New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 09:05 AM

Urdu Section ( 26 Dec 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The 'Death' Of Trust... ’اعتبار کی ‘موت

ودود ساجد

24دسمبر،2023

اگر ممتاز ماہرین قانون اور سپریم کورٹ او رہائی کورٹ کے سبکدوش جج حضرات عدالتوں اور خاص طور پر سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تعلق سے کھلے عام مایوسی ناامیدی اور نقد ونظر کا اظہار کریں تو ہم جیسے عام لوگوں کی تشویش کا پیمانہ کیا ہوگا۔ دفعہ 370 کے فیصلہ پر معروف بزرگ ماہر قانون ‘فالی ایس ناریمن’ نے کھلے طور پر سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے فیصلہ کو غلط اور قانونی طور پر ‘برا’ قرار دیا ہے۔سپریم کورٹ کے سبکدوش جج جسٹس روہنٹن ناریمن نے بھی کہا ہے کہ ملک کے پریشان کن حالات میں سپریم کورٹ کے چند فیصلے اور سیاسی واقعات انتہائی تشویشناک ہیں۔ دفعہ 370 کے فیصلہ کے حوالہ سے جموں وکشمیرکی سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر فاروق عبداللہ او رمحبوبہ مفتی نے بھی مایوسی اور نقد ونظر کا اظہار کیا ہے۔ ادھر متھرا او ربنارس کی مسجدوں کے تعلق سے مقامی عدالتوں آلہ آباد ہائی کورٹ او رخود سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں سے بھی متاثر ہ فریق کو مایوسی ہوئی ہے ۔ ان حالات میں عوام الناس کے ذہن میں عدلیہ کی جو تصویر بن رہی ہے وہ بہت تشویش ناک ہے۔

موجودہ چیف جسٹس ڈی والی چندرچوڑ کو اس منصب پر آئے ہوئے ایک سال ہوگیا ہے۔ان کامزید ایک سال باقی ہے ۔اتنا یا اس سے زیادہ وقت بہت کم چیف جسٹس کے حصہ میں نہیں آئیں گے۔ تاہم 2028 میں جسٹس جے بی پاردی والا اس منصب پر دوسال کے لئے فائز ہوں گے۔ وہ غالباً ملک کے پہلے پارسی چیف جسٹس ہوں گے۔ ملک کی سب سے بڑی(مسلم) او راس سے چھوٹی (سکھ) اقلیت سے تعلق رکھنے والے جسٹس اے ایم احمدی اور جسٹس جے ایس کیہر بھی چیف جسٹس رہ چکے ہیں ۔ بہت سے جج حضرات سبکدوش ہونے کے بعد کچھ ایسی باتو ں کا انکشاف کرتے ہیں کہ جو سننے میں حیرت انگیز لگتی ہیں اور انصاف کے طالب طبقات ہاتھ مل کر رہ جاتے ہیں کہ کاش ایسی کچھ بصیرت اور درد مند ان جج حضرات نے اس وقت دکھائی ہوتی جب وہ منصب پر فائز تھے۔موجودہ چیف جسٹس کے تعلق سے اس وقت بہت سے حلقوں نے بھاری بھرکم امیدوں کا اظہار کیا تھا جب انہوں نے یہ منصب سنبھالا تھا۔لیکن اب تو خود ماہرین قانون اور سبکدوش جج حضرات ہی سپریم کورٹ کے تعلق سے تشویش اور شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔ اولین پیراگراف میں مذکورہ ممتاز ماہرین قانون ‘فالی ایس ناریمن اور سپریم کورٹ کے سبکدوش جج جسٹس روہنٹن ناریمن کی تشویشات اس ضمن میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پرتنکر دواکرنے 21نومبر 2023 کو سبکدوش ہونے کے بعد اپنی الوداعی تقریب میں جو انکشاف کیا وہ بالکل اسی طرح حیرت انگیز تھا جس طرح خود ان کے دوتازہ فیصلے تھے۔ ایک فیصلہ میں انہوں نے آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کی ٹیم کے ذریعہ بنارس کی گیان واپی مسجد میں علی الصباح جارحانہ سرعت کے ساتھ سروے شروع کرنے کو جائز قرار دیا تھا ۔دوسرے فیصلہ میں انہوں نے گیا ن واپی مسجد کی انتظامیہ کے ایک مقدمہ کو عین اس روز اپنی عدالت کو منتقل کرنے کا حکم جاری کردیا جس روز دوسرے جج جسٹس پرکاش پاڈیا اس پرفیصلہ دینے والے تھے۔

جسٹس دواکرنے الزام عاید کیا کہ 2018 میں سپریم کورٹ کا لجیم نے ان کا تبادلہ بدنیتی سے اور ہراساں کرنے کیلئے کیا تھا۔ اس انکشاف میں انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس دیپک مشرا پر بطور خاص نشانہ سادھا۔ عام طور پر جج حضرات سبکدوش کے بعد اپنی الوداعی تقریب میں اس طرح کے الزامات عاید نہیں کرتے۔لازمی طور پر کوئی بات ضرور ہوگی کہ جس کے سبب جسٹس دواکر کو اپنے ساتھ ہونے والی‘بدنیتی’ او ر‘ہراسانی’ کا اتنا دکھ تھا کہ انہوں نے پانچ سال تک اسے سینہ میں چھپائے رکھا اور اب جب وہ اخلاقی بندش سے آزاد ہوگئے تو انہوں نے عدالت کے احاطہ سے باہر آنے تک کا بھی انتظار نہیں کیا اور عین اس وقت جب انہیں ہائی کورٹ کے تمام جج اور بار ایسوسی ایشن کے تمام وکلاء الوداعیہ دے رہے تھے ’ اس دکھ کا اظہار کردیا۔

یہاں تک پھر بھی بات غنیمت تھی لیکن انہوں نے اس قضیہ میں موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کا نام بھی جوڑ دیا۔انہوں نے چیف جسٹس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے میرے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو درست کیا او رمجھے ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کرنے کی سفارش کی۔ہمیں ان کے ساتھ ہونے والی ‘بدنیتی ’اور ‘ہراسانی’ پر کچھ نہیں کہنا ۔اگر فی الواقع ان کے ساتھ ایسا ہوا ہے تو ہمیں ان کے ساتھ ہمدردی ہے۔ لیکن انہیں اس قضیہ کے ساتھ موجودہ چیف جسٹس کا نام نہیں جوڑ نا چاہئے تھا۔ اگر وہ اپنی قانونی صلاحیت اور آئین کے مطابق فیصلہ لکھنے کی اہلیت اور سینیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس مقرر ہوئے تھے تو یہ ان کا حق تھا اور اس میں چیف جسٹس کا شکریہ اداکرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ایساکرکے انہوں نے چیف جسٹس کی معتبریت پر ہی سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔

گیان واپی کے سروے کا قضیہ یہ ہے کہ 21جولائی کو ضلع عدالت نے گیان واپی کا سروے کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ اس کے خلاف مسجد انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ۔ سپریم کورٹ نے عارضی اسٹے جاری کرکے مسجد انتظامیہ کو الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کوکہا۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دواکر نے سماعت کے پہلے دن اسے ایس آئی کی خوب سرزنش کی کہ آخر اتنے بھاری آلات او رجے سی بی کے ساتھ علی الصباح سروے کے لئے جانے کی کیا جلدی تھی۔ لیکن اگلے ہی روز انہوں نے اس سروے کو جائز قرار دے دیا۔مسجد انتظامیہ نے ہندوفریق کی مقامی عدالت میں اس رٹ کے خلاف ہائی کورٹ 2020 میں اپیل دائر کی تھی جس میں مسجد کی جگہ کو ‘مکیشور مندر ’ کے طور پر بحال کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ مسجد انتظامیہ نے کہاتھا کہ یہ رٹ قابل سماعت ہی نہیں ہے۔ ایسی رٹ کی موجودگی میں مقامی عدالت کا سروے کرنے کا حکم جاری کرنا بجائے خود درست نہیں تھا ۔ کیا مقامی عدالت کو اس رٹ پرایسے وقت میں ہائی کورٹ کے فیصلہ کاانتظار نہیں کرناچاہئے تھا کہ جب ہائی کورٹ نے اس پرفیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔3 اگست،2023 کو جب جسٹس پرکاش پاڈیایہ فیصلہ سنانے والے تھے کہ اسی روز چیف جسٹس دواکرنے اسے اپنی عدالت کو منتقل کرلیا۔ بعد میں جب متاثرہ فریق نے اس پر اعتراض کیا اور چیف جسٹس سے اس کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے کچھ تکنیکی خامیوں کا حوالہ دے کر اپنے فیصلہ کو جائز قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ میں بھی متاثرہ فریق نے یہ سوال اٹھایا لیکن چیف جسٹس کی بنچ نے کہہ دیا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی نیت پر شبہ کرنا درست نہیں ۔

چیف جسٹس دواکر نے 21نومبر کو ریٹائر ہوگئے اور ان کی بنچ اس مقدمہ کو نہ سن سکی لیکن ان کی سبکدوشی کے بعد یہ معاملہ جسٹس روہت رنجن اگروال کی بنچ کو سونپا گیا جنہوں نے 19دسمبر 2023 کو مذکورہ بالا معاملہ پر فیصلہ دیتے ہوئے ہندو فریق کی عرضی کو قابل سماعت قرار دے دیا او رکہا کہ 1991 کا وہ ایکٹ جس کی رو سے عبادت گاہوں کی وہی حیثیت برقرار رہے گی جو 1947 کو تھی گیان واپی کے سروے کی راہ میں مانع نہیں ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جس جج نے اس معاملہ کی 75 سماعتیں کرکے 2021 میں فیصلہ محفوظ کرلیا تھا آخر اسے فیصلہ کیوں کرنے نہیں دیا گیا؟ کیا محض چند تکنیکی سوالات کی بنیاد پر اتنی تفصیلی سماعت کے بعد اس مقدمہ کو کسی اور بنچ کو منتقل کرنادرست تھا؟ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محض ایک دو سماعت کے بعدکیا گیا فیصلہ زیادہ قابل قبول ہوگا یا 75 سماعتوں کے بعد کیا گیا فیصلہ مستند ہوگا؟ اس سے قبل الہ آباد ہائی کورٹ نے متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کے سروے کے حکم کو بھی جائز قرار دے دیا۔کاشی اور متھرا دونوں شہروں کی مسجدوں کے سروے کا حکم تقریباً ایک جیسا ہے ۔دونوں کے فیصلوں میں کہا گیا ہے کہ 1991 کا عبادت گاہوں کے تحفظ کا ایکٹ مذہبی مقامات کی حیثیت کے تعین کے لئے سروے کرنے سے نہیں روکتا۔سوال یہ ہے کہ پھر اس ایکٹ کی افادیت اور ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا یہ محض ایک دھوکہ تھا؟ اس سوال پر ماہرین قانون ہی بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں ۔ لیکن یہ ایکٹ نرسمہا راؤ حکومت نے جس مقصد کے لئے وضع کیا تھا وہ مقصد تو کبھی کافوت ہوچکاہے۔ عدالتوں کے فیصلوں اور رحجانات سے نہیں لگتا کہ عدلیہ کے اندر اس ایکٹ کا تقدس برقرار رکھنے کی کوئی خواہش موجزن ہے۔

دفعہ 370 کے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر سیاسی اور آئینی ماہرین کی آراء آہی چکی ہیں ۔ماہرین قانون نے اس غلط او رقانون میں ‘برا’ فیصلہ قرار دیا ہے۔ جموں وکشمیر کے بعض سیاسی لیڈروں نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ہے انصاف نہیں۔ اسی طرح کا احساس اس وقت ہوا تھا جب تمام شواہد بابری مسجد کے حق میں ہونے کے باوجود دفعہ 142 کے تحت حاصل اختیارات کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے مسجد کی جگہ مند کیلئے دے دی تھی۔ اس وقت بھی متاثرہ فریق کی طرف سے کہا گیا تھا کہ یہ فیصلہ ہے انصاف نہیں۔ گزشتہ 20دسمبر کو جمعیت علماء کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بھی کہا کہ ہم اپنی مسجدوں سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔ یہ صورتحال صرف کسی ایک مخصوص لسانی یا مذہبی اقلیت ہی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ سیاسی جماعتیں بھی اس سے متاثر ہیں ۔ دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا کی ضمانت کی اپیل پر تفصیلی سماعت کے دوران جسٹس سنجیو کھنہ کی بنچ زور دے کر کہتی ہے کہ ٹرائل کے دوران یہ معاملہ دومنٹ بھی نہیں ٹک سکتا لیکن جب ان کا فیصلہ آتا ہے تو سسودیا کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ بار بار کہتی رہی کہ ٹرائل شروع ہونے سے پہلے لمبے عرصہ تک ملزمین کو جیل میں نہیں رکھا جاسکتا لیکن کتنے ہی مسلم نوجوان بعینہ اسی صورتحال کاشکار ہیں او رسپریم کورٹ میں ان کی درخواست ضمانت پر بار بار سماعت ٹل جاتی ہے۔

یہ سطور ہمیں یقین ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا تک ترجمہ ہوکر ضرور پہنچیں گی ۔لہٰذا آخری سطور میں براہ راست انہی سے ایک بات عرض کرنی ہے۔ جسٹس روہنٹن ناریمن نے کم سے کم چار مثالیں دے کر ملک اور عدلیہ کے تعلق سے اپنی تشویش کا اظہا رکیا ہے۔ انہوں نے میڈیا کی آزادی پر قدغن غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں گورنر وں کی کار کردگی ،الیکشن کمیشن بل اور دفعہ 370 کے فیصلہ پر اپنی سخت رائے ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے عدلیہ کو انتہائی سخت موقف اختیار کرناچاہئے ۔ مذکورہ بالا سطور کی روشنی میں بلا تکلف کہا جاسکتاہے کہ عدلیہ کے حوالہ سے عوامی اعتبار کی موت ہوچکی ہے۔ کیا آپ اس اعتبار کو زندہ کرنے کیلئے متاثرہ فریقوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو اسی طرح درست کرسکتے ہیں جس طرح آپ نے جسٹس دواکر کو الہ آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا کر ان کے ساتھ ہونے والی ‘ ناانصافی’ کو درست کیا تھا؟

24دسمبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-----------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/death-trust/d/131386

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..