ڈاکٹر بلند اقبال
10 اکتوبر 2023
کچھ دیر کے لیے آپ فرض کر
لیں کہ آپ قرون وسطیٰ یعنی *میڈیاول دور* کی ایک بلڈنگ کنسٹرکٹر ہیں اور ایک دن آپ
کے بادشاہ سلامت صاحب کا گزر آپ کی کنسٹرکشن سائیڈ سے ہوجاتا ہے اور وہ آپ کے
اردگرد پھیلے ہوئے سیمنٹ اور گارے کو دیکھ کر آپ کو حکم دیتا ہے کہ اس میٹریل سے
اب ایک ایسا ٹاور بناؤ جس کے چھت کی کھڑی یا دروازہ جنت میں کھلتا ہو تو آپ کیا
کریں گے؟ ظاہر ہے آپ سب سے پہلا کام یہی کریں گے کہ اس سارے میٹریل کو چیک کریں گے
کہ واقعی اس مٹیریل میں کچھ دم خم بھی ہے کہ وہ اس قدر اونچے ٹاور میں بدل سکے؟ کہیں
ایسا نہ ہو کہ یہ مٹیریل ٹاور بننے سے قبل ہی ڈھیر ہو جائے۔
یہ بات حقائق پر مبنی ہے
کہ *میٹا فزیکل* یا *مابعد الطبیعاتی فکر* کی کسی بھی منزل تک پہنچنے کے لیے سب سے
ضروری یہی ہے کہ فزیکل یا طبعیاتی فکر کے تصورات کو منطقی انداز سے اس حد تک
تنقیدانہ انداز میں برت لیا جائے کہ عقیدہ پرستی یا *ڈوگمیٹازم* کے امکانات نہ
ہونے کے برابر ہوجائیں مثال کے طور پر اگر آپ سے کوئی سوال کرے کہ *وقت، پیدائش سے
پہلے کیا تھا*؟ یا *وقت کی ابتدا کس طرح سے ہوئی*؟ یا یہ کہ اگر آپ *فری ول* یا *ایک
آزاد خود مختارانہ مائنڈ* پر یقین رکھتے ہیں تو آپ سے پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ ایسا
یقین کیوں کر رکھتے ہیں؟
اور ممکن ہے کہ آپ کا
جواب یہ ہو کہ کیونکہ اس طرح سے لوگ اپنے عمل کے ذمہ دار ہوجائیں گے مگر پھر جواب
میں سوال بھی بن سکتا ہے کہ
بھلا آپ کو کیوں کر یقین
ہے کہ لوگ واقعی میں *فری ول* کی وجہ سے ذمہ دار ہی ہوجائیں گے؟ یعنی اس قدر
انتہائی یقین پر آپ کا اپنا یقین کس طرح سے آشکار ہو گیا ہے؟ آخر اس اعتماد کی وجہ
کیا ہے؟اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ کسی بھی شے کو محض گرانٹڈ لے کر اس کی سچائی کو
نہیں سمجھ سکتے ورنہ ان عقلی دلائل میں بھی ایک *لا عقلی سا عقیدہ* آپ کا نصیب بن
جائے گا اور یوں آپ اس کے سہارے ایک ناواقف سی زندگی اپنے تئیں واقف سمجھ کر گزار
دیں گے۔اس سلسلے میں جرمن فلاسفر *ایموئل کانٹ* نے اپنی کتاب *کریٹک آف پیور ریزن*میں
ہماری ذہنی ریاضت کو ڈوگمیٹازم سے بچانے کے خاطر فلسفیانہ تنقیدی عمل سے گزارنے کی
بھاری بھرکم جرح کی ہے کیونکہ ایک عام فکری انسان کے مقابلے میں ایک فلسفی کے لیے
*ڈوگمیٹزم* کا شکار ہوجانا سب سے زیادہ مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں
اس کے دلائل کی دنیا فکر کی جنت تک پہنچنے سے قبل ہی کہیں راستے میں ڈھیر ہو سکتی
ہے اور ایسی صورت میں ایک اور بڑا نقصان *ریڈیکل* یا *انتہا پسندانہ اسکیپٹزم* یا
*تشکیک پرستی* کا پھیلنا ہے جو فزیکل اور میٹا فزیکل فکری دنیاؤں کو ایک اندھے
کنویں کے بھی سپرد کر سکتی ہے کیونکہ بہرحال ایک فلاسفر کے فکری دھاگے، اس کی
*ایمپریکل فزیکل* یا *حسیات* کی دنیا میں پیدا ہوتے ہیں جن کا تعلق *حواسِ خمسہ*
ہی سے ہے۔
ایسی صورت حال میں یہ
احساس بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید ہماری حسیات اس لائق ہی نہیں ہیں جو ہمیں میٹا
فزیکل فکر پر دلائل بھی فراہم کرسکیں؟*ایمونئل کانٹ* کے لیے *اسکیپٹزم* ایک *پرابلمیٹک
آئیڈلزم* ہے کیونکہ اس کے خیال میں مذہب اور سائنس دونوں کا براہ راست اور
بالواسطہ تعلق *میٹا فزکس* سے تھا۔ اس کی وجہ بالکل سامنے کی تھی کیونکہ اٹھارہویں
اور انیسویں صدی میں فزیکل سائنس کی مستقل اٹھان مذہبی نظریات پر قائم میٹا فزیکل
دنیا کے لیے مستقل ڈھلوان کا سبب بن رہی تھی ایسے میں ظاہر ہے جلد یا بدیر فزیکل اور
میٹا فزیکل دنیا کے درمیان ایک منزل کہیں نہ کہیں تو بننے ہی والی تھی جس کا مقام
*کانٹ* نے *ٹرانس سینڈینٹل آئیڈیل ازم* کی صورت میں پاکر وقت اور جگہ کے تصور کو
اس کے سپرد کر دیا مگر شاید سائنس اور مذہب کی راہوں کی منزلیں یوں آسانی سے ایک
نہ ہونے والی تھی۔
*ایموئل کانٹ* نے اپنی کتاب *کریٹک آف پیور ریزن* میں نالج یا علم
کو *اے پرائری نالج*کہہ کر اس کا مقام متعین کرنے کی کوشش کی
اور اسے جہاں سراسر
*حواسِ خمسہ* کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا تو دوسری طرف اسے کسی مذہبی روح کی
پیدائشی خصوصیت کہنے سے بھی انکار کر دیا اور یوں اسے ایک نئی منزل پر حسیات، منطق
اور دلائل کے نتائج کے مقام پر پہنچا دیا۔
*کانٹ* کے لیے *اے پرائری نالج* کے اس تھری ڈائیمینشنل دماغی
ٹیمپلیٹ کے فریم میں کسی صورت بھی چہار سو پھیلی لامتناہی *جگہ اور وقت* کی *تھری
ڈائیمینشن* تصویر پوری نہیں اترتی تھی کیونکہ اس ریئلٹی کی حقیقت دماغ کے اندر اور
باہر کی دنیا کے درمیان *فنامنن* اور *نامنن* کے بیچ حائل *فی* کی موجودگی کی وجہ
سے تھا۔
یعنی جگہ اور وقت کی *اے
پرائری نالج*ہماری خالص حواس خمسہ سے ہمارے دماغی ٹیمپلٹ کا حصہ تو بنتی ہے مگر
ہماری مستقل فکر اور منطق ہی اس کے سچ ہونے کے دلائل دے پاتی ہے یعنی وہ فزیکل
دنیا کا *فنامنن* تو بن جاتی ہے مگر بالآخر میٹا فزیکل دنیا کی *نامنن*کے سپرد
ہوجاتی ہے یوں ہمیں ریئلیٹی کی اصل حقیقت نصیب نہیں ہو پاتی ہے۔فطرت کے اشارے
دیکھیں کہ جس سال یعنی 1804 میں جرمن فلاسفر *ایمونیل کانٹ* نے جگہ اور وقت کی اس
لامتناہی دنیا سے رخصت لی، ٹھیک اسی برس ایک *جرمن بائلوجسٹ میتھیا جیکب شلایڈن*
پیدا ہوجاتا ہے جو سائنس کی فزیکل دنیا میں ایک انقلابی برانچ یعنی *سیلولر
جینیٹکس* کا تعارف کراتا ہے اور پھر *چند برسوں بعد اسی دماغی جینیٹک ٹیمپلیٹ کی
موجودگی کا مائیکرواسکوپک ثبوت* ایک کمپیوٹر چپ کی صورت میں ڈھالنے کا سبب بن جاتا
ہے۔
آج اکیسویں صدی کے اس *جینیٹک
ٹیمپلٹ* میں حواس خمسہ بھی ہے، منطق بھی ہے اور فلسفیانہ و مذہبی فکر بھی، یعنی اس
سے بننے والے *ہیومن روبوٹس* میں فزیکل ورلڈ بھی ہے اور میٹا فزیکل دنیا بھی اور سب
سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وقت اور جگہ کے تصورات سے بے نیاز بھی ہیں۔
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism