New Age Islam
Mon Apr 21 2025, 04:39 AM

Urdu Section ( 7 Jul 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Crude Speech of 'Andbhakts' اندھ بھکتوں‘ کی بد زبانی’

سراج نقوی

2 جولائی 2023

 وزیر اعظم مودی کے حالیہ دورئہ امریکہ پر ان کے اندھ بھکتوں اور درباری میڈیا نے زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے اسے تاریخ ساز دورہ قرار دیا ہے۔یقیناً یہ دورہ تاریخ ساز تو ہے،لیکن ان معنوں میں نہیں کہ جن میں اندھ بھکت اسے تاریخ ساز قرار دے رہے ہیں۔ بی جے پی اور سنگھ کے عام کارکنوں کی بات چھوڑیے امت شاہ نے بھی ایک بیان میں یہ دعویٰ کیا کہ آج تک کسی ہندوستانی وزیر اعظم کا امریکہ میں اتنا پر جوش استقبال نہیں ہوا جتنا کہ مودی کا ہوا ہے۔لیکن شاہ کے اس دعوے کے بعد کانگریس اور دیگر کئی حلقوں نے ملک کے پہلے وزیر اعظم نہرو کے امریکہ دورے کی ویڈیو ڈال کر اس کا جواب دے دیا ہے۔لیکن مودی کے اس دورے پر اچھل کود مچا رہے پارٹی کارکنوں اور بی جے پی کے کئی سینئر لیڈروں نے جس طرح کے رد عمل کا اظہار کیا ،اس نے مودی کی شبیہ  کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچانے کا تاریخی کام کیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔ مودی کے نادان دوست امریکہ دورے کے موقع پر وہائٹ ہائوس کی مشترکہ پریس کانفرنس میں ان سے وال اسٹریٹ جنرل کی صحافی صبرینہ صدیقی کے ایک سوال پر چراغ پا ہیں۔واضح رہے کہ صبرینہ نے مودی سے پریس کانفرنس میں ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ مبینہ تفریق و حقوق انسانی کی صورتحال پر سوال کیا تھا۔اس سوال پر مودی نے جو جواب دیا وہ دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اس سوال پر لاجواب ہو گئے اور انھوں نے سوال کا جو جواب دیا اس کا اصل سوال سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔بہرحال صبرینہ کے سوال اور اس پر مودی کے جواب سے متعلق بہت کچھ ہندوستان کے درباری میڈیا اور یوٹیوب چینلوں کے آزاد میڈیا کے علاوہ دنیا بھر کے اخبارات و چینلوں پر بھی آچکا ہے۔یہاں موضوع بحث صبرینہ کا سوال نہیں بلکہ اس سوال کے جواب میں صبرینہ کے خلاف اندھ بھکتوں کا وہ طوفانِ بیہودگی ہے کہ جس میں بی جے پی کے کئی سینئر لیڈروں کا بھی بڑا رول ہے۔اندھ بھکتوں نے سوشل میڈیا پر صبرینہ کے خلاف جس طرح جارحانہ بلکہ انتہائی فسطائیت پر مبنی اور غیر جمہوری طرز عمل اختیار کیا کہ اس نے مودی کےصبرینہ صدیقی کو دیے گئے جواب کی حقیقت دنیا کے سامنے پوری طرح رکھ دی بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ مودی بھکتوں کے اس عمل نے پوری دنیا میں مودی شبیہ کو مسخ کرنے کا کام ہی زیادہ کیا ہے۔اندھ بھکتوں کا یہ رویہ مودی کے لیے بھی سبق آموز ہونا چاہیے کہ ان کے نادان دوست انھیں جتنا نقصان پہنچا رہے ہیں اتنا نقصان انھیں اپنے سیاسی مخالفین یا دشمنوں سے بھی نہیں پہنچ رہا ہے۔

 دراصل مودی کے اندھ بھکتوں نےصبرینہ کے سوال کے بعد ان کے خلاف سوشل میڈیا پر رکیک حملے شروع کر دیے۔انھیں مسلمان ہونے کی بنا پر بھی نشانہ بنایا گیا ،صبرینہ کو ٹرول کیا گیا،انھیں توہین آمیز انداز میں آن لائن ذہنی استحصال کا سامنا کرنا پڑا۔ظاہر ہے یہ سب کچھ خفیہ طور پر نہیں بلکہ ’مودی بھکتی‘ میں ڈوبے ہوئے کم عقل بھگوا عناصر نے ان پلیٹ فارمس پر کیا کہ جن پر دنیا بھر کی نظر ہے۔یہ سب دیکھ کر امریکی میڈیا کو بھی احساس ہو ا کہ صبرینہ کو جس طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صبرینہ کا سوال درست تھا اور مودی کا جواب حقائق سے فرار اور اس کی سمت بدلنے کی کوشش کے سوا کچھ نہ تھا۔امریکی میڈیا کے اس احساس کا مظاہرہ وہائٹ ہائوس میں ہونے والی معمول کی پریس کانفرنس میں این بی سی کی ایک رپورٹر کے سوال میں بھی ہوا۔کیلی اوڈونل نام کی اس رپورٹر نے وہائٹ ہائوس کے پریس سکریٹری جان کربی سے پریس کانفرنس میں سوال کیا کہ،’میں اختصار کے ساتھ ایک الگ سوال پوچھنا چاہتی ہوں ۔وال اسٹریٹ کی ہماری صحافی ساتھی نے صدر بائیڈن اور ہندوستان کے وزیر اعظم مودی کے وقفۂ سوال وجواب میںمودی سے ایک سوال پوچھا تھا ۔اس کے بعد سے ہندوستان کے کچھ لوگ انھیں آن لائن ملامت کر رہے ہیں ۔ان میں سے کچھ لیڈر ہیں،جو مودی حکومت کے حامی ہیں۔صبرینہ کو اس لیے نشانے پر لیا جا رہا ہے کہ وہ مسلم ہیں اور انھوں نے اسی سے متعلق سوال پوچھا تھا۔ایک جمہوری لیڈر سے سوال پوچھنے پر اس طرح کی ملامت کا سامنا کر نے کولے کر وہائٹ ہائوس کا کیا ردعمل ہے؟‘

کیلی ڈونل کے اس سوال پر وہائٹ ہائو س کے ترجمان جان کربی نے جو جواب دیا وہ مودی حکومت میں بڑھ رہے فاشزم،آمریت اور حکمراں جماعت کے غیر جمہوری طرز عمل پر ایک بے حد سخت تبصرے کے مترادف ہے۔جان کربی نے کہا کہ،’ہمیں اس ملامت کا علم ہے۔یہ ناقابل قبول ہے۔ہم صحافیوں کی ملامت کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔یہ صحافی خواہ کہیں کے بھی ہوںیا کسی بھی حالت میں ہوں۔یہ پوری طرح سے ناقابل قبول ہے،اور یہ جمہوریت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔‘ جان کربی کا یہ جواب اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی نے وال اسٹریٹ جنرل کی صحافی صبرینہ کے سوال کا خواہ کچھ بھی جواب دیا ہو اور اس جواب پر وہائٹ ہائوس نے اس وقت بھلے ہی کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا ہولیکن کیلی ڈونل کے سوال کے جواب میں جان کربی نے جو کچھ کہا اس سے ساری دنیا نے یہ جان لیا ہے کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت کس طرح جمہوریت کے نام پر فاشسٹ عناصر کو سر چڑھا رہی ہے اور مودی کے اندھ بھکت جمہوریت کو نقصان پہنچانے میں کس حد تک جا سکتے ہیں۔وہائٹ ہائوس کے ترجمان کا جواب اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ مودی اپنی حکومت پر لگنے والے آمریت اور مسلمانوں پر ظلم و پریس پر پابند ی کے الزامات کے جواب میں خواہ کچھ بھی کہیں ،لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔جس حکومت کا سربراہ اپنے ۹ ؍سال کے دور اقتدار میں پہلی بار پوچھے گئے کسی صحافی کے آزادانہ سوال پر اسے مطمئن نہ کر سکا ہو اور جس سوال پر اس کے حامی اس حد تک بوکھلا جائیں کہ اس صحافی کے خلاف لعنت ملامت کی مہم چھڑ دی جائے ،اس کی حکومت پر لگائے جانے والے الزامات کس حد تک درست ہیںیہ سمجھا جا سکتا ہے۔ کیا یہ بات باعث تعجب نہیں کہ صبرینہ کو نشانہ بنانے والے بی جے پی کے لیڈروں کے خلاف بھی پارٹی یا حکومت نے ابھی تک کوئی سخت رد عمل ظاہر نہیں کیاہے؟ کیا اس سے حکومت اور حکمراں پارٹی کی شرپسند بھکتوں کو دی جانے والی غیر اعلانیہ حمایت کا اندازہ نہیں ہوتا؟کیا تاریخ کو بدلنے کے خبط میں مبتلا حکمرانوں کو یہ احسا س ہے کہ ان کے حامیوں کے مذکورہ رویے نے اور صبرینہ صدیقی کے خلاف شروع کی گئی لعنت ملامت کی مہم نے خود ان کے اور مودی حکومت کے گلے میں بھی لعنت کا ایسا طوق ڈال دیا ہے جو وہائٹ ہائوس کی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اور جسے مودی کے اندھ بھکت چاہ کر بھی نہیں بدل سکتے۔

تاریخ سازی کے مدعی اس بات کی سنگینی کا احسا س شاید ہی کر سکیں کے اندھ بھکتوں کے طرز عمل نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کے مرکز اقتدار یعنی وہائٹ ہائو س کو بھی اس رد عمل کے لیے مجبور کر دیا کہ جس کی عام حالات میں توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔اسی طرح مودی کا بینہ میں وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سرمانے جس طرح امریکہ کے سابق صدر براک اوبامہ کے ایک انٹر ویو پر رد عمل ظاہر کیا ہے وہ  بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس حکومت کے ذ مہ دار غیر ذمہ داری کی کس حد تک جا سکتے ہیں اور اپنے فاشزم کی پردہ پوشی کے لیے کس طرح تہذیب کا دامن چھوڑ سکتے ہیں۔یہ سب باتیں اس کاثبوت ہیں کہ حکومت اور اس کے حاشیہ بردار بوکھلاہٹ کے شکار ہیں۔ ان کے پاس عالمی برادری اور میڈیا کے الزامات کا کوئی منطقی جواب نہیں ہے اور ان کی بد زبانی ان پر لگائے جانے والے الزامات کی تصدیق ہی کر رہی ہے،اور مودی حکومت کی بدنامی کا سبب بن رہی ہے۔

2 جولائی 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-----------------------

URL:  https://www.newageislam.com/urdu-section/crude-speech-andbhakts/d/130151

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..