ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
5اپریل،2024
مضمون کی ابتداء 1998 میں
لکھے آرٹیکل ”مستقبل کا ہندوستان: ایک فکری بحث“ کے اس حصے سے کررہا ہوں جس سے آج
کے عنوان کا براہ راست تعلق ہے۔”اگر میں یہ مان بھی لوں کہ کانگریس (سیکولر سیاست)
ولیوں کی جماعت ہے اور ہمیشہ رہے گی، اس کا ہر رکن گاندھی او رنہرو ہوگا‘ لہٰذا
مسلمانان ہند کے سامنے ملی تشخص کا بقا کا سوال ہی کبھی پیدا نہیں ہوگا، لیکن اس
بات کی ضمانت کون دے گا کہ عوام کا انتخاب ہمیشہ وہی ہونگے۔اس میں آر ایس ایس یا
ہندوتو کا نظریہ رکھنے والوں کوکبھی موقع نہیں ملے گا“۔اکثریت کی اکثریت اسی وقت
تک سیکولر ہے جب تک اسے اس راستے سے اقتدار کی کرسی مل رہی ہے۔ جس دن حالات کارخ
بدلے گا بڑے بڑے سیکولر بی جے پی کی گود میں جا بیٹھیں گے“۔
پس منظر:1757 میں ایسٹ
انڈین کمپنی نے جواب سراج الدولہ سے پلاسی کی جنگ میں میر جعفر کے اپنے جنرل کی
غداری کے نتیجے میں فتح پائی۔ جس سے دو سوسالہ برطانوی سامراج کی بنیاد پڑی۔ اس کے
بعد ٹیپوسلطان کی شکل میں مسلمان انگریز سے دست بہ گریباں ہوئے۔ اگر میر صادق نے
ٹیپو سے دغانہ کی ہوتی تو 1799میں انگریز کے پیر ہمیشہ کے لئے اکھڑ جاتے ان جنگو ں
کے نتیجے میں مسلم اقتدار کی بحالی ظاہر بھی تھی اور مقصود بھی! ذہن میں رکھیں کہ
ہندو اکثر یت صدیوں سے مسلم اقتدار کے ماتحت چلی آرہی ہے۔ جب 1857 میں پہلی جنگ
آزادی لڑی گئی تب پھر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قیادت! اگر فتح ہوجاتی تو مسلم
اقتدار ہی بحال ہوتا!
بات یہاں ختم نہیں ہوئی
پھر خلافت تحریک سامنے آتی ہے۔ 1919 سے 1922 تک ہندوستانی مسلمانوں نے خلافت
عثمانیہ کی کی پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد ہندوستان میں خلافت تحریک چلائی، جس
کا ہدف ایک بار پھر عالمی سطح پر مسلم اقتدار کی بحالی ہی تھا۔ گوکہ وہ بعد میں
کانگریس میں ضم ہوگئی مگر مسلم نفسیات اب بھی کہیں نہ کہیں مسلم اقتدار کی بحالی
کو ہی اپنا ہدف ما ن کر چل رہی ہے۔ اس پس منظر میں 1915 میں ہند ومہا سبھا او
ر1925 میں آر ایس ایس جیسی تنظیم قائم ہوتی ہیں۔ 1922 میں ویر ساورکر ایک سیاسی وثقافتی ہند وفکر
”نظریہ ہندوتو“ لے کر سامنے آتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں یہاں سے احیائے ہندو یا احیائے
سناتن کی ابتدا ہورہی ہے۔ اس کے بعد قیام پاکستان جو دوقومی نظریے کی بنیاد پر
وجود میں آیا اس نے اس سفر کی آئندہ کامیابی کے حوالے سے اس میں آخری کیل ٹھونک
دی، جس کی مستقبل کے ہندو بھارت کو اشد ضرورت تھی۔ اس ترتیب او رسلسلے کو ذہن میں
رکھیے۔
گاندھی جن کو مہا تما کے
لقب سے نوازا گیا او راپنی فکر میں رام راجیہ کے قیام کو ہندوستان کے لئے آئیڈیل
صورتحال مانتے تھے۔ ان کے لبوں پر آخری الفاظ ”ہے رام“ ہی تھے! میرا سیاسی نظریہ
یہ ہے کہ اگر وہ ہندو مسلم اتحاد واشتراک کا مزاج لے کر چلتے تو پنجاب،بنگال، کشمیر
آج ہمارا حصہ نہ ہوتے۔ وہ انگریز کو کانگریس کے حامی مسلم علماء عمائدین بالخصوص
قبائلی پٹھان قوم پرست بلوچ کی حمایت کی طاقت دکھا کر ہندوستان کے لئے وہ حاصل
کرسکے جو اس وقت خالص ہندو نظریے سے بالکل ممکن نہ تھا۔ گاندھی او رنہرو آر ایس
ایس کے مداحوں میں تھے او ران کا یہ زاویہ ہمارے سامنے ہے۔ آزادی سے قبل کمزور
ترین پاکستان اورزیادہ سے زیادہ مضبوط بھارت کے قیام میں گاندھی کی سیاست مکمل
کامیاب رہی۔ پاکستان محض 24 برس میں دوٹکڑے ہوگیا!
ہندوستان روز اول سے ہندو
اکثریتی ریاست او رورثہ ہے۔ آزادی کی جنگ وندے ماترم پر لڑی گئی، قومی ترانے میں
بھارت بھاگیہ ودھاتا جس کا مطلب بھارت کو درجہ خالق، ودے ماترم یعنی جننی بھارت کو
نمن، کامن سول کوڈ اور کشمیر مسئلے کو لٹکا ئے رکھنا، گائے پر قانون نہ بنانا،
شہریت کے مسئلے کو درمیان میں لٹکتا چھوڑنا۔ یہ سب زمین ہندو راشٹر کے لئے کس نے
بنائی ُ؟ آزادی کے بعد سے یہ سفر بابری مسجد میں 1949 میں جبراً مورتیاں رکھنے سے
شروع ہوا۔ اس کے بعد کانگریس کے دور میں ٹیلی ویژن پر پہلے رامائن سیریل،
پھرمہابھارت، اس کے بعد متواتر ایک سلسلہ ان سب نے ہندواکثریت کے ذہن و نفسیات کو
ہندو ازم کے رخ پر ڈالا۔ اس میں جن عوامل نے زور ڈالا ان میں 1986 میں بابری مسجد
کا تالہ کھلنا،وہاں پوجا شروع ہونا، 25 ستمبر 1990 کواڈوانی کو رتھ یاترا،کار
سیوکوں پر 30/ اکتوبر 1990 میں گولیاں چلایا جانا، ایک سال بعد اکتوبر 1991 میں
نرسمہا راؤ سرکار کا عبادت گاہوں کے تحفظ کا خصوصی قانون،1992میں بابری مسجد کی
شہادت،فوری عارضی رام مندر کی تعمیر، آس پاس کی 166 ایکڑ زمین کو مرکزی سرکار کا
تحویل میں لینا،1985میں شاہ بانو کا عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اوراس پر قانون سازی،
1988 میں ملعون رشدی اور 1993 میں تسلیمہ نسرین کی کتابوں پر پابندی،1995 کا سپریم
کورٹ کا ہندوتوپر فیصلہ۔ جس کے نتیجے میں سنگھ پریوار اور بی جے پی کی مسلسل بڑھتی
عوامی حمایت،جذبہ ہندوازم میں دن دونی،رات چوگنی اضافہ اور اس پر میڈیا کی
مہربانیاں! سونے پر سہاگہ مسلم قیادت کی ناعاقبت اندیشی! ان سب نے سنگھ پریوار کو
جو احیائے سناتن کاعلمبردار ہے اور ہندو تہذیب وتمدن کو اولیت دیتاہے، نہ صرف
اقتدار بخش دیا بلکہ پورا ملک اس کے رنگ میں رنگ چکا ہے! اب اس کی موافقت تو
چوطرفہ ہے مگر مخالفت کا دم کسی میں نہیں بچا!
یہاں تک حالات کیسے پہنچے
یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے! راجیو گاندھی او رنرسمہاراؤ کے دور میں جو ہوا، وی پی
سنگھ نے اس میں کتنا تیل ڈالا آپ کو بخوبی علم ہے۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کانگریس
اور سیکولر حلقے بخوبی جانتے تھے کہ ایک دن ان کی سیاسی زمین ہاتھ سے نکل جائیگی!
سناتن دھرم کے ماننے
والوں کے لئے انکا دھرم،تہذیب کااحیاء،رام راجیہ کا قیام، بھارت کو ہندو راشٹر کے
روپ میں دیکھنا،اس کا اعلان اور آئینی قبولیت یہ سب بالکل ایسا ہی ہے، جیسے مسلم
اکثریتی ملک کا مسلمان اپنے ملک میں اللہ کا قانون اللہ کی زمین پر چاہتاہے۔عدل کے
اسلامی نظام اور احیائے اسلام کو پوری آب وتاب سے دیکھنا چاہتاہے۔ یہودی، ایرانی،
ترک، رومن، جرمن، امریکی، فرانسیسی، روسی یہ سب فاتح قومیں اپنے اپنے حوالے سے
ایسا ہی چاہتی ہیں۔سب وشوگرو بننا چاہتے ہیں۔ اکثریت او رفاتح قوموں کا ایسا ہی
مزاج ہوتا ہے تاریخ اس کی گواہ ہے!
جن لوگوں کو سیکولرزم کے
حوالے سے غلط فہمی ہوگئی تھی کہ پاکستان اسلامی ریاست بنا او ربھارت سیکولر ریاست!
اس وقت اس مزاج میں فائدہ تھا جو ہم نے خوب اٹھایا، آج زمین بدل گئی ہے۔ لگ بھگ
ایک صدی کی آر ایس ایس کی انتھک محنت! سیاست، معیشت، معاشرت، اقتدار اعلیٰ،
انتظامیہ، عدلیہ مقننہ، سول سو سائٹی، اکثریتی نفس و نفسیات آج سب پر اس کااجارہ
قائم ہوچکا!
”کل بھارتیہ ہونا فخر تھا آج ہندو ہونا فخر ہے! کل تکثیریت میں فخر
کا قومی احساس تھا آج ہندو تو میں یہ احساس ہے! کل ریاست کا کوئی مذہب نہ تھا آج
غیر اعلانیہ مذہب سرکاری مذہب بن چکا! کل عوامی اجتماعات میں ہندو مذہبی رسومات
میں احتیاط تھی اب کھل کر سب ہورہا ہے“۔
یاد رکھیں: ”جہاں جس کی
اکثریت ہوگی اقتدار اسی کا ہوگا! فیصلے اس کے ہاتھ میں ہوں گے! پالیسی وہ بنائیں
گے! پروگرام وہ ترتیب دیں گے!آئین میں جب تبدیلی یا ترمیم چاہیں گے وہ کرلیں گے!“
اقلیت استعمال واستحصال کا سامان ہوا کرتی ہے!
جمہوریت کا بڑا ذکر
ہوتاہے اس میں کون اقتدار میں آتا ہے؟اکثریت یا اقلیت،سڑک سے ایوان تک دھاک کس کی
ہوتی ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ ہندو راشٹر میں آپ دو نمبر کے شہری ہوجائیں گے! جو آج ہے
اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟مفروضوں کی زندگی کو طلاق دیجئے! حقیقت تلخ ہوتی ہے!
یہ ملک ہمیشہ سے ہندو ہے۔ اس لئے اگر کل اس کو ہندو راشٹر اعلان کردیا جائے تو جس
کو تعجب ہوگا،اسے ہوگا میرے لئے اس میں تعجب کا کوئی پہلو نہیں!
5 اپریل،2024،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism