سمت پال، نیو ایج اسلام
13 ستمبر 2022
تخلیق کا مطلب آزادی ہے
آزادی کا مطلب جشن ہے
تخلیق ہی جشن ہے
کیونکہ، یہ ایک مقدس جذبہ
ہے۔
- راقم الحروف کے ذریعہ
ریوانی کے عثمانی ترکی سے انگریزی ترجمہ۔
کچھ دوستوں نے محمد اقبال
سے پوچھا کہ آپ روز کچھ نہ کچھ کیوں لکھتے تھے؟ اقبال کے پاس واقعی اس کا کوئی
اطمینان بخش جواب نہیں تھا۔ وہ بس مسکرائے اور خاموش ہو گئے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ہم
کیوں ہر روز کھانا کھاتے یا ہر لمحہ کیوں سانس لیتے۔ اردو کے شاعر اور سماجی کارکن
حسرت موہانی کہا کرتے تھے، 'لکھنا میری لاچاری ہے'۔ یہی بات علامہ اقبال اور ان کے
لوگوں پر بھی صادق آتی ہے، جو تقریباً ہر روز بلاناغہ مذہبی طور پر کچھ نہ کچھ
لکھتے ہیں۔
لکھنا ایک سکون کا ذریعہ
ہے۔ یہ ان منجمد جذبات اور ان تمام احساسات سے آزادی عطاء کرتا ہے جن سے چھٹکارا
حاصل کرنا ایک بہتر زندگی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ تمام تخلیقی مشاغل میں ایک تخلیقی
شخص کی نفسیات میں داخل ہونے کا رجحان ہوتا ہے۔ اور جب کوئی چیز انسان کے نفس اور
شعور میں داخل ہو جاتی ہے تو یہ عادت بن جاتی ہے۔ بسم اللہ خان جیسے عظیم فنکار
اگر شہنائی نہ بجائیں تو انہیں اپنی طبیعت ناساز معلوم ہوگی اور مشہور وائلن بجانے
والے یہودی مینوہن اپنے وائلن کے ساتھ ہی جینا پسند کریں گے اور اسے اپنا سب سے
بڑا محبوب مانیں گے۔ اکثر رات کو وہ جاگ کر اپنا وائلن بجانا شروع کر دیتے ہوں گے
اور بجاتے بجاتے ہی سو جایا کرتے ہوں گے اور اگلے دن انہیں یہ معلوم بھی نہیں ہوتا
ہوگا کہ میں کس خوش اسلوبی کے ساتھ وائلن بجا رہا تھا اور ماحول کو مسخر کر رہا
تھا۔ بیتھوون اکثر اپنا کھانا پانی پیانو پر ہی کرتے ہوں گے۔ واقعی ایک تخلیقی شخص
وہ کام کرتا ہے جسے 'سوانتہ سکھائے' (اپنی تسلی کے لیے) کہا جاتا ہے۔
جب آپ کسی غرض کے بغیر صرف
اپنے آپ کو خوش کرنے کے لیے کچھ کرتے ہیں، تو آپ بے ساختہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں
اور شوق آپ کے شعور کا لازمی جزو بن جاتا ہے۔ راقم الحروف لکھتا ہے اور یہ جانتے
ہوئے کہ بہت سے پبلیکیشن میری نگارشات کو مسترد کر سکتے ہیں، پھر بھی میں انہیں
اپنے مضامین بھیجتا رہتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ میری زندگی میں ایسی کوئی خواہش باقی
رہ گئی ہے کہ میں اپنا نام چھپتا ہوا دیکھوں۔ درحقیقت، ہر روز، کم از کم 4/5
پبلیکیشن اور پورٹل نصف درجن زبانوں میں میرے مضامین شائع کرتے ہیں۔ مجھے اپنے دل
کی گہرائیوں سے اچھا لگتا ہے کہ میں نے کوئی نئی چیز تخلیق کی ہے اور اسے اس کے
منطقی انجام کے لیے بھیج دیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بچے کو نو ماہ تک رحم میں
رکھا جائے اور وقت آنے پر اسے جنم دیا جائے۔
کوئی بھی تخلیق، چاہے وہ کتنی
ہی معمولی کیوں نہ لگتی ہو، اس میں 'سریجن' کا عنصر ہوتا ہے (سنسکرت کا لفظ جو کہ
سطحی 'تخلیق' سے زیادہ گہرا معنی رکھتا ہے)۔ لفظ 'سریجن' کا مصدر 'سرج' ہے، جس کا
مطلب ہے 'جڑ تک پہنچنا اور کچھ انوکھا تلاش کرنا'۔ 'سریجن' کی یہ خوشی ایک تخلیقی
شخص کو کچھ منفرد تخلیق کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ 'ہر روز ایک نئی غزل لکھتا
ہوں میں/ جس طرح روز ایک نئی حسینہ کو دیکھتا ہوں میں'۔ راغب ہوشیار پوری کا یہ
ہلکا سا مزاحیہ شعر ہر روز اور ہر لمحہ کچھ تخلیقی کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
ہم میں سے اکثر کے ساتھ
مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی تخلیقی خوبیوں سے
واقف ہی نہیں ہیں۔ ہم سب کے اندر تخلیقی صلاحیت موجود ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو
کچھ بظاہر معمولی اور روایتی کام کرتے ہیں وہ بھی تخلیقی صلاحیت کے حامل ہیں۔ ہمیں
صرف اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو جاننے اور تخلیقی خوشی اور اطمینان کے ساتھ کام کرنے
کی ضرورت ہے۔ کسی بھی کام کو کبھی بھی بوجھل نہ سمجھیں کیونکہ ہر کام میں تخلیقی
خوشی ہوتی ہے۔ ہمیں خوشی اور اطمینان محسوس کرنے کے لیے اس خوشی کو تلاش کرنے کی
ضرورت ہے۔ یہ نقطہ نظر یا رویہ صرف کسی کے کام یا مشاغل تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ
زندگی کے ہر شعبے میں پھیلا ہوا ہے۔ امریکی شاعر ٹی ایس ایلیٹ کا کہنا ہے، 'زندگی
کہاں ہے، ہم نے جینے میں کھو دی/ کہاں ہے حکمت، ہم نے اسے علم میں کھو دیا/ علم
کہاں ہے، ہم نے اسے معلومات میں کھو دیا'۔
ہم سب میں پرجوش دلچسپی کا
فقدان ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم بوریت کا ماتم کرتے رہتے ہیں۔ ہم بور ہو جاتے ہیں
کیونکہ ہم وہ نہیں کرتے جو ہمیں کرنا چاہئے۔ یہ سطحی پن ہمیں بیکار اور بیمار بنا
دیتا ہے۔ اور جب ہم بیکار محسوس کرتے ہیں تو ساری دنیا بھی ہمیں ایسی ہی دکھائی
دینے لگتی ہے۔ یہ ایک قابل رحم غلط فہمی ہے کیونکہ پوری دنیا صرف ہماری نظروں کا
کھیل ہے۔ آپ دنیا کو اپنی ذہنی کیفیت کے دریچے سے دیکھتے ہیں۔ لہذا، خوش رہو اور
جو کچھ بھی کرتے ہو اس میں غرق ہو جاؤ۔ یہ جلد ہی آپ کا جنون بن جائے گا۔ زندگی
خوشگوار ہے، بشرطیکہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں یا جو کرنا چاہتے ہیں اس میں ہمیں لطف
ملنے لگ جائے۔
ابراہم لنکن کی پہلی
نوکری کھڑکیوں کے شیشوں کو صاف کرنا تھا اور اس نے یہ کام اس طرح سر انجام دیا
جیسے وہ اپنے صدارتی فرائض کی ادائیگی کر رہے ہوں! کیونکہ انہیں مستقبل میں امریکہ
کا صدر بننا تھا۔ کالج چھوڑنے والے اسٹیو جابز نے اپنے کیرئیر کا آغاز کمپیوٹر شاپ
میں بطور سیلز مین کے کیا۔ اسے اپنے کام سے بڑی دلچسپی تھی اور اس نے اپنے بظاہر
ایک معمولی کام پر توجہ مرکوز رکھی۔ یہاں تک کہ وہ آئی پیڈ اسمارٹ فون کے موجد بن
گئے اور جب جانے لگے تو انہوں نے ایک بہت بڑی اور مضبوط سلطنت چھوڑی جسے Apple کہا جاتا ہے۔
کسی بھی کام میں مشغولیت،
چاہے وہ بظاہر معمولی کیوں نہ ہو، روح کی تسکین کے ساتھ ساتھ ملازمت کی تسکین کی
بھی کلید ہے۔ 'اپنے وجود میں اتریں اور لامحدود خوشیاں تلاش کریں۔' یہی زندگی کا
سب سے بڑا منتر ہے۔ خوشی اندر ہے۔ اسے دریافت کریں اور پھیلائیں۔
English Article: To Create Is To Liberate
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism