مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
24 ستمبر،2021
حکومت کے تعاون اور اثر سے
آزادبرصغیر کےدینی مدارس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے،موجودہ دور میں عام طور پر تعلیم
وتعلم کا مقصد کسب معاش ہوا کرتاہے، اسی لئے جب کسی کورس کی ترغیب دی جاتی ہے تو بطور
خاص ا س بات پر زور دیا جاتاہے کہ اس سے آئندہ کیا معاشی مواقع پیدا ہوں گے؟ عام طور
پر ہمارے عصری اداروں میں بہتر روزگار کا حامل شخص پیداکرنے پر زور دیا جاتا ہے، ڈاکٹر
بنایا جاتاہے، انجینئر بنایا جاتاہے، وکیل اور ہنرمند بنایا جاتاہے، ادیب اور جرنلسٹ
بنایاجاتاہے، لیکن انسان کو سچ مچ کا انسان بنانے پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔
دینی مدارس نے اپنا مقصد بنایا،
اچھے انسان پیدا کرنا، اس مقصد کے لئے اسلامی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا
نا او رہر طرح کی آمیزش سے اس کو محفوظ رکھنا، مدارس کی یہ تحریک جس دور میں شروع ہوئی،
اس وقت ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط تھا،انہوں نے یہاں کے قدیم نظام تعلیم کو ختم
کر کے ایک نئے نظام کی تعلیم کی بنیاد رکھی تھی، اس نظام میں مذہبی تعلیمات اور اخلاقی
اقدار کا کوئی گزر نہیں تھا، بلکہ اس میں دین بیزاری اور اخلاقی بندشوں سے آزادی کو
نہایت ذہانت کے ساتھ شامل کردیا گیا تھا، اس پس منظر میں علماء نے ایسے ادارے قائم
کئے،جو خالصتاً دینی تعلیم کے تھے، کیونکہ عصری تعلیم کے لئے تو حکومت خود ہی ہر طرح
کی سہولت فراہم کررہی تھی، اس لئے اس وقت کے حالات کے لحاظ سے مدارس کے نصاب میں جدید
علوم پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی، پھر جب اس ملک سے انگریز چلے گئے تو یہ سوال پیدا
ہوتا ہے کہ کیا مدارس کے تعلیمی نظام کو اسی نہج پر قائم رہنا چاہئے یا اس میں عصری
نظام کی بھی شمولیت ہونی چاہئے؟ اس میں مسلمانوں کے درمیان نقطہئ نظر کا اختلاف پیدا
ہوا،یہ اختلاف آج بھی ہے، او راس میں خاصا افراط و تفریط پایا جاتاہے۔
ایک رائے یہ ہے کہ مدارس میں
تھوڑی بھی عصری علوم کی شمولیت نہیں ہونی چاہئے، دوسری انتہا پردہ حضرات ہیں جو نہ
صرف عصری علوم کی شمولیت کے حامی ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ایک شخص بیک وقت عالم بھی ہو
اور ڈاکٹر یا انجینئر بھی، اسی طرح مختلف علوم و فنون کے ماہر علما، وجود میں آئیں،
حقیقت یہ ہے کہ راہ اعتدال ان دونوں کے درمیان ہے،نہ یہ مناسب ہے کہ دینی علوم حاصل
کرنے والے طلبہ کو مکمل طور پر عصری علوم سے محروم رکھا جائے، اور جب وہ مدرسہ سے نکل
کر میدان عمل میں آئیں تو ایسا محسوس کریں کہ وہ کسی اور دنیا میں آگئے ہیں، او رنہ
یہ بات قابل عمل ہے کہ ایک شخص بیک وقت اسلامی علوم میں بھی بصیرت حاصل کرلے اور عصری
تعلیم کے کسی شعبہ کا بھی ماہر ہوجائے۔
ہندوستان کے ماحول کے لحاظ
سے ضرورت ہے کہ دینی مدارس کے نصاب میں توازن کے ساتھ عصری علوم انگریزی زبان، معاشیات،
سیاسیات کی مبادی،تاریخ، جغرافیہ، حساب،ملکی دستور وغیرہ۔۔ کو داخل کیا جائے اور ان
مضامین کا بوجھ اتنا زیادہ بھی نہ ہوکہ دینی علوم کی طرف توجہ کم ہوجائے اور اسلامی
علوم میں صلاحیت کا معیار گر جائے۔
اگر غور کیا جائے تو علماء
کے انگریزی زبان اور عصری علوم حاصل کرنے سے مختلف دینی فائدہ متعلق ہیں،اوّل یہ کہ
اس طرح وہ برادران وطن تک بہتر طریقہ پر اسلام کی دعوت پہنچا سکتے ہیں، کیونکہ انگریزی
ایسی زبان ہے جو ملک کے تمام علاقوں میں پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان بولی اور سمجھی
جاتی ہے، اور دعوت دین کے کام میں عصری معلومات مؤثر رول ادا کرسکتی ہیں،دوسرا اہم
ترین فائدہ یہ ہے کہ اس وقت اسلام کے خلاف ایک زبردست فکری یلغار جاری ہے، قرآن مجید،
حدیث نبوی،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، اسلامی شریعت غرض کہ دین کے ہر
شعبہ پر حملے کئے جارہے ہیں، اور خود مسلمانوں کی نئی نسل میں تشکیکی ذہن پیدا ہورہا
ہے، اگر چہ کہ اب ہندوستان میں سنگھ پریوار کے لوگ بھی اسلام کے خلاف غلط فہمیاں پیدا
کرنے کا کام بڑے پیمانے پر کررہے ہیں، لیکن ان سب کا سرچشمہ یہودی اور عیسائی مستشرقین
ہی کا مواد ہے، جو انگریزی زبان میں ہے، اس لئے اگر آج علماء دفاعِ اسلام کا کام کرناچاہیں
تو ان کے لئے انگریزی زبان سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے، کیونکہ دعوت دین کا کام تو
عوام بھی کرسکتے ہیں اور کررہے ہیں، اسی لئے قرآن مجید میں فریضہئ دعوت کا مخاطب پوری
امت کو بنایا گیا ہے: ”تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کیلئے ظاہر کی
گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو“۔(آل عمران:110) لیکن دفاع
اسلام کا کام علماء ہی کرسکتے ہیں، او رعلماء نے ہمیشہ اس کام کو سب سے زیادہ اہمیت
دی ہے۔
عباسی دور میں جب یونانی فلسفہ
عالم اسلام میں داخل ہوا، او ریہ علوم تشکیکی ذہن پیدا کرنے کا سبب بننے لگے تو امام
غزالیؒ اٹھے او رانہوں نے فلسفہ و منطق کے اُصولوں پر ان سوالات کے جوابات دیئے، پھر
آگے علامہ ابن تیمیہ ؒ علم کے اُفق پر نمودار ہوئے او رانہوں نے اقدامی طریقہئ کار
اختیار کرتے ہوئے خود فلاسفہ یونان کے افکار کو غلط ثابت کیا، اور اس طرح دفاعِ اسلام
کا بہت بڑا کام انجام پایا۔ افسوس کہ موجودہ دور میں ہم اس سے غافل ہوگئے ہیں او رہماری
زیادہ تر توجہ باہر سے ہونے والی فکری یلغار کے مقابلہ باہمی مسلکی اختلاف کی طرح ہو
گئی ہے۔ ہندوستان میں تعلیمی اعتبار سے دو اہم دبستان ہیں، دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ
العلما ء، دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسمی نانوتویؒ نے پوری زندگی
آریہ سماج اور ہندو احیاء پرستی کے مقابلہ میں لگائی، اور تحریک ندوۃالعلما ء کے مؤسس
حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ نے عیسائیت اور قادیانیت کے رد کو اپنی زندگی کامشن
بنایا،یہ فضلاء کے لئے خاموش پیغام ہے کہ ان کی توجہ کااوّلین ہدف دفاعِ اسلام ہونا
چاہئے، اور اس کے لئے انگریزی زبان، مغربی افکار اور مغربی اور ہندوستانی تاریخ سے
واقف ہونا ضروری ہے۔
عصری علوم سے واقفیت کا تیسرا
فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ہمارے فضلا، عصری درسگاہوں او ربالخصوص انگلش میڈیم اسکولوں
میں بہتر طور پر کسی احساس کمتری کے بغیر اسلامیات کی تعلیم دے سکتے ہیں، یہ ایک اہم
کام ہے، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کام کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے، اللہ کا شکر ہے
کہ مسلم مینجمنٹ کے تحت چلنے والے اداروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے او
روہاں اسلامیات کی تعلیم کے لئے ایسے اساتذہ کی ضروت پڑرہی ہے جو انہیں انگریزی زبان
میں دینی تعلیم دے سکیں، اردو زبان میں اگر انہیں تعلیم دی جائے تو اوّل تو بہت سے
طلبہ اسے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، دوسرے: چونکہ اس وقت انگریزی زبان کا جادو پورے
ماحول پراثر انداز ہ ہے، اس لئے طلبہ اردو زبان میں ہونے والی تعلیم کو قدر ودقعت کی
نظر سے نہیں دیکھتے اور خودمدارس میں بھی احساس کمتری پیدا ہو جاتاہے۔
اسی سے قریب تر چوتھا فائدہ
یہ ہے کہ اگر علماء انگریزی زبان سے واقف ہوں تو وہ بہتر طور پر نئی نسل سے مخاطب ہوسکتے
ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے دینی مدارس او رعلما ء کا طبقہ عربی وفارسی آمیز الفاظ
نیز علمی اصطلاحات سے بوجھل جس طرح کی اردو بولتاہے، وہ اکثر نئی نسل کی سمجھ سے باہر
ہوتی ہے، بہت سے نوجوان عقیدت کے جذبہ اور ادب کے تقاضے سے سرجھکاکر بظاہر توجہ کے
ساتھ ہم جیسوں کی بات سنتے ہیں،لیکن پھر وہ کوئی سوال کریں تو اندازہ ہوتاہے کہ وہ
ہمارے خطاب کی بنیادی باتوں کوبھی نہیں سمجھ پائے، اس لئے یہ بات بہت ضروری ہوگئی ہے
کہ خود مسلمانوں میں دعوت و اصلاح کے کام کے لئے علماء انگریزی زبان سیکھیں، اور انگریزی
آمیز اردو میں اپنی بات نئی نسل کے سامنے پیش کریں۔
ایک تصور ذہنوں میں بیٹھ گیا
ہے کہ جو نصاب زمانہ قدیم سے آرہاہے، اس سے کوئی چھیڑ چھاڑ ہر گز نہیں کرنی چاہئے،لیکن
جس مبالغہ کے ساتھ یہ بات کہی جاتی ہے وہ صحیح نہیں ہے، ہندوستان میں یہ نصاب درس نظامی
کہلاتاہے، اس کی بنیاد توملا قطب الدین سہالویؒ نے رکھی ہے، لیکن اس کو فروغ ملا نظام
الدین فرنگی محلیؒ کے ذریعہ حاصل ہواہے، اسی لئے یہ ”درس نظامی“ کہلایا، اصل درس نظامی
52/ کتابوں پر مشتمل تھا، جس میں 25/ کتابیں منطق کی تھیں، 6/ ریاضی کی اور 12 /کتابیں
اسلامی علوم کی،تفسیر میں جلالین او ربیضاوی، حدیث میں صرف مشکوٰۃ شریف، فقہ میں شرح
وقایہ کا پہلا اور دوسرا حصہ اور ہدایہ کا تیسرا اور چوتھا حصہ، اُصول فقہ میں تین،
علم کلام میں معقولی انداز کی چارکتابیں،یہی پورا نصاب تھا، جس سے اندازہ کیا جاسکتاہے
کہ معقولات پر کتنی زیادہ توجہ دی جاتی تھی اورخالص اسلامی علوم پر کتنی کم، او رحدیث
جیسے اہم مضمون میں صرف مشکوٰۃ المصابیح پر اکتفاء کیا جاتاتھا۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا
فرمائے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کو، کہ انہوں نے درس نظامی کے بعض مضامین کو
شامل کرتے ہوئے ایک نیا نصاب بنایا، جو 29/کتابوں پر مشتمل تھا، اس میں تفسیر کی دو،
حدیث کی تین، علم کلام کی تین، اُصول فقہ کی دو، تصوف کی چار کتابیں اور فقہ میں صرف
شرح دقایہ پڑھائی جاتی تھی، یہ یقینا ایک بہتر تبدیلی تھی کہ ملا نظام الدین ؒ کے نصاب
میں تو 52/ کتابوں میں صرف بارہ ایسی کتابیں تھیں، جن کا تعلق براہ راست اسلامی علوم
سے تھا، او رشاہ ولی اللہ صاحبؒ کے یہاں 29 / میں سے 15/ کتابیں براہ راست علوم اسلامی
سے متعلق تھیں، مولانا عبدالحئی حسنی کی نصاب تعلیم سے متعلق کتاب اور شاہ ولی اللہ
صاحب کی ”الجرء المطلب“ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں اس لئے حقیقت میں دارالعلوم دیوبند
اور موجودہ دور کے دیگر مدارس کے نصاب میں ملانظام الدین کے نصاب سے زیادہ شاہ ولی
اللہ صاحب کے نصاب سے استفادہ کیا گیا ہے، لیکن اس سے بہر حال یہ بات ثابت ہوتی ہے
کہ ہر دور میں علماء نے اپنے زمانہ کی ضرورت کے مطابق نصاب میں تبدیلی کی ہے، اور اگر
یہ عمل حقیقت پسندی کے ساتھ ہوتو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے وحشت محسوس کی جائے
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مدارس کے نظام میں اس طرح کی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں،مگر
اس تبدیلی میں عصری علوم کی شمولیت پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ البتہ قابل غور
پہلو یہ کہ اگر مدارس کے مروّجہ نصاب میں عصری علوم کو شامل کیا جائے تو کیا شکل ہوسکتی
ہے کہ دینی تعلیم کو متاثر کئے بغیر عصری مضامین کی تعلیم دی جاسکے، راقم الحروف کے
خیال میں اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
اوّل یہ کہ دسویں جماعت تک
مشترکہ نصاب ہو، جو کتابیں عصری درسگاہ میں پڑھائی جاتی ہیں، بعض تبدیلیوں کے ساتھ
وہ مدارس میں پڑھائی جائیں، عصری درسگاہوں میں درس کا دورانیہ کم ہوتا ہے، چالیس منٹ
کی پانچ سے سات گھنٹیاں ہوتی ہیں، بعض جگہ تو صرف 35/منٹ کی گھنٹیاں ہوتی ہیں، اس طرح
اوقات تعلیم کم و بیش چار گھنٹے ہوتے ہیں، دینی مدارس میں چھ گھنٹے تو لازماً اسباق
پڑھائے جاتے ہیں، اور بعض دفعہ فجر بعد ہی سے اسباق شروع کردیئے جاتے ہیں، اس لحاظ
سے مدارس کے مروجہ آٹھ سالہ نصاب میں سے پہلے تین سال کے وہ مضامین جو عربی زبان اور
فن کی ابتدا ئی معلومات سے متعلق ہیں، بآسانی اس دس سال میں سموئے جاسکتے ہیں، اس دس
سالہ نصاب کے بعد جیسے عصری تعلیم حاصل کرنے والے مزید پانچ سال میں گریجویشن کرتے
ہیں،اسی طرح جو طلبہ عالم کورس کرنا چاہیں وہ پانچ سال میں درس نظامی کے مروجہ نصاب
کومکمل کرلیں، پھر عصری تعلیم حاصل کرنے والے جیسے مزید دو سال کا وقت لگا کر ماسٹر
کی ڈگری حاصل کرتے ہیں، اسی طرح دینی تعلیم حاصل کرنے والے افتاء اور تکمیل و تخصص
وغیرہ کا کورس کرسکتے ہیں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ بنیادی عصری علوم سے واقف ہوں
گے، اور جو آگے عصری علوم حاصل کرناچاہیں گے، وہ بنیادی دینی تعلیم حاصل کرچکے ہوں
گے، اور ایک ساتھ دینی عصری تعلیم کا ایسا بوجھ نہیں پڑے گا جو طلبہ کیلئے ناقابل تحمل
ہوجائے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ دورہئ
حدیث شریف (حدیث کی کتب تسنہ کی جماعت) سے فارغ ہونے والے طلبہ کے لئے ایک تین سالہ
نصاب ڈیزائن کیا جائے، تاکہ وہ انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی آشنا ہوجائیں،
فی الحال کئی اداروں نے فارغین مدارس کے لئے انگریزی کا دو سالہ نصاب شروع کیا ہے،
اس سے زیادہ توآسکتی ہے، لیکن دوسرے عصری مضامین سے مناسبت پیدا نہیں ہوسکتی، حالانکہ
یہ بھی ضروری ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ درس نظامی
کی تعلیم کے ساتھ اعداویہ تا درجہ چہارم عربی پانچ سال کے عرصہ میں ہر جماعت میں
45-45 /منٹ کی دو گھنٹیوں کا اضافہ کیا جائے، ایک گھنٹی انگریزی زبان کے لئے مخصوص
ہو اور ایک گھنٹی میں ہفتہ میں دو دو دن جنرل سائنس، حساب اور تاریخ کے مضامین شامل
کئے جائیں،پھر پنجم عربی سے لے کر دورہئ حدیث تک کے مرحلہ کو مروجہ درس نظامی کی کتابوں
ہی کے لئے خالص رکھا جائے، ابتدائی پانچ سالہ مدت میں انگریزی اور عصری مضامین کو شامل
کرنا بہت دشوار نہیں ہے، اگر منطق وفلسفہ کے مضامین کو اصطلاحات کے تعارف تک محدود
کردیا جائے او رجو مضامین مقصود ہیں، یعنی تفسیر، حدیث، عقیدہ، اُصول کے علاوہ دوسرے
مضامین سے مکررات کو کم کردیا جائے تو بسہولت یہ ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مدارس کی تعلیم
کو دینی مقاصد کے لئے زیادہ مؤثر او رمفید بنانے کی غرض سے مروجہ نصاب تعلیم پر غور
مکرر کی ضرورت ہے، بدلتے ہوئے حالات میں اگر ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی اور جیسے ہمارے
بزرگوں نے اپنے زمانہ کے احوال کے لحاظ سے تعلیم و تربیت کا نظام بنایا تھا، اگر ہم
نے اس کو ملحوظ نہیں رکھا تو علماء پر اسلام کی دعوت و حفاظت کا جو فریضہ عائد ہوتاہے،
اندیشہ ہے کہ مستقبل میں وہ اس کو صحیح طور پر ادانہ کر پائیں۔
24 ستمبر،2021، بشکریہ: انقلاب نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism