سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
21 دسمبر 2021
خدا نے زمین پر برادریوں اور
قبیلوں کی تخلیق انسانوں کی آزمائش کے لیے کی ہے
اہم نکات:
1. مختلف زبانیں اور نسلیں زمین پر خوبصورتی کی خاطر پیدا کی گئی ہیں۔
2. تمام انسان آدم علیہ السلام کے اولاد ہیں۔
3. قرآن نسلی اور ثقافتی تصادم کو مسترد کرتا ہے۔
----
کرہ ارضی پر زندگی بہت رنگین
اور متنوع ہے۔ زمین پر انسانوں اور جانوروں کے علاوہ اربوں اقسام کے نباتات اور حیوانات
بھی آباد ہیں۔ لاکھوں انواع کے پودے اور درخت ہیں۔ زمین پر جانور بھی لاکھوں انواع
کے ہیں اور جانور، پرندے اور حشرات الارض بھی لاکھوں انواع کے اور مختلف رنگوں کے ہیں۔
یہی معاملہ انسانوں کا بھی
ہے۔ انسانوں کی دو صنفیں ہیں۔ مرد اور عورت اور ان کی جسمانی ساخت و خصوصیات بھی مختلف
ہیں۔ زمین پر انسانوں کے جسم کے قد، رنگت، کھانے کی عادات اور لباس مختلف ہیں۔ ان کی
زبانیں مختلف ہیں۔ مختلف زبانوں، کھانے پینے کی عادات اور سماجی رسم و رواج اور مختلف
جسمانی ساخت کی بدولت زمین پر انسان برادریوں، قبیلوں اور قوموں میں بٹے ہوئے ہیں۔
ثقافت کا یہ فرق اکثر قبائل اور نسلی برادریوں کے درمیان تصادم کا سبب بنتا ہے۔
کبھی یہ تصادم خونریزی کا
باعث بنتا ہے اور کبھی قتل و غارت گری کا باعث بنتا ہے۔ تصادم تاریخی یا نسلی برتری
کی بنیاد پر قبائل اور قوموں کی بالادستی کے احساس سے پیدا ہوتا ہے۔ کچھ برادریاں یا
قبائل اپنی پیدائش کی بنیاد پر یا اپنے آباؤ اجداد کے تاریخی کارناموں کی کچھ تاریخی
بالادستی کی بنیاد پر خود کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں۔
کچھ قبائل اور برادریاں اپنی
رنگت یا جسمانی ساخت کی بنیاد پر خود کو دوسروں سے برتر سمجھتی ہیں۔ قدیم دور میں طاقتور
برادریاں کمزور برادریوں کے افراد کو غلام بناتی تھیں۔ حکمران طبقہ اپنے عوم کو کمتر
اور غلام سمجھتے تھے۔ بالادستی کے اس احساس نے غلامی کی روایت کو راستہ دیا۔ غلامی
کی کئی شکلیں تھیں۔ مردوں کو مزدور یا فوجی یا گھریلو ملازم کے طور پر استعمال کیا
جاتا تھا جبکہ خواتین کو گھریلو ملازم اور جنسی غلام کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
اگلی غلامی ایک منافع بخش
تجارت کے طور پر چلی اور دنیا بھر میں غلاموں کی تجارت پروان چڑھی۔ اگرچہ تہذیب کے
ارتقاء کے ساتھ غلامی کی روایت رفتہ رفتہ معدوم ہوگئی، لیکن معاشی اور سیاسی وجوہات
کی بنا پر اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا گیا۔
تاہم، غلامی کی سوچ پرانی
ہو گئی، لیکن ثقافتی اور سیاسی سطح پر کمزور برادریوں کو دبانے کا سلسلہ جاری رہا۔
بہت سے ممالک میں اکثریتی برادریوں نے ان اقلیتی برادریوں کی شناخت کو دبایا اور ختم
کر دیا جن کی ثقافتی اور نسلی بنیادیں مختلف تھیں۔ اقلیتی برادریوں نے اپنی ثقافتی
شناخت کو بچانے کے لیے جدوجہد کی۔ ثقافتی شناخت مذہبی شناخت سے زیادہ اہم تھی۔ یہی
وجہ ہے کہ مختلف مذاہب کی ماننے والی برادریاں جن کا ثقافتی اور نسلی پس منظر ایک ہو
پرامن طریقے سے ایک ساتھ رہتی ہیں لیکن ایک ہی مذہب کے لوگ جن کا ثقافتی پس منظر مختلف
ہو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
قرآن اگرچہ نسلی اور ثقافتی
اختلافات کو تسلیم کرتا ہے لیکن مذہبی اختلافات کو تسلیم نہیں کرتا۔ قرآن نے نسلی اور
ثقافتی شناخت کو مثبت مقاصد کے لیے تسلیم کیا نہ کہ لوگوں میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے۔
چونکہ خدا زمین پر تنوعات اور رنگا رنگی کو پسند کرتا ہے، اس لیے اس نے دنیا کو ایک
متنوع اور رنگین جگہ بنانے کے لیے برادریوں اور قبیلوں اور قوموں کو بنایا ہے۔ تاہم،
خدا نہیں چاہتا کہ انسان ثقافتی، جسمانی اور نسلی برتری کی بنیاد پر آپس میں لڑیں اور
ایک دوسرے کا خون بہائیں۔ خدا کہتا ہے کہ ہم نے دنیا کو ایک متنوع برادری بنانے کے
لیے قبیلے اور برادریاں پیدا کی لیکن قرآن کی نظر میں افراد اور برادریوں کی عظمت و
فضیلت کی بنیاد ان کا تقویٰ اور اخلاقی بلندی ہے۔ لہٰذا ثقافت اور نسل کی بنیاد پر
برادریوں اور قبیلوں کے درمیان فرق قرآن کی رو سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا:
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں
شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا
وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔‘‘ (الحجرات:13)
خدا انسانوں کو رنگت و جسمانی
ساخت اور زبانوں میں مختلف بنا کر آزمانا چاہتا۔ خدا چاہتا ہے کہ انسان ایک دوسرے کے
ساتھ ہمدرد رہیں اور ہر حال میں متحد رہیں۔ جب سب ایک ہی رنگ اور قبیلے کے ہوں تو متحد
ہونا آسان ہے لیکن جب لوگ نسل اور ثقافت میں مختلف ہوں تو متحد ہونا مشکل ہے۔ یہیں
بنی نوع انسان کے اتحاد کا اصل امتحان ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے
علاقے، مذہب، زبان اور نسل کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی محسوس کرتے ہیں لیکن دوسری برادریوں
کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا احساس نہیں رکھتے۔ ایک ہی برادری کے لوگوں کے ساتھ یہ یکجہتی
اکثر نسلی اور ثقافتی تصادم کا باعث بنتی ہے۔ ان اختلافات کو جدید سیاسی عزائم اور
سیاستدانوں نے خوب فروغ دیا ہے۔ صحیفوں کی تنگ نظر مذہبی تشریح ثقافتی اور نسلی اختلافات
کو بھی فروغ دیتی ہے۔
زیادہ تر نسلی برادریاں اپنی
نسلی اور ثقافتی شناخت کو اپنے دل کے قریب رکھتی ہیں اور یہ سوچتی ہیں کہ اگر وہ اپنی
نسلی شناخت کھو دیں گے تو وہ زمین پر اپنا وجود کھو دیں گے اور معاشرے میں ایک گمنام
برادری کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے جس کا کوئی وقار اور کوئی سماجی
حیثیت نہیں ہوگی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں ان کی سماجی اور سیاسی حیثیت صرف ان
کی نسلی شناخت پر منحصر ہے۔ اس لیے اپنی نسلی شناخت کو بچانا ان کے لیے ان کے وجود
کا مسئلہ بن جاتا ہے اور وہ اپنی نسلی شناخت کو بچانے کے لیے جان دینے سے بھی دریغ
نہیں کرتے۔
مسلمانوں کے درمیان ثقافتی
اور نسلی تشخص ہمیشہ سے ان کے درمیان تنازعہ کا باعث رہا ہے۔ اس تصادم کی جھلک ہمیں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ منافقین نے انصار
(مدینہ کے باشندوں) کو نسلی بنیادوں پر مہاجروں (مکہ کے باشندوں) کے خلاف اکسانے کی
کوشش کی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت موجودگی کی وجہ سے یہ ثقافتی اور
نسلی فرق، سماجی بحران کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ تاہم بعد کے دور میں مسلمانوں کے
درمیان نسلی اور ثقافتی اختلافات نے نہ صرف سماجی اور سیاسی بحران پیدا کیا بلکہ مسلمانوں
کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام بھی کروایا۔
نسلی اور ثقافتی اختلافات
کی بنیاد پر قتل عام کی تازہ ترین مثال بنگلہ دیش میں اردو بولنے والے مسلمانوں اور
بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے درمیان خونریزی ہے۔ پاکستان کے بلوچوں کی پسماندگی نسلی
بالادستی کے احساس کی ایک اور مثال ہے جس نے پاکستان میں سیاسی بحران کی شکل اختیار
کر لی ہے۔ نسلی و ثقافتی شناخت کا احساس ترکوں اور ترکی کے کردوں کے درمیان سیاسی بحران
کی وجہ ہے۔ بھارت میں مسئلہ کشمیر بھی کشمیری عوام کی نسلی بالادستی پر اسی فخر کی
پیداوار ہے۔
نسلی اور ثقافتی بالادستی
کا یہ احساس صرف مسلم معاشرے میں ہی نہیں ہے۔ دوسری برادریوں میں بھی نسلی اور ثقافتی
شناخت کا یہ احساس ہے اور ثقافتی اور نسلی اختلافات کی وجہ سے خونریزی اور قتل عام
ان میں بھی ہوا ہے۔ روانڈا میں تتسس کا قتل عام نسلی اور ثقافتی تصادم کی ایک اور مثال
ہے۔
قرآن نے تقویٰ اور اخلاقی
طرز عمل کو معاشرے میں بالادستی کی واحد بنیاد قرار دے کر نسلی اور ثقافتی بالادستی
کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ قرآن بار بار کہتا ہے کہ زمین پر موجود تمام انسان حضرت
آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کی اولاد ہیں۔ لہذا پیدائش کی بنیاد پر
کسی مرد یا عورت کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ جن کے اعمال اچھے ہیں وہی دوسروں
پر فضیلت رکھتے ہیں۔ اس لیے قرآن لوگوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے
کی تعمیر کے لیے کوشش کریں جہاں تنوعات صرف اور صرف اس دنیا کی خوبصورتی بڑھانے کے
لئے ہو نہ کہ خونریزی اور انسانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کے لیے۔ اگر اس سچائی
کا ادراک کر لیا جائے تو زمین سے ثقافتی اور نسلی اختلافات کی بنیاد پر نفرت، تصادم
اور خونریزی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
English
Article: Cultural And Ethnic Differences And The Stance Of The
Quran
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism