ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
9 فروری،2024
مہذب معاشروں کی تشکیل کے
عمل کاتعلق براہ راست محض آئین کی بالادستی وقانون کی عملداری سے منسلک ہے یا پھر
جن وحدتوں پر اس کااطلاق ونفاذ ہوتاہے ان کے مابین باہمی رشتوں میں اعتماد، خیر
سگالی اور خوشگواری کابھی اس میں کوئی عمل دخل ہے؟ یا پھر یہ دونوں ایک دوسرے کے
ساتھ باہم مشروط ہیں؟
میرا یہ ماننا ہے کہ آئین
ایک ڈھال ہے جس کی حیثیت گرفت کی ہے جب کہ رشتوں کا معاملہ پکڑ کاہے! حقیقت تو یہ
ہے کہ سیاست، معیشت اور معاشرت کی تعمیر جن ستون پر موقوف ہے ان کا تعلق اخلاقیات
اور اس کے مستند ز اویوں سے ہے۔بگاڑ کی جڑیاہم رشتوں میں دراڑ ہے نہ کہ آئین
وقانون! آئین تو محض 73سال پرانا ہے جب کہ باہم رشتے اور ان کی آبیاری صدیوں پر
محیط ہے۔ اس دور میں جہاں کچھ کھٹا ہے وہاں میٹھا بہت زیادہ ہے۔میٹھا ہماری مشترکہ
طاقت ہے او رکھٹا مشترکہ چیلنج! یادرکھیں کہ جب ایک وحدت فریقین میں تبدیل
ہوجائیگی تب منافرت کو زمین ملے گی، نئے فتنے جنم لیں گے،فساد برپا ہوگا، فضا میں
بے اعتمادی کو فروغ ملے گا، دوریاں اور بدگمانیاں بڑھیں گی اور بین المذاہب مفاہمت
و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے سامنے پہاڑ جیسے مسائل کھڑے ہوجائینگے۔ جس کے نتیجے میں
انا، ضد، ہٹ دھرمی اور آر پار جیسی کیفیات کاہمیں مشترکہ سامنا پڑیگا۔آگے بڑھنے سے
پہلے ایک حقیقت کو آشکار کرنا فرض عین کے درجے میں ہے اور وہ ہے فطرت انسانی اور
اس کے اپنے خد وخال وتقاضے! ان کو بھی ہر تجربے میں محلوظ رکھا جانا چاہئے۔ دواہم
امور جن کا انسانی فکر وعمل میں بڑااہم کردار ہے وہ عقیدہ اور تاریخ ہیں! یہ دونوں
اپنے طریقے سے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ یہ مضمون
ہندو۔مسلم تنازعات کے تناظر میں تحریر کیا گیاہے۔ گوکہ میرے پیش نظر وطن عزیز کی
سالمیت،عزت وعظمت، حشمت وبقا کے ساتھ سب سے اوپر ہے،لیکن باہمی رشتے او ران میں
آئی وگھلی وہ کڑواہٹ ہے جو دیمک کی طرح اس کو چاٹ رہی ہے۔ وقتی /عارضی سیاسی فوائد
حکمراں واپوزیشن دونوں کو ان سے نظر پوشی پر مجبور کررہے ہیں۔ پہلے یہ قومی اور
پھر ملی المیہ ہے۔ بھارت جو وطن عزیز کا
وہ نام جو اس کی اصل سے جڑا ہے دیگر نام اس کو مختلف حوالوں سے بعد میں
حاصل ہوئے۔ مثلاً ہندوستان یعنی ہندوؤں کے رہنے کا ملک! انڈیا ایک انگریزی نام بعد
میں متعارف ہوا۔ یہ ہزار وں سال قدیم دیش ہے۔جس کی بنیاد سناتن دھرم، اس کی روایات
اور اس کے مذہبی صحیفوں سے سیدھے جڑتی ہے۔اس
حقیقت کو تسلیم کئے بغیر کسی حقیقت پسندانہ موقف یا نتیجے پر پہنچا ہی نہیں
جاسکتا!
بودھ اور جین دھرم سناتن
روایات کی کڑی کے طور پر ہی دیکھے جاتے ہیں۔ گو کہ ان میں بنیادی اختلافات ہیں۔
سناتن دھرم املاً ایک خدا کا قائل ہے لیکن عملاً اس کے یہاں 33کروڑ دیوی دیوتاؤں
کی پوجا ہوتی ہے،جب کہ بود ھ اور جین دھرم نعوذ باللہ خدا کے وجود کے ہی منکر
ہیں۔باہر سے جن مذاہب نے یہاں اپنی جگہ بنائی ان میں پارسی او ریہودی مظالم کے پس
منظر میں پناہ کی غرض سے آئے، مسیحیت مشنری تحریک کے نتیجے میں او ربعد میں اقتدار
کے ذریعہ یہاں آئی، جس کا مقصد اپنے عقیدے کو عام کرنا تھا۔ وہ صرف چند فیصد یہاں
کی سناتن آبادی کو اپنی طرف مائل کرسکی۔البتہ اسلام پہلے تاجروں سے اللہ کے رسول
کی حیات میں متعارف ہوا اسی دور میں مساجد کی تعمیر ساحلی علاقوں جیسے
گجرات،کیرالہ، تامل ناڈو میں ہوئیں پھر باہر سے حملہ آور آئے اور یہ سلسلہ لگ بھگ
آٹھ سو برس چلا۔ساتھہی اولیاء اللہ کا ایک سلسلہ بھی اسی دور میں یہاں پروان چڑھا
جنہوں نے اپنے فقیر انہ کردار سے یہاں کی سناتن اکثریت کو اس حد تک متاثر کیا کہ
آج خطہ ہند کی کل آبادی میں لگ بھگ 40 فیصد مسلم آبادی ہیں۔ 1857 میں پہلی جنگ
آزادی مل کر لڑی گئی لیکن اس کے چند دہائیوں بعد علیحدہ مسلم وطن کے مطالبے اور
تحریک نے ملک کے سارے سماجی واخلاقی ڈھانچے کو دولخت کردیا۔نتیجہ قیام پاکستان اور
اس کے بعد کئی جنگیں ودیگر سیاسی اختلافات وتاریخی تضادات نے وطن عزیز کے اندر
مسلما نان ہند اور سناتن دھرم کے ماننے والوں کے مابین کئی سوال کھڑے کر دیئے۔
یہاں سے ایک نئی صورتحال جنم لیتی ہے۔ تقسیم ہند، قیام پاکستان اور ایک بڑی مسلم
اقلیت کا ہندوستان میں رہ جانا اس نے مستقبل کے حوالے سے دائیں بازو کی سیاست کی
مضبوط بنیاد ہندو مہا سبھا او رآر ایس ایس کے قیام نے رکھ دی جس کو مسلم اکابرین و
دانشوروں نے کبھی سنجیدہ بحث ومباحثے کے لائق ہی نہیں سمجھا۔ آج جب کہ دس برس سنگھ
کو اقتدار میں ہوگئے اور آگے کسی دیگر کروٹ کا امکان نہیں تب بھی صرف مخالفت،
مخاصمت اور براہ راست محاذ آرائی کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیتا۔
1949 میں بابری مسجد میں مورتیاں رکھاجانا مستقبل کے ہندوستان میں
نظریہ ہندوتو اور دائیں بازو کی ہندو سیاست کو اقتدار میں لانے کی بنیاد کاپتھر ہی
نہیں ہے بلکہ اسے مستحکم بنیادوں پر زمین، ماحول اور متواتر غذا ملتی رہے اس کو
یقینی بنانے کے لئے کیا گیا ایک ایسا سیکولر عمل خاص ہے جس سے آج ہندوستانی مسلمان
کو سامنا ہے۔
مضمون کے پہلے حصے کاتعلق
قانون کی عملداری سے ہے۔ یادرکھئے قانون ایک تحریر شدہ مسودہ ہے جس کے تحت و ماتحت
ملک کا نظام چلتا ہے اس میں خلل،دخل وتجاوزات کے لئے آئینی ترامیم کا راستہ ہے،
حکومت وقت و انتظامیہ کے فیصلے او ران پر عمل درآمد او رچارہ جوئی کے لئے عدالتیں
موجود ہیں اب چوتھا میڈیا ہے جو عوام وخواص کی رائے او رآراء کو مثبت ومنفی دونوں
طرح متاثر کرتاہے۔ اطلاق ونفاذ آئین وقانون کا تعلق انسانی عقل، فہم وادراک کے
ساتھ انسانی نفسیات،باہمی رشتوں او ران کی مثبت منفی نوعیات سے جڑا رہتا ہے۔ مضمون
کے اس نکتہ دوم کو خاص طور پرذہن میں رکھیے۔
آج آئین وقانون اپنی جگہ
ہے مگر پھر پریشانیاں ومسائل بجائے کم ہونے کے بڑھ کیوں رہے ہیں؟ جواب اکثریتی
نفسیات میں کہیں یہ بیٹھ گیا ہے کہ مسلمان کسی بھی معاملے میں معاملہ فہمی سے کام
نہیں لینا چاہتا بلکہ اپنی چلاتا او رچلوانا چاہتاہے،مسلمان سمجھتا ہے کہ
تاریخ،مذہب، عقیدے، نفسیات واخلاقیات کے مقاملے میں وہ کسی رواداری کامتحمل نہیں
ہوسکتا۔ایسی توقعات یا مطالبات اس کے ساتھ ظلم وزیادتی کی وجہ بن رہے ہیں۔ جس کے
نتیجے میں ان کے لئے زمین تنگ سے تنگ تر ہوتی جارہی ہے اور آج 1986 میں بابری مسجد
کا تالہ کھلنے اور ہاں پوجا کی اجازت سے اور 22جنوری کو ایودھیا میں بابری مسجد کے
مقام پر رام مندر کی تعمیر او راس کے افتتاح تک جتنا پانی بہہ گیاہے۔ اس سے اس میں
مزید اضافہ ہوگا، کمی نہیں آرہی ہے۔ لنچنگ کے واقعات، مدراس، مساجد، ائمہ مساجد کی
شہادتیں،بلڈوزر بازی، مساجد،مقابرو مزارات کے انہدام کے کئیواقعات،عدالتوں کے
فیصلوں کامزاج،خودساختہ گڑھی تاویلیں،مخصوص نفسیات او راس پر مبنی فیصلوں میں کیا
آپسی رشتوں کی کڑواہٹ شامل حال آپ کو دکھائی دیتی ہے یا نہیں؟
ایک دور تھا صرف بابری
مسجد کا مسئلہ تھا۔ آلہ آباد ہائیکورٹ نے
ایک تہائی حصہ مسلم فریق کو دیا جب کہ 2019 میں سپریم کورٹ نے شواہد کے اقرار کے
باوجود ’آستھا‘ کی بنیاد پر فریق ثانی کے حق میں فیصلہ کرکے مستقبل کے لئے ایک
واضح نظیر قائم کردی۔کاشی او رمتھرا ہی نہیں اب یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں عبادت
گاہوں کے تحفظ کے 1991 کے قانون کی نئی تاویلیں آپ کے سامنے ہیں۔ گیان واپی مسجد
کے تہ خانے میں پوجا کی اجازت کا معاملہ 1991 کے ایکٹ کی خلاف ورزی نہیں قرار
پایا۔ شاہی عید گاہ متھرا اور فریق متعلق کے درمیان پہلے سے سمجھوتہ موجود ہے مگر
آوازیں اپنی جگہ ہیں۔ اب مسلمانان ہند اوران کے ذمہ داران کو ایک ایسی اجتماعی
تشکیل کی طرف بڑھنے کی اشد ضرورت ہے جو مندرجہ بالا توجیہات کو اندر ون وبیرون ملت
مکالمے ومفاہمت کی بنیاد مان کر آگے بڑھے او رایک ایسی تجویز کے ساتھ سامنے آئے جس
میں ایک طرف باہمی رشتوں کی بحالی واستو اری کواولیت حاصل ہو تو دوسری طرف اس بے
لگام سلسلے پر قدغن لگ سکے جو معاشرے میں بقائے باہم کی بنیاد پر امن، صلح وسلامتی
کے ماحول کو فروغ دینے اور فتنہ، فساداور بے اطمینانی کی کیفیت کے تدارک کا فیصلہ
کن ذریعہ بنے۔ خیر سگالی سے خوشگوار ی کا سفر آج وطن عزیز کی تمام وحدتوں کے لئے
پہلی ترجیح بن جانا چاہئے۔ پانی اتنا بہہ چکا ہے کہ اب پہل عمائد ین ملت کو ہی
کرنی ہوگی۔ جس کی کوئی بھی ایک ملی وحدت متحمل نہیں! اشتراکی عمل پر مبنی اجتماعیت
میں انفرادیت تلاش کیجئے۔
9 فروری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-----------------
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism