پرکھر، نیو ایج اسلام
3 جنوری 2023
میں نے آج فلم محافظ
دیکھی۔ انیتا دیسائی کے انگریزی ناول 'ان کسٹڈی' پر مبنی یہ فلم 1993 میں اسماعیل
مرچنٹ نے بنائی تھی۔ میری سمجھ کے مطابق 'محافظ' کا ترجمہ 'Custodian' بھی ہو سکتا ہے۔ اس
فلم میں اوم پوری نے پروفیسر کا جو کردار ادا کیا ہے وہ بالکل درست اور واضح نہیں
ہے، لیکن فلم کے اختتام تک آپ سمجھ جائیں گے کہ مصنف نے کتاب کی کہانی سے پرے رکھ
کر اس کردار کو حقیقت کا جامہ پہنا کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ سب سے کم سمجھا
آنے والا کردار ہے اور یہ وہ کردار ہے جو پوری فلم میں معاشرے کے سامنے آئینہ لیے
گھوم رہا ہے، لڑ رہا ہے۔ اس کی لڑائی سماج سے ہے، اور مستی خور معاشرہ بھی خود اس
کے ساتھ الجھنا چاہ رہا ہے۔ اس کشمکش اور تصادم کی وجہ سے جو مسائل ہمارے سامنے
پیدا ہوتے ہیں، وہی آئینہ بن جاتے ہیں، جنہیں آج کے معاشرے میں جگہ نہیں ملتی۔
بات صرف اتنی ہے کہ آج کے
دور میں اردو زبان، اردو شاعروں اور ان کی شاعری کو بچانے کی کوشش میں جو بھی
کھڑکی سے باہر جھانکتا ہے فوراً جوتوں اور چپلوں کی بارش اس پر ہوتی ہے۔ اس تناظر
میں یہ زبان اور اس کے اصل زبان داں جائیں تو کہاں جائیں؟ یہ فلم تقریباً تیس سال
پہلے بنی تھی اور کسی بھی اعتبار سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آج کے حالات اردو کے
لیے بہتر ہیں۔ ناسمجھی ہوگی، احمقی ہوگی۔ کہنے کو تو غالب کے نام پر جشن ہو رہے
ہیں، میر کے نام پر جشن ہو رہے ہیں، ریختے کے نام پر جشن منائے جا رہے ہیں، اور ان
سب میں اردو صرف اتنی ہی بچ گئی ہے، جیسے کوڑے دان میں پھینکی گئی پلاسٹک کے کپ
میں چائے۔
اگر میں کہوں کہ نئی نسل
کی نئی شاعری اچھی ہے (ہو گی بھی) صرف اس لیے کہ وہ مشہور ہے تو یہ سراسر ظلم ہو
گا۔ اردو کی حیثیت صرف اتنی ہی رہ گئی ہے کہ عاشق کو بے ترتیب شعر سنایا جائے اور
دل بہلایا جائے۔ غزل تو کچھ بچی نہیں، فنکارانہ آزادی کے نام پر سب کی غزلیں ایک
الگ دور کی غزلیں ہیں اور نظم و شاعری صرف لکھنے والے کی سمجھ میں آتی ہے، سننے
والے کو نہیں۔ کوی سمیلنوں اور مشاعروں میں الفاظ کی فنکاری اور ان کے ناز و انداز
کے علاوہ، رقص اور جلوں کا ان کے مداحوں کا ہجوم آپ کو بھر پور ملے گا۔ یہ سب وہ
واقعات ہیں، جہاں کہنے کو زبانداں موجود ہیں۔ یہ مصنوعی اجتماعات جتنے چلن میں ہیں
اتنے ہی معدوم بھی ہیں۔
جس طرح مسلمانوں کو معاشرے
سے نکال کر بستیوں میں ڈال دیا گیا ہے، کیا اسی طرح اردو زبان بھی بستیوں کی زبان
ہو کر رہ جائے گی؟ کیا یہ بھی اپنوں تک ہی سمٹ کر رہ جائے گی؟ کیا اردو کی حفاظت
کرنا صرف مسلمانوں پر فرض ہے؟ کہاں ہیں اخبار، کہاں ہیں رسائل و جرائد؟ سرکار، اگر
آپ کو ہندی کا اتنا خیال ہے، تو ہندی کے ہی رسالے کہاں ہیں؟ آج کون سا لڑکا یا
لڑکی ہے جو اردو کو چھوڑیے دیوناگری میں ہی مکمل مصرع بھی لکھ سکتے؟
دہلی جیسے شہر کا ہجوم
جہاں کسی زمانے میں اردو تو اردو، ہر زبان کا اتنا احترام ہوا کرتا تھا، آج فلاں
فلاں تقریبات میں صرف تصویریں بٹورنے اور اپنی ہوشیاری اور ناسمجھی کا ثبوت دینے
کے لیے شریک ہوتی ہے۔ وہ اردو کے نام پر 70 روپے کی چائے تو پیتی ہے، لیکن 10 روپے
میں قاعدہ خرید کر اسے پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی۔
آج کا معاشرہ حرص اور نقل
پر چلنے والا معاشرہ ہے، محبت سے بالاتر ہو کر عاشقی کرنے والوں کا معاشرہ ہے، اسے
شوق اور دیوانگی کی سمجھ نہیں ہے اور زبان کا شوق اس جاہل معاشرے کے بس کی بات
نہیں۔
غالب کا ایک شعر ہے:
نقش فریادی ہے کس کی شوخی
تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر
تصویر کا
یہ معانی اب اپ ادھر ادھر
تلاش نہ کریں، صرف وہی پڑھیں جو لکھا ہے۔ نقش ہی فریادی ہے اور نقش بیمار۔ کوئی
زبان کبھی کسی کی جاگیر نہیں رہی۔ جس تحریر میں معاشرہ کی عکاسی نہیں ہوتی، وہ
تحریر معاشرے میں منعکس نہیں ہوتی۔ ایسے ہی ایک زبان بھی ختم ہو جائے گی اور
معاشرہ بھی۔ نہ ہم ہم رہیں گے نہ آپ آپ، اور نہ آپ کا معشوق۔ حکومت ہندی کی وکالت
کر رہی ہے، لیکن اردو سڑک کے کنارے، بغل میں ایک مجموعہ دبائے کھڑی صدیقی صاحب کی
حویلی کو ٹوٹتا ہوا دیکھ رہی ہے، جسے دہلی کے ایک صاحب نے خریدا ہے۔ اب وہاں ایک
نئی مارکیٹ، فلیٹ اور دفاتر بنیں گے۔ صدیقی صاحب کہہ رہے ہیں کہ ان کے کندھوں سے
ایک بوجھ ہٹ گیا ہے اور دیون جو اردو کے پروفیسر ہیں، اس مجموعے کو بغل میں دبائے
کھڑے ہیں، دھول کے غبار کے بیچ فلم کچھ یوں ہی ختم ہوتی ہے۔
------
Hindi Article: The Custodian of
Urdu Language उर्दू का ‘मुहाफ़िज़’
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism