ودود ساجد
24 مارچ،2024
اس وقت روئے زمین پر دو غیر متوازن
عناصر پر سرپیکار ہیں۔ ایک طرف اپنا حق مانگنے والی کمزور او رنہتی قوم ہے اور دوسری
طرف ان کا حق غصب کرنے والی جابر قوت ہے۔ اسرائیل اور اس سے وابستہ ہر محاذ ایک ہی
سوال اٹھارہاہے کہ سات اکتوبر کو جوہوا کیا وہ دہشت گردی نہیں تھی؟ فلسطینیوں سے ہمدردی
رکھنے والے محاذ اس سوال کے جواب میں پلٹ کر یہ پوچھتے ہیں کیا اسرائیل پچھلے 70 سال
سے اور نتن یاہو حکومت پچھلے 17 برسوں سے فلسطینیوں کے خلاف دہشت گردی کے مرتکب نہیں
ہورہی ہے؟ مسئلہ یہی ہے کہ جن ظالم عناصر کے ہاتھوں میں حکومتیں ہیں وہ کمزوروں پر
کتنی ہی دہشت برپا کر اسے دہشت گردی نہیں کہا جاتاہے۔ جب کہ اپنے حقوق کیلئے جدوجہد
کرنے والے عناصر کے ہر قدم کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتاہے۔
میں نے 15 اکتوبر 2023 کے
مضمون میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ کہیں حماس نے اسرائیلیوں پر سات اکتوبر کا حملہ کرکے
اہل فلسطین کوآگ اور خون کی آندھی میں تو نہیں جھونک دیا ہے؟ فلسطین کے امور کے ماہرین
کے تجزبات بتاتے ہیں کہ آگ اور خون کی آندھی کا سامنا تو فلسطینی ہر روز بصورت دیگر
کرہی رہے تھے۔ اگر اسرائیل کی 70 سالہ تاریخ کو محض چند سطروں میں بیان کیا جائے توکچھ
یوں ہوگی: برطانیہ کی سازش او راقوام متحدہ کی اعانت سے فلسطینیوں کی سرزمین پر پہلے
یہودیوں کی ایک ریاست کاغاصبانہ قیام عمل پر آیا،
پھرفلسطین کے نام پر جو ٹکڑا بچا تھا اس کے تین چار ٹکڑے کرکے فلسطین کے سینہ
میں اسرائیل کو پیوست کیا گیا، بیت المقدس پر ظالمانہ قبضہ کیا گیا‘ لاکھوں فلسطینیوں
کو اجاڑا گیا او رمغربی کنارہ او رغزہ کی آبادیوں کو ایک دوسرے سے کاٹ کر رکھ دیا گیا۔پھر
اقوام متحدہ کی مرضی کے خلاف مزید کئی علاقوں پر قبضہ کرکے دنیا بھر سے شرپسند یہودیوں
کو لاکر وہاں آباد کیا گیا۔ پھر 17 برس پہلے غزہ نامی 23 لاکھ نقوس پر مشتمل آبادی
کو چاروں طرف گھیر لیا گیا او راسی وقت سے اس آبادی کو ضرورت زندگی کی تمام اشیاء سے
محروم کرکے رکھ دیا گیا۔ وجہ یہی تھی کہ اسی علاقہ سے اب مزاحمت کا خطرہ باقی رہ گیا
تھا۔
لہٰذا اصل سوال اب بھی تشنہ
جواب ہے! حکومت اسرائیل کی اس دہشت گردی پر قدغن لگانے کے لئے اقوام متحدہ یا عالم
اسلام یا عالم عرب کیا کیا؟ اگر حماس نے سات اکتوبر2023 کو دہشت گردی برپا کی تو اس
دہشت گردی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟۔کیاغزہ کے نہتے او ربے مایہ شہری ہیں؟ غزہ کے علاوہ
دنیا کا کون سا خطہ ہے جسے کسی غاصب حکومت نے چاروں طرف سے گھیر کر اس کی لاکھوں آبادی
کو دانہ دانہ کا محتاج بنا دیا ہو۔لہٰذا اگر حماس نے سات اکتوبر 2023 کواسرائیل کے
عام شہریوں پر دہشت برپا کی تو اس کااصل ذمہ دار اسرائیل ہے جو پچھلے 70 برسوں سے اہل
فلسطین پر دہشت برپا کئے ہوئے ہے۔ عالم اسلام اور خاص طور پر عالم عرب نے اہل فلسطین
کی مالی مدد ضرور کی لیکن دوسری طرف بعض عرب او رمسلم ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تجارتی
او راقتصادی مراسم استوار کرکے قضیہ فلسطین کو اخلاقی طور پر کمزور کردیا۔ اردن او
رمصر تو دہائیوں سے اسرائیل سے امن سمجھوتے کئے بیٹھے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ تحریک فلسطین
کے قائد یا سر عرفات کے متعدد امن معادے بھی فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں دلواسکے۔ اگر یا سر عرفات کے معاہدیتمام فلسطینیو کی بے چینی
کو ختم نہیں کرسکے اور ایک پائیدار فلسطینی ریاست قائم نہ کراسکے تو یہ اقوام عالم
کے ساتھ ساتھ خود اہل عرب کی بھی سخت ناکامی تھی۔ جن عرب ملکوں نے اسرائیل سے مراسم
قائم کئے وہ محض اپنے مفاد کیلئے کئے۔ اگر مراسم کی استواری سے پہلے وہ اسرائیل پر
مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے دباؤ ڈالتے تو آج صورت حال دوسری ہوتی۔ اس سلسلہ میں سعودی
حکمرانوں نے قدرے شعور سے کام لیا۔ انہو ں نے آج تک بھی مراسم قائم نہیں کئے۔یہا ں
تک کہ روشن خیال محمد بن سلمان نے بھی پچھلے دنوں اسرائیل سے رسم وراہ بڑھائی تو مسئلہ
فلسطین کے حل کو اسرائیل سے مراسم کی استواری کا محور قراردیا۔دکھ ہوتاہے کہ اگر اہل
عرب نے کم سے کم قضیہ فلسطین کے تعلق سے باہم اتحاد کاثبوت دیا ہوتا تو دنیا کی کوئی
طاقت ان کی مرضی کے خلاف فلسطین کو تختہ مشق نہیں بناسکتی تھی۔
اسرائیل او رحماس کی جنگ انتہائی
غیر متوازی جنگ ہے۔ پوری دنیا میں ایسی جنگ کہیں دیکھنے کونہیں ملے گی جہاں مظلوم فریق
نہتا او رکمزور ہواو رظالم فریق ایک طاقتور جابرحکومت ہو۔ اگر اسرائیل کی یہ جنگ محض
حماس کے عسکری محاذ کے خلاف ہوتی اور اس میں غزہ کے عام شہری نشانہ نہ بنائے جاتے تو
صورتحال کسی حد تک قابل قبول او رقابل فہم ہوتی ہے۔لیکن یہاں 32 ہزار سے زائد شہری
شہید 70 ہزار سے زائد زخمی او ربیس لاکھ سے زیادہ لوگ اجڑ گئے ہیں۔ اس کے برخلاف اسرائیل
کی جابر فورسز ابھی تک ایک بھی قابل ذکر حماس لیڈر تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔ اس کا ثبوت
یہ ہے کہ حماس کے قبضے میں جتنے اسرائیلی یرغمال ہیں ان میں سے ایک بھی اسرائیل حاصل
نہیں کرسکا ہے۔ عارضی جنگ بندی کے تحت حماس نے 100 سے زائد اسرائیلی یرغمال چھوڑے تھے۔
یہ جنگ بندی بھی قطر کی ثالثی او رکوششوں سے ہوئی تھی۔ اس میں بھی بالادستی حماس کو
ہی حاصل رہی۔ 100 اسرائیلیوں کے بدلے 300 فلسطینیوں کو رہا کرایاگیا تھا۔ حماس کے قائدین
نے اس سلسلہ میں پچھلے دومہینوں میں ایک سے زائد مرتبہ یہ عہد دوہرایا ہے کہ اب مکمل
جنگ بندی سے پہلے ایک بھی اسرائیلی شہری کو رہا نہیں کریں گے۔ ابھی تک وہ اپنے اس عہد
پر قائم ہیں۔ گوکہ اسرائیل کے حملوں میں کم سے کم سات یرغمالوں کی ہلاکت کی خبر ہے
تاہم اسرائیل اپنے کسی ایک بھی شہری کو زندہ حاصل نہیں کرسکا۔ حال ہی میں حماس نے جنگ
بندی کی جوتین مرحلوں کی تجویز پیش کی تھی اس میں بھی حماس نے اپنی ہی بالادستی رکھی
تھی تاہم اسرائیل نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔
مہذب دنیا کی معلوم تاریخ
میں ایسی جنگیں ہوئی ہیں وہ دوملکوں یا کم سے کم دوبرابر کی طاقتوں کے درمیان ہوئی
ہیں۔ 80 کی دہائی میں ایران او رعراق کی جنگ 90کی دہائی میں عراق کے خلاف اقوام متحدہ
کے سہارے امریکہ کی جنگ 2022 میں آرمینیا او رآذر بائیجان کی جنگ وغیرہ۔اگر ملکوں کو
کچھ خطوں میں سخت گیر عناصر سے لڑنا بھی پڑا تو ان میں سے بیشتر ’گوریلا‘ قسم کی تحریکیں
تھیں۔ لیکن یہاں تو حماس کی ایک سیاسی تاریخ بھی ہے۔ اس نے الیکشن میں کامیابی حاصل
کرکے غزہ پر کئی برسوں تک حکومت بھی کی ہے۔ پھر اس کی عسکری تحریک صرف اندرون فلسطین
تک ہی محدود ہے۔ اس نے اپنی حدود سے باہر جاکر کوئی عسکری کارروائی انجام نہیں دی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے اسے ابھی تک دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیاہے۔ لہٰذا یہ عنصر سمجھنا ضروری ہے کہ ایک طرف مظلوم ’محصور‘
کمزور او رمزاحمتی گروپ ہے اور دوسری طرف ظالم، جابر، طاقتور اور سفاک حکومت ہے۔دونوں
کے درمیان طاقت وقوت کے اعتبار سے کوئی موازنہ اور توازن ہی نہیں ہے۔ اس کے باوجود
اگر حماس کا عسکری محاذ اسرائیل سے لڑرہاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل شکست سے
دوچار ہے۔ میں بار بار کہتارہا ہوں کہ اس پورے منظرنامے کا سب سے تکلیف دوپہلو یہ ہے
کہ بے قصور اور نہتے شہری ہر روز شہید ہورہے ہیں لیکن اس کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ
دہائیوں سے ظلم کرتے رہنے کے باوجود آرام او رسکون سے رہنے والے اسرائیل کا آرام اور
سکون بھی اب غارت ہوگیا ہے۔ پوری دنیا کے سامنے اس کا بھی بھرم ٹوٹ گیا ہے کہ وہ ناقابل
تسخیر ہے۔
غزہ کے محاذ جنگ پر کمزور
فلسطینی طاقتور اسرائیل سے اپنی جنگ خود لڑرہے ہیں۔ ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا
ہے، انہیں یہ باور کرادیا گیاہے کہ اسرائیل سے مزاحمت کی صورت میں انہیں خود ہی مورچہ
سنبھالناہوگا اور اس میدان میں ان کا کوئی ملک ساتھ نہیں دے سکے گا۔ انہیں یہ بھی باور
کرادیا گیا ہے کہ ان کے سارے مسائل کی جڑ حماس ہے او ریہ حماس کے خاتمہ پر تقریباً
سبھی نے اعلانیہ یا بالواسطہ طور پر اتفاق کرلیا ہے۔ الجزیرہ کے سینئر تجزیہ کار مروان
بشارہ کا یہ تجزیہ بہت چشم کشا ہے کہ پہلے عرب اسرائیل کو نہ تسلیم کرنے کو تیار تھے،
نہ دوریاستی حل کو قبول کرنے کو تیار تھے او رنہ ہی اسرائیل کو تحفظ کی ضمانت دینے
کو تیار تھے۔ لیکن اب وہ یہ تینوں کام کرنے کی تیار ہیں۔ بیشتر نے تو براہ راست یا
بالواسطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرہی لیاہے۔ جن دوملکوں اردن اورمصر کی سرحد یں اسرائیل
سے ملتی ہیں ان دونوں نے اس سے امن معاہدے کرہی رکھے،حماس کے بغیر دوریاستی حل کے لئے
اسرائیل بھی تیار ہوہی گیا ہے۔ جہاں تک اسرائیل کو تحفظ کی ضمانت دینے کی بات ہے تو
یہ اسی وقت ممکن ہے جب یا تو حماس کو ساتھ لیا جائے یا اس کا پوری طرح خاتمہ کردیا
جائے۔ یہی وہ اہم اور کلیدی عنصر ہے جس کے سبب عرب دنیا ابھی تک یہ ظالمانہ او ریکطرفہ
جنگ نہیں رکواسکی ہے۔
لیکن اس صورتحال سے جو سب
سے اہم سوال کھڑاہوگیا ہے وہ یہ ہے کہ کیا حماس کو عام فلسطینیو سے الگ کرکے ختم کرنا
ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب انتہائی مشکل ہے۔درجنوں تجزیہ کارکہتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں
ہے۔ پچھلے ساڑھے پانچ مہینوں کی مسلسل تباہی وبربادی ابھی تک پانچ فلسطینی شہریوں تک
کوحماس سے متنفر نہیں کرسکی ہے۔ یہاں تک کہ اندرون فلسطین باہم متحارب مختلف سیاسی
گروپوں کو بھی سیاسی حماس کا خاتمہ منظور نہیں ہے۔ خود فلسطینی اتھارٹی (یا پی ایل
او) بھی حماس کے خلاف کچھ نہیں بول رہی ہے۔ مصطفی برغوثی کی قیادت والے تیسرے بڑے سیاسی
گروپ نے بھی واضح کردیا ہے کہ تمام سیاسی او رمزاحمتی گروہوں کا اتحاد ضروری ہے۔ اندرونی
طور پر اس کی کوششیں شروع بھی ہوگئی ہیں۔ خود مختلف عسکری گروہ بھی ایک دوسرے کا احترام
کرنے لگے ہی۔ ایک واضح پیغام یہ دیا جارہاہے کہ یہ وقت فلسطین کے تمام سیاسی گروہوں
کے منظم او رمتحد ہونے کا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مسئلہ کا کوئی پائیدار حل بھی اسی صورت
میں نکل سکتاہے جب تمام فلسطینی گروہ بھی متحد ہوجائیں۔معلوم ہواہے کہ روس او رچین
اس سلسلہ میں تمام متحارب فلسطینی گروہوں کو جمع کررہے ہیں۔ اسرائیل اب مصر سے متصل
رفح کے علاقے پر بڑے حملہ کی احمقانہ ضد کررہاہے۔اب وہ امریکہ کی بھی نہیں سن رہاہے۔
گوکہ اس سلسلہ میں سب سے منفی اور ظالمانہ کردار امریکہ نے ہی ادا کیاہے۔ اسرائیل کا
خیال ہے کہ حماس کے جانباز رفح میں ہی موجود ہیں۔لیکن اگر اس نے رفح پر حملہ کیا تو
اس کے نتائج غزہ سے بھی زیادہ بھیانک ہوں گے۔ اس علاقے کی اپنی آبادی تو ہے ہی غزہ
سے اجڑے ہوئے لوگ بھی یہیں آباد ہیں۔ کچھ بھی ہو دور سے ہی سہی اب فیصلہ کن موڑ آتاہوا
نظر آرہاہے۔
24 مارچ، 2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism