتحا دو اتفاق کے نصب ا لعین کو یقینی بنا ئے جس سے کہ مستقبل میں ہما ری آنے و الی نسلیں اسلام کے اصل و صف اور اس کی رو حا نیت سے استفادہ حا صل کر اپنی زند گی کے قیمتی و قت کو  اسلامی شر یعت مطہرہ پر گزار کر اپنے ایمان و یقین کو تحفظ فرا ہم کر سکے۔

17 دسمبر 2020،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/differences-ummah-ulamas-responsibility-/d/123807


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..