New Age Islam
Sat Jul 19 2025, 07:21 PM

Urdu Section ( 28 Jun 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Democratic Nations Should Stop Supporting Regimes That Do Not Allow Freedom of Expression جمہوری ممالک کو اظہار رآئے کی آزادی ختم کرنے والی حکومتوں کی حمایت بند کر دینی چاہیے: سلطان شاہین کا جون 2024 کے اجلاس کے دوران، جنیوا میں یو این ایچ آر سی سے خطاب

سلطان شاہین، بانی و ایڈیٹر، نیو ایج اسلام

27 جون 2024

جناب صدر،

اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹنا، اور اختلاف رائے کا دروازہ بند کرنا، یہ ایسے عوامل ہیں جو اسلامی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کو بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا مسلم ملک ہو، جو اپنے شہریوں کو پوری آزادی کے ساتھ، اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت دیتا ہو۔ آزادانہ مکالموں کی کمی کی وجہ سے، ان معاشروں میں مذہبی عقیدہ زور پکڑ چکا ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان جیسے کچھ ممالک میں، توہین رسالت کے خلاف قوانین پائے جاتے ہیں، جن کے تحت مبینہ توہین کرنے والے کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔

عقیدہ یہ ہے، کہ علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلام کی توہین کرنے والے, سزائے موت کے مستحق ہیں ۔ جبکہ اس کا حقیقت سے کوئی رشتہ نہیں۔ اس سخت گیر موقف کے حامل، صرف چند علماء ہی ہیں۔ لیکن اس موضوع پر کھل کر مکالمے اور مباحثے کی کمی نے، اس سخت گیر عقیدے کو، ایک جیتی جاگتی حقیقت کی شکل دے  دی ہے ۔ جبکہ علمائے کرام کا اس بات پر بھی اتفاق ہے، کہ کوئی عام شہری قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا، اور سزا نافذ کرنے کا حق صرف عدلیہ  کے پاس ہے۔ لیکن اسلامی معاشروں میں مکالمے اور مباحثے کے فقدان نے، ان حقائق کو عام مسلمانوں تک پہنچنے ہی نہیں دیا۔

جناب صدر،

پاکستان کے اندر، جو لوگ توہین رسالت کے خلاف تشدد میں ملوث پائے جاتے ہیں، ان میں زیادہ تر لوگ ایسے ہیں، جن کی اس ذہنیت کی بنیاد، علما کی جاہلانہ تقریریں ہیں۔ لیکن جو اصلاح پسند مسلمان، ان پرتشدد نظریات پر سوال اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے سروں پر خطرے کی تلوار لٹکنے لگتی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے، کہ جمہوری ممالک ایسی حکومتوں کی حمایت کرنا چھوڑ دیں، جو اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹتی ہیں، اور اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتیں۔

-----

اگرچہ، ہر ایک مندوب کو اس فورم پر صرف 90 سیکنڈ تک ہی بولنےکی اجازت ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ ECOSOC اسٹیٹس این جی او کے مندوبین کو موقع مل سکے، تاہم میں نیو ایج اسلام کے قارئین کے لیے، اس موضوع کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش کرنا چاہوں گا۔

آزادانہ مکالموں اور مباحثوں کے فقدان کا قصور وار، ہم آج کے مسلم معاشروں کو نہیں ٹھہرا سکتے۔ خلفائے راشدین کے دور کے بعد، ایسی کوئی مسلم ریاست نہیں قائم ہوئی، جس میں اظہار رائے کی آزادی پائی گئی ہو۔ نہ صرف یہ کہ سیاسی آزادی پر قدغن لگائی گئی، بلکہ مذہبی نظریات پر بھی، کبھی آزادانہ طور پر مباحثہ و مکالمہ نہیں ہو سکا۔ اسلامی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا عظیم فقیہ گزرا ہو، جسے اسلام کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں، اپنی مذہبی رائے کی وجہ سے ستایا اور مشق ستم نہ بنایا گیا ہو۔

اس تاریخ کا سب سے المناک حصہ 825 عیسوی سے 841 عیسوی کے درمیان کا زمانہ ہے، جب نام نہاد عقلیت پسند یعنی معتزلہ کو، خلفائے اسلام کی حمایت حاصل تھی، اور وہ ایک لحاظ سے سیاسی اقتدار سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس وقت کے خلفاء نے ان کی الٰہیات کی تائید کی۔ لیکن ان ذہین، دور اندیش اور روشن خیال علماء نے بھی، خود سے اختلاف کرنے والے روایت پسند اہل سنت اور اشعری علماء کو خوب ستایا۔ حتیٰ کہ امام احمد بن حنبل جیسے قدآور فقیہ کو بھی قید و بند سے گزارا گیا، اور کوڑے لگائے گئے۔ لیکن نئے خلیفہ المنتصر کو جب امام احمد بن حنبل کی مقبولیت کا احساس ہوا، تو اس نے آپ کو رہا کر دیا اور آزادی سے کام کرنے کی اجازت دی۔ اس کے بعد اہلسنت نے معتزلہ پر ظلم و ستم کا آغاز کیا، جو صدیوں تک جاری رہا۔ ان پر اہلسنت کا ظلم و ستم اس قدر شدید تھا، کہ ہمیں اس دور کے معتزلہ کی کوئی کتاب اب شاید ہی دیکھنے کو ملے۔ آج ہم معتزلہ کے نظریات سے صرف اس لیے واقف ہیں کہ، اہلسنت علماء نے ان کی تردید کے مقصد سے، ان کے جو اقتباسات اپنی کتابوں میں نقل کیے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔

اختلافی نظریات پر ظلم و ستم کی تاریخ طویل رہی ہے، اور آسانی کے ساتھ انٹرنیٹ پر دستیاب بھی ہے۔ اس لیے میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا، بلکہ صرف چند ایسے علماء کا ذکر کروں گا جنہوں نے اس راہ میں کافی تکلیفیں برداشت کیں، اور کچھ جو ابھی بھی تکلیف میں ہیں:

ابن الراوندی (911-827)، المنصور الحلاج (922-858)، ابو العلاء المعری (1057-973)، ایورویس (ابن رشد) (1198-1126)، ابن تیمیہ (1328-1263) )، عبداللہ القاسمی (1996-1907)، نوال السعداوى (2021-1931)، نصر ابو زید (2010-1943)، محمد ارکون (2010-1928)۔

رائف بدوی اور ان کی بہن ثمر بدوی، اب بھی سعودی جیلوں میں ظلم و ستم کا شکار ہو رہی ہیں، اور ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے اصلاحات اور بولنے کی آزادی، اور ساتھ ہی ساتھ خواتین کی نقل و حرکت کی آزادی کے لیے بھی آواز اٹھائی تھی۔

انٹرنیٹ پر معلومات: رائف بدوی: ایک سعودی قلمکار اور کارکن، رائف بدوی کو "الیکٹرانک چینلوں کے ذریعے اسلام کی توہین" کے جرم میں 10 سال قید اور 1000 کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ ان کا بلاگ، "فری سعودی لبرلز" سیکولرازم اور آزادی اظہار کی وکالت کرتا تھا، جو کہ وہابی اصولوں سے متصادم تھا۔

ثمر بدوی: خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اور رائف بدوی کی بہن، ثمر کو مردانہ سرپرستی کے نظام کے خلاف، ان کی لڑائی کے لیے متعدد بار گرفتار کیا جا چکا ہے۔

آج، جب کہ سعودی عرب میں خواتین کو مردوں کے بغیر نقل و حرکت کی ایک حد تک آزادی حاصل ہوئی ہے، اور اب کچھ معاملات میں آزادی کا عمومی ماحول ہے، لیکن اظہار رائے کی آزادی پر اب بھی وہاں کافی حد تک پابندیاں ہیں۔

جہاں تک افغانستان میں اظہار رائے کی آزادی کی حالت کا تعلق ہے، تو اس سلسلے میں جتنا کم کہا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ طالبان کی یہ دوسری حکومت بھی پہلی حکومت کی ہی طرح جابرانہ ہے، لیکن عالمی برادری آہستہ آہستہ ان کے ساتھ معاہدہ کر رہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ، عالمی برادری کو ایسی ظالمانہ اور جابرانہ حکومتوں سے تعلق رکھنے میں کوئی پریشانی معلوم نہیں ہوتی، جب تک کہ وہ ان کے لیے کارآمد ہوں۔

عالمی برادری کے علاوہ، ایک بڑی ذمہ داری مسلم علماء پر بھی عائد ہوتی ہے، کہ وہ ہر موقع پر ان دو باتوں کی تبلیغ پرزور انداز میں کریں،جن کا ذکر میں نے یو این ایچ آر سی میں مکالمے کے دوران اپنی تقریر میں کیا تھا۔

1. قرآن عام مسلمانوں کو کسی بھی صورت میں، توہین مذہب یا ارتداد کی سزا دینے کا حکم نہیں دیتا۔ یہ سزائیں بعد کے بعض علماء کی ایجاد کردہ ہیں۔ اس پر علمائے کرام کا کوئی اتفاق نہیں۔

2. کسی بھی مہذب معاشرے میں، ہر طرح کی سزائیں یا تو ریاست یا عدلیہ نافذ کرتی ہے۔ جرائم کی سزا عام مسلمانوں کو کبھی نہیں دینی چاہیے، کیونکہ انہیں اس کا کوئی اختیار نہیں۔

میں کبھی کبھی محمد ریاض انصاری اور غوث محمد سے ملاقات کا تصور کرتا ہوں، ایسے دو دہشت گرد، جنہوں نے ادے پور کے ایک درزی کنہیا لال تیلی، کا سر قلم کیا تھا، کیونکہ کنہیا لال نے، بی جے پی کے ایک لیڈر کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز بیان کی حمایت کی تھی۔ میں سوچتا ہوں کہ میں قتل کی واردات انجام دینے سے قبل، ان سے ملا ہوتا۔ اور اگر انہوں نے مجھے بتایا ہوتا، کہ ہم اس خاتون کے ہزاروں حامیوں میں سے ایک کو قتل کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا بدلہ ویڈیو پر لینے والے ہیں۔ تو میں ان سے کہتا کہ یہ سراسر غلط ہے۔ کسی بے گناہ کی جان کوئی نہیں لے سکتا۔ یہاں تک کہ اگر اس نے کچھ غلط کیا ہو تب بھی، وہ اس وقت تک بے قصور ہے، جب تک کہ عدالت میں مجرم ثابت نہ ہو جائے، اور اگر اس کا جرم ثابت ہو جائے تب بھی، اسے سزا دینا ریاست کا کام ہے۔

اب یہ دونوں نہ صرف خود سزائے موت کا انتظار کر رہے ہیں، بلکہ ہندوستانی مسلم برادری کے پرامن امیج کو بھی ٹھیس پہنچا رہے ہیں، جنہیں اس کے بعد، پاکستانی مسلمانوں کی ہی طرح انتہا پسند تصور کیا جائے گیا۔ اس صورت میں ہندوستانی اور پاکستانی مسلمانوں کے درمیان کا فرق مٹ جائے گا۔ ہندوستانی مسلم برادری، جس صبر و استقامت کے ساتھ برسوں سے اشتعال انگیزیوں کا سامنا کرتی آرہی ہے، اس کے لیے دنیا بھر میں ان کی کافی تعریفیں کی گئی ہیں، اور اس طرح انھوں نے اپنی جان بھی بچائی،اور ہندوستانی مسلمانوں کی نیک نامی کی بھی حفاظت کی۔ لیکن برسوں کے صبر و ضبط کا ثمرہ یوں ہی مٹی میں مل جائے گا، جب دو داڑھی والے بظاہر مذہبی مسلمانوں کے ہاتھوں، کنہیا لال تیلی کا سر قلم کیے جانے والی ویڈیو وائرل ہو گی۔

لہذا، فطری بات ہے کہ میں انہیں اس گھناؤنے، غیر انسانی، غیر اسلامی، اسلام دشمن، مسلم دشمن، ملک دشمن، فعل سے باز رکھنا چاہوں گا۔

لیکن میں انہیں بتاؤں بھی تو کیا؟ انصاری ایک ویلڈر کا بیٹا ہے۔ غوث محمدکا تعلق بھی اسی طرح کے پس منظر سے ہوگا۔ انہوں نے بریلوی، دیوبندی یا اہل حدیثوں کے مدرسوں میں تعلیم حاصل کی ہو گی ۔ وہ کلاسیکی اسلامی الہیات سے اچھی طرح واقف ہوں گے، جن میں توہین کرنے والوں، مرتدوں، اور یہاں تک کہ ان مسلمانوں کے بھی سر قلم کرنے کی تعلیم دی گئی ہے،جو ان کے مسالک (فرقہ) کے بانی کے خیالات سے تھوڑا بھی ہٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے چھوٹی عمر میں اسلامی اخلاق و آداب کے نام سے ایک کتاب پڑھی ہوگی، جو 10/12 سال کے بچوں کو پڑھائی جاتی ہے، جس میں یہ ہے کہ: "جب تم مشرکین کو قتل کرنے کے لیے نکلو تو انہیں قتل کر دو، اس سے پہلے کہ وہ تمہیں قتل کریں۔ لیکن اگر تم ان کو قتل کرنے سے پہلے ہی قتل کر دیے جاؤ، تب بھی بعض علماء کے نزدیک تم نے ایک اچھا مقصد پورا کیا ہے، کیونکہ اس سے دوسروں کے اندر مشرکین کو قتل کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا" ۔ میں نے اپنی یادداشت کے مطابق اقتباس کا خلاصہ پیش کیا ہے۔)

بالکل یہی بات اور یہی نصیحت بہارِ شریعت میں، غالباً دس ایسے پیراگرافوں میں بڑی طوالت کے ساتھ بیان کی گئی ہے، جو 16/17 سال کی عمر میں عالمیت کے طلباء کو پڑھائی جاتی ہے۔

اب میں انصاری اور غوث محمدسے کیا کہوں گا، جو اس طرح کی اشتعال انگیز تعلیمات سے گزرے ہوں گے۔ میں ان کو کیا بتاؤں، یہ جانتے ہوئے کہ یہ نہ صرف ان بیوقوفوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، جو جلد دہشت گرد بننے والے ہیں، بلکہ ہماری مسلم برادری کے لیے بھی یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔ میں فطری طور پر بات کرنے، اور کسی کو قائل کرنے کی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاؤں گا، اسلامی الہیات کی اپنی تمام تر جانکاریوں کواکٹھا کروں گا ، اور اس زبان میں اس کے سامنے پیش کروں گا، جو وہ سمجھ سکیں۔ لیکن، کیا اس سے وہ سب کچھ مٹ جائے گا، جو انہوں نے مدرسوں میں سیکھا ہے، یا مساجد میں جمعہ کے خطبوں میں سنا ہے؟

اسی طرح، اگر میں جھارکھنڈ کے دارالحکومت رانچی میں فساد برپا کرنے والے "اسلام پسند" ہجوم کے سامنے کھڑا ہو جاؤں، جس نے توہین مذہب کے اسی معاملے پر پتھراؤ، آتش زنی اور توڑ پھوڑ کا مظاہرہ کیا، اور اس سے پہلے کہ وہ ہنگامہ آرائی پر اتر آئیں، میں انہیں روکنے کی کوشش کروں، تو مجھے ان کے سامنے کیا کہنا چاہیے۔ میں ان کی ذہنیت سے واقف ہوں۔ وہ سبھی روایتی اسلامی مذہبی تعلیم سے گزرے ہیں، یا تو براہ راست مدرسہ کی تعلیم کے ذریعے، یا مساجد میں جمعہ کے خطبات کے ذریعے، یا بالواسطہ طور پر انٹرنیٹ پر دستیاب کتابوں کے ذریعے۔ اگر مجھے موقع ملا تو میں انہیں کیا سمجھاؤں گا، یہ جانتے ہوئے کہ جلد ہی ان میں سے کچھ یا تو مر جائیں گے یا جیل میں ہوں گے، جس سے پوری مسلم برادری کی بدنامی ہو گی۔

مجھے شک ہے، کہ کوئی بھی اعلی سے اعلی اور علمی دلیل بھی، ان کے بھڑکتے ہوئے جذبات کے شعلوں کو بجھا سکتے ہے۔

اس پر کام کرنے کا وقت اب آ چکاہے، کہ جب توہین رسالت یا ارتداد کا کوئی مسئلہ، عام مسلمانوں کو مشتعل نہ کر سکے۔ اور اگر چہ عقلمند اور باشعور مسلمانوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، لیکن اس کا اس اصل بھار، علمائے کرام کے کندھوں پر ہے۔ سب سے پہلے انہیں خود کو، ایک جدید مہذب معاشرے کے اصولوں کے مطابق صحیح طریقے سے تعلیم یافتہ کرنا ہوگا۔ پھر یہ نئی تعلیم عام مسلمانوں تک پہنچانا ہوگی، تاکہ جب ایسا کوئی موقع آئے تو وہ مطمئن اور پرسکون رہیں۔

 علمائے کرام کو سمجھنا چاہیے، کہ آج کی دنیا، مذہب کے تمام پہلوؤں پر مکالمہ اور مباحثہ کرتی ہے۔ لوگ اپنے اپنے مذاہب اور ان کے موضوعات پر مباحثہ و مکالمہ کرتے ہیں۔ اور اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فلمیں بنائی رہی ہیں، جو کہ ایک مسلم کے نزدیک گستاخانہ عمل ہو سکتا ہے۔ وہ ان کی کردار سازی میں صحیح یا غلط ہوسکتے ہیں۔ لیکن انہیں کچھ نہیں کیا جانا چاہیے۔ اسلامی اور ریاستی قانون دونوں کا سہارا لیکر تشدد کا مظاہرہ کرنا مکمل طور پر ناجائز ہے۔ اسی طرح یہ دنیا بھی، اسلام کے مختلف پہلوؤں پر مکالمہ و مباحثہ کرے گی۔ ہم مسلمان بعض نکات کو قبول یا مسترد کرکے اس مباحثے اور مکالمے میں اپنا تعاون پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن، اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہمارے علمائے کرام کو، کم از کم ان مسائل پر آپس میں ہی بات چیت شروع کر دینی چاہیے۔

---------------

English Article: Democratic Nations Should Stop Supporting Regimes That Do Not Allow Freedom of Expression: Sultan Shahin Tells The UNHRC in Geneva During Its June 2024 Session

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/democratic-nations-freedom-expression-unhrc-geneva-2024/d/132594

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..