محمد علی، نیو ایج اسلام
2 اپریل 2023
اہم نکات:
1. یہ مضمون آمنہ بیگم کے اس مضمون (Deobandis
Arabising Indian Muslims in name of Islam—a culture war Barelvis fought for 150
yrs) کا
جواب ہے، ، جو 18 مارچ 2023 کو دی پرنٹ میں شائع ہوئی۔
2. یہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مختلف مذہبی مکاتب فکر کے بارے میں
مصنف کی غلط فہمیوں کو اجاگر کرتا ہے۔
------
دی پرنٹ پر شائع ہونے والے
ایک مضمون میں، آمنہ بیگم نے بریلوی اور دیوبندی مکاتب فکر کے درمیان فرق کو واضح کرنے
کی کوشش کی ہے، جس میں دیوبندی نظریہ کو ہندوستانی ثقافت کا مخالف قرار دیا گیا ہے۔
اس مضمون میں، میں دونوں گروہوں کے درمیان اختلافات کی نوعیت کی وضاحت کرنے اور مضمون
کے آخر میں آمنہ بیگم کے دعووں کا تجزیہ کرنے والاہوں۔
سنی مسلم ڈیموگرافی
ہندوستان میں تین اہم گروہ
ہیں جو سنی مسلمانوں کی اکثریت کو اپنے پیروکار قرار دیتے ہیں، یعنی بریلوی، دیوبندی
اور اہل حدیث۔ پھر، ایسے لوگ بھی ہیں جو ان جماعتوں میں سے کسی کے بھی نظریے کو نہیں
مانتے، لیکن ان کے مذہبی رجحان کو انہی تین جماعتوں میں سے کسی ایک کی طرف دیکھا جا
سکتا ہے۔ ہندوستان میں سنی اسلام کی سطحی تفہیم – یعنی یہ ماننا کہ یہ گروہ یک سنگی
ہیں -- گمراہ کن ہو سکتا ہے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ، ان جماعتوں کے اندر ہمیشہ سے اس
بات کی ایک داخلی کشمکش جاری رہی ہے صحیح عمل یا اسلام کی پیروی کا صحیح طریقہ کون
فراہم کرتا ہے۔
مسلمانوں کے درمیان مذہبی
تنازعات کے بارے میں سوچتے ہوئے، یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اس جدوجہد کا بنیادی
مفروضہ نبوی نمونہ، "مستند" اسلام کو دوبارہ پیش کرنا ہے تاکہ اس کی تقلید
کی جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ابتدائی مسلمانوں
کے بعد جو طرز عمل اور نظریات اسلام کا حصہ بن گئے، ان کی حیثیت ایک معیاری عمل کے
طور پر رہی اور مسلم علماء کے درمیان ان پر بحث کی جائے گی۔ کیونکہ ان کی حیثیت نص
کی تشریح کے ذریعہ جائز تھی یا نہیں تھی، یہ ممکن ہے کہ کوئی اور تشریح سابقہ تشریح
سے ٹکرا جائے اور اسے غلط قرار دے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اسلامی
روایت جو آج ہم دیکھتے ہیں صدیوں میں تیار ہوئی ہے۔ اور اپنے ارتقاء کے عمل میں، اس
نے مختلف ثقافتوں اور متعدد نظریات کو اپنے اندر جذب کر لیاہے۔ علما، جنہیں اس بات
کا تعین کرنےکا اختیار دیا گیا تھا کہ آیا کوئی نیا عمل یا خیال اسلامی اصولوں کے مطابق
ہے یا نہیں ، انھوں نے ایسی چیزوں پر بحث کی جو ان کی تحریروں اور فتووں سے ظاہر ہے
اور پوری دنیا میں اسلامی ثقافت کا حصہ بن گئیں۔ اس طرح اسلامی فقہ، اسلامی علوم وغیرہ
کے مضامین وجود میں آئے۔
مقامی ثقافت اور صوفی معمولات
کے کچھ پہلو، جو مقامی ثقافت سے زیادہ میل کھاتے ہیں، ہمیشہ ہی علمااور فقہا کی تنقید
کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود، تصوف اپنے متنوع مظاہر کے ساتھ پروان چڑھا، اور
مسلمان نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا کی مسلم سرزمینوں میں مقامی ثقافتوں میں
ضم ہو گئے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ تصوف کو گیارہویں صدی کے ماہر الہیات اور فلسفی الغزالی
کے بعد اسلام کی فقہی الہیاتی تفہیم کے ساتھ ملا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد فقہا اور علمائے
کرام کا کسی صوفی شیخ کا شاگرد بننا عام ہو گیا۔ اس لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ تصوف
کو شریعت کے منافی سمجھنا گمراہ کن ہے۔
اگرچہ ہندوستانی مسلمانوں
میں صوفی معمولات اور مقامی ثقافت کے خلاف اعتراضات اس دن سے موجود ہیں جب سے مسلمان
ہندوستانی معاشرے کا حصہ بنے، لیکن انہوں نے ایک منظم تحریک کی شکل میں تصوف کو کبھی
ہراساں نہیں کیا۔ اصل مصیبت تقویت الایمان (1817) کی اشاعت سے شروع ہوئی، جسے شاہ اسماعیل
دہلی (متوفی 1831) نے تصنیف کیا، جو عصری اسلامی روایت کی اصلاح کے لیے ایک نظریہ ساز
تھے۔ اس کتاب میں صوفی معمولات مثلاً مزارات پر جانا، شفاعت طلب کرنا، عرس کی تقریبات
وغیرہ پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ تصوف پر تنقید کی یہ پہلی کوشش نہیں تھی۔
لیکن انگریزوں کے ساتھ جدید نظریات کی آمد نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر ہندوستانی
شہریوں کے ذہنوں کو بھی متاثر کیا، جن میں صوفیائے کرام کی قبروں کی تعظیم جیسے معمولات
کو توہم پرستی کے طور پر پیش کیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاہ اسماعیل کے اصلاحی نظریات
کی کامیابی کی ایک وجہ جدیدیت کا آنا تھا۔ یہ کتاب سنی مسلم کمیونٹی میں تقسیم کا سبب
بنی: سب سے پہلے، اہل حدیث، جنہوں نے شاہ اسماعیل کے نظریے کو قبول کیا اور بعد کی
نسلوں کے علماء کی تشریحات کو حدیث کی اصطلاحی تفہیم کی بنا پر رد کیا۔ ، دوسرا، بریلوی،
جنہوں نے واضح طور پر شاہ اسماعیل اور ان کے پیروکاروں کو رد کیا اور اسلامی نصوص کی
تشریحات کے ذریعے صوفی معمولات (سب نہیں، جیسا کہ مانا جاتا ہےجو کہ غلط ہے) کا دفاع
کیا، تیسرا، دیوبندی۔دیوبندیوں نے نہ تو شاہ اسماعیل کو رد کیا اور نہ ہی مجموعی طور
پر تصوف کو رد کیا۔ انہوں نے توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ دیوبندی مکتب کے تصوف
پر عمل پیرا تھے۔ تاہم، انہوں نے شریعت کی فقہی تفہیم کو فوقیت دی اور تصوف کے معمولات
کو اسی تفہیم کے پیمانہ سے پرکھا، جس کے نتیجے میں تصوف سے وابستہ بہت سے مشہور معمولات
کو مسترد کر دیا گیا۔
اس سیاق و سباق کو ذہن میں
رکھتے ہوئے، ہمیں بریلویوں اور ہندوستان میں بہت سی روایتی صوفی برادریوں کے درمیان
فرق کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ بریلوی علماء نے صوفی معمولات کی وکالت کی، اس
لیے بہت سے لوگ، جنہوں نے صوفی روایت کو اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں حاصل کیا اور
اسے برقرار رکھنا چاہتے تھے، فطری طور پر بریلوی گروہ کا ساتھ دیا۔ کیونکہ بریلوی مکتب
نے انہیں حریف جماعتوں کے خلاف مذہبی بنیادوں پر دلائل فراہم کیے تھے۔ تاہم، تمام ہندوستانی
مسلمانوں کو صوفی رجحان کے حامل بریلوی قرار دینا درست نہیں ہے۔ ہندوستان میں دو طرح
کے غیر بریلوی صوفی ہیں۔ اول، جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، کچھ لوگ ایسے ہیں، جو دیوبندی
نظریہ کے ماننے والے ہیں اور تصوف پر عمل پیرا ہیں۔ وہ صرف عرس کی تقریبات کا انعقاد
نہیں کرتے اور مشہور صوفی معمولات کو بجالاتے ہیں جن کا مشاہدہ دہلی میں حضرت نظام
الدین اور اجمیر میں حضرت معین الدین چشتی کے مزارات پر کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا، جو مسلمان
تصوف پر عمل کرتے ہیں وہ نہ تو دیوبندی مکتب کی پیروی کرتے ہیں اور نہ ہی بریلوی مسلک
کی۔ دوسرے قسم کے صوفی اکثر ہندوستانی مسلمانوں پر بحث سے باہر رہتے ہیں یا بریلویوں
کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ چونکہ ہم ہندوستانی مسلمانوں کی درجہ بندی کر رہے ہیں اس نظریہ کی بنیاد پر جس کی وہ پیروی کرتے ہیں، آئیے انہیں
خانقاہی کہتے ہیں، یعنی وہ مسلمان جو مزارات پر جاتے ہیں اور تصوف کو اسلام کے صحیح
عمل کے طور پر دیکھتے ہیں، اور بریلوی یا دیوبندی مکاتب فکر سے خود کو وابستہ نہیں
کرتے۔ احمد رضا خان اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ ان کے اختلاف کی بنیاد فرقہ واریت
اور کچھ صوفی معمولات ہیں، مثال کے طور پر، قوالی کے دوران موسیقی کا استعمال، جسے
احمد رضا خان نے ممنوع قرار دیا۔
دیوبندی/بریلوی تنازعات کی
نوعیت
دیوبندی، بریلوی اور خانقاہی
فقہ حنفی کی پیروی کرتے ہیں، یعنی وہ اپنے مذہبی طریقوں مثلاً نماز ، روزے وغیرہ میں اختلاف نہیں کرتے، تاہم، عقیدت کے اظہار
سے متعلق معاملات میں، وہ مختلف رائے رکھتے ہیں۔ موسیقی کے معاملے میں بریلوی اور دیوبندیوں
کا ایک ہی نظریہ ہے، لیکن شفاعت کے حصول اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت
منانے کے معاملے میں دیوبندیوں کا بریلویوں اور خانقاہوں سے اختلاف ہے۔ بریلویوں اور
دیوبندیوں پر گہری نظر ڈالنے سے پتہ چلے گا کہ دونوں اسلام کی فقہی تفہیم پر عمل کرنے
پر زور دیتے ہیں۔ دونوں مکاتب کے بانی اپنے وقت کے صف اول کے فقہاء تھے۔ لہٰذا، یہ
کہنا غلط ہوگا، جیسا کہ آمنہ بیگم نے کہا، کہ دیوبندی "اسلامی قانون پر سختی سے
عمل کرنے پر زور دیتے ہیں"، جس کا مطلب یہ ہے کہ بریلوی ایسا نہیں کرتے۔ احمد
رضا نے شرعی احکام کا استعمال کرتے ہوئے بہت سے صوفی اور مقامی معمولات پر پابندی لگائی۔
موسیقی اور رقص کے استعمال اور عورتوں کے مزار پر جانے کے خلاف ان کے فتوے بہت مشہور
ہیں جو کہ آمنہ بیگم کے اس بیان کے خلاف ہیں جن کا خیال ہے کہ بریلوی موسیقی کا استعمال
کرتے ہیں اور وہ رقص کرتے ہیں۔ دوسری طرف، چشتی صوفی، قوالی کے دوران موسیقی اور رقص
کے لیے جانے جاتے ہیں، اور یہ زیادہ تر چشتی صوفی خانقاہی ہیں مثلاً اجمیر کی خانقاہ
اور سید سراوان میں خانقاہ عارفیہ، پریاگ راج (الہ آباد)، جو احمد رضا کے بہت سے فتووں
اور صوفی مسلمانوں پر بریلویوں کےغلبہ کے خلاف ہیں۔ انہوں نے اسی مضمون میں یہ بھی
کہا تھا کہ ’’دیوبندیت ان تمام سائنسی نظریات کو رد کرتی ہے جو قرآن و حدیث کے مطالعہ
کے لیے لازم نہیں ہیں‘‘ جو کہ ایک حقیقت ہے۔ لیکن بریلویوں کو بھی اس الزام سے بری
نہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت احمد رضا خان نے تین کتابیں لکھیں جس میں یہ دلیل دی گئی
کہ زمین جامد ہے اور سورج کے گرد نہیں گھوم رہی ہے۔
یہ تجویز کرتے ہوئے کہ صرف
دیوبند ہی علیحدگی پسند ہیں، محترمہ بیگم لکھتی ہیں کہ وہ "ایسی کسی بھی قسم کی
ثقافت کو مسترد کرتے ہیں… جس کی جڑیں اسلام میں نہ ہوں۔" یہ دیوبندیوں یا بریلویوں
میں سے کسی ایک کے حوالے سے بھی مکمل سچائی نہیں ہے۔ دونوں گروہ، بغیر کسی رعایت کے،
مذہبی اہمیت کے حامل یا اپنے فقہی نقطہ نظر سے مطابقت نہ رکھنے والے کسی مقامی ثقافتی
طور طریقوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔ درحقیقت، دیوبندیوں نے، نہ کہ بریلویوں نے ، ایک جامع
قوم پرستی اور تحریک آزادی میں انگریزوں کے خلاف ہندوؤں کے ساتھ اتحاد کی حمایت کی
۔ ایک دیوبندی عالم، عبید اللہ سندھی عالمی اتحاد اسلامی کے خلاف تھے اور ہندوستانی
قوم پرستی کی وکالت کرتے تھے۔
میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر
ہم دیوبندیوں اور بریلویوں کے درمیان عقیدت یا صوفیانہ معمولات کے حوالے سے کچھ اختلافات
کو نظر انداز کریں تو ان کا مذہب یا مذہبی نصوص کے حوالے سے نقطہ نظر ایک ہی ہے۔ نیز، ان کے اختلافات کے ہندوستانی
مسلمانوں پر غیر معمولی سماجی و سیاسی اثرات ہیں۔ بہر کیف، ان میں سے کسی کو بھی ہندوستانی
ثقافت کے خلاف نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگرچہ تقسیم ہند کے بعد اسلام فکری طور پر ساکت
و جامد ہو چکا ہے لیکن ان مکاتب فکر کے قیام کے بعد اس میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ بانی
علماء کی تحریروں سے دونوں مکاتب کے ہم عصر پیروکاروں کا فیصلہ نہیں کیاجا سکتا۔ تاہم،
کثیر ثقافتی اور سیکولرازم جیسے سوالات کے حوالے سے فکری سطح پر ان کے ساتھ روابط استوار
کرنے کی ضرورت ہے۔
English
Article: Deobandis and Barelvis: Some Clarifications
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism