مشتاق الحق
احمد سکندر، نیو ایج اسلام
14 جولائی 2023
قرآن ایک مقدس آسمانی کتاب ہے اس
لیے یہ تمام مسلمانوں کے لیے قابل احترام ہے۔ مسلمان قرآن کو نجات دلانے والی کتاب
مانتے ہیں۔ قرآن مجید کی آیات تئیس سال کے عرصے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر
نازل ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو بھی پوری دنیا کے مسلمانوں میں بے حد
عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ کی شخصیت کے خلاف ذرا سی بھی گستاخی مسلمانوں کو
مشتعل کرنے، انہیں بھڑکانے، سڑکوں پر اتر آنے اور تشدد پر آمادہ کرنے کے لیے کافی ہے۔
دشمنان اسلام مسلمانوں کی اس اشتعال انگیز فطرت سے واقف ہیں جو انہیں دشمنان اسلام
کے بڑے خفیہ منصوبے کو دیکھنے سے اندھا کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی شخص پر پیغمبر
اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے خلاف توہین یا قرآن کی بے حرمتی کا جھوٹا الزام لگایا
جائے تو بھی مسلمان قتل و غارت گری کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
کچھ مسلم ممالک میں توہین مذہب
اور بے حرمتی کے خلاف ایسے قوانین موجود ہیں جو یقیناً غیر اسلامی نوعیت کے ہیں لیکن
اتنے سخت ہیں کہ ملزمان کو برسوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے یا سزائے موت تک پہنچا
سکتے ہیں۔ قرون وسطیٰ میں مسیحی کھلم کھلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس
کی بے حرمتی اور توہین کا ارتکاب کرتے تھے تاکہ عام مسلمانوں اور بادشاہوں کو قتل پر
اکسایا جا سکے۔ اس سے عیسائیوں کو اسلامو فوبیا اور مسلم مخالف جذبات کو تقویت دینے
میں مدد ملی، جس کے بدلے میں صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
اب وقت بدل گیا ہے اور انسانی حقوق
کے عالمی منشور (1948) کی آمد کے ساتھ ہی، اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی، اظہار رائے
کی آزادی کے ساتھ دیگر حقوق کو بھی افاقی مان لیا گیا ہے۔ کسی بھی مذہبی عقیدے اور
مذہبی کتاب پر تنقید ان عالمی حقوق کے دائرے میں آتی ہے۔ لیکن کیا یہ حقوق کسی کو اہانت
اور بے حرمتی کا حق دیتے ہیں؟ یہ نکتہ قابل بحث ہے کیونکہ جب مذہب کی بات آتی ہے تو
بہت سی قومیں بغیر کسی پابندی کے اظہار رائے کی مکمل آزادی پر یقین رکھتی ہیں۔ لیکن
آئین، انتظامیہ، بادشاہ اور عدلیہ جیسے دیگر امور میں وہ انہیں بے اہانت یا تنقید سے
استثنیٰ فراہم کرتے ہیں۔ اگر کوئی شہری اس کا ارتکاب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے
سزا دی جاتی ہے۔
جیسا کہ سیکولرازم کی بنیاد سائنس
دانوں، عقلیت پسندوں اور آزاد مفکرین کی ترقی اور دریافتوں کا دروازہ بند کیے جانے
اور مذہبی ظلم و ستم اور استحصال کے جواب میں رکھی گئی۔ نشاۃ ثانیہ نے عقلیت پسندی،
سائنس اور سیکولرازم کو غالب کرنے میں مدد کی، اور یورپ میں مذہب کو حاشیہ پر ڈال دیا
گیا۔ اگرچہ اب منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے اور پورے یورپ میں اب قدامت پسند جماعتیں
عروج پر ہیں، لیکن وہ مذہب کو کھلے عام استعمال نہیں کرتیں۔ ان کے لیے مسلمانوں کی
نقل مکانی، دہشت گردی، بڑھتی آبادی، مساجد کی ترقی جیسے مسائل ایسے معاملات ہیں جن
پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی سیاست دان جو مسلم مخالف اور نقل مکانی
کے مسئلے کو استعمال کرتا ہے، اسے قدامت پسند سیاسی جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔
تاہم، ان قدامت پسند سیاسی جماعتوں کا بھی مذہب سے سطحی تعلق ہے۔ یسوع مسیح، بائبل،
موسیٰ، عہد نامہ قدیم اور زبور ان تمام پر تنقید کی جا سکتی ہے، ان کی اہانت اور بے
حرمتی کی جا سکتی ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ یورپ میں عوام ان واقعات سے اس قدر لاتعلق
ہو چکے ہیں کہ انہیں اب ان سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان
کے نزدیک کوئی بھی نبی ہماری ہی طرح ایک عام انسان ہوتا ہے اور آسمانی کتابوں کی کوئی
خاص تعظیم نہیں کی جاتی بس ان کا اتنا ہی احترام ہوتا ہے جتنا کہ کسی تخلیقی تحریر
یا افسانوی کتاب کا کیا جانا چاہیے۔ ایک بار جب تعظیم کا یہ جذبہ عوام کے ذہنوں سے
نکل جائے تو پھر کسی قسم کی بے حرمتی ان کے اندر کسی قسم کا اشتعال پیدا نہیں ر سکتی۔
تاہم جب بات مسلمانوں کی ہو تو ان کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ مسلمان انبیاء کو عام
انسانوں کی طرح نہیں سمجھتے۔ بلکہ انبیاء ان کے نزدیک اللہ کے منتخب بندے ہیں، جو بالکل
کامل ہیں کیونکہ وہ خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور ان کی زندگی انسانوں کے لیے
نمونہ عمل ہے۔
یہی بنیادی وجہ ہے کہ مسلمان کسی
بھی قسم کی بے حرمتی اور اہانت سے مشتعل ہو جاتے ہیں۔ لیکن کیا ایسی اشتعال انگیزی
مذہبی طور پر جائز ہے؟ کیا اسلام گستاخ یا قرآن کی بے حرمتی کرنے والے کے قتل کی اجازت
دیتا ہے؟ یہ سوالات ایک بار پھر اس وقت اٹھائے گئے جب 37 سالہ عراقی شہری سلوا مومیکا
جو اب سویڈن میں مقیم ہے، نے 28 جون 2023 کو عید الاضحیٰ کے دن اسٹاک ہوم کی سب سے
بڑی مسجد کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔ اس نے اس کام کے لیے عید کی نماز کے وقت
کا انتخاب کیا، کیونکہ اس وقت مسلمان بڑی تعداد میں جمع رہتے ہیں۔ اس نے مقامی حکام
سے اس کی اجازت طلب کی اس کے بعد قرآن میں اس نے خنزیر کا گوشت رکھا (جس سے مسلمانوں
کو شدید نفرت ہے) اور پھر اس پر ٹھوکریں ماری اور اس طرح اس نے قرآن کی بے حرمتی کی۔
بعد ازاں اس نے قرآن مجید کے چند اوراق بھی جلائے۔ اس نے اپنے اقدامات کو آزادی اظہار
اور لبرل اقدار کا حصہ قرار دیا۔ سلوان کو شیعہ دہشت گرد گروہ (مسیحی ارکان پر مشتمل)
حشد الشعبی کا سابق جنگجو قرار دیا گیا ہے جس نے شام اور عراق میں سنیوں پر تشدد کیا
اوران کا قتل کیا تھا۔ وہ مقتدیٰ الصدر کا بیت بڑا مداح نکلا جیسا کہ اس کے سوشل میڈیا
پوسٹوں سے ظاہر ہے، اب ایسا لگتا ہے کہ اس نے اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے اور اپنے سابقہ
عقائد سے ہٹ کیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک لبرل ملحد کہتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ اس نے
مرتد ہو کر اسلام کو ترک کر دیا ہے۔
اسلام کو ترک کرنا ٹھیک ہے، اور
بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو قانونی طور پر مسلمان پیدا ہوئے ہیں لیکن اسلام سے خوش نہیں
ہیں۔ اس لیے ہمارے ہاں پیدائشی مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو دن بہ دن اسلام چھوڑ
رہے ہیں۔ لیکن اسلام قبول کرنے والے لوگوں کے برعکس، جو لوگ اسلام کو چھوڑتے ہیں، وہ
قرآن سوزی جیسے کاموں میں خود کو منفرد ظاہر کرنے اور اسلام کو وحشی مذہب کے طور پر
پیش کرنے کی غرض سے ملوث ہوتے ہیں۔ غیر مسلم جو اسلام قبول کرتے ہیں، وہ مذہبی صحیفوں
کو جلانے، توہین مذہب اور اس مذہب کی بے حرمتی جیسے جرائم کا ارتکاب نہیں کرتے جسے
وہ چھوڑ کر آئے ہیں۔ یہ شاید اسلام کی ہی انفرادیت ہے کہ اسے ترک کرنے کے بعد بھی لوگ
اپنے ناموں کے ساتھ سابق مسلمانوں کا ٹیگ لگائے رکھتے ہیں۔ گویا ان کا صرف اسلام چھوڑ
دینا ہی کافی نہیں بلکہ وہ دنیا کے سامنے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اسلام وحشت ناک ہے۔
یہ منفی تشہیر اور اسلامو فوبیا
دوسروں کو اسلام کے بارے میں مزید جاننے کا باعث بنتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جو اسلام کے
ابتدائی دور میں ہوا تھا۔ سالانہ حج کے ایام میں جب مختلف قبائل کے افراد مکہ مکرمہ
کی زیارت کے لیے جاتے تو کفار ان حاجیوں کے پاس پہنچ کر انہیں نصیحت کرتے کہ اس جھوٹے
نبی کی بات نہ سنیں جس کی باتیں جادوگر ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مسحور کر دیتی ہیں۔
اس منفی پروپیگنڈا نے حجاج کرام کے اندر ایک تجسس پیدا کیا، جس سے بالواسطہ طور پر
اسلام کے پیغام کو پھیلنے میں مدد ملی۔ سلوا کے حالیہ اہانت آمیز اقدام کو اسی تجربے
کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔
مسلمان ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر
دشمن کے منصوبے کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو مشتعل کرنا جانتے ہیں۔ مسلمان
اتنے بھولے ہیں کہ وہ اپنے دشمنوں کے مذموم عزائم کو نہیں سمجھ سکتے۔ گزشتہ دور میں
بھی اس قسم کے اہانت آمیز اقدام پر بھی مسلمان ایسے ہی ردعمل کا اظہار کر چکے ہیں،
جن کے اندر اپنے دشمنوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ مسلمان
یقینی طور پر اسلام کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کا فرمان ہے، "ایک نیک مسلمان ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا۔" لیکن
یہاں مسلمانوں کو ایک ہی سوراخ سے کئی بار ڈنک مارا گیا، اور وہ اس وہم میں مگن ہیں
کہ ہم اسلام کے احکامات کو نافذ کر رہے ہیں کیونکہ ہم احتجاج کر رہے ہیں، سرکاری املاک
کو تباہ کر رہے ہیں اور اس طرح اسلام سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔
سب سے بڑا نمونہ جس کی پیروی کرنے
کا تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ
حسنہ کی تقلید کی جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اپنی ہی توہین
اور اہانت کے خلاف کیا ردعمل ظاہر فرمایا؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی زندگی یقیناً
ہمارے لیے نمونہ عمل ہے جبکہ آپ کی مخالفت کی گئی، اپ کو قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں،
آپ کو ساحر اور جادوگر، جھوٹا، کاہن، آیات گڑھنے والا اور ناقابل اعتبار کہہ کر آپ
صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی توہین کی گئی۔ یہی نہیں اپ پر حملے بھی کیے گئے، آپ صلی کے
پیغام اسلام کی وجہ سے آپ کی شہزادیوں کے طلاق بھی ہوئے اور پھر وہ ہجرت کرنے پر بھی
مجبور ہوئیں۔ یہ تمام اعمال ایسے ہیں جنہیں آج ہم توہین رسالت کے نام سے جانتے ہیں۔
ان تماما اہانت آمیز اعمال پر اپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کا ردعمل کیا تھا؟
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کبھی
بھی اپنے گستاخوں کے خلاف متشدد نہیں ہوئے، درحقیقت انہوں نے انہیں معاف کیا یا ان
سے صرف نظر فرمایا۔ ہمارا بھی موقف ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہمیں ان لوگوں کو نظر انداز
کرنا اور معاف کرنا چاہئے جو اہانت آمیز سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ
وسلّم کے اسوہ حسنہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے۔ پرتشدد مظاہروں سے دشمنوں کو کوئی نقصان
نہیں ہوتا بلکہ اس سے خود ہماری مشکلیں بڑھ جاتی ہیں اور بدلے میں ہمیں نقصان اٹھانا
پڑتا۔ ہم سلویٰ کو جتنا زیادہ اہمیت دیں گے اسے اتنی ہی زیادہ شہرت ملے گی اور ایک
اور رشدی یا تسلیمہ نسرین ہمارے درمیان پیدا ہو سکتے ہیں۔ علماء اسلام کو چاہیے کہ
وہ عوام سے کھل کر یہ اپیل کریں کہ ہمیں مشتعل کرنے کی ایسی کوششوں کو نظر انداز کرنے
کی ضرورت ہے۔ اس کے بجائے، علماء کو عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ پیغمبر
اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم صرف مسلمانوں کے ہی نبی نہیں ہیں۔ بلکہ وہ تمام انسانیت
کے لیے رحمت اور تمام انسانیت کے لیے رسول بن کر تشریف لائے ہیں۔
اسی طرح قرآن میں صرف مسلمانوں
کے لیے ہی نہیں بلکہ سب کے لیے نجات کا پیغام ہے۔ اس لیے ان سے نفرت کی بجائے انہیں
گلے لگانے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کو ایک عالمگیر شخصیت کے طور پر پیش کریں جو پوری انسانیت کے لیے ہیں۔ تبھی ایسے
واقعات اسلام کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہمیں مستقبل میں
ایسے کسی بھی گستاخانہ یا بے حرمتی والے واقعات پر مثبت ردعمل کا اظہار کرنے کی تربیت
حاصل کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے جس کا واحد مقصد مسلمانوں کو طرح طرح سے بھڑکانا
اور بالآخر اسلام کو بدنام کرنا ہے۔
English
Article: Desecration of Quran and Muslim Response
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism