ودود ساجد
28جنوری،2024
نیدرلینڈ کے شہر ہیگ میں
قائم عالمی عدالت برائے انصاف (انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس یا آئی سی جے) کے عبوری
حکم پر عجلت اورجذبات میں کوئی منفی رائے قائم کرنا درست نہیں ہوگا۔دنیا بھر کے
انصاف پسندوں او رفلسطینیوں کے قتل عام پر تڑپ اٹھنے والے اربوں عام انسانوں کو
عالمی عدالت کے عبوری حکم میں کوئی شدت بھلے ہی محسوس نہ ہو لیکن حقائق او ر عالمی
سیاسی اثرات کے حوالے سے یہ فیصلہ انتہائی اہم اور تاریخی ہے۔ خود فلسطینیوں اور
حماس نے اس فیصلہ کو اسرائیل کی گرفت کی سمت ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ اسرائیل کی
75 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی عالمی پلیٹ فارم پر اس کی ایسی اجتماعی
اور عوامی سبکی ہوئی ہے۔ امریکہ نے ہر موقع پراسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ میں
لائی گئی ہر قرار داد کو مسترد کیا ہے۔ لیکن عالمی عدالت نے خود اسرائیل کی اس
اپیل کو مسترد کردیا جس کے تحت اس نے اپنے خلاف دائر جنوبی افریقہ کے مقدمہ کو
خارج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یعنی بادی النظر میں جنوبی افریقہ کے الزامات کو
مسترد نہیں کیا گیا ہے اور اسرائیل کو نسل کشی کے الزامات میں کلین چٹ نہیں دی گئی
ہے۔ یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ عالمی عدالت فی الواقع اقوام متحدہ کا ہی ایک ادارہ
ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ عالمی
عدالت کا عبوری حکم آنے سے پہلے ہی اسرائیل درپردہ امن کی بھیک مانگنے لگاتھا۔
گوکہ اس نے اپنی شکست خوردگی کو اپنی وحشت ناکی کے پردہ میں چھپا کر رکھا لیکن مصر
اور قطر کے توسط سے اس نے دو مہینہ کی جنگ بندی کی جو تجویز رکھی تھی او رجسے حماس
نے حقارت اور پوری قوت کے ساتھ مسترد کردیا تھا وہ فی الواقع اس کی شکست خوردگی
اور اس کے اندر پنپنے والے خوف کا ہی مظہر ہے۔ اس نے جو تباہی فلسطین اور خاص طور
پر غزہ میں برپا کی ہے فلسطین کی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ لیکن
اس تباہی کے توسط سے اس نے جو نشانہ حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا تین مہینے سے زائد
کا عرصہ گزرجانے کے باوجود اسے اس میں ذرہ برابر کامیابی نہیں ملی ہے۔ یہ بہت
تکلیف دہ ہے کہ غزہ میں ہر روز عام شہریوں کا بھیانک قتل عام ہورہاہے لیکن یہ کسی
روح افزا عجوبہ سے کم نہیں ہے کہ غزہ میں اسرائیل فوجیوں کو بھی جہنم رسیدکیا
جارہاہے۔ غزہ میں محاذ جنگ پر بھی او رسیاسی طور پر غزہ کے باہر عالمی سطح پر بھی
اسرائیل کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ اس کی لغت میں تھا ہی نہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے
مطابق 1982 ء میں جنوبی لبنان پر اسرائیل کی چڑھائی سے لے کر 26اکتوبر 2023 ء تک
اسرائیل کے خلاف لائی جانے والی قرار داد وں کو امریکہ نے 46 بار’ویٹو‘ کیاہے۔
برسبیل تذکرہ یہ جاننا اہم ہے کہ 198 ملکوں والی اقوام متحدہ میں صرف پانچ ممالک،
امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس اور روس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جس اہم قرار داد
کو چاہیں ’ویٹو‘ کردیں۔ ویٹوں کا مطلب اسے سر ے سے مسترد او رکالعدم کردینا ہے۔ ان
پانچ میں سے کوئی ایک بھی جب اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں کسی قرار دادکو
’ویٹو‘ کردیتا ہے تو پھر وہ قرار دادا مسترد ہوجاتی ہے۔ ان پانچوں ملکوں کو اقوام
متحدہ کی اصطلاح میں ’پی فائیو‘ کہاجاتاہے۔انہیں یہ اختیار اس لئے دیا گیا تھا کہ
انہی پانچوں نے اقوام متحدہ کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ لہٰذا اس بار یہ
اہم ہے کہ امریکہ’عالمی عدالت میں اسرائیل کی کوئی مدد نہیں کرسکا او رعالمی عدالت
کے 17 میں سے 15 مستقل جج ہوتے ہیں۔ایک ایک جج مقدمہ کے دونوں فریق ممالک عارضی
طور پر منتخب کرتے ہیں۔ اسرائیل کے ’عارضی جج‘ اہارون باراک او ریوگانڈا کی عارضی
جج سیبو ٹینڈ ے نے عالمی عدالت کے فیصلہ کے خلاف ووٹ دیاہے۔ لیکن ایک اطمینان کی
بات یہ ہے کہ ہندوستان کے مستقل جج، جسٹس دلویر بھنڈاری نے فیصلہ کی ہر شق کے حق
میں یعنی ہرنکتہ پر اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
عالمی عدالت کا عبوی
فیصلہ خاصا طویل ہے۔ تاہم اصل فیصلہ کے چند نکات انتہائی اہم ہیں۔ عدالت نے
اسرائیل کو ہدایت دی کہ وہ اقوام متحدہ کے ’کنونشن ابرائے انسداد نسل کشی واجتماعی
سزا‘ کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے
اقدامات سے فوری طور پر باز آئے۔ اس کے علاوہ کنونشن کے آرٹیکل 2 کے تحت ان
اقدامات سے بھی باز رہنے کو کہا گیاجن میں کسی گروپ کے ارکان کو قتل کرنے، گروپ
کے ارکان کو ذہنی و جسمانی نقصان پہنچانے‘ جان بوجھ کر کسی گروپ کے ارکان پر عرصہ
حیات تنگ کرنے’گروپ کے ارکان کو کلی یا جزوی طو رپر تباہ کرنے اور گروپ کے ارکان
پر ایسے حالات مسلط کرنے سے روکا گیا ہے جن میں وہ گروپ افزائش نسل سے محروم
ہوجائے۔اس کے علاوہ یہ بھی ہدایت دی گئی کہ اسرائیل اپنی فوج کو وہ حالات پیداکرنے
سے باز رہنے کاپابند بنائے جو اوپر مذکور ہیں۔یہ بھی ہدایت دی گئی کہ اسرائیل وہ
تمام اقدامات کرے جن کے تحت غزہ میں فلسطینیوں کو اکسا کر اوربھڑکا کر ان کی نسل
کشی کے حالات کو پیداہونے سے روکا جاسکے۔اسی طرح اسرائیل کو یہ ہدایت بھی دی گئی
کہ وہ فوری طور پر غزہ میں لازمی انسانی ضرورت اور خوردونوش کا سامان جانے کے
حالات پیدا کرے اور ضرورت کی ہروہ چیز فوری طور پر غزہ میں جانے دے جس
سے انسانی زندگی کوبچانا مطلوب ہو۔اسی طرح اسرائیل کو انسداد نسل کشی کنونشن کے
آرٹیکل 2اور 3 کے تحت تباہی کے اقدامات سے موثر طور پررک جانے اور اپنے اوپر عاید
الزامات کے تعلق سے موجود شواہد کو محفوظ رکھنے کی ہدایت دی گئی۔ عدالت نے حماس سے
بھی کہا کہ وہ 17اکتوبر 2023 ء کو اغوا کئے گئے اسرائیلی شہریوں کو بلاشرط رہا
کرے۔
عالمی عدالت کے اس عبوری
فیصلہ کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں عدالت نے اسرائیل کے وزیراعظم اور صدر سمیت
دوسرے شر
پسند وزیروں کے متعدد خوفناک بیانات کا بھی
حوالہ دیا۔ ان بیانات سے جنوبی افرایقہ کے نسل کشی کے الزامات کی تائید ہوتی
ہے۔اسی طرح عدالت نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکٹری ’انتونیو گوتریس‘ کے ان تاریخ وار
بیانات کا بھی حوالہ دیا جن سے فلسطینیوں پر اسرائیل کے بھیانک مظالم کی تصدیق
ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عالمی عدالت کے لئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے بیانات
سے زیادہ او رکس کے بیانات معتبر ہوں گے۔ عدالت نے جنوبی افریقہ کے صدر اور
وزیروں کے بیانات کا بھی حوالہ دیا۔ یہ تمام بیانات ’خبریں او ررپورٹیں اس فیصلہ
کاحصہ ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ عدالت نے معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر از خود بھی
شواہد جمع کئے ہیں۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عالمی عدالت کا طریقہ کار دنیا کی
دوسری روایتی عدالتوں سے مختلف ہوتاہے۔ اس کا دائرہ کار اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل، جنیوا کنونشن یاحقوق انسانی سے متعلق وقتاً فوقتاً منظور شدہ قرار داد یں
ہوتی ہیں۔زیر نظر معاملہ میں جنوبی افریقہ نے بھی عبو ری حکم دینے کی درخواست کی
تھی۔ ابھی جنوبی افریقہ کے الزامات پر اسرائیل کے خلاف ٹرائل شروع نہیں ہوا
ہے۔ابھی ثبوت وشواہد بھی پیش نہیں کئے گئے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ ابتدائی طور پر
عدالت کو یہ طے کرنا تھا کہ اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی یہ اپیل قابل سماعت
ہے بھی یا نہیں۔
اسرائیل نے سماعت کے
دوران ایک طرف جہاں نسل کشی کے الزامات کو مسترد کیا تھا وہیں اس نے جنوبی افریقہ
کی اپیل کو سماعت کے قابل ہونے کے سوال پر چیلنج بھی کیا تھا۔ لیکن عدالت نے واضح
کردیا کہ جنوبی افریقہ کو اسرائیل کے خلاف اپیل کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہی نہیں بلکہ
عدالت نے بادی النظر میں اپیل کو حق بجانب بھی قرار دیا ہے اور اسرائیل کے اعتراض
کو مسترد کردیا ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی افریقہ اور اسرائیل دونوں نے اقوام متحدہ کے
اس کنونشن پر دستخط کررکھے ہیں جس کے تحت کسی بھی نسلی،لسانی یا مذہبی گروپ کی نسل
کشی ممنوع ہے۔ عدالت نے از خود بھی غزہ میں انسانی اتلاف او رانسانی حقوق کی شدید
بے حرمتی پر اپنی دورد مندی ظاہر کی ہے او راعداد وشمار کی روشنی میں شہیدوں،
زخمیوں، ہجرت اور فاقہ کشی پر مجبور لاکھوں لوگوں‘ عورتوں اور بچوں پر آنے والی
افتاد کاذکر کیا ہے۔یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دنیا کی دوسری روایتی عدالتوں کی طرح
عالمی عدالت کے پاس کوئی قوت نافذہ نہیں ہے۔لہٰذا جو طبقات یہ کہہ رہا ہے کہ عدالت
نے جنگ بندی کا حکم کیوں نہیں دیاہے وہ عدالت کی صحیح صورتحال کو سمجھ نہیں پائے
ہیں۔
عالمی عدالت سے ملنے والی
سبکی او رہزیمت اسرائیل کے لئے بالکل اسی طرح ہے جس طرح اس کے بھیانک مظالم کے مقابلہ
میں حماس کی طرف سے دیا جانے والا سخت جواب ہے۔ اسرائیل اب تک یہی سمجھتا رہا کہ
عملاً ثابت بھی کرتا رہا کہ اس کامقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کرسکتی۔ اقوام
متحدہ میں آج تک کوئی قرار داد تک اسرائیل کے خلاف پاس نہیں ہوسکی‘ ایسے میں عالمی
عدالت کا اس کے خلاف دائر مقدمہ کو تسلیم کرلینا او ریہ کہنا کہ بادی النظر میں
جنوبی افریقہ کی اپیل درست معلوم ہوتی ہے، کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ہمیں معلوم ہے
کہ اسرائیل کی تخلیق جن شیطانی باقیات سے ہوئی ہے ان کی سرشت میں راہ راست پر آنا
ہے ہی نہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اسرائیل اپنے دفاع کے حق کا بہانہ بناکر عالمی عدالت
کے فیصلہ پر عمل آوری سے روگردانی کرے گا۔لیکن عالمی عدالت میں اس کی جو ذلت آمیز
سبکی ہوئی ہے وہ تاریخی اور بے مثال ہے۔ فلسطین کے معتبر تجزیہ نگار مصطفی برغوثی
کاخیال ہے کہ ”جو کچھ فیصلہ آیا ہے وہ کم نہیں ہے، یہ بے نظیر فیصلہ ہے یہ پہلی
بار ہوا ہے کہ اسرائیل سے وہ استثنیٰ اور تحفظ چھین لیا گیا ہے جو اسے 75سال سے
حاصل تھا، اسی طرح کئی دہائیوں سے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ میں مغربی ممالک
اور امریکہ کو جو استثنیٰ اور تحفظ حاصل تھا وہ بھی ختم ہوگیا خود عالمی عدالت کے عبوری
حکم میں بیان کردہ تمام مشکلات اسرائیل کے جرائم کو بے نقاب اور ثابت کرتے ہیں“۔
عالمی عدالت کے اس فیصلہ
نے مسلم اور عرب دنیا کو بھی آئینہ دکھادیا ہے۔جنوبی افریقہ نے اس سلسلہ میں مسلم
اور عرب دنیا پر سبقت حاصل کرلی ہے۔100 سے زیادہ اسرائیلی شہریوں کو حماس کے قبضہ
سے آزاد کراکر عالمی سطح پر جس طرح قطر نے ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا تھا اسی طرح
عالمی عدالت میں اپیل دائر کرکے اور اسرائیل کے خلاف عبوری حکم حاصل کرکے جنوبی
افریقہ نے بھی عالمی پلیٹ فارم پر ایک نمایاں مقام حاصل کرلیا ہے۔اس پورے قضیہ کا
بس یہی ایک نکتہ افسوس ناک ہے۔لیکن اب بھی ایک موقع باقی ہے۔شرپسند نتن یاہو کے
ہاتھ روکنے کے لئے اب بھی مسلم دنیا اور خاص طور پر مضبوط عرب ممالک ایک کردار ادا
کرسکتے ہیں۔ وہ اگر حماس کو پسند نہیں کرتے تو اس سے نپٹنے کایہ موقع نہیں ہے۔ فی
الحال تو مظلوم فلسطینیوں کو بچانے کا سوال سب سے اہم ہے۔
28 جنوری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism