New Age Islam
Thu Apr 17 2025, 08:08 PM

Urdu Section ( 27 Jun 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Latest Controversy In Kashmir: Did Shias Kill Imam Hussain And Ahle Bayt (Family Of Prophet)? کشمیر میں تازہ ترین تنازعہ: کیا امام حسین اور اہل بیت کو شیعوں نے قتل کیا؟

مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

 23 جون 2023

 کربلا کا معرکہ اتنا اہم واقعہ تھا کہ اس نے امت مسلمہ کو شیعوں اور سنیوں میں مستقل طور پر تقسیم کر دیا۔ ان دونوں گروہوں کے  پاس اسلام کی اپنی الگ الگ تشریحات ہیں جنہوں نے فرقوں کی حیثیت اختیار کر لی ہے نہ کہ مکاتب فکر کی، جیسا کہ بعض علماء مانتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔ شیعہ سنی تقسیم کو ختم کرنے کی تمام کوششیں بہت کم کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں۔ ان دونوں فرقوں کے اپنے اپنے اصول اور اپنی اپنی  کتابیں ہیں جن سے وہ اپنی تشریحات اور قواعد اخذ کرتے ہیں۔ ان کے پاس واضح اصول ہیں جو زیادہ تر ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے اقوال جو کہ مختلف جلدوں میں مرتب کیے گئے ہیں سنیوں اور شیعوں کے لیے بھی مختلف ہیں۔ صرف قرآن دونوں کے لیے یکساں ہے لیکن اس کی تفسیریں بھی دونوں کے نزدیک مختلف ہیں۔ شیعوں کے لیے رسالت کے ساتھ ساتھ، امامت (وہ ائمہ جو رسول کی میراث کو خونی رشتے کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں) بھی ایمان کا ایک اہم عنصر ہے۔ اسی طرح ائمہ کے اقوال اور خاص طور پر نہج البلاغہ کو بھی شیعہ کافی اہمیت دیتے ہیں۔

 سانحہ کربلا میں اہل بیت کے بیشتر افراد کو یزید کی فوج کے ہاتھوں بے رحمی سے قتل کیا گیا جن کا تعلق قبیلہ بنو امیہ سے تھا۔ اب یہ کہنے کی بات نہیں ہے کہ اہل بیت کون لوگ ہیں، شیعوں کے نزدیک پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ذریعے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے خاندان یعنی آپ رضی اللّٰہ عنہا کے دونوں صاحب زادگان اور آپ کے شوہر یعنی اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اہل بیت سے ہیں۔ شیعہ ان کا احترام کرتے ہیں اور اہل بیت کے خاندان سے امامت جاری ہے۔ شیعہ محرم کے پہلے عشرہ کو سوگ میں مناتے ہیں جس کے اندر کربلا میں اہل بیت کی شہادت ہوئی۔ وہ اپنے آپ کو کربلا کے سانحے سے جوڑتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ شہدائے کربلا کے حقیقی وارث ہیں، اس موقف کی مزاحمت سنی کرتے ہیں جو ماتم تو نہیں کرتے لیکن یزید اور اس کے فوجی جرنیلوں کے اقدامات کی مذمت کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں کربلا کے بارے میں سنی اور شیعہ فرقوں میں بحث اب تک جاری ہے۔ حالات، اصل مجرم، یزید کا کردار، امام حسین کی حکمت عملی سب پر دونوں فرقوں کے علمائے کرام کی رائیں مختلف ہے۔ تاہم جس چیز پر سب کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ اور اس سے ملحقہ علاقوں کے لوگوں نے بہت زور دیا کہ آپ ہماری بیعت لیں اور امت کی قیادت قبول کریں۔ امام کے دوستوں اور دوسرے مسلمانوں نے آپ کو اس سفر کے خلاف مشورہ دیا اور انہیں یاد دلایا کہ جو لوگ آپ کو آنے کی دعوت دے رہے ہیں وہ آپ کے والد اور بھائی حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں اپنے سابقہ تجربے کی بنا پر قابل اعتماد نہیں ہیں۔ لیکن امام حسین کی منطق یہ تھی کہ مجھے لوگوں کے سینکڑوں خطوط مل چکے ہیں اور قیامت کے دن میں اللہ کے سامنے کیا جواب دوں گا کہ مجھے بادشاہت سے لے کر خلافت تک کے معاملات کو سدھارنے کا موقع ملا اور میں نے کچھ نہیں کیا، لہذا اپ کے پاس اپنے دفاع کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس لیے امام نے اپنے خاندان کے افراد اور چند حامیوں کے ساتھ یہ سفر کیا۔

 سفر شروع کرنے سے پہلے امام حسین نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف سے بیعت لینے کے لیے بھیجا تھا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے آپ کا ساتھ دیا تھا۔ اس مقبولیت کو دیکھ کر مسلم بن عقیل نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے جوش و خروش اور حمایت کے بارے میں خط لکھا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنا سفر جلدی شروع کریں۔ امام حسین کی اس طرح کی زبردست حمایت دیکھ کر مطلق العنان بادشاہ یزید بن معاویہ چوکنا ہو گیا اور اس نے عبید اللہ ابن زیاد کو گورنر بنا دیا، جو مسلمانوں میں پہلا ناجائز اور حرامی تھا جسے حکمرانی سونپی گئی تھی۔ وہ ایک مجرم ڈکٹیٹر تھا جس نے لوگوں پر ظلم و ستم کیا جس کے نتیجے میں لوگوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت توڑ دی۔ اب مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی حمایتی نہیں بچا، انہیں گرفتار کر کے ان کا سر تن سے جدا کر کے یزید کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ بیعت سے منحرف ہونے اور مسلم بن عقیل کی شہادت کی یہ خبر امام حسین اور ان کے اہل خانہ تک اس وقت پہنچی جب وہ کربلا پہنچنے والے تھے اور بغاوت کے خوف سے ابن زیاد کی فوج نے ان کا محاصرہ کر لیا تھا۔ انہوں نے امام حسین سے مطالبہ کیا کہ وہ ناجائز حکمران اور بادشاہ یزید سے اپنی بیعت کا اعلان کریں، تب ہی ہم محاصرہ ختم کریں گے۔ یزید اپنے والد معاویہ کی طرح چاہتا تھا کہ اس کے خاندان میں اقتدار برقرار رہے کیونکہ انہوں نے خلافت کو ختم کر کے بادشاہی شروع کر دی تھی۔ اس کا طریقہ عملیت پسند بن گیا جس نے تمام عملی وجوہات کی بنا پر حقیقی خلافت کو تباہ کر دیا۔

 امام حسین نے انہیں مذاکرات کے لیے اپنے تین مطالبات سے آگاہ کیا اور کربلا میں یزید کی بیعت سے انکار کیا۔ یہ تین مطالبات درج ذیل تھے۔

 1. مجھے اور میرے اہل خانہ کو مدینہ واپس جانے دیا جائے جہاں سے ہم آئے ہیں۔

 2. مجھے سیدھا یزید کے دربار میں جانے دو، جہاں میں اس سے مذاکرات کروں گا۔

 3. مجھے مملکت کی حدود چھوڑنے کی اجازت دی جائے تاکہ میں کسی اور جگہ ہجرت کر سکوں۔

 وہ ان میں سے کسی کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے بے بس اور بے یار و مددگار مسافر خاندان کا قتل عام شروع کر دیا۔ قتل عام کے بعد انہوں نے آپ کے خیموں اور خطوط کو بھی جلا دیے تاکہ امام کو اشتعال دلانے یا بغاوت میں اپنے ملوث ہونے کے ثبوت کو ضائع کر دیا جائے جو ان خطوط سے ظاہر تھا۔ چنانچہ یہ بات عام ہو گئی کہ اہل کوفہ غدار اور بے اعتبار ہیں۔ یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ قاتل فوج کے لیڈروں نے غاصب سپاہیوں سے کہا وہ مردوں کے قتل میں جلدی کریں کیونکہ ہماری نماز عصر میں تاخیر ہو رہی تھی۔ یہ بیان پوری مسلم دنیا میں پھیل گیا۔ ایسا ہی کچھ یہودیوں اور ان کے راہبوں کے بارے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا۔ ’’اے اندھے راہنما! تم مچھر نکالتے ہو لیکن اونٹ نگل جاتے ہو۔" (متھیو 23:24)۔ اصل روح ختم ہو جاتی ہے لیکن رسومات پر زور دیا جاتا ہے۔

 سخت ناانصافی اور آلِ رسول کا قتل عام کرنے کے بعد ایسے مجرم قاتلوں کی فوج کا نماز پر زور دینا بے سود ہے۔ ایک بار جب قتل عام ختم ہوا اور اہل بیت کی خواتین اور امام حسین کے ایک زندہ بچ جانے والے فرزند زین العابدین کو قید کر لیا گیا اور راستے میں کوفہ کے لوگوں نے ان سے روتے ہوئے تعزیت کا اظہار کیا۔ انہیں اپنی جان کا خوف تھا اس لیے انہوں نے میدان جنگ میں امام اور ان کے اہل خانہ کا ساتھ نہیں دیا، لیکن اب رونا اور ان کا تعزیت کرنا سراسر منافقت تھی، جس نے ایک اور محاورے، بیان اور کہاوت کو جنم دیا جو کشمیری زبان میں اس طرح ہے، "یَمَوْ مَرَ امامِ تیمے کرن واویلہ۔ ’’یعنی اماموں کو قتل کرنے والے وہی ہیں جو ان کی شہادت پر ماتم کر رہے ہیں۔

 اسی بیان کو حال ہی میں سید الطاف بخاری نے استعمال کیا، جنہوں نے جے اینڈ کے اپنی پارٹی (جے کے اے پی) کی بنیاد رکھی ہے۔ اس سے پہلے وہ پی ڈی پی-بی جے پی دور حکومت میں وزیر تھے۔ یہ بیان انہوں نے سیاست دانوں کے ایک مخصوص تناظر میں استعمال کیا جو جموں و کشمیر کے لوگوں کی بے بسی پر تنقید کر رہے ہیں، حالانکہ ان کی موجودہ صورت حال کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے بلانے والے ان کے قتل کے ذمہ دار تھے اور پھر ان کی موت پر ماتم کر رہے تھے۔ لیکن ان کے اس بیان نے ہنگامہ کھڑا کر دیا کیونکہ انہوں نے کہا کہ اماموں کو قتل کرنے والے یا امام کہہ رہے ہیں۔ اس پر شیعہ بھڑک گئے اور انہوں نے اس کے خلاف عوامی فتنہ شروع کر دیا۔ تمام شیعہ، سیاست دان، علماء، بیوروکریٹس، کارکنان اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے سامنے آگئے، اور اس بیان کو انہوں نے شیعہ مخالف قرار دیا۔ انہوں نے حقیقی زندگی میں بھی کرپٹ، مجرم اور یزید کے پیروکار پیدا کیے ہیں جو امامت اور اہل بیت کے پیچھے اپنی یزیدی طرز زندگی کو چھپاتے ہیں۔ بخاری جو کہ اسلام سے اچھی طرح واقفیت نہیں ہیں اور ان کی جماعت جس میں کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کی طرح کوی ایسا عالم نہیں ہے جو اس قسم کے الزامات کی تردید کر سکے۔

 سب سے پہلی بات یہ ہے کہ شیعہ خود کو امام کے قاتلوں کا حصہ کیوں سمجھتے تھے؟ اس وقت شیعہ سنی تقسیم نہیں تھی یہ کربلا کے بعد شروع ہوئی۔ یاامام کہنا اگرچہ شیعوں کا معمول ہے کیونکہ امامت شیعوں میں رسالت کے متوازی ہے۔ اماموں کو پکارنا شیعوں کے لیے جائز اور درست ہے اور سنیوں کے لیے جرم اور شرک۔ سنیوں کا عقیدہ ہے کہ کربلا کے بعد کوفہ اور اس کے ملحقہ علاقوں سے شیعہ مذہب کا آغاز ہوا، لہٰذا اماموں کے قتل میں شریک ہونے والوں کا نوحہ کرنے والا بیان درست ہے۔ لیکن یہ فرقے ایک سیاست دان کے کچھ بے تکے بیانات سے اتنے پریشان کیوں ہو گئے؟

 اپنے خلاف بیان بازی کے پیش نظر، بخاری نے معافی مانگی کیونکہ انہیں انتخابی معاملات کو ذہن میں رکھنا ہوگا، ورنہ ان کا بیان درست ہے۔ موجودہ شیعہ اپنے شیعہ آباؤ اجداد کے جرائم کے ذمہ دار نہیں ہیں اور ان کو ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہے اور یہ اتحاد کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے گا۔ اسی طرح دور حاضر کے سنیوں کو ان کے آباؤ اجداد کے جرائم کا ذمہ دار ٹھہرانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن وہ ملا اور فرقہ پرست کٹھ پتلی جو تاریخی بیانیوں اور حقائق پر مبنی باتوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور موجودہ بیانیوں کو ہتھیار بناتے ہیں جو بالآخر فرقہ واریت کو تقویت دینے کا باعث بنتے ہیں۔ شیعہ اور سنی دونوں ہی ایک دوسرے کو ان برائیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جو اسلام کو درپیش ہیں، اور ایک دوسرے پر الزام تراشی یقینی طور پر فائدہ مند نہیں ہے۔ بخاری نے بغیر کسی بد نیتی کے وہ الفاظ کہے ہیں جو عام لوگوں کی زبان میں استعمال ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے ان کی سرزنش کرنا نامناسب ہے۔ شیعوں اور سنیوں کو تاریخ کو پس پشت ڈال کر اس حقیقت کو سمجھنا ہو گا کہ کربلا میں امام اور اہل بیت کا قتل کرنے والے شیعہ یا سنی نہیں تھے بلکہ ایک ظالم ریاست کے رکن اور ایک مجرم بادشاہ کے کٹھ پتلی تھے۔ شیعہ اور سنی دونوں کی صفوں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں جو معاویہ اور یزید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کربلا کے پیغام کو اغواء کرنے اور اس سانحے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

English Article: Latest Controversy In Kashmir: Did Shias Kill Imam Hussain And Ahle Bayt (Family Of Prophet)?

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/controversy-kashmir-shias-imam-hussain-bayt-prophet/d/130086

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..