New Age Islam
Mon May 12 2025, 05:00 PM

Urdu Section ( 22 Nov 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What Are The Differences Between The Hayati Deobandis And The Mamati Deobandis? حیاتی دیوبندی اور مماتی دیوبندی میں کیا فرق ہے؟

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 15 نومبر 2022

 کیا انبیاء وفات کے بعد زندہ رہتے ہیں؟ حیاتی اور مماتی دیوبندی اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

 اہم نکات

 1. کیا نبی کی روح اور ان کے مدفون جسم کے درمیان کوئی لازوال تعلق ہے؟

 2.یہ سوال بہت سے مذہبی مسائل کو جنم دیتا ہے، لیکن ان سب کا بنیادی مرکز شفاعت اور توسل کے جواز اورعدم جواز پر ہے۔

 3. اور پھر کیا کوئی شخص موجودہ جسمانی دنیا میں ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کرسکتا ہے اگر وہ زندہ ہیں؟

 4. حیاتی دیوبندیوں کے مطابق، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں اور ان لوگوں کی شفاعت کرتے ہیں جو شفاعت چاہتے ہیں۔

 5. مماتی   دیوبندیوں نے حیاتی دیوبندی کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "روح" کسی اور جگہ چلی جاتی ہے جبکہ بوسیدہ لاش رہ جاتی ہے۔

 ------

 عہد حاضر میں حیاتی اور مماتی  رسمی یا غیر رسمی طور پر دیوبند سے وابستہ دو اہم گروہ ہیں۔ نام سے ہی یہ واضح ہے کہ متنازعہ موضوع موت کے بعد مقدس حضرات کی جسمانی حالت اور روحانی صلاحیتوں سے متعلق ہے۔ سیدھی سادی بات یہ ہے کہ: کیا انبیاء مرنے کے بعد زندہ رہتے ہیں؟ کیا ان کی روح اور مدفون جسم کے درمیان کوئی دائمی تعلق ہے؟ یہ سوال بہت سے مذہبی مسائل کو جنم دیتا ہے، لیکن ان سب کی بنیاد شفاعت اور توسل پر ہے۔ اور پھر کیا کوئی شخص موجودہ مادی دنیا میں ان  حضرات  کے ساتھ رابطہ قائم کرسکتا ہے اگر وہ زندہ ہیں؟ حیاتی دیوبندیوں  کا جواب ہے: ہاں۔

 حیاتی دیوبندیوں کا عقیدہ، جس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم امت میں غائبانہ لیکن زندگی کے ساتھ موجود ہیں، بریلویوں سے زیادہ ملتی جلتی ہے۔ سلفیوں کی طرح، مماتی دیوبندیوں کا خیال ہے کہ نبی صرف جنت کے اندر ایک مخصوص رہائش گاہ میں موجود ہیں۔

 حیاتی دیوبندیوں کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے لیے شفاعت کرتے ہیں جو شفاعت چاہتے ہیں۔ اس سے متعلقہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہیں خدا نے یہ درجہ دیا ہے یا دیگر انبیاء کے ساتھ ساتھ خلفائے راشدین اور اولیاء (اولیاء) جیسی مقدس شخصیات کو بھی خدا نے یہ مقام عطاء کیا ہے۔ حیاتی نقطہ نظر روایتی سنی عقیدے کی عکاس ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگرچہ ایک شخص کو مختلف درجات کے عبوری دائرے تک رسائی حاصل ہے، پھر بھی وہ شعور رکھتے ہیں اور برزخ میں زندہ ہیں۔

 دوسری طرف، مماتی، جو جذباتی طور پر اس سے متفق نہیں، کہتے ہیں کہ موت ایک حجاب پیدا کر دیتے ہے جو انہیں اس دنیا سے منقطع کر دیتا ہے۔ حیاتی نقطہ نظر دیوبندیوں میں مقبول ہے۔ تاہم، پچھلی چند دہائیوں کے درمیان مماتی نقطہ نظر کی حمایت میں بتدریج اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ شفاعت کے سوال پر تحریک کا اختلاف ایک اہم دراڑ بن چکا ہے۔

 حیاتی اور مماتی دیوبندی دونوں اپنے اپنے موقف کی تائید میں قرآن و سنت سے ثبوت پیش کرتے ہیں۔ شفاعت کے متعلق قرآن مجید میں کئی آیات ہیں جن کی تشریح دونوں گروہ اپنے اپنے طور پر کرتے  ہیں۔ مثال کے طور پر، قرآن کہتا ہے کہ قیامت کے دن کسی کی شفاعت تسلیم نہیں کی جائے گی (2:48، 23؛ 74:48-9؛ 82:19)۔ ’’اس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا اور نہ ہی اس کی بابت کوئی سفارش قبول ہوگی اور نہ کوئی بدلہ اس کے عوض لیا جائے گا اور نہ وه مدد کئے جائیں گے‘‘ (2:48)۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وه دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور شفاعت اور کافر ہی ظالم  ہیں‘‘ (2:254)۔

 قرآن میں یہ بھی کہا گیا کہ شفاعت کا اختیار صرف اللہ کو ہے۔ "کہہ دیجئے! کہ تمام سفارش کا مختار اللہ ہی ہے۔ تمام آسمانوں اور زمین کا راج اسی کے لیے ہے تم سب اسی کی طرف پھیرے جاؤ گے" (39:44)۔ مزید برآں، ایسی آیتیں بھی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا ہی شفاعت کی اجازت دیتا ہے (20:108-9؛ 2:254-5)۔ اس طرح، اگرچہ شفاعت کا اختیار صرف اللہ ہی کے پاس ہے، لیکن یہ بات بھی واضح ہو چکی کہ وہ یہ اختیار بعض بلند پایہ لوگوں کو بھی دے سکتا ہے (10:3؛ 20:109؛ 21:28؛ 19:87؛ 34:23؛ 4:64 12:97–8)۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسی شفاعت کی ترغیب سورہ المائدہ (5:35) میں دی گئی ہے: "مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو اور اس کی راه میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو۔" ہمیشہ سے سنیوں کا عقیدہ یہی رہا ہے کہ دائمی نجات کا راستہ قیامت کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے ہی میسر ہے۔

 سلفیوں اور وہابیوں کی طرح مماتیوں کا بھی خیال ہے کہ میت سے استغفار طلب کرنا غلط ہے۔ وہ ایسے عقائد کو شرک (شرک) کے مترادف سمجھتے ہیں۔ سرفراز خان صفدر تسکینس صدر میں لکھتے ہیں، "قبر خالی ہے، وہاں کوئی نہیں ہے... جب کسی نبی کی قبر کھولی جائے گی، تو تماشائی دیکھیں گے کہ نبی ساکن ہے اور ہر طرح کے جذبات سے خالی ہے" (خان 2010: 37)۔

 یہ نقطہ نظر پاکستان بھر میں بکھرے ہوئے جدید دیوبندی علماء کی ایک بڑی تعداد میں مشترک ہے۔ جن میں سے کچھ زیادہ معروف ہیں ان میں مولانا غلام اللہ خان، مفتی محمد طاہر، نور محمد، قاضی شمس الدین، پیر طریقت سید عنایت اللہ شاہ بخاری، اور محمد امیر بندیالوی شامل ہیں۔

 شفاعت کے معاملے کے بارے میں، یہ مماتی دیوبندی قبر کو روحانیت کے مرکز کے بجائے مرحوم کی یادگار کے طور پر زیادہ دیکھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے، "روح" کسی اور جگہ چلی گئی ہے، بوسیدہ لاش کو چھوڑ کر۔ موت میت کے جسمانی وجود اور موجودہ واقعات پر اثر انداز ہونے کی ان کی صلاحیت سے محرومی کا نام ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مُردوں کو پکارنا بت سے بات کرنے کے مترادف ہے۔ یہ اسلام میں ایک اضافہ (بدعت) ہے اور غلط فہمی اور غلط عقائد (فتنہ) کو روکنے کے لیے اس سے بچنا چاہیے۔

 مماتی کے نظریات جاننے کے لیے محمد حسین نیلوی کا ’نداءِ حق‘ ایک اہم ذریعہ ہے۔ امین صفدر اوکاڑوی اور رؤف عثمانی جیسی مشہور دیوبندی شخصیات کو  نیلوی نے "بریلوی کے بہت قریب ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا: آپ صوفی بن گئے، آپ قبروں کی پوجا کرتے ہیں"۔ وہ اختلاف کے چار نکات پر خاص توجہ دیتے ہیں: موت کے بعد روح کا مقام اور حالت (حیات الروح)؛ میت کو سننے کی قانونی حیثیت (سماع الموتی)؛ دوسروں کی شفاعت کی طاقت (توسل)؛ اور موت کے بعد روح اور جسم کے درمیان تعلق۔ وہ کہتے ہیں کہ مردے کسی اور جگہ منتقل ہو جاتے ہیں اور وہ شفاعت کرنے سے بے اختیار ہوتے ہیں۔"

نیلوی لکھتے ہیں، ’’انہیں پکارنے کی کوشش کرنا اللہ کے علاوہ کسی اور چیز پر ایمان لانا ہے۔ یہ توسل حاصل کرنا بانیان دیوبند کی واضح تعلیمات سے انحراف ہے، جنہوں نے اس بریلوی مسلک اور عمل کی براہ راست مخالفت کی" (نیلوی این ڈی: 2010)

 تاہم، جیسا کہ پہلے ہی اشارہ کیا جا چکا ہے، حیاتی مرجہ دیوبندی نقطہ نظر پر قائم ہیں۔ اس کے بانیوں کے بعض صوفی معمولات اور مزارات سے مضبوط وابستگی کے پیش نظر یہ حیرت کی بات نہیں ہے، جو کہ جنوبی ایشیائی اسلام کا خاصا تھا۔ حیاتیوں کا دعویٰ ہے کہ دیوبندی بانیان کا موقف بڑا واضح تھا کہ اولیاء اللہ بعد کی زندگی میں بھی زندہ ہیں اور توسل کے عقیدہ کے حوالے سے زندہ لوگوں کی شفاعت کر سکتے ہیں۔ [https://www.baylorisr.org/wp-content/uploads/2019/11/Deoband-Anti-Sufi-1-1.pdf سے ملخص]

 ہم مشہور دیوبندی علماء کے اقتباسات پیش کر رہے ہیں جن کی آراء سے حیاتی نقطہ نظر کی عکاسی ہوتی ہے اور ان کے پیروکاروں میں اسے خاصی مقبولیت حاصل ہے۔

 رشید احمد گنگوہی کہتے ہیں کہ "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں" (ہدایت الشیعہ صفحہ 44)

 قاسم نانوتوی کے مطابق "تمام انبیاء علیہم السلام اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبروں میں زندہ ہیں" (ہدایت الشیعہ، ص 268)۔

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول (حدیث) کا مطلب یہ نہیں کہ انبیاء زندہ ہیں، صرف ان کی روحیں زندہ ہیں۔ بلکہ انور شاہ کشمیری بیان کرتے ہیں کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء اپنے جسم اور روح دونوں کے ساتھ زندہ ہیں۔ (تحیات الاسلام، ص 38)

 اشرف علی تھانوی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک اپنی قبر میں زندہ اور صحیح و سالم سے ہیں۔ دیگر دیوبندی علماء کے بیانات جو مولانا محب اللہ نے اپنی کتاب "مماتی فتنہ علماء دیوبند کی نظر میں" میں جمع کیے ہیں وہ بھی حیاتی کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔

 بڑے دیوبندی علماء کے عقائد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے عام طور پر جس کلیدی ماخذ کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ خلیل احمد سہارنپوری کی المہند علی المفند ہے۔

 اس کتاب میں خلیل احمد سہارنپوری لکھتے ہیں۔

 واضح رہے کہ ہم اور ہمارے مشائخ نقشبندیہ، چشتیہ، قادریہ اور سہروردیہ کے علاوہ ابوحنیفہ کے فقہی اصول، ابوالحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی کے مسلکی اصولوں کے ساتھ جڑے ہوئے راستوں پر چلتے ہیں۔ قرآن، سنت، اجماع، یا امام کے (قول) کے بغیر ہم کسی چیز کو قبول نہیں کرتے (سہارنپوری 1907:8)۔

پھر سہارنپوری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ منظور شدہ ہدایت کے سلسلے کے مطابق ہے: ہمارے اور ہمارے مشائخ کے لیے دعا میں انبیاء، اولیاء، شہداء اور صالحین سے شفاعت طلب کرنا قابل قبول ہے، خواہ وہ زندہ ہوں یا وفات پا چکے ہوں۔ اس صورت حال میں کسی قابل احترام شخص کے وسیلہ کو استعمال کرنے سے اللہ کی بارگاہ میں آپ کی دعائیں قبول اور زیادہ موثر ہوسکتی ہیں (سہارنپوری 1907:31)۔

 سہارنپوری نے امام سیوطی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ علامہ تقی الدین السبوکی نے فرمایا: "انبیاء اور شہداء کا اپنی قبروں میں زندہ رہنا ایسا ہی ہے جیسا وہ اس دنیا میں زندہ تھے۔" (انباہ الازکیہ بحیات الانبیاء، جس کا حوالہ المہند المفند مصنفہ خلیل احمد سہارنپوری، صفحہ 221)

 کیا مماتی ائمہ کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟ banuri.edu.pk پر شائع ہونے والے اس سوال کا ایک حیاتی دیوبندی عالم کا جواب یہ دیا ہے:

 "مماتی فرقہ: بنیادی طور پر عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتا ہے، یعنی: حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ؛ بلکہ تمام انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کے اجساد مطہرہ کو وفات کے بعد ان کی قبروں میں بہ تعلق روح حیات حاصل نہیں ہے، ان کا جسم محض بے جان اور مردہ ہے، حیات صرف ان کی ارواح کو حاصل ہے اور ان کی ارواح کا اجساد مطہرہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یعنی:برزخ میں ان کے لیے محض روحانی حیات ہے، جسمانی حیات نہیں ہے۔اور یہ فرقہ انکار حیات کی بنیاد پر دیگر بعض ایسے عقائد کا بھی حامل وقائل ہے، جو اہل السنة والجماعة کے مسلک کے خلاف ہیں، جیسے: حضرت اقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ پر جو سلام پیش کیا جاتا ہے، وہ بھی آپ علیہ السلام براہ راست سماعت نہیں فرماتے ؛ بلکہ فرشتوں کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے ، آپ سے دعا اور سفارش کی درخواست کرنا غلط ہے، دعا وغیرہ میں کسی کا وسیلہ اختیار کرنا شرک ، بدعت قبیحہ اور حرام وناجائز ہے۔ قبر میں میت کو کوئی عذاب وثواب نہیں ہوتا، عذاب وثواب کا تعلق صرف روح سے ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ؛ اس لیے یہ فرقہ گمراہ اور اہل السنة والجماعة سے خارج ہے اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے؛ لہٰذا ایسے لوگوں کی اقتدا میں نماز نہ پڑھی جائے؛ البتہ جو نمازیں پڑھی جاچکی ہیں، انھیں لوٹانے کی ضرورت نہیں۔۔‘

 دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر بھی ایسا ہی فتویٰ ہے۔

-----------

 English Article: What Are The Differences Between The Hayati Deobandis And The Mamati Deobandis?

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/differences-hayati-mamati-deobandis/d/128457

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..