ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
21 جولائی 2023
تاریخ عالم اس بات کی
گواہ ہے کہ کسی بھی وحدت کا ارتقاء یا اس کا عروج و زوال کئی نشیب و فراز اور ترقی
و تنزلی کے فطری مراحل سے گزرتے ہیں عروج میں جوش کو قابو میں رکھنا ہوتا ہے اور
زوال و پستی میں نسبتاً” عقل و منطق کے تقاضوں کو زیادہ جگہ دینی ہوتی ہے۔
جسے عام فہم زبان میں
فیصلہ کہا جاتا ہے وہ دراصل ہر صورتحال کی تعبیر و تقدیر طے کرتا ہے۔کسی بھی فیصلے
میں پہل، قدم یا تحریک بطور محرکات اپنا عقلی جواز رکھتے ہیں۔ایسا کبھی فوری عمل
کی شکل میں سامنے آتا ہے تو کبھی تاخیر یا انکار کی شکل میں۔ بر وقت اور بر محل
فیصلے تاریخ رقم کر جاتے ہیں اور بیجا عجلت و جلد بازی میں کئے گئے فیصلے بنے
بنائے کھیل کوبگاڑدیتے ہیں۔
زندگی نفسانیت و نفسیات
دونوں کے مابین جنگ کا نام ہے۔ نفسانیت ذات اور ذاتیات کو مقدم رکھتی ہے، جبکہ
نفسیات کا میدان وسیع تر رہتا ہے۔یہ ماضی، حال و مستقبل کے تقاضوں کو سامنے رکھتے
ہوئے متعلقہ جہتوں کے مثبت و منفی اثرات کا احاطہ و تجزیہ کرتی ہے،تحقیق میں جاتی
ہے اور ادراک عمل کی بنیاد پر کسی نتیجے پر پہنچتی ہے۔ آئیے مسلم پس منظر میں
آزاد ہندوستان کی ۷۵
؍سالہ تاریخ کا جائزہ لیں
۔
وطن عزیز ہندوستان میں دو
ہندوستان اپنا وجود رکھتے آئے ہیں۔ ایک کثرت میں وحدت اور تکثیریت کا قائل جو
مرکزی سیاسی منظر نامے پرتقریباً چھ دہائی تک رہا اور دوسرا سنگھ، آر ایس ایس اور
بھارتیہ جنتا پارٹی جس کا سفرآہستہ آہستہ برابر چلتا رہا، بڑھتا رہا اور اقتدار
کی کرسی تک پہلے ریاستوں میں اوراب مرکز تک آ پہنچا ہے۔ اس تبدیلی
کو ذہن میں رکھیں۔ فی الوقت من حیث القوم معاملات کے حوالے سے ادراک عمل سامنے ہے۔
یہاں قطعاًکسی کی تنقید و تنقیص مقصد نہیں، بلکہ ایک منصفانہ تجزیہ پیش نظر ہے۔
ماضی نے جو سبق پڑھائے ہیں ان کو پڑھ لینے میں ہی اب خیر لگتی ہے۔ مزید تاخیر کا
اب جواز نہیں بچتا۔
۱۹۴۹
ء جہاں آئین کی تشکیل اوراس کی منظوری کا سال ہے، وہیں یہ سال بابری مسجد میں
دانستہ مورتیاں رکھے جانے کا سال بھی ہے۔ یہ وہ وقت ہے کہ جب اس وقت کی مقبول ترین
قومی قیادت پنڈت جواہر لال نہرو کی شکل میں موجودہے، سخت فیصلے کرنے والی آہنی
شخصیت سردار ولبھ بھائی پٹیل اور سب سے قد آور مسلم سیاستداں مولانا ابوالکلام
آزاد جیسی ہستیاں موجود ہیں، مگراس حوالے سے فیصلہ معلق! یہاں سے مستقبل کے
ہندوستان میں دائیں بازو کی سیاست کی بنیاد پڑتی ہے۔ مستقبل میں قومی سیاسی مزاج
کی سمت کیا ہوگی اس کو یہاں سے پڑھنا شروع کرنا ہوگا۔
ہندوستان ہندو غلبہ والا
دیش ہے۔ فطری طور پر معاملہ فہمی و فیصلہ سازی میں اکثریت کی ہی چلا کرتی ہے۔
آئین کچھ بھی کہتا ہو باقی سب جمع خرچ ہے‘ سب جگہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم نے نہ زمین
پڑھی، نہ اس کی حقیقت کو سمجھا، نہ مصلحت اختیار کی اور نہ کہیں کسی لچک کا مظاہرہ
ہی کیا! تھے اقلیت مگر زعم اکثریت کا
رکھا۔غلط فہمیوں کی دنیا میں خوش فہمی میں مبتلا رہے۔۱۹۸۶ءمیں بابری مسجد کا تالا
کھلنے سےلے کر ۱۹۹۱
ءمیں عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون بننے تک ، کوئی مستحکم حکمت عملی نہیں! مسلم
اراکین پارلیمنٹ کی سیاسی بصیرت کا یہ عالم کہ اتنے اہم بل کے حوالے سے آئینی
تحفظ مانگنے کی بجائے اس بل کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔کیا فیصلے ایسے ہوتے ہیں؟ ۱۹۹۲ ءمیں مسجد شہید ہوگئی اس
کے بعد بیس برس میں اس قضیے سے جس طرح نپٹا گیا اور اس کا جومنطقی انجام سامنے
آیا وہ سب کے سامنے ہے۔
۱۹۸۶
ءہی میں شاہ بانو کیس جس کا تعلق معمولی نان نفقے سے تھا ، سلمان رشدی اور تسلیمہ
نسرین کی معتوب تصنیفات کو لے کر تنازعات،یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ منانے کی مرحوم
شہاب الدین صاحب کی کال، وندے ماترم کے گانے کو مسئلہ بنا لینا، اتر پردیش
کےاسکولوں میں سرسوتی وندنا شروع کرنے پر مسلم بچوں کو اسکولوں سے نکال لینے کی
کال، اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار، پھر تین
طلاق ‘اب حلالہ، تعدد ازدواج، حجاب اور آگے کاشی و متھرا- اسکے بعد کیا کیا؟ کیا
یہ سب کوئی دعوت فکر دیتا ہے؟
اس دور میں اندرون ملت
ہمارے یہاں کیا ہوتا رہا ذرا اس پر بھی غور کریں۔ بابری مسجد ایک تھی۔ مسجد تو
بازیاب نہ ہوئی البتہ کمیٹیاں دو بن گئیں، مسلم مجلس مشاورت ایک سے دو ہو گئیں،
پرسنل لا بورڈ کئی بن گئے، دارالعلوم تقسیم ہو کر دو ہو گئے، جمعیت علماء بھی ایک
سے دو ہو گئیں، تبلیغی جماعت بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، انڈین یونین مسلم لیگ
کئی حصوں میں بٹ گئی، مسلم مجلس نہ چل سکی، انصاف پارٹی بنی نہ چلی، پیس پارٹی،
مجلس اتحادالمسلمین اور آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ علیحدہ مسلم جماعت و قیادت کو لے
کر ریاستی سطح کے تجربے ہیں ۔آگے اونٹ کس کروٹ بیٹھےگا اللہ بہتر جانتا ہے۔
مفروضہ یہ ہے کہ سارے
مسلمان اس جماعت اور اس ایک قائد کے پیچھے چلیں اور ایسا ہونے میں تمام مسائل کا
حل ہے! اگر ایسا ہے تو ایسا تو ہو چکا ۔پاکستان بناکر دیکھ لیا‘ حشر سامنے ہے۔ یہ
راستہ ہمیں منزل کی طرف نہیں لے جا سکتا۔ ایک گھر اورایک گلی کی سطح پر آج اتحاد
ممکن نہیں! غلط فہمی یا خوش فہمی سے باہر آئیے۔
کبھی یہ نہ سوچا کہ اگر اکثریت کی اکثریت کسی بنیاد پرستی کی طرف چلی گئی تو کیا
ہوگا؟ آپ تو اکٹھے نہ ہوئے مگر...
جب تک بنگلہ دیش نہیں بنا
ہر فساد کے بعد آپ پاکستان جاتے رہے وہاں رشتے کرتے رہے، وہیںدل لگاتےرہے، میچوں میں
ان کی جیت کا جشن اور ہار کا غم مناتے رہے۔ اس سب کا اکثریت کی نفسیات پر کیا اثر
پڑتا رہا کبھی اس حوالے سے غورو فکر کیا؟ ساری مسلم دنیا کے مسائل پر ہم احتجاج
کرتے رہے۔ ہماری فکر کب اور کس نےکی ؟ معاملات یہاں تھے ،مگر ہم کہیں اور ہی
بھٹکتے رہے۔ ادھر۱۹۵۱
ءمیں دائیں بازو کی سیاست کا ہمارے یہاں آغاز بھارتیہ جن سنگھ کے قیام سے عملاً
وجود میں آتا ہے۔گوکہ اس کی جڑ ۱۹۱۵
ءمیں ہندو مہا سبھا اور ۱۹۲۵
ء میں قیام آر ایس ایس کے پس منظر میں دیکھے جانے کی متقاضی ہے۔ اس کے نظریہ کے
مطابق بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کا تصور اول وقت سے موجود ہے۔ اس کو یہاں سےآزاد
ہندوستان میں اپنے نظریے کو فروغ ملنےاور دینے کی زمین مل جاتی ہے۔ ۱۹۸۶ ءمیں ایک ضلعی عدالت کے
حکم نامے کے مطابق کس قدر جلد بازی میں بابری مسجد کا تالا کھولا جانا اور وہاں
پوجا کی اجازت ملنا مسلمانان ہند کےلئے مستقبل کےسیاسی مزاج اور فیصلوں کے حوالے
سے کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں تھا۔ ہم دلدل میں خود ہی پھنستے چلے گئے اور جن کو
حاشیے پر لانے کا خواب تھا وہ اقتدار تک پہنچ گئے ۔اب کاشی اور متھرا کی مساجد پر
دعوے ہیں ۔سابقہ فیصلہ مستقبل کے فیصلوں کا مزاج بتاتا ہے۔ متشدد عناصر کے کئی
ہزار مساجد پر دعووں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کیا کسی ایسے قدم کی طرف بڑھنا ممکن
ہے جو اس کی جڑ کو کاٹ دے۔ ملک کے طول وعرض میں مکدر ہوئی فضا اور مذہبی منافرت کا
ہر نفس میں کم یا زیادہ سرایت کرجانا، تنگ ہوتی ہوئی سیاسی و معاشرتی زمین حالات
کو کہاں لے جا کر چھوڑے گی۔ کیا یہ قابل غور
نہیں؟ ہم کس طرح فیصلے کرتے ہیں؟ ہمیں اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ اب ماضی
کا طرز ترک کرنا ہوگا۔ معاملہ فہمی اور کچھ لچک پیدا کرکے زمین کو ہموار کرنے کے
علاوہ کوئی دیگر راستہ ہے ہی نہیں۔ایک اور اہم نکتہ جس پر ہم نے کبھی غور نہیں کیا
۔دیگر اقلیتوںنےاپنی مذہبی شناخت کا اس طرح کبھی ڈھول نہیں پیٹا، جس طرح ہم نےہر
وقت مسلمان اوراسلام کی بات کی، مگر توقعات کےوقت سیکولرزم کی دہائی دیتے رہے۔
البتہ اپنا طرز عمل خالص فرقہ وارانہ رکھا۔ سبق ہم سب نےہی پڑھائے ہیں‘ اب تو فصل
کٹ رہی ہے۔ دوسرے جموں و کشمیر جو واحد مسلم اکثریتی سرحدی ریاست تھی جس نے
ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا‘ اس کی قیادت کو آزاد ہندوستان کی مسلم
قیادت کا کردار نبھانا تھا وہ پاکستان کی طرف دیکھتےرہے۔ ان کی طرف نہ دیکھ کر
خالص ہندوستان اورہندوستان میں کثیر مسلم آبادی سے جڑ کر چلنا تھا۔ ہندوستانی
مسلمان نےبھی کشمیری مسلمانوں کو اپنا حصہ نہ سمجھا اور ایسا ہی کشمیری مسلمان نے
بھی کیا۔ یہاں سے بہت سی گرہیں کھلتیں اور کھل سکتی تھیں مگر اس کے بر عکس سب کچھ
الجھتا چلا گیا۔قطعی طور پر آج یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت ہندو راشٹر ہے ۔یہاں
ہندو اکثریت کو ہر میدان میں بالا دستی فطری طور پر حاصل ہے اور رہے گی۔ اس کا
مذہبی عقیدہ، رسم و رواج، اقدارو روایات، صحائف اور جذبات کا ہر معاملے پر پہلا
عمل دخل ہے اور رہے گا۔ برابری کی باتیں اور سیکو لرزم کی دہائی دینا بند کریں ۔
آپ ایک ایسی اقلیت ہیں جس کا ایک حصہ وطن تقسیم کروا چکا ہے۔ دوسرے اس کے ہم
مذہبوں نے اس ملک پر آٹھ سو سال حکومت کی ہے ،جس میں اگر بہت کچھ میٹھا ہے تو
کھٹا بھی ٹھیک ٹھاک ہے، یہ وہ سب ہے جو جتنا جلدی سمجھ لیا جائے اتناہی بہتر ہے۔
میری باتیں اچھی نہیں لگیں گی، مگر جو وقت پر آئینہ نہ دکھلائے وہ منافق ہوتا ہے
جو میں ہر گز نہیں۔
21 جولائی 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism