ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
11 اگست 2023
کل
پھر ایک اور مسجد ’گیان واپی‘ فتنوں اور اشتعال انگیزی کی گرفت میں ہے ۔یہ سلسلہ ۱۹۴۹ میں بابری مسجد میں
جبراً مورتیاں رکھنے کے بعد سے۱۹۸۶ تک کہیں ٹھنڈے بستے میں پڑا رہا ۔ پھر اچانک اس
پر ضلعی عدالت کا فیصلہ آتا ہے جس پر فوری عمل درآمدشروع ہوجاتا ہے۔رام مند ر کی تعمیر کی تحریک’’ مندر
وہیں بنا ئینگے‘‘ یعنی مسجد کی جگہ پر‘ ایک قومی تحریک بن کر ابھر جاتی ہے۔ ایک
سیاسی جماعت اسکو قومی ایجنڈے میں شامل کر لیتی ہے۔ باہمی سطح پر مصالحت کے
لئے مذاکرات و مفاہمت اور عدالتی عمل
دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں۔ ۹نومبر
۱۹۸۹ کو راجیو گاندھی حکومت
ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا ایک دلت کامیشور چوپال کے ہاتھوں پہلی اینٹ
رکھواکررام مندر کی تعمیر کا با ضابطہ شلانیاس کروادیتی ہے-کامیشور وشو ہندو پریشد
کے جوائنٹ سکریٹری تھے۔یہاں سے ایک پوری تاریخ ہے مسجد کے انہدام سے لیکر رام مندر
کے حق میں عدالتی فیصلہ آنے اور اسکی تعمیر کے وجود میں آنے تک‘ جس سے آپ سب
واقف ہیں-
آج یہ سلسلہ کاشی اور متھرا پر بھی رکنے کا نام
نہیں لےرہا ہے۔ اورخدا جانے کہاں جا کر یہ رکےگا۔ عدالت کے فیصلے کا مزاج موجود
ہے۔ فضا بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، جینا اور کاروبار کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے،
زمین تنگ سے تنگ تر ہوتی جارہی ہے، تعلیمی
اداروں میں بچوں کو منافرت کا سامنا ہے، سفر میں لوگوں کی نظریں اچھی نہیں،
کاروبار میں نا قابل یقین مشکلات کا سامنا ہے، پانچ لاکھ مساجد، ہزارہا مدارس
اسلامیہ، متعدد خانقاہیں، مخلوط بستیوں
میں رہنے والے مسلمان، اکثریتی ہندو آبادی والے علاقے، کالونیاں ، دیہات و بستیاں
اور وہاں پر چند مسلمان گھر، بازار میں دوکاندار، آپسی لین دین میں کھینچائو ،
ہجومی تشدد، مویشیوں کے پالنے اور آمدو رفت کے مسائل، ملازمتوں میں تعصب اور
منافرت کے اشاریے! پھربھی ایک خاموشی و
فکری جمود! حکمت عملی نام کی کہیں کوئی چیز نہیں؟
اب نہ کوئی وکیل بچا ہے اور نہ حامی اور نہ حمایتی! ایک دلدل ہے جس میں
پوری قوم پھنستی ہی چلی جارہی ہے۔ اس سے
نکلنے کا کوئی راستہ بھی دکھائی
نہیں دے رہاہے۔
اب
کچھ ذکر اس وقت کا جب حکومت، اکثریتی وحدت کی واضح اکثریت یعنی مہذب ہندومعاشرہ
مسلمانان ہند سے بابری مسجد ہندوئوں کو رضاکارانہ طور پر حوالہ کرنےکی بات کر رہا
ہے اور اس پر اس سلسلے کو ختم کرنے کی بابت واضح ایک پختہ موقف رکھتا ہے۔ دائیں
بازو کےمتشدد عناصر بھی قدرے اس موقف کے ساتھ ہیں۔ کچھ عناصر کاشی اور متھرا کی دو
مساجد کی حوالگی کو اس طرح کے تنازعات کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے حوالے سے بات کر رہے ہیں‘ بشرطیکہ ایسا خیر سگالی کے طور
پر ہو‘ عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں نہیں۔ ایک محدود اور غیر معروف طبقہ تین ہزار کی بات بھی کر رہا ہے- مذاکرات
کا عمل جاری ہے کہ ۱۹۹۱
میں نرسمہا رائو حکومت عبادتگاہوں کے تحفظ کا خصوصی ایکٹ پارلیمنٹ کے دونوں
ایوانوں سے پاس کروالیتی ہے۔ اس میں بابری مسجد کے مقدمے کواس کے عدالت میں زیر
التوا ہونے کو جواز بناکر اس ایکٹ کے دائرے سے باہر رکھتی ہے۔مسلم اراکین پالیمنٹ
نے اس کا بائیکاٹ کیا ۔یہ الگ بات ہے کہ آج سب اسی کی دہائی دے رہے ہیں۔ معاملات
کے قطعی طور پر طے ہو جانے کے نتیجے میں
اس ایکٹ کو آئین کے آرٹیکل ۳۱
(ب) میں لاکر نا قابل چیلنج بنانے کا امکان موجود تھا۔
جس کا مطلب تھا کہ اب اس ایکٹ میں آئینی ترمیم تو کسی بھی دوسرے قانون کی طرح
ہوسکتی تھی لیکن اسکو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔با الفاظ دیگر آئندہ
کے اس طرح کے فتنوں پر قدغن لگ جانا ۔ایسا ہماری جانب سے نہ کبھی مطالبہ کیا گیا
اور نہ ہی اس پر کوئی بنیادی تحریک ہی چلی-
مذاکرات کی کوشش مسجد کی
شہادت سے پہلے کامیاب نہ ہوئی اور مسجد شہید کر دی گئی۔ ۱۹۹۲ سے ۲۰۱۹ تک ۲۷ برس میں بڑے مراحل آئے
مگر ہماری قیادت کسی فیصلے کی متحمل نہ ہوسکی ۔نرسمہا رائو کےزمانے میں اوقاف ،
آثار قدیمہ کے تحت آنیوالی مساجد میں نماز کی اجازت اور ایکٹ کو تحفظ کی بنیاد
پر کوئی درمیانی راستہ نکلنے کا سب سے بہتر وقت تھا جوضائع کردیا گیا- جیسے جیسے وقت گزرتا گیا زمین ہمارے ہاتھ سے
نکلتی گئی ۔حتی کہ اس کے بعد ہر حکومت نےآخری کوشش تو کی کہ کہیں کسی طرح کوئی
معاملہ فہمی کی شکل نکل جائے مگر نہ نکلی- ۲۰۱۰ میں جب مسجد کا ایک تہائی حصہ ایک عدالتی
فیصلے کے تحت دیا گیا تب بھی دیوار پر لکھا ہم نہ پڑھ پائے ۔مسجد کی ۱۹۹۲ میں شہادت کے بعد ملک
گیر فسادات اور ان میں ہزاروں معصوم جانوں کا لقمہ اجل بن جانا‘ اس ایک اشو پر
پوری سیاست کا وجود میں آجانا، اس سے
براہ راست اقتدار کے حصول کا یقینی بن جانا، فرقہ واریت اور منافرت کا گلی اور
کوچوں تک آ جانا اور پھر کہاں کہاں تک اسکا رس جانا؟ اکثریت کا اس وقت بہت بڑا
طبقہ آپکے ساتھ کھڑا تھا ۔آپ سے کچھ لچک اور رعایت کا امیدوار تھا تاکہ اپنے
دبائو کے استعمال سے کوئی درمیانی راہ نکال سکے۔ اسکو ہم نے مکمل مایوس کیا ۔اب
معدود ےچند ہونگے جو آپکا دل رکھنے کے لئے آپکی نجی محفلوں میں کچھ کہہ
دینگےمگرحقیقت کا آئینہ اب کسی غلط فہمی یا
خوش فہمی کی زمین نہیں چھوڑتا- گیان واپی کا سروے عدالتی حکم کے تحت جاری
ہے، ایودھیا کا فیصلہ اور اس کا اسلوب و مزاج کسی سے پوشیدہ نہیں! ہریانہ کے حالیہ
واقعات اور انکی سنگینی بھی ہمارے سامنے ہے-
آئیے کچھ تلخ حقائق پر
نظر ڈالیں ۔یہ ملک سناتن دھرم کے ماننے والوں کا آبائی وطن ہے ۔پارسی، یہودی،
عیسائی اور مسلمان یہاں باہرسے بہت تھوڑی تعداد میں آئے‘وہ بھی تاجر، سیاح،
اسکالر، روحانی پیشواوغیرہ کی حیثیت میں آئے۔ مختلف حیثیتوں میں یہاں کےباشندوں
نے سبکو اپنی عبادت گاہیں بنانے کو
اپنی نفس و نفسیات میں پہلے جگہ اور پھرزمین کے خطے دئیے۔ تب کسی دیگر کی عبادت
گاہ یہاں بنی- مت بھولئے کہ رسول اللہ کی زندگی میں جسوقت قبلہ بیت المقدس کی طرف
ہے تب گجرات کےساحل پر اس ملک کی اکثریت تاجروں اور سیاحوں کے لئے خود مسجد تعمیر
کرواتی ہے۔ ایسا کیرالہ اور تاملناڈو میں بھی ہوا ۔جو حملہ آور حکمران کی حیثیت
سےقابض ہوئے انھوں نے اس ملک کی زمین کو
اپنی تحویل میں لیا، اسکے بڑے حصے کو وقف بھی کیا، اپنے قلعے، مقبرے، باغات و
محلات و حویلیوں و دیگر سہولتوں کی تعمیر کے لئے استعمال کیا۔ عملاً سناتن دھرم کی
آبائی ملکیت کو اپنی ملکیت میں تبدیل کیا ۔نکتہ بہت حساس ہے مگر حقیقت پر مبنی
ہے-
اس کے علاوہ یہ شدت پسندی
کا سفر کہاں سےچلا ہے؟تقسیم ہونی نہیں چاہئے تھی۔ ساتھ رہتے آئے تھے۔ رہتے رہتے
مذہب کےنام پر تقسیم جب حقیقت بن چکی تو پھر آدھا تیتر آدھا بٹیر کا فارمولہ
کیوں چلا؟ مکمل انتقال آبادی ہونا چاہئے تھا۔ دونوں وحدتوں کو کم از کم اس
آزمائش سے تو نہ گزرنا پڑتا- اس کے
باوجود اس ملک کی اکثریت‘ آئین کی رو سے اس اقلیت کوجو مذہب کے نام پر علیحدہ وطن
حاصل کر چکی‘ مساوی حیثیت و حقوق اور اعلی
ترین منصب و مراتب کی آئینی یقین دہانی کراتی ہے۔ البتہ ہماری جانب سے اکثریت کے جذبات کے حوالے سے آج
تک کسی قسم کی کہیں کوئی لچک نہیں پائی گئی۔کہیں ہوتو بتائیے۔
اس
کے بر عکس صبح ساڑھے چار بجے اس اعلان سے
ہم اپنے پڑوسی کو اٹھاتے ہیں کہ’ نہیں ہےکوئی معبود عبادت کےلائق سوائے اس خدا کے
جسے میں مانتا ہوں‘ اور وہ اس پر اعتراض بھی نہیں کرتا۔ اس کے عقیدے کو دن میں
پانچ مرتبہ ہم چیلنج کرتے ہیں ۔ پبلک ایڈریس سسٹم پر اسکا اعلان کرتے ہیں ‘وہ کچھ
نہیں کہتا- رمضان میں ہم ساری رات اسکو سونے نہیں دیتے ‘وہ کچھ نہیں کہتا- وہ دین
جو اسکے دھرم کی مکمل نفی کرتا ہے اسکی دعوت
و تبلیغ کے لئے مکمل آزادی دی جاتی ہے۔وہ اپنے ہم مذہبوں کی بڑی آبادی کو
اپنا دھرم چھوڑنے پر کوئی احتجاج نہیں کرتا ، آپکے حج، اوقاف و تاریخی ورثے کے تحفظ کے لئے سرکار سہولتیں دیتی ہے، مذہبی
آزادی پرقد غن نہیں لگاتی ۔لیکن ہمارے ہاں کوئی لچک نام کی چیز نہیں‘ کوئی حکمت
عملی نہیں!اسلام میں انسان کی جان محترم ہے۔ فتنہ، فساد و قتال سے ہر ممکن بچنے کا
حکم ہے، امن ، صلح و سلامتی کا یہ دین متین ہے، اسکو مکمل ضابطہ حیات بتایا گیا
ہے‘ اس میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے ۔ تو پھر ہماری دینی بصیرت اور اسلام کی ہمہ گیریت اور اسکا اطلاق و نفاذ کہاں ہے؟ ابھی
کتنا خون اور کتنی منافرت مزید درکار ہے ؟
میں تو ایک فرد واحد کی
حیثیت سے اپنی بات رکھ سکتا ہوں۔ کوئی تجویز دینے کابھی شرعی اعتبار سے متحمل نہیں
۔مگر جو متحمل ہیں ان سے غور و فکر کا مطالبہ تو کر سکتا ہوں - ۲۵
کروڑ کی کثیر آبادی جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے ‘ مذہبی منافرت سے چور
اور اس میں غرق کیفیت میں وہ بھی جس میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے‘ کیسے اور کب
تک بے یقینی کی کیفیت پر چھوڑی جاسکتی ہے۔ اس مسئلے کا حل علمائےکرام و مفتیان
عظام کےپاس ہے ۔دانشور کچھ کہتے ہیں تو طرح طرح کے الزام آ جاتےہیں۔یہ خالص شرعی
مسئلہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ آپ آگے آئیں ‘عوام امن صلح و سلامتی کےساتھ
رہناچاہتے ہیں‘ اور اب تھک رہےہیں ‘ربڑ ایک حد تک کھینچی جاسکتی ہے بس ٹوٹنی نہیں
چاہئے-ربڑ ٹوٹنے کے دہانے پرہے۔اسے ٹوٹنے سے بچانا ہماری اور آپ کی ہی ذمہ داری
ہے۔
11 اگست 2023 ،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism