New Age Islam
Mon May 12 2025, 06:04 PM

Urdu Section ( 24 Jan 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Dargah Khwaja Gharib Nawaz and Golden Temple درگاہ خواجہ غریب نواز اور گولڈن ٹیمپل

ڈاکٹر غلام زرقانی

21 جنوری،2023

سب سے پہلے تو واقعہ کے راوی سے متعارف ہولیجئے ۔ تقریباً گیارہ بارہ سالوں پیشتر کی بات ہے کہ عشا کی نماز سے چند گھڑی پہلے ہمارے ادارے میں ایک صاحب داخل ہوئے او رکہنے لگے کہ آج میری سالگرہ ہے او رمیں مسجد کی تعمیر و ترقی کے لیے کچھ چندہ دینا چاہتا ہوں ۔ میں نے اشارے سے چندے کے ڈبے کی جانب نشاندہی کردی۔ انہوں نے اس کچھ ،ڈالر ڈال دیے اور واپسی کے لئے مڑنے لگے۔میں نے ان سے کہا کہ عشا کی جماعت کھڑی ہونے والی ہے ۔آپ نماز ادا کرکے جائیے ۔ انہو ں نے بغیرکسی لگی لپٹی کے صاف کہہ دیا کہ میں اسماعیلی ہوں، مسلمان نہیں ہوں۔اس لیے نماز پڑھنے کا طریقہ نہیں جانتا۔ تھوڑی دیر کے لیے میں سوچتا رہا،پھر ان سے مخاطب ہوکر رسمی گفتگو کردی۔ اسی دوران میں نے ان سے کہا کہ اگر مسجد آہی گئے ہیں، تو ہمارے پیچھے نماز کی نقل ہی کر لیجئے۔ وہ میر ی دلجوئی کی خاطر صفوں کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔

میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ اختتام جماعت کے بعدواپس چلے گئے ہوں گے ،لیکن اس وقت میری حیرت دوچند ہوگئی، جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مسجد کے ایک کونے میں بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے۔ سنت، وتر اور نوافل سے فارغ ہوا، تو وہ میرے قریب آئے او رکہنے لگے کہ مجھے سجدے میں وہ لطف محسوس ہوا ہے، جو میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے پہلے سجدے میں اس قدر لطف محسوس ہوا ہے، تو اندازہ لگائیے کہ مسلمان ہونے کے بعد سجدے میں کس قدر سکون ،لذت اور اطمینان حاصل ہوگا؟ وہ اس وقت تو کچھ جواب نہ دے سکے، تاہم دوتین دنوں بعد دوبارہ آئے او رمژدہ جاں فزا سنایاکہ وہ حلقہ اسلام میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ میں نے بلاتاخیر انہیں کلمہ پڑھایا اور وہ باضابطہ مسلمان ہوگئے ۔اب حال یہ ہے کہ وہ پنچ وقتہ نمازی ہیں اور دین اسلام کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

بہرکیف یہ صاحب کل مجھ سے بیان کررہے تھے کہ میرے ایک قریبی اسماعیلی گزشتہ ہفتے ہندوستان کے سفر سے لوٹے ہیں۔ وہ اپنی بوڑھی والدہ او راہل خانہ کے ہمراہ مختلف شہروں کی سیاحت کرتے ہوئے پنجاب میں واقع گولڈن ٹیمپل بھی گئے۔ آگے کی سرگذشت خود ان کی زبانی سماعت کیجئے۔ وہ کہتے ہیں ہم سب مقررہ پروگرام کے مطابق گولڈن ٹیمپل کے قریب پہنچے ، تو ہمیں علاقے کی صفائی ستھرائی او ررکھ رکھاؤ دیکھ کر نہایت ہی حیرت ہوئی۔ سڑکوں پر آمد ورفت بھی سلیقے سے ہورہی تھی او رلوگ باوقار انداز میں ہولے ہولے چل رہے تھے ۔ بہر کیف ہم جوں ہی گولڈن ٹیمپل کے احاطے میں داخل ہوئے، تو وہاں کھڑے رضاکار مدد کے لیے تیزی سے آگے آگئے اورگزارش کی کہ ہمیں خدمت کا موقع عطا کیجئے ۔ پھر وہ نہایت ہی مستعدی کے ساتھ میری بوڑھی والدہ کو کار سے اتارنے لگے۔ دوسرے ساتھی نے ویل چیئر درست کی اور ٹیمپل کے اندر جانے سے پہلے ان کے جوتے اتارے او رانہیں موزے پہنائے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیے رکھا۔ کہیں بھی مجھے ویل چیئرچھونے تک نہ دیا، حتی کہ مختلف راہداریوں سے گزرکر جب ہم ایک ہال میں پہنچے تو سامنے ٹیبل پر رکھے ہوئے سکھ مذہب سے متعلق چند تحائف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو چیز پسند کریں، ہماری طرف سے مفت لے سکتے ہیں، تاکہ یہ آپ کے سفر کی یادگار رہے۔ میں نے شکریے کے ساتھ ایک چیز اٹھالی ۔ میں نے واپسی پر پوچھ لیا کہ آخر کیا بات ہے کہ ہندوستان میں موجود دوسر ی زیارت گاہوں، درگاہوں اور سیاحتی مراکز کے برخلاف یہاں مجھے ایک بھی بھکاری دکھائی نہیں دے رہا ہے؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ گولڈن ٹیمپل کے چاروں طرف چار پانچ سڑکوں تک کسی بھی بھکاری کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

راوی کہتے ہیں کہ وہ لوگ پنجاب سے سیدھے سلطان الہند بارگاہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کی زیارت کے لیے اجمیر شریف حاضر ہوئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم درگاہ کے آس پاس کے علاقے میں گندی ،اور سڑک کے کنارے بھکاریوں کی یلغار دیکھ کر حیران رہ گئے۔ پھر جوں ہی ہماری کار بلند دروازے کے قریب پہنچی ، تو کار کا دروازہ کھولنامشکل ہوگیا۔ بھکاری ایک دوسرے کو دھکا دے کر پیالہ ہمارے منہ کے سامنے کیے دے رہے تھے۔ بہر کیف ،بہت تگ ودو کے بعد میں نے کسی طرح ویل چیئر باہر نکالی او روالدہ کو بٹھاکر اندر داخل ہوا۔ یہاں دور دور تک مجھے کوئی رضاکار دکھائی نہیں دیے ، ہاں یہ ضرور ہواکہ چند نفیس لباس پہنے ہوئے افراد آگے بڑھے اورزیارت کروانے میں مدد کی پیشکش کی۔ میں نے ان میں سے ایک صاحب کو ساتھ لے لیا۔ مجھے حیرت یہ ہوئی کہ وہ جس طرف بھی لے کر جاتے او رکچھ بتاناچاہتے، وہاں چند بھکاری سامنے آکر زور زور سے التجائیں کرنے لگتے۔ اب ہم مزار مقدس کے دروازے کے قریب پہنچے ، تو دیکھا چند افراد فاتحہ خوانی اور لنگر کے اخراجات میں کچھ دینے کی درخواست کررہے ہیں، پھر جب مزار کے اندر داخل ہوئے ، تو یہاں بھی ایک صاحب نے چادر کاکونہ سر پر رکھا اور پیالے میں کچھ ڈالنے کی التجا کردی۔ اور تو اور جب ہم زیارت کرکے واپس جانے لگے، تو جس خوش لباس شخص کے ساتھ ہم نے زیارت کی تھی، وہ بھی نذرانہ لینے کے لیے میرے طرف دیکھتے رہے۔

اب راوی مجھ سے مخاطب ہوئے او رکہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب،ہمارے اسماعیلی دوست حیران ہیں ۔ وہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ جن کی وساطت سے بر صغیر پاک و ہند میں اسلام کی نشر واشاعت ہوئی،آخر ان سے منسوب عالمی شہرت یافتہ درگاہ کے ساتھ انصاف کیوں نہیں ہورہا ہے؟ ایک وہ مذہب ، جس کی بنیاد سراب پر ہے،ان کے یہاں صفائی ستھرائی ، رکھ ررکھاؤ اور خدمت انسانیت کے جذبات کس قدر موجزن ہیں؟ کیا یہ حیرت انگیز نہیں ہے کہ بارگاہ خواجہ غریب نواز میں پہنچنے کے بعددین اسلام کی تعلیمات اور روحانیت کے نورانی جلوؤں میں ڈوب کر بے خودی کی طاری ہونے کے بجائے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف سے نوچنے او رکھسوٹنے کی کوشش ہورہی ہے۔ کیا یہی خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کا پیغام ہے اور کیا یہی ان کی تعلیمات تھیں؟

میں خود سکستہ میں ہوں ۔ یہ تاثرات ایک غیر مسلم کے ذریعہ ہم تک پہنچ رہے ہیں، مگر ہیں تو سچے ۔ مجھے یقین ہے کہ درگاہ خواجہ غریب نواز کے ارباب حل وعقد اگرچاہیں تو یہاں عہد جدید کے آئینے میں ایک پرسکون ، باوقار اور روحانی جلوؤں سے سرشار حالات بنائے جاسکتے ہیں، جہاں سے ساری دنیا میں دعوت وتبلیغ اور رشد وہدایت کی ایک منظم آفاقی تحریک شروع ہوجائے، تو کوئی حیرت و استعجاب کی بات نہیں ۔

21 جنوری،2023 ، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

-------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/dargah-khwaja-gharib-nawaz-golden-temple/d/128953

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..