New Age Islam
Tue May 13 2025, 09:10 PM

Urdu Section ( 3 Jul 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Decline Of Muslim Representation In The Lok Sabha لوک سبھا میں مسلم نمائندگی کا زوال

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

28 جون،2024

 وہ موضوع ہے جس پر ہمیشہ عام انتخابات سے قبل اور بعد میں مسلم حلقوں میں ایک روایتی بحث چھڑتی ہے اور اس حوالے سے طرح طرح کی توجیہات ہمارے سامنے لائی جاتی ہیں۔ اب جبکہ انتخابی عمل پورا ہوچکا ہے، سرکار تشکیل پا چکی ہے اور بر سر اقتدار و حزب مخالف دونوں وجود میں آ چکے ہیں۔ معمول کا سرکاری کام کاج بھی شروع ہوچکا ہے۔ اس تعلق سے میں چند سوالات کھڑا کر رہا ہوں؟

 حال ہی میں ایک جملہ آپ کے گوش گزار کیا تھا بات وہیں سے شروع کرتے ہیں۔ انڈیا الائنس سے اگر مسلم حمایت کو نکال دیا جائے تو وہ، کانگریس اور اس کے تمام حلیف کہاں کھڑے ہیں؟ اسی طرح بی جے پی  اپنی سیاست سے پولرائزیشن یعنی ہندو مسلم کرنا نکال دے تو وہ اور اس کی سیاست کہاں کھڑی ہوگی؟ یکطرفہ مسلم حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر دوران انتخاب اقتدار کی جنگ لڑی جاتی ہے، لیکن  سرکار بننے کے بعد سرکاریں معمول کے مطابق ہی  چلتی ہیں۔کچھ ترجیحات میں فرق پالیسی کی بنیاد پر رہتا ہے۔

پہلا سوال :آپ کا دونوں حلقوں کے نتائج میں فیصلہ کن کردار مگر اقتدار اور حصے داری میں پھر بھی آپ کی کہیں پوچھ نہیں! بس اردو اخبارات میں چند مضامین و اداریے، کچھ ادھر ادھر قومی سطح کے دعوؤں کے ساتھ مذاکرے، میٹنگیں مگر ان کی اصل حقیقت آشکار کرنے میں ، میں کوئی ہلکا جملہ لکھنا نہیں چاہتا! پس پشت ہائے حسن ہم نہ ہوئے مگر ظاہری ملت کا درد، کرب اور رونا! یہ فرضی سلسلہ، ایسا کب تک چلےگا؟

دوسرا سوال: آئیے چند وہ باتیں بھی کی جائیں جن کو کرنے سے آپ کتراتے ہیں! آزادی سے قبل بھی آپ مسلمان بن کر ساری باتیں کرتے تھے اور اس کے بعد بھی یہی مزاج چلا آ رہا ہے۔ شاید اسی کو صحیح سمجھتے ہونگے ۔میری ناقص رائے میں بیماری کی جڑ یہیں ہے! مجھے بتائیے مسلمان مسلمان کی بات اس وقت بھی ہوئی جب گاندھی کی قیادت میں مٹھی بھر ہندو مہاسبھا اور آرایس ایس کے لوگوں کو چھوڑ کر تمام ہندواکثریت تکثیریت اور مساوات پر مبنی بھارت کی بات کر رہی تھی۔ ہندو راشٹر کا نہ کوئی نام لیوا تھا نہ حامی اورنہ حلیف!۱۹۴۷ سے ۱۹۶۷ تک جن سنگھ آر ایس ایس کا سیاسی بازو جو ہندو راشٹر کی داعی و مبلغ تھی اس کو کون معتوب کئے ہوئے تھا آپ نہیں اس ملک کی ہندو اکثریت۹ء۳۱  فیصدووٹ اور ۵۲۳کے ایوان میں۳۵ نشستیں ملیں۔۱۹۷۷ آتے آتے یہ جنتا پارٹی جو خالص سیکولر اور سماجوادی سوچ کے لوگوں کا’ گٹھ بندھن‘تھا وہ اس میں ضم ہو گئی (آر ایس ایس اپنا کام کرتی رہی) دوہری رکنیت پر سرکار ٹوٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی سیاسی شہادت کے ساتھ دوبارہ اپنے ایجنڈے پر واپس آ گئی۔ مت بھولئے تب بھی اور آج بھی سیکولرزم کا مطلب مسلم ووٹ بنک اور اس سے ملنے والا مرکزی اور ریاستی سطح پر اقتدار تھا جس کو بی جے پی ’مسلم تشٹی کرن‘ کا نام دیتی ہے۔

تیسرا سوال :کیا مسلمانان ہند کے علاوہ دوسری کسی مذہبی اقلیت نے مذہب کو اپنی شناخت بناکر کبھی قومی یا ریاستی سیاست کی ،یا یہ کمال آپ ہی کرتے رہے؟ جواب سیدھا ہے! مسیحوں، سکھوں، بودھ، جین، پارسی ان میں سے کس نے کب وہ مزاج رکھا جو آپ نے رکھا؟ ان سب نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی آبادی سے زیادہ حصے داری لی اور انکو ملی۔ وجہ وہ قومی دھارے کا اٹوٹ حصہ بن کر چلے، شک و شبہ کی زمین ہی نہ رکھی! آپ مسلمان مسلمان ہی کرتے رہے۔ آپ نے ہر کام مسلمان بن کر کیا اور کروایا۔ اس روش نے آپ کیجداگانہ شناخت بنا دیا اور اس طرح آپ الگ تھلگ پڑتے چلے گئے۔قومی اشوز کو بھی ملی اشو بنا لیا۔

چوتھا سوال: پارسی، جین اور سکھ تو دنیا میں بطور انفرادی مذہبی شناخت کوئی اپنا علیحدہ وطن نہیں رکھتے لہٰذا میرا یہ سوال ان پر چسپاں نہیں ہوتا۔ البتہ مسیحی، بودھ اور مسلمان سب سے بڑی بین الاقوامی وحدتیں ہیں جنکی متعدد آزاد ریاستیں ہیں۔ کبھی بودھ اور مسیحیوں نے اپنے آپ کو متعلقہ ممالک یا ان کی سیاست سے جوڑا؟ کبھی کوئی احتجاج، جلسہ، جلوس، بیان یا بیانیہ، قرارداد، حکومت وقت سے ملنے کوئی وفد عرضداشت لیکر جاتے دیکھا؟ انگریزوں نے بربریت اور انسانیت سوز مظالم جو وطن عزیز پر کئے، جس طرح ہماری قومی دولت کو لوٹا، ۲۵فیصدمغلیہ دور کیجی ڈی پی کو۱۹۴۷ میں۳فیصد کر گئے۔ انھوں نے اپنے کو ان سے الگ کیا اور رکھا۔ کبھی نہ کہا کہ ہم نے ہندوستان پر۲۰۰ برس حکومت کی۔  قومی دھارے میں جڑ گئے۔ ہندو مسیحی فسادات و تعصب کی اس ملک میں کوئی قابل ذکر تاریخ نہیں۔بودھ دھرم جس کی بھارت جنم بھومی ہے اس کو جلا وطن ہوکر کہاں کہاں جانا پڑا، اس کا کہیں ذکر بھی نہیں۔ ہم مسلم دور اقتدار کی زیادتیوں کو آج بھی ڈھو رہے۔ سیاست خوبیوں کےذکر سے نہیں چلتی۔

مسلمان۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں مسلم دور اقتدار کی بحالی کا ہدف دل میں رکھتا تھا۔ ہندوؤں کی بالادستی اس کی نفسیات میں کہیں نہیں تھی۔ اسی لئے اعلان جہاد تھا اور شہادتیں تھیں۔ بات تلخ ہے مگر حقیقت ہے۔ جب یہاں زیر ہوئے تو سلطنت عثمانیہ کے زوال سے متاثر ہوئے اور خلافت تحریک قائم کی۔ ہندوستان کہیں نہیں، مسلم اقتدار کی بحالی ہی ہدف ہے۔ جب یہ ممکن نہ رہا تو پھر آل انڈیا مسلم لیگ کاقیام، مذہبی بنیاد پر تقسیم ہند اور قیام پاکستان آج تک امت مسلمہ؍ اسلامی دنیا جہاں آپ کو کوئی پوچھتا نہیں، آپ ان کے ہر پھٹے میں ٹانگ پھنسانے کے عادی ہیں۔ ان سے جوڑ کر دیکھتے ہیں؟ ہر وقت آٹھ سو سال اس ملک پر حکومت کا زعم باطل ہے ، جو آپ نےنہیں عرب، ترک، افغان، ایران اور مغلوں نے کی، اس کے آثار کو اپنی وراثت، ملی غیرت و حمیت سے جوڑتے ہیں۔ انگریزوں کے جاتے ہی مسیحی ہندوستانی بن گیا۔ ہم آج تک اس طرح اپنے کو نہ ڈھال سکے کہ اس ملک کی اکثریت ہمیں دل سے اپنا جانتی اور سمجھتی! ایک الگ شناخت کو لیکر اس طرح چلے اور چل رہے ہیں کہ تنہا پڑ گئے اور اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ابھی مزید پڑنے والے ہیں۔

پانچواں سوال : سیاست میں آئیے ،مخالفت اور موافقت جمہوریت کا حسن ہے۔ کوئی کہیں بھی اور کسی کے ساتھ ہو سکتا اور جا سکتا ہے مگر اس عمل میں دشمنیاں باندھ لی جائیں، اپیلیں جاری کی جائیں، مسجدوں، خانقاہوں سے اعلانات ہوں، مذاکرے، اجتماعات اور کارنر میٹنگیں کی جائیں، دین کے نام پر ووٹ مانگا جائے کہبی جے پی کو ہر قیمت پر ہرانا ہے۔ اگر وہ مسلمان کو بھی کھڑا کردے تو اسکی بھی ضمانت ضبط کرانی ہے۔ عام اعلانات سارے مسلمان مل کربی جے پی کے خلاف ایک جٹ ہو جاؤ اور زیادہ سے زیادہ ووٹ اپنے علاقوں میں ڈالو! آپسی منافرت کو اس انتہا تک لے جانا کیاعقلی و منطقی جواز رکھتا ہے؟ آپ بی جے پی کی ایسے ہی مخالفت یا موافقت کریں جیسے دیگر سیاسی جماعتیں کرتی ہیں تو بالکل جائز! دشمنی آپ نے باندھی، فائدہ دوسروں نے اٹھایا! جن پر تکیہ ہے ان میں سے کون کب پالا بدل جائے میں کچھ نہیں کہتا مگر جو کل دو پر تھے آج تیسری مرتبہ بر سر اقتدار ہیں! کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان کے  ساتھ بھی ہم ویسے ہی چلتے جیسے دیگر کے ساتھ چلے۔ آپ نے یہ کبھی نہ سوچاکہ سب اکٹھے ہوکر بھی۱۴ فیصد ہو، جب ۸۰ فیصد میں اکٹھے ہونے کا احساس جاگے گا تب آپ کہاں ہوگے؟ جماعتیں بنائیں مسلم لیگ، اتحاد المسلمین تو پھر ہندو مہا سبھا کیوں نہیں؟ غور کریں!

چھٹا سوال : ایسا کیوں نہ ہوا کہ جس طرح ہم نے ہندو امیدوار کو ہمیشہ ووٹ کیا، مسلمان اس طرح وہاں قبول کیوں نہ ہوا؟ جب حساس ترین تقرریوں کا وقت آتا ہے توآپ ہی وہ اقلیت کیوں ہیں جس کوموقع نہیں مل پاتا؟ وجہ اکثریت کی نفسیات میں ہم کو لیکر (سیکولر اور دیگر سب پر یہ برابر چسپاں ہے) بھروسے اور اطمینان کی کمی کیوں ہے؟ وجہ ہم نے اپنی وفاداریاں اتنی سمت میں پھیلا لی ہیں کہ یکسوئی فارغ ہو گئی ہے۔ غور کریں گے تو جواب ملے گا  اور تنقید میں چلے گئے تو ہاتھ میں جو ہے اسے بھی مزید گنوانے کے لئے اپنے کو تیار کر لیجیے۔

ساتواں سوال: جو آزادئ اظہار رائے، اخلاقی رواداری تمام تر شکایات کے باوجود آج بھی ہر سو موجود ہے اس کو مستحکم کرنے، پروان چڑھانے اور فروغ دینے پر کوئی توجہ کی جائیگی یا آلہ کار بن کر وہی روایتی طرز عمل جاری رہے گا ؟

چو طرفہ جس زوال کی طرف کارواں چل پڑا ہے وہی مزاج بدستور بنا رہے گا یا کوئی نئی ایسی فکر جنم لے گی جو ہر سو قبول ہو؟

بطور خلاصہ ہندوستان تبلیغ اسلام اور خانقاہوں کا عالمی مرکز، لاکھوں مساجد، مدارس، تعلیمی ادارے، حکومت الٰہیہ کی داعی جماعت اسلامی کی موجودگی، تمام مسالک کا پر امن بقائے باہم کی بنیاد پر محکم وجود، عموماًملک گیر سطح پر امن اور خیر سگالی کی فضا، خالص کوئی ہندو سیاسی جماعت آج تک نہیں! ذرا سنجیدگی سے سوچیں جب دور بدلتے ہیں تو نئے نظریات ابھرتے ہیں اور ان سے مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے۔

28 جون،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

----------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/decline-muslim-representation-lok-sabha/d/132626

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..