میڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ
انسٹیٹیوٹ
28 جون ، 2010
پاکستانی ٹی وی کےاینکر
پرسن مبشر
لقمان کی میزبانی میں ایک ٹی وی پروگرام "پوائنٹ بلینک لقمان کے ساتھ "
میں خطاب کرتے ہوئے، معروف پاکستانی علما نے کہا کہ اسلام مسلمانوں کو لونڈی رکھنے
کی اجازت دیتا ہے۔ پروگرام کی ویڈیو فوٹیج پاکستانی ویب سائٹ pakistanherald.com پر شائع کی گئیں۔
پیر سے جمعہ تک رات گیارہ
بجے نشر ہونے والا یہ شو ایک ٹاک شو ہے جس پر پاکستان میں طرح طرح کے سماجی اور
سیاسی امور زیربحث آتے ہیں۔ اس پروگرام کا خاص ایڈیشن جس پر علماء نے بات کی تھی
، وہ پاکستانی ٹیلی ویژن چینل ایکسپریس نیوز پر 31 مئی 2010 کو نشر کیا گیا تھا۔
اس پروگرام کے شرکاء میں
جمعیت اہلحدیث کے سیکرٹری جنرل علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، مدرسہ جامعہ نعیمیہ کے
ناظم اعلیٰ مولانا راغب نعیمی اور جماعت اسلامی کے سیاستدان اور پنجاب یونیورسٹی
میں مساجد کے شعبہ کے سابق سربراہ ، ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی ہیں جنہوں نے ٹیلیفون
کے ذریعے اس پروگرام میں شرکت کی ۔
پروگرام کے اقتباسات
مندرجہ ذیل ہیں: [1]
"جہاد کے آغاز کے دوران ، وہ خواتین جو دشمن طاقتوں کی مدد
کرنے ان کے ساتھ آتیں اور جب انھیں قید کر لیا جاتا تو فوج کے امیر انہیں تقسیم کر
دیتے "
ٹاک شو کے میزبان مبشر لقمان
مین [ ۳ : ۱۸
منٹ کے ]: "سوال یہ ہے کہ کیا اسلام لونڈیوں کو رکھنے کی اجازت دیتا ہے یا
نہیں؟ کیا اسلام میں آپ نکاح کے بغیر کسی عورت کو رکھ سکتے ہیں؟ کیا آپ اس کے ساتھ
کسی قسم کی جنسی تعلقات قائم رکھ سکتے ہیں؟ کیا اس سے پیدا ہونے والے بچوں کو والد
کی طرف سے حق وراثت دیا جائے گا یا نہیں؟ چلیے شروع کرتے ہیں سب سے پہلے جواب ہاں
یا نا میں دیجیے ۔کیا لونڈی رکھنا جائز ہے ؟
علامہ ظہیر : ‘‘ہاں ، بے
شک ’’۔
مولانا نعیمی: ‘‘اس مسئلے
میں کوئی دو رائے نہیں ’’
مبشر لقمان: آگے بڑھنےسے
قبل اس بات کی وضاحت کر لینا ضروری ہے کہ کیا یہاں کوئی شرط ہے جس کے تحت لونڈیوں
کو رکھنا جائز ہے ؟
علامہ ظہیر: "ہاں
کچھ شرائط ہیں۔ آپ ہر عورت کو لونڈی نہیں مان سکتے۔ مثال کے طور پر ، گھریلو مدد
کے طور پر کام کرنے والی خواتین لونڈی نہیں ہیں یا چترال کے علاقے میں ایک روایت
ہے جس کے مطابق خواتین کو فروخت کیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں کسی خاص علاقے
کا نام نہیں لینا چاہئے۔ ویسے بھی ، قبائلی علاقے جہاں خواتین فروخت کی جاتی ہیں۔
میں ان کو لونڈی نہیں مانتا ہوں۔ لونڈی رکھنا دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے اگر آپ ان شرائط پر پورا اترتے ہیں جیساکہ نبی
علیہ السلام اور آپ کے بعد آپ کے خلفا کے زمانے میں تھیں ، تو اگر آج بھی ان
شرائط کو پورا کر لیں تو آپ کے لیے جائز ہے لونڈی رکھنا ۔
"پہلی شرط یہ ہے کہ اگر جہاد کے موقع پر وہ خواتین جو دشمن
قوتوں کے ساتھ ان کی مدد کے لئے آئیں تو ان کو گرفتار کرلیا جائے اور فوج کے امیر
نے ان کو بانٹ دیا تو یہ اس کی صوابدید ہے ، ہم ان کو لونڈیوں کی طرح رکھ سکتے
ہیں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اگر ہم کچھ بازار ایسے پائیں جہاں غلام اور لونڈی کی
فروخت معاشرتی طور پر رائج ہو وہاں آپ جو عورتیں خریدیں گے وہ آپ کی لونڈی ہو گی
۔ آزاد عورت کو لونڈی بننے یا آزاد عورت کو فروخت کرنے کے لئے اسے اغوا کرنا ہے ،
میرا خیال ہے ، غلط ہے ... "
‘‘کیا اسلام غلام اور باندی کی تجارت کی اجازت دیتا ہے ؟’’
مبشر لقمان : تفصیلات کی
طرف بعد میں جاوں گا پہلے میرا ایک سوال یہ ہے کہ کیا اسلام غلام اور باندی کی
تجارت کی اجازت دیتا ہے ؟
علامہ ظہیر: "اسلام
غلاموں کی تجارت کرنے کی اجازت دیتا ہے جہاں اس مقصد کے لئے مارکیٹیں قائم ہیں۔
نئے [یعنی آزاد] مردوں کو غلام بنائے جانے کی نہ تو اسلام میں اجازت ہے اور نہ ہی
اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔"
مبشر لقمان: "باندی یا
غلام سے پیدا اولاد غلام ہے یا نہیں؟"
علامہ ظہیر: "نہیں۔
اس مسئلے میں متعدد شرائط ہیں جن کے تحت کسی غلام کی اولاد کو غلام نہیں بلکہ آزاد
مانا جاتا ہے۔ اگر مالک اسے آزاد کرنا چاہتا ہے تو وہ آزاد ہے ... اگر کوئی لونڈی
سے نکاح کرے اور وہ حاملہ ہوجائے تو اولاد غلام نہیں مانی جائے گی۔ باندی سے نکاح
کرنے کے بعد یا تو آقا اسے آزاد کرسکتا ہے یا کسی اور دوسرے مرد سے اس کا نکاح
کرسکتا ہے ، لیکن وہ اسے دوبارہ فروخت نہیں کرسکتا ... ایسا نہیں ہے کہ کسی بچے کا
غلام ہمیشہ غلام ہوتا ہے ... "
مبشر لقمان : "آپ کی
نظر میں وہ کیا شرائط ہیں؟"
مولانا نعیمی: "...
سب سے پہلے یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے ہی غلاموں کو خرید و فروخت کرنے
کا رواج تھا اور اس کے لیے مارکیٹیں قائم کی جاتیں تھیں ... انھیں کس طرح غلام
بنایا جاتا تھا ؟ انہیں جنگوں کی حالت میں قید کیا جاتا ، سڑکوں کے کنارے سے اغوا
کیا جاتا ، بچوں کو زبردستی اغوا کرلیا جاتا اور پھر بیچا جاتا۔ غلام اسلام سے
پہلے مشقتوں سے بھری زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
"اسلام میں غلامی کا تصور کا مطلب یہ نہیں کہ اس عمل کو جاری
رکھا جائے ۔ غلامی کا تصور جائز تھا کیونکہ اس وقت اس کا رواج و چلن تھا۔ اچانک اس
کے خاتمے کے نتیجے میں بہت سارے مسائل پیدا ہوسکتے تھے۔ لہذا ، غلامی کا تصور
اپنایا گیا لیکن ایک متعدد شرائط واقدامات طے کیے گئے تھے تاکہ یہ خیال نہ بنا لیا
جائے کہ اسلام میں غلامی کی اجازت ہے تو غلامی جاری رہے گی ، بلکہ ان اقدامات کے
ساتھ ہی ، غلامی کا رواج معاشرے ختم ہونا شروع ہوا ۔
"سوال یہ ہے کہ لوگوں کو کس طرح غلام بنایا گیا تھا ... اور
ان غلاموں کے ساتھ کس طرح سلوک کیا گیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور
میں ایک جنگ لڑی گئی تھی جہاں سے جنگ غنیمت لائی گئی تھی جس میں ایک خوبصورت عورت
تھی۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے حوالے کر دی گی تھی۔ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان سے واپس لے لیا ، مکہ بھجوایا اور وہاں کے کچھ
مسلمان قیدی اس کے بدلے میں آزاد ہو گئے۔ اسی طرح کی دیگرمثالیں ہیں جن میں جنگوں
میں حاصل کی گئیں باندیاں اور غلاموں کو قیدیوں کو چھڑانے کی خاطر واپس دے دیے
جاتے یا کچھ فدیہ کے بدلے آزاد کردیئے جاتے تھے اور کبھی کبھی خیر سگالی کے طور پر
بنا کچھ لیے دیے آزاد کر دیے جاتے تھے۔
مبشر لقمان: "ڈاکٹر
محمد اسلم صدیقی ، پوائنٹ بلینک پر آپ کا استقبال ہے۔ آنے کے لئے آپ کا شکریہ۔ آپ
نے آج کی گفتگو سنی۔ میں آپ سے وہی سوال پوچھنا چاہتا ہوں : کیا اسلام میں لونڈ ی
رکھنے کی اجازت ہے؟
محمد صدیقی (ٹیلیفون پر
رابطہ کرتے ہوئے ): "بات یہ ہے کہ غلامی کے مسئلے میں مرد کو غلام کہا جاتا
ہے اور عورت کو لونڈی یا باندی کہا جاتا ہے۔ یہ اسلام کا حکم نہیں ہے کہ آپ کسی کو
غلام بنائیں یا غلامی کے رواج کو جاری رکھیں۔ اسلام نے نہ تو غلامی کا آغاز کیا
اور نہ ہی غلامی کی روایت کو زندہ رکھا ۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور
میں چلنے والی جنگوں کے دوران ، یہ رواج پہلے سے ہی موجود تھا کہ عام طور پر جنگی
قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہوتا تھا ، اگر تبادلہ ہوتا تو ایک بڑی رقم کے بدلے میں کیا
جاتا تھا۔ عام طور پر مردوں کو غلام بنایا جاتا تھا اور خواتین کو لونڈی بنایا
جاتا تھا۔
"یہاں تک کہ (برطانوی دور سے قبل ) ہندوستان میں بھی یہ مسئلہ
خاص طور پر لونڈیوں کے حوالے سے بہت سنگین تھا۔ میں تاریخ سے قبل کی بات نہیں کر
رہا ہوں۔ ٹیپو سلطان [میسور کے مسلمان بادشاہ ، 1750-1799 عیسوی ] کے دور میں ، جب
انہوں نے ایک لڑائی میں مراٹھاوں کو پوری طرح شکست دی تو ان کی فوجیں بھاگ گئیں
اور ان کی عورتیں پیچھے رہ گئیں۔ خواتین سے بھرا ایک خیمہ قید کر لیا گیا۔ وہ ان
کے کمانڈروں کی بیویاں تھیں۔ سلطان ایک شریف النفس آدمی تھا ، اگلی صبح اس نے قیدی
عورتوں کو اپنے 20 جوانوں کے ہمراہ ان
عورتوں کی افواج کی طرف واپس بھیج دیا جو شکست کے بعد میلوں دور ڈیرے ڈال چکے تھے۔
جب ان کی بیویاں وہاں پہنچیں تو انہوں نے انھیں واپس لینے سے انکار کردیا۔ مسئلہ
یہ تھا کہ انہوں نے ایک رات مسلمانوں کے ساتھ گزار دی تھی ، لہذا افواج ان عورتوں
کو اپنے ساتھ نہ لے جا سکے ۔
"مشرق میں یہ تصور رائج تھا کہ جب ان کی عورتوں کو ان دشمن
قیدی بنا کر لے جاتے خواہ ایک رات ہی کے
لیے کیوں نہ ہو ، تو وہ ان عورتوں کو واپس لینے سے انکار کر دیتے ۔... جب اسلام
آیا اور اس صورتحال کو دیکھا کہ مردوں کو غلام اور عورتوں کو لونڈی بنا کر رکھے
جانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور یہ کہ ان کے اپنے ہی لوگ انہیں واپس لینے سے انکار
کر دیتے ہیں تب اسلام نے تین یا چار راستے متعارف کروائے۔پہلا طریقہ یہ تھا انہیں
قیدیوں کے بدلے چھوڑ دیا جاتا ، دوسرا یہ کہ انہیں آزاد کر دیا جاتا اگر ان سے
کسی قسم کا خطرہ محسوس نہ ہوتا تاکہ خیر سگالی کی فضا قائم ہو سکے اور اسی طرح اگر
ان سے مستقبل میں کسی نفع بخش کام کی توقع ہوتی تو انہیں آزاد کر دیا جاتا ،
تیسری صورت یہ تھی انہیں یا تو فدیہ لیکر آزاد کر دیا جاتا ۔
جنگ بدر میں جب پہلی
مرتبہ قیدیوں کو لیا گیا تو مسلمان بہت غریب تھے۔ تاریخ کا ہر طالب علم اسے جانتا
ہے کہ مسلمانوں کے پاس نہ کھانے کے لیے کافی کھانا تھا نہ ہی تلوار یں تھیں ۔آپ
اس بات کو جانتے ہیں جنگ بدر صرف کچھ ہی تلواروں سے لڑی گئیں تھیں ... بہت سارے
صحابہ کرام کی رائے تھی کہ مسلمان قیدیوں کے بدلے فدیہ لیں، لہذا نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے [ گرفتار شدہ فوجیوں کو رہا کرنے کے لیے ] فدیہ لیا ۔اس کے بعد
نہ صرف ہمیشہ کے لیے جائز ہو گیا بلکہ بلکہ قرآن مجید میں بھی اس کی اجازت دے دی
گئی۔ چنانچہ جنگی قیدیوں کے معاملے میں یہ تین راستے تھے .... جہاں تک غلامی کا
تعلق ہے تو یہ آخری [چوتھا] آپشن تھا کیونکہ اس مجبوری کی صورت میں ان کے پاس کوئی
دوسرا راستہ نہیں تھا۔ "
مبشر لقمان: ‘‘کیا لونڈی
اور اس کے مالک کے درمیان جنسی تعلقات درست ہے ؟
محمد صدیقی: "میں
سیاق و سباق طے کرتا ہوں۔ لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم فوج نے بہت سے
غلاموں پر فتح حاصل کرتی تھی، لونڈیوں کا انتخاب کرتی تھی اور بڑی تعداد میں غلام
رکھتی تھی، حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ اسلام نے کافی سخت ضابطہ بنا یا تھا ۔ایک شخص
جنگ میں مرتا تو لوگ اسے شہید کہتے کیونکہ اس نے اسلام کے لیے اپنی زندگی کی
قربانی دی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جہنم کی آگ دیکھ رہا
ہوں اس شخص پر جس نے مال غنیمت میں سے ایک کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی چرا یا ’’۔ اس کے
بعد کوئی بھی واقعہ پیش نہ آیا اور پھر نہ کسی نے ایک سوئی تک لی ۔ کسی شخص کو
غلام بنانے یا کسی عورت کو باندی بنانے کا یہ طریقہ نہ تھا ۔ معمول یہ تھا کہ جب
جنگی مال غنیمت لائے جاتے تھے تو جنگی قیدی بھی ان میں شامل ہوتے ۔ یہ اسلامی
ریاست کے حاکم و امیر کی ذمہ داری ہوتی کہ وہ شوری کے [مشاورتی کونسل] کے ذریعہ
فیصلہ کرتے کہ کن لوگوں میں غلام اور
لونڈی تقسیم کیا جانا ہے ، لیکن صرف اسی صورت میں جبکہ ان کے پاس کوئی دوسرے آپشن
نہ ہوتے ۔ جس طرح سے ایک نکاح خواں نکاح پڑھاتا ہے اسی طرح امیر بھی لونڈیوں کا
ہاتھ فوجیوں کے ہاتھوں میں دیتے تاکہ مشکلات کا حل ہو سکے کہ آخر قیدی عورتوں کے
ساتھ کیا کیا جائے، اگرچہ ہم اسے نکاح کا نام دیتے ۔
مبشر لقمان : ‘‘تو اسے
نکاح نہیں کہا جا سکتا ؟
محمد صدیقی: ‘‘آپ خود
جانتے ہیں کوئی بھی اس دنیا میں کسی قیدی سے نکاح کرنا نہیں چاہتا ’’ (ناقابل
سماع)
(وقفہ)
بائبل کے مطابق عرب کے
لوگ کسی غلام یا باندی کی اولاد ہیں
مبشر لقمان : ‘‘علامہ
ابتسام الہی صاحب، میں آپ سے ایک مشکل سوال پوچھنے والا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ
اس طرح کے سوالوں کے جوابات دینے سے نہیں ہچکچاتے ہیں۔ لہذا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ
اسلام میں ایک طریقہ موجود ہے جس میں ایک عورت اور ایک مرد بغیر نکاح کے جنسی
تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
علامہ ظہیر: "ہاں
ایسا ہے لیکن یہ شرائط پر مبنی ہے ! مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ میرا ذاتی نظریہ
وہی ہے جس کی طرف میں پہلے ہی اشارہ کیا تھا اور جس سے ڈاکٹر اسلم صدیقی نے اتفاق
کیا کہ اسلامی افواج کے امیر اپنے کمانڈروں کی مشاورت سے قیدی عورتوں کو بطور
لونڈی کے تقسیم کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا ضروری ہے تو جواب ہوگا
نہیں ایسا کرنا ضروری نہیں بلکہ یہ محض جائز ہے ۔ہمارا موضوع بحث یہ نہیں ہے کہ
کیا یہ لازم ہے یا نہیں بلکہ ہماری گفتگو اس بات موضوع پر ہے کہ آیا ایسا کرنا
جائزہے یا نہیں تو مجھے اس میں شک نہیں کہ یہ جائز ہے ۔ اب آپ نے جو سوال پوچھا اس
پر گفتگو کرنا چاہوں گا ۔سورہ مومنون میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کی خصوصیات بیان
کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مومنین اپنی عفت کی حفاظت کریں مگر ان کے کے لیے ان کی
بیویاں اور لونڈیاں جائز ہیں ۔اس آیت کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مرد جسم کے
خصوصی حصوں کو اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے سامنے کھول سکتے ہیں اور بیویوں کی
تعداد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے ، تو یہاں جواز کا پہلو ہے ۔
"اب ، میں آپ کے سامنے ایک تاریخی دلیل پیش کرتا ہوں۔ بائبل
میں جب آپ سینٹ پال کا خط پڑھتے ہیں تو پائیں گےکہ وہ اپنے نسب پر فخر کرتے ہیں؛
وہ کہتے ہیں کہ ہمارا نسب برتر ہے کیونکہ ہم ایک آزاد عورت سارہ کے بیٹے ہیں، وہ عربوں
پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عرب ایک لونڈی کے بیٹے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں
کہ سیدہ ہاجرہ سیدہ سارہ کو بطور تحفہ [ایک لونڈی] دی گئیں، حالانکہ بعد میں ان کی
حیثیت تبدیل ہوگئی ... "
مبشر لقمان : ‘‘وہ ایک
لونڈی تھیں؟’’
علامہ ظہیر: ‘‘وہ ایک
لونڈی تھیں اگرچہ ان کا رتبہ بعد میں بحیثیت زوجہ کے بدل گیا ’’
مبشر لقمان : ‘‘کیا ان کی
شادی ہوئی تھی؟’’
علامہ ظہیر: ‘‘ہاں ان کی
شادی ہوئی تھی ۔وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ تھیں۔اس میں کوئی شک نہیں۔ایک
حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی لونڈی کو آزاد کرکے نکاح کرلے تو اس کو آخرت میں
دوگنا اجر ملے گا ۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ سیدہ ماریہ قبطیہ
تھیں ۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک باندی تھیں۔در حقیقت انہیں بحیثیت باندی نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ دیا گیا تھا لیکن حضور نے ان سے نکاح کرکے ان کا
درجہ بلند کر دیا ۔ یقینا لونڈی رکھنا اسلام میں جائز ہے لیکن یہ سب کے لیے حلال
نہیں بلکہ صرف اسی کے لیے جو اسے اپنائے ۔اس کے احکام زوجہ سے الگ ہوتے ہیں’’۔
مبشر لقمان : ‘‘کیا اس
عورت کے حقوق نہیں ہیں’’۔
علامہ ظہیر: ‘‘کیوں نہیں
؟ یقینا اس عورت کے بھی حقوق ہیں’’۔
مبشر لقمان: ‘‘اس کا مطلب
ہے اسے بیچا نہیں جائے گا اور نہ ہی کسی کو اس کی مرضی کے مطابق دیا جائے گا ؟’’
علامہ ظہیر: ‘‘ایک چھوٹی
بات ہے مجھے بتائیے ۔اگر کوئی شخص کسی جائیداد ، بکری ، گھوڑے یا عورت کا مالک ہو
جائے تو اسے انہیں کسی بھی شخص کو بیچنے کی اجازت ہے ۔یہ الگ مسئلہ ہے کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہمیں ترغیب دلاتی ہے کہ ہم اسے آزاد کر دیں ، اسی طرح
قرآن کریم بھی ہمیں غلام آزاد کرنے کی ترغیب دلاتا ہے اگر وہ اچھے اخلاق والا ہو
اور اچھے شہری کی حیثیت سے رہ سکے ۔آزاد ہونے کے بعد ایک غلام اور باندی کو
اختیار ہے کہ اپنی آزادی وہ اپنے مالک کے ساتھ رہ کر صرف کر سکتا ہے’’ ۔
مبشر لقمان نے مولانا
نعیمی سے کہا: "جناب ، آپ کیا کہتے ہیں ، کیا نکاح کے بغیر کسی لونڈی سے جنسی
تعلقات رکھنے کی اجازت ہے؟"
مولانا نعیمی:
"دیکھیے ، یہاں معاملہ یہ ہے کہ نکاح کے لیے شریعت کے مطابق ، دو گواہوں کا حاضر
ہونا ضروری ہے۔ نکاح خواں [عام طور پر ایک مولوی جو شادی کا رسم ادا کرتا ہے] کا
وہاں موجود ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر لڑکا اور لڑکی دو گواہوں کی موجودگی میں [بیوی
اور شوہر کی حیثیت سے] ایک دوسرے کو قبول کرتے ہیں تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے اور
وہ ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر سکتے ہیں"
مبشر لقمان [مداخلت کرتے
ہوئے]: "جناب ، ایک منٹ ، ایک منٹ۔ اگر آج میں کسی لڑکی کے بارے میں یہ کہوں
کہ وہ میری بیوی ہے اور [وہ راضی ہے] تو کیا نکاح خواں کی عدم موجودگی اور صرف آپ
دونوں کی موجودگی میں، نکاح منعقد ہو جائے گا؟ "
مولانا نعیمی: "نکاح
کا مطلب ہے خود کو نکاح کے لیے پیش کرنا اور دوسرے فریق کی جانب سے قبولیت کا ہونا
یعنی دونوں فریق اگر ایجاب وقبول کر لیں تو نکاح درست ہو جائے گا ۔ اگر کوئی لڑکا
اپنے آپ کو نکاح کے لیے پیش کرے اور دو گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کے ساتھ لڑکی
قبول کر لے تو نکاح ہو جاتا ہے ..."
علامہ ظہیر: "اس
معاملے میں حنفی مذہب اور اہلحدیث فرقہ کے مابین ایک اختلاف ہے۔ اہلحدیث کا ماننا
ہے کہ سرپرستوں کی شمولیت ضروری ہے ..."
مولانا نعیمی: "ممکن
ہے کہ دونوں گواہ ان کے ولی یا والدین ہوں۔"
علامہ ظہیر: "مسئلہ
یہ ہے کہ اگر لڑکی بلوغت [جوانی] تک پہنچ گئی ہے تو ایک بالغہ لڑکی اپنی مرضی سے نکاح
کر سکتی ہے ..."
مبشر لقمان: "...
مسئلہ یہ ہے کہ کیا نکاح خواں کی عدم موجودگی میں نکاح درست ہو جاتا ہے ؟ اگر کوئی
لڑکا کسی لڑکی کے بارے میں یہ کہے کہ وہ
اس کی بیوی ہے اور وہ بھی ایسا ہی کہہ دیتی ہے تو کیا یہ نکاح ہے ...؟"
علامہ نعیمی [مداخلت کرتے
ہوئے ]: "ہاں نکاح منعقد ہو گیا’’
علامہ ظہیر: "ہمارے
نزدیک ایک ولی [سرپرست] کی جانب سے قبولیت کی شرط ہے۔یعنی اگر سرپرست حاضر نہ ہو
اور اسے قبول نہ کرے تو نکاح منعقد نہیں ہوگا ..."
مبشر لقمان: "اگر
میں اہل حدیث سے تعلق نہیں رکھتا تو کیا یہ [نکاح] میرے لئے جائز ہے؟"
علامہ ظہیر: "اس پر
یقین رکھنے والوں سے پوچھو ... [ناقابل سماع]"
مبشر لقمان : "نہیں،
میں تو محض اس مسئلے کے بارے میں معلوم کرنا چاہ رہا ہوں"
علامہ ظہیر: "ٹھیک
ہے، اہل حدیث اور حنفی مسلک کی بات چھوڑئیے ۔ آئیے قرآن و سنت میں دیکھتے ہیں۔
قرآن پاک کیا کہتا ہے؟ قرآن پاک میں ہے ان کے ساتھ ان کے گھر والوں کی مرضی سے کرو
۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی بھی نکاح سرپرستوں کی اجازت
کے بغیر نہیں ... "
مولانا نعیمی: "...
نکاح کیا ہے؟ نکاح ایک عقد ہے یعنی ایک معاہدہ کی طرح ہے۔ اس میں دو فریق اور دو
گواہ ہوتے ہیں لہذا نکاح ایک معاہدہ ہے ۔ دونوں فریقوں میں سے، ایک ، خواہ مرد ہو
یا عورت، اپنے آپ کو شادی کی پیشکس کرتے ہیں اور دوسرا قبول کرتا ہے، اور اگر دو
گواہ ایسے موجود ہوں جو یہ جانتے ہیں کہ نکاح منعقد کیا جا رہا ہے تو یہ معاہدہ منعقد
ہو جاتا ہے ... "
"دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اللہ کا حکم ہے کہ اگر تم ان کے درمیان
(یعنی مجامعت کے معاملے میں) انصاف نہ کر سکو تو ایک ہی بیوی کافی ہے (شرکا کی
جانب سے مداخلت ہوتی ہے )۔۔۔۔نکاح کے منعقد ہونے کے بعد کچھ ایام ایسے ہوتے ہیں جن
میں دونوں کے لیے مجامعت کرنا جائز نہیں اور یہ سلسلے میں اللہ تعالی کا حکم
ہے۔اللہ تعالی ہمیں منع فرماتا ہے ، ہمیں اجازت دیتا ہے اور وہ لونڈی جسے کوئی شخص
اپنی رعایت وحفاظت میں رکھتا ہے وہ ایسی ہی ہے مانوں کہ وہ نکاح میں ہو ، لہذا اسے
بھی اس بات کی اجازت ہے ’’
مبشر لقمان: تو آپ کے
فقہی مذہب کے مطابق ، صرف دو گواہوں کا ہونا نکاح کے لیے شرط ہے ۔۔۔۔مگر ان
لونڈیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا ہمیں ان کے لیے گواہوں کی ضرورت ہے ؟
مولانا نعیمی : جب کسی
لونڈی کو کسی انسٹیٹیوشن کی طرف سے کسی شخص کو دیا جاتا ہے ، میرا مطلب ہے جب کسی
اسلامی حاکم کی طرف سے ، تو گویا وہ انسٹیٹیوشن انہیں مجامعت کرنے کی اجازت بھی دے
رہا ہے ’’
مبشر لقمان: ‘‘اسلامی
انسٹیٹیوشن چودہ سو سال قبل پہلے موجود نہ تھے ۔اس وقت تو فوج کا امیر ہوتا تھا
۔۔’’
مولانا نعیمی: ‘‘فوج کا
امیر ہی تو انسٹیٹوشن تھا’’
(وقفہ)
مبشر لقمان: ڈاکٹر محمد
اسلم صدیقی ، کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں؟
محمد صدیقی: میں آپ کو
سن نہیں پا رہا ہوں۔ایس لگ رہا ہے کہ آپ نکاح کے متعلق بحث کر رہے ہیں لیکن میں
نے کچھ نہیں سمجھا ’’۔
مبشر لقمان : راغب نعیمی
کا کہنا ہے کہ کیا کوئی بالغ شخص اور بالغہ عورت نکاح کا اعلان کر سکتے ہیں’’
محمد صدیقی: ‘‘کہاں سے
نکاح کا موضوع شروع ہو گیا ؟ ہم تو لونڈیوں کے متعلق باتیں کر رہے تھے’’
مبشر لقمان: مجھے وضاحت
کرنے دیں۔ ہم کسی لونڈی کے ساتھ بغیر نکاح کے مجامعت کا رشتہ قائم کرنے کے تعلق سے
گفتگو کر رہے تھے اور راغب نعیمی اپنا نظریہ بیان کر رہے تھے۔ مجھے بتائیے کہ کیا
کسی باندی یا لونڈی کے ساتھ بغیر نکاح کے مجامعت کرنا جائز ہے؟’’
محمد صدیقی: ‘‘مجھے آپ
سے دو تین سوالات کرنے اور اگر آپ ان کے جوابات دے دیں تو میں آپ کے جوابات دوں
گا۔
مبشر لقمان: ‘‘اگر میرے
علم میں ہوا تو میں جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ وہ لوگ قیدی ہیں ، انہیں بدلے میں
نہیں دیا جا سکتا ، انہیں واپس نہیں کیا جا سکتا ، دوسری پارٹی ان کے لیے فدیہ
دینے کے لیے تیار نہیں ، اور مسلمان انہیں
محمد صدیقی: اگر مرد اور
عورتیں جنگ میں قید کر لیے جائیں تو ہمیں ان کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟ مسلمان انہیں
خیر سگالی کے طور پر آزاد نہیں کرنا چاہتے ۔۔تو انہیں اس طرح کے حالات میں کیا
کرنا چاہیے؟ اس طرح کے حالات میں ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں رکھیں لیکن کس طرح؟
(مداخلت)
‘‘فرض کیجیے کہ اگر کسی مسلمان کے پاس چار بیویاں ہیں تو کیا اسے
پانچویں بیوی یعنی کسی باندی سے نکاح کرنے کی اجازت ہے ؟ دور خلافت میں جہاد
لگاتار کیا جاتا تھا اور غلاموں اور لونڈیوں کو بڑی تعداد میں حاصل کیا جاتا تھا۔
اگرچہ کسی کے پاس پہلے سے چار بیویاں نہیں ہیں لیکن کیا کسی لونڈی کو اس کے نکاح
میں دے کر کیا تم آپ ان کے گھر میں نزاع پیدا کرنا چاہتے ہیں؟
مبشر لقمان: ‘‘تو کیا
لونڈی کو چھپا کر رکھا جائے گا ؟ کیا اس سے مصیبت پیدا نہیں ہوگی؟
(مداخلت)
محمد صدیقی: اور سب سے
بڑھ کر ، اللہ تعالی نے ، اسلام نے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے ، اس کے ذرائع ووسائل
بیان کیے ۔اگر یہ عورتیں جنگ میں غنیمت کے طور پر حاصل کیے جائیں تو قرآن میں ان
کے تعلق سے بہت سے ارشادات ہیں۔قرآن نے انہیں جائز قرار دیا ہے ۔اگر آپ اسلامی
حکومت کو اللہ کا نمائندہ مانتے ہیں ۔۔۔۔اگر حکومت اس کی اجازت دیتی ہے تو آپ اس
پر اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں؟
مبشر لقمان: میں اس بات
کو جاننے کی کوشش کر رہا ہوں، میں بحث نہیں کر رہا ’’
محمد صدیقی: ‘‘مجھے یقین
ہے آپ اس کے تعلق سے ضرور جانتے ہیں ۔آپ نے پوچھا تھا کہ کس طرح ہم ایک عورت کو
بغیر نکاح کے اپنے گھروں میں رکھ سکتے ہیں؟ اگر ہم نکاح کر لیں تو وہ بیوی بن جائے
گی۔لونڈیوں کو بغیر نکاح کے رکھا جاتا ہے ۔مگر دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ اسلام نے لونڈیوں
کی آزادی کی ترغیب دلائی ہے اور اس سلسلسے میں متعدد طریقے اسلام نے بیان کیے
ہیں۔
مبشر لقمان: تو اس کا
واضح طور پر یہ مطلب ہوتا ہے کہ لونڈی رکھنا اسلام میں جائز ہے ؟
علامہ ظہیر : ہاں ضرور
محمد صدیقی: ہاں لونڈی
رکھنا جائز ہے مگر لونڈیوں کی اجازت اس زمانے میں جنگوں کے دوران ہوتی تھی۔
کیا آج عورتوں کو نزاع
وجھگڑے کے دوران حاصل کرنا جائز ہے ؟
مبشر لقمان: ‘‘فرض کیجیے
، اگر کشمیر مسئلے پر کفر (کافر دنیا) کے خلاف جنگ پر جائیں اور اس میں فتح حاصل
کرکے غلاموں اور عورتوں کو لے آئیں ۔۔۔’’’
محمد صدیقی: آپ کو اس
مسئلے میں مذہبی اسکالر سے رابطہ کرنا چاہیے۔ان کا ماننا ہے کہ جن ممالک نے اقوام
متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیے ہیں ان کے لیے دوسرے ممبر ممالک کے شہریوں کو بطور
غلام کے لینا جائز نہیں ’’
مبشر لقمان: میں اسلام کے
نظریے کے متعلق سوال کر رہا ہوں نہ کہ اقوام متحدہ کے بارے میں ، کیونکہ اقوام
متحدہ اسلام کی اتباع نہیں کر رہا ہے۔
محمد صدیقی: آپ اس پر
کیوں بحث کر رہے ہیں؟
مبشر لقمان: کس طرح اسلام
اور اقوام متحدہ آپس میں مربوط ہیں؟
(مداخلت)
محمد صدیقی: اقوام متحدہ
اور اسلام کے درمیان ربط یہ ہے کہ ہمیں قرآن نے حکم دیا ہے کہ ہم اپنے معاہدے کو
نبھائیں ۔اگر معاہدہ اسلام کے خلاف نہیں ہے تو ہم پر اس کی وفاداری لازم ہے ’’
علامہ ظہیر: مولانا محمد
صدیقی صاحب نے درست فرمایا ہے کہ ہم ان ممالک کے شہریوں کو بطور غلام نہیں لے سکتے
جن کے ہمارے ساتھ ڈپلومیٹیک رشتے ہیں ’’
مبشر لقمان: کیا ہوگا اگر
ہم اسرائیل کے خلاف جنگ پر نکل پڑیں؟ کیا ہم ان کے لوگوں کو بطور غلام اور لونڈی
کے لے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ان کے ساتھ ڈپلومیٹک تعلقات نہیں ہیں؟
علامہ ظہیر : ہاں ہم ایسا
کر سکتے ہیں۔اسرائیل سے جنگ کے دوران ان کی عورتوں کو بطور لونڈی کے لیا جا سکتا
ہے ’’
مبشر لقمان: مولانا اسلم
صدیقی صاحب ، اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟ کیا آپ نے مولانا ابتسام ظہیر کو
سنا ہے ؟
محمد صدیقی: ‘‘نہیں میں
سن نہ سکا’’۔
(مبشر لقمان ابتسام الہی کے بیان کو دوہراتے ہیں)
محمد صدیقی: ہمارا ان
ممالک کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے جن کے ساتھ ہمارے ڈپلومیٹک تعلقات نہیں ہیں۔
(مداخلت)
مبشر لقمان: تو کیا اگر
ہم اسرائیل پر فتح پا کر ان سے لونڈی اور غلام لے سکتے ہیں ؟
محمد صدیقی: ‘‘تصور
کیجیے، مجھے حیرت ہے آپ کتنی دور کی سوچ لیتے ہیں ۔۔۔۔؟
(مداخلت اور پھر شرکا کا ہنسنا)
مولانا نعیمی: اسلامی
قوانین بہت پرانے اور سچے ہیں۔خلفا کے زمانے سے یہ حکم چلا آ رہا ہے کہ آپ کو
اپنے وعدے پورے کرنے ہیں۔ اگر آپ نے کسی ملک سے قیدی کے تبادلے کا وعدہ کیا ہے تو
آپ پر لازم ہے کہ آپ انہیں واپس کر دیں ۔
علامہ ظہیر: (مداخلت کرتے
ہوئے): آپ نے اسرائیل کی مثال بہت ہی مثبت انداز میں دی ہے ۔وہ لوگ یہود ہیں۔ہم
ان پر فتح پانے کی صورت میں ان کی عورتوں کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں مگر ہمیں ایسا
کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارا ان کے ساتھ ڈپلومیٹک تعلق نہیں ہے ، لہذا اگر
ہم فتح پا لیں اور باندیوں کو لے لیں اور فوج کا سربراہ ان باندیوں کو تقسیم کرے
تو ہم انہیں بطور باندی کے رکھ سکتے ہیں۔اس کے لیے ہمیں تب اللہ کا شکر کرنا چاہیے
مگر ہم کسی عورت کو جنگی غنیمت سے چرا نہیں سکتے ’’۔۔
(وقفہ)
مبشر لقمان: ‘‘میرا ایک
اہم سوال ہے جسے تفصیلی جواب مطلوب ہے ۔آپ میں سے کوئی اس کا جواب دے سکتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ ایک قابل بحث موضوع ہے جہاں ہم زنا کو زنا نہیں مانتے
’’۔
مولانا نعیمی: ‘‘نہیں یہ
ایسا نہیں ہے ’’
مبشر لقمان: ‘‘آپ نے کہا
کہ یہ بغیر نکاح کے ہو سکتا ہے ’’
(شرکا کی مداخلت )
مولانا نعیمی: ‘‘ہمیں
قرآن کو ماننا ہے ۔ ہم قرآن پر اعتراض نہیں کر سکتے ۔اگر قرآن کہے کہ کوئی چیز
کالی ہے تو ہمیں اسے کالی ہی کہنا چاہیے ، لہذا ہمیں اس خیال کے شک میں نہیں پڑنا
چاہیے کہ یہ چیز کالی ہے کہ نہیں۔اگر قرآن کہے کہ کوئی چیز سفید ہے تو وہ سفید ہے
۔قرآن سے ثابت ہے کہ جب آپ جنگی غنیمت میں عورت حاصل کریں تو آپ کو ان کے ساتھ
جنسی تعلقات کرنے کی اجازت ہے ۔یہ تو قرآن کا موقف ہے اس میں ہمارا اور آپ کاکچھ
موقف نہیں۔
علامہ ظہیر: ‘‘اس میں
کوئی تردد نہیں ۔جس چیز کی قرآن اجازت دیتا ہے وہ جائز ہے اور جس چیز سے قرآن
منع کرے وہ حرام ہے ’’۔
نوٹ :
[1] http://
pakistanherald.com/Program/Does-Islam-give-permission-to-take-bondmaid-May-31-2010-Mubbashir-Luqman-3975,
accessed June 10, 2010.
Source:
memri.org/report/en/0/0/0/0/0/0/4407.htm
URL
for English article: https://www.newageislam.com/debating-islam/the-middle-east-media-research-institute/concubines-and-slavery-in-islam-does-islam-allow-sexual-relations-with-a-woman-without-nikah-and-marriage/d/108201
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/concubines-slavery-islam-islam-allow/d/122659
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism