محمد مسلم شیخ
(حصہ 1)
2 جون 2023
انسانوں کے
انفرادی اور اجتماعی معاملات میں کمی اور کوتاہی فطری ہے کیونکہ انسان نہ عقل میں
کامل ہے اور نہ ہی پوری بصیرت کا حامل ہے۔ اس لئے اسلام نے انسان کی ان بنیادی
کمزوریوں کو دُور کرنے، انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بہترانداز سے گزارنے، صحیح
سمت پر قائم رہنے اور بڑے نقصانات سے بچنے کے لئے جو ہدایات اور احکام دیئے ہیں ان
میں ایک اہم ہدایت اپنے معاملات میں باہم مشورہ کرنا ہے۔
امام راغب اصفہانیؒ نے
مفردات القرآن میں لکھا ہے کہ: ایک دوسرے سے رجوع کرکے کسی رائے پر پہنچنے کا نام
مشورہ ہے، اور شوریٰ اس معاملے کو کہتے ہیں جس کے بارے میں مشورہ کیا جائے۔ شوریٰ
کا لفظ اسمبلی اور مجلس شوریٰ کے لئے بھی مستعمل ہے۔ لفظ شوریٰ قرآن مجید میں تین
مقامات پر وارد ہوا ہے اور ان تینوں مقامات پر انسانی زندگی کے نہایت اہم مسائل سے
بحث کی گئی ہے۔ جس سے نہ صرف اس لفظ کے معنی اور مفہوم کا تعین ہوجاتا ہے، بلکہ
اسلام میں مشورے کی اہمیت پر بھی روشنی
پڑتی ہے۔
مشاورت کا مقصد باہمی گفت
و شنید کے بعد کسی منصوبے کو تیار کرنا اور اس کے اطلاق کو قابلِ عمل بنانا ہے۔
ایک محقق جونز کے نزدیک مشاورت ایک ذاتی حرکت کا عمل ہے جو دو افراد کے درمیان
واقع ہوتا ہے جس میں ایک فرد عمر رسیدہ اور زیادہ تجربہ کار ہوتا ہے یا دوسرے سے
زیادہ ذہین ہوتا ہے۔ یہ عمررسیدہ فرد باہمی گفت و شنید کی بدولت اپنے سے کم عمر یا
کم تجربہ کار فرد کے مسائل کی تشریح کرتا ہے اور مسائل کے حل میں مدد دیتا ہے۔
مشاورت کا مطلب درحقیقت خود آگاہی ہے، اس کی بدولت فرد کو اس بات سے آگاہ کیا
جاتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو کس طرح استعمال کر سکتا ہے اور اپنی مشکلات پر کس
طرح قابو پاسکتا ہے۔ اس طرح مشاورت میں ایک فرد مشورہ دینے والاہوتا ہے جسے مشیر
کہتے ہیں اور دوسرا فرد وہ ہے جسے مشورہ دیا جاتا ہے۔ مشورے سے کسی مسئلے کے جملہ
پہلو سامنے آتے ہیں جس سے مسئلے کی نوعیت سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ مشورہ
اور مشاورت کے معنی ہیں رائے معلوم کرنا، باہمی سوچ بچار کرنا۔
قرآن سے استدلال
(۱)سورئہ شوریٰ ، آیت نمبر ۳۸؍
میں ہے: ’’جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے
مشورے سے چلاتے ہیں، ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں
۔‘‘
گویا، اہلِ اسلام کا ہر
معاملہ باہمی مشورے سے طے ہوتا ہے۔یہ مکی سورہ ہے اور مکہ میں اسلامی ریاست ابھی
تک وجود میں نہ آئی تھی اس لئے اہلِ اسلام کو ہر معاملے اور ہر بات میں باہمی
مشورہ کرنے کی ترغیب دی گئی تاکہ وہ ایک منفرد معاشرہ قائم کرنے اور اسے چلانے کی
صلاحیت اور استعداد پیدا کرلیں۔ یہ بات
اسلام میں شوریٰ اور افہام و تفہیم کی اہمیت کی دلیل ہے۔
(۲) سورہ
بقرہ میں ہے: ’’پھراگر وہ دونوں (میاں بیوی) آپس کی رضامندی اور مشورے سے بچے کا
دودھ چھڑانا چاہیں توا ن پر کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘ (۲۳۳)
(۳)سورئہ
آل عمران، آیت نمبر ۱۵۹؍
میں ہے: ’’اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی
رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسا کرو۔‘‘
سورئہ آل عمران کی
مذکورہ آیت کریمہ مفسرین اور اہلِ علم کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اس میں حکمت
یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی امورِ دنیا اور
معاملاتِ حکومت میں اہلِ اسلام سے مشورہ لینے اور کثرتِ رائے کا احترام کرنے کا
حکم دے رہے ہیں۔ حالاں کہ اللہ کے رسولؐ پر وحی نازل ہوتی تھی اور آپؐ کسی سے
مشورے کے محتاج نہ تھے۔ لیکن اُمت کے لئے ایک اسوہ اور سنت قائم کرنا مقصود تھا۔
ان آیات کے علاوہ بھی بے شمار آیات سے مشورے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔
اسوۂ رسولؐ
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے قول و فعل سے بھی یہ ثابت ہے کہ شوریٰ قانون بھی ہے اور حکمت عملی بھی ہے۔
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے
ہیں کہ جب شوریٰ کا حکم آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس
کا رسول، اگرچہ مشورہ کرنے سے بےنیاز ہیں مگر مشورے کایہ حکم اس لئے ہے تاکہ اُمت
کے لئے رحمت کا باعث ہو۔ اُمت کا جو فرد رائے اور مشورہ طلب کرے گا کبھی اعلیٰ
درجے کی رہنمائی سے محروم نہ ہوگا اور جو مشورے کو ترک کرے گا وہ کبھی بھی مشکلات
سے نہ نکلے گا۔ (بیہقی فی شعب الایمان)
حضرت قتادہؓ کی رائے میں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی نازل ہونے کے باوجود، اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے
کا حکم اس لئے دیا گیا تھا کہ لوگوں کے دل مطمئن ہوجائیں اور شوریٰ اُمت کے لئے
قانون بن جائے ۔(روایت ابن جریر)
حضرت حسنؓ کی روایت سے
بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ شوریٰ کے حکم کا مقصد یہ تھا کہ اس میں صحابہؓ کے
لئے قانونی جواز پیدا ہوجائے اور بعد میں اُمت کے لئے ایک مستقل حکمت عملی بن
جائے۔ (فتح الباری، ص ۲۸۶)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص سے اس کے مسلمان بھائی نے (اپنے کسی معاملے میں)
مشورہ طلب کیا ہو اوراس نے اُس کے مفاد کے خلاف مشورہ دیا تو اس نے اپنے بھائی سے
خیانت کی۔ (الادب المفرد، ص ۳۵۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے صحابہ کرامؓ کو جہاں اجتہاد کا حکم دیا وہاں مشورے کا بھی حکم دیا۔ آپؐ
کا ذاتی معمول بھی یہی تھا کہ تمام معاملات میں صحابہ کرامؓ سے اجتماعی اور
انفرادی مشورہ لیتے تھے۔ ایک موقع پر آپؐ
نے فرمایا:عقل مند سے مشورہ کرو، ہدایت پائو گے اور اس کی نافرمانی مت کرو، کہیں
نادم نہ ہونا پڑے۔(الدرالمنثور)
حضرت ابوہریرہؓ کا بیان
ہے کہ میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو اپنے رفقاء سے مشورہ کرنے میں اتنا
زیادہ سرگرم ہو جس قدر رسولؐ اللہ تھے۔(ترمذی، کتاب الجہاد۔ بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت
ہے کہ جب تمہارے حکمراں تم میں سے بہتر لوگ ہوں اور تمہارے دولت مند لوگ سخی ہوں
اور تمہارے معاملات باہمی مشورے سے طے کئے جاتے ہوں تو زمین کی پیٹھ تمہارے لئے اس
کے پیٹ سے بہتر ہے۔‘‘(ترمذی، ج۲،
ص ۳۳۰)
حضرت عائشہؓ بھی فرماتی
ہیں کہ میں نے لوگوں سے رائے لینے اور مشورہ کرنے میں رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کوئی
انسان نہیں دیکھا۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ
ایک مرتبہ آنحضرتؐ نے مشورے کی اہمیت بیان کی اور فرمایا: اگر میں شوریٰ کے بغیر
کسی کو خلیفہ بناتا تو اُم عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعودؓ) کو بناتا۔ (مستدرک
حاکم، ج ۳،ص
۳۱۸۔ ترمذی، ج ۲،ص ۴۴)
معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص
موقع پر یہ حضوؐر کی ذاتی رائے تھی مگر آپؐ نے اس پرعمل نہیں کیا۔ آپؐ خود نامزد
فرما سکتے تھے مگر آپؐ نے شوریٰ کے حق کو باقی رکھا۔
جنگ ِ بدر کے موقع پر
مسلمان اجتماعی مشورے کے بعد جنگ کے لئے میدان میں نکلے۔ (مسلم، باب غزوئہ
بدر) جنگ ِ احزاب میں حضرت سلمان فارسیؓ
کے مشورے سے خندقیں کھدوائی گئیں۔(ابن سعد، ص ۶۶، ج ۲)
حضرت عائشہ صدیقہؓ پر
اِفک و بہتان کے سلسلے میں بھی آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ لیا، حالانکہ یہ آپؐ
کا ذاتی اور گھریلو معاملہ تھا۔ آنحضوؐر نے اپنی عائلی زندگی کے اس مخصوص معاملے
میں بھی حضرت علیؓ ، حضرت اسامہؓ اور عام مسلمانوں سے بھی انفرادی طور پر مشورہ
کیا اور ثابت فرمایا کہ زندگی کے ہر معاملے میں مشورہ مفید ہوتا ہے۔ آپؐ ،حضرت
ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے مشورے کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ چنانچہ، آپؐ نے ارشاد
فرمایا: اگر ابوبکرؓ اور عمرؓ شوریٰ میں ایک رائے پر جمع ہوجائیں تو میں اس کے
خلاف (فیصلہ) نہیں کروں گا۔ (مظہری، ج ۲، ص ۱۶۱)
خلفائے راشدین کا طرز عمل
نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے بعد مسلمانوں کے حکمراں، ان لوگوں سے مشورہ لیا کرتے تھے جو اپنی دیانت
اور امانت کے اعتبار سے قابلِ اعتماد ہوتے اور جو دین کا علم رکھتے تھے۔ (بخاری، ج
۲، ص ۱۰۹۰)حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا
طرز عمل یہ تھا کہ جب آپ کو کسی فیصلہ طلب معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی سنت نہ ملتی تو معاشرے کے سرکردہ افراد سے مشورہ لیتے تھے۔ جب کسی بات پر
اتفاق رائے ہوجاتا تو اسی کے مطابق فیصلہ فرما دیتے۔ حضرت عمرؓ بھی ایسا ہی کرتے
تھے۔ (الدارمی، ج ۱،ص
۵۸) حضرت عمرؓ کی مجلسِ شوریٰ
کے ارکان علومِ قرآنیہ کے ماہرین ہوا کرتے تھے۔
حضرت عثمانؓ نے منصبِ
خلافت سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ کتاب و سنت کے بعد، میں اس فیصلے کا پابند
ہوں گا جس پر تمہارا اتفاق رائے ہوچکا ہو۔ (تاریخ طبرانی، ج ۲، ص ۱۵۹)
حضرت علیؓ نے حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر ہم کوئی چیز قرآن وسنت میں نہ پائیں تو
کیا کریں؟۔ حضورؐ نے فرمایا: قانون جاننے والے عبادت گزار مسلمانوں سے مشورہ کرو۔
مزید فرمایا: ایسے موقع پر کسی کی انفرادی رائے جاری نہ کرو۔ (اعلام الموقعین،ج ۱، ص ۵۴) (جاری)
2 جون 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism