احمد اللہ صدیقی
1 ستمبر،2023
2014 ء میں نریندرمودی کے مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد شاید ہی
کوئی دن ایسا گزراہو جس میں مسلمانوں کیلئے کوئی تشویش اور پریشانی کی بات نہ
ہو،تاہم گزشتہ چند ہفتے میں جس طرح سے پے درپے مسلمانوں کے خلاف مذہبی منافرت کے
واقعات پیش آرہے ہیں ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اقلیت کے طو پر مسلمانوں کے خلاف نفرت
میں کس حد تک اضافہ ہوگیاہے۔مذہبی منافرت کے جس کھیل کو بی جے پی اور آر ایس ایس
نے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا ،وہ اس حد تک سرایت کرچکا کہ اس سے اب
تعلیمی ادارے تک محفوظ نہیں۔ مظفر نگر کے نیہا پبلک اسکول کی پرنسپل ترپتا تیاگی
نے ہندو بچوں سے پٹوایا ،یا پھر ممبئی کے چلتی ٹرین میں ہاریش مسلمان کے خون سے لت
پت تڑپتے جسم کے پاس آر پی ایف کے دہشت گرد کانسٹبل چیتن سنگھ کی مودی اور یوگی کی
حمایت میں پر جوش تقریر سنئے تو آپ یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اسلاموفوبیا
، مذہبی منافرت اور مسلمانوں سے دشمنی ہندوستان کے طول ودماغ میں نہ صرف پھیل چکی
ہے بلکہ ایک خاص طبقہ کے ذہن ودماغ میں بھی سرایت کرچکی ہے۔ ہرجگہ نفرت کے بارود
کا ڈھیر موجود ہے ،کوئی چنگاری کسی علاقے یا خطے کو کسی بھی وقت بھی خاکستر کرسکتی
ہے۔
یقینی طور پر نوح میں یہی
سب کچھ پیش آیا۔ وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے شرپسندنوح میں کوئی مذہبی یاترا نہیں
نکالنا چاہتے تھے وہ اس خطہ کو فتح کرناچاہتے تھے۔جنید اور ناصر کے قاتل اپنی
کراہت آمیز مسکراہٹ ،ہاتھوں میں ہتھیار اور گلے میں پھولوں کی مالا پہن کر وہاں کے
لوگوں کے زخموں پرنمک چھڑکنا چاہتے تھے ۔ انہیں ہندوتوا کی حاکمیت کے سامنے جھکانا
چاہتے تھے ۔یہ مضحکہ خیزہے کہ مسلمانوں کے محلے ہندوتوا کے عناصر کیلئے ایسے علاقے
بن چکے ہیں جن کو وہ فتح کرناچاہتے ہیں۔ وہ آزاد ہندوستان میں مذہبی یاترا کے نام
پرمسلم محلوں اور بالخصوص ان راستو ں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں مساجد ہیں۔ وہ ان
یاتراؤں میں ننگی تلواروں اور ہتھیاروں کی نمائش اور اشتعال انگیز نعرے بازی کرتے
ہیں۔ مسلم محلوں میں بیہودہ نعرے بازی کرکے مسلمانوں کو اکسانے کی کوشش کرتے ہیں
اور جب ان محلوں سے کسی طرح کے رد عمل کا اظہار ہوتا ہے تو انہیں بلڈوزر کے ذریعہ
اجتماعی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔نوح میں سیکڑوں مکانات کی مسماری اسی کا
نتیجہ ہے ۔ہندوتواکی سیاست کسی پرامن نظرئے یا بقائے باہم پر مبنی نہیں۔ اس میں
لازمی طور پر اقلیت بالخصوص مسلمانوں کی نشاندہی ایک خطرناک دشمن کے طور پر کی گئی
ہے۔
ملک کے اندر مذہبی منافرت
میں اچانک یونہی اضافہ نہیں ہورہا ہے ۔کئی ریاستوں میں انتخابات کے علاوہ ملک کے
آئندہ عام انتخابات میں جانے کے لئے بی جے پی کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کے
لئے کچھ بھی نہیں۔ ملک میں روزگار کی فراہمی او رمہنگائی پر حکومت کی کارکردگی صفر
رہی ہے۔وزیر اعظم مودی نے اقتدار میں آنے سے قبل ملک کے نوجوانوں سے سالانہ دوکروڑ
روزگار کا وعدہ کیا تھا، لیکن صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعظم روزگار میلے میں ان لوگوں
کو بھی نوکری دئے جانے میں شمار کیا گیا جنہیں حکومت نے ترقی دی۔بی جے پی نے ایک
سیریز کے ساتھ ان واقعات کو ترتیب دیا ہے جس سے عام لوگوں میں بی جے پی ووٹ دینے
کے لئے پھر سے جوش پیدا کیا جاسکے۔ چندریان تھری کی چاند کی سطح پر لینڈنگ گرچہ
ہمارے سائنسدانوں اور خلائی ادارے اسرو کی اہم کامیابی ہے،لیکن یہ پیغام نیچے تک
پہنچایا جارہا ہے کہ وزیر اعظم مودی کے بغیر چاند پر پہنچ پانا ممکن نہیں تھا۔اسی
کا نتیجہ ہے کہ ہندو مہاسبھا کے سوامی چکرپانی نے یہ مضحکہ خیز مطالبہ کیا کہ چاند
کو ہندو راشٹر اعلان کیا جائے ،لیکن چکرپانی کو اس بات پر مایوسی ہوگی کہ چاند پر
بھگوا جھنڈا نہیں بلکہ ترنگا لہرا یا گیا۔ اسی طرح آدتیہ ایل ون سولر مشن کو سورج
کے مدار میں جلد بھیجاجائے گا۔ جنوری میں ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح ہوگا اور
مارچ میں حکومت زمین اور آسمان کو ایک کرنے کے دعوے کے ساتھ عام بجٹ پیش کرکے
انتخابی میدان میں اترنا چاہے گی۔ راقم نے اپنے گزشتہ مضمون میں لکھا تھا آئندہ
عام انتخابات میں بی جے پی کی اقتدار میں واپسی اس قدر آسان نہیں ہوگی۔ نوح میں بی
جے پی اور آر ایس ایس کے نفرت کے پروجیکٹ کو بری طرح ناکامی ملی کیونکہ دیگر
برادریوں کے لوگ مسلمانو ں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے۔ گڑگاؤں میں جب ایک ضعیف
مسلمان کے گدوں کی دوکان کو شرپسندوں نے نذرآتش کردیا تو ایک ہندو خاتون نے کھڑے
ہوکر ان کی دوکان دوبارہ بنا کر ان کے نقصان کا ازالہ کیا۔ ہندوستان کا یہی پس
منظر ہے جو آر ایس ایس اور بی جے پی کو مسلمانوں کے خلاف اپنے عزائم میں مکمل طور
پر کامیاب نہیں ہونے دیتا۔
لیکن سوال ہے کہ آخر ملک
کے مسلمانوں کے پاس اس بھنور سے نکلنے کی حکمت عملی کیا ہے؟ یقین مانئے کہ مسلمان
ملک کے اندر جن حالات سے دوچار ہیں یہ اس بات کاتقاضہ کرتا ہے کہ ہم ماضی کی قید
اور حال کی پریشانیوں سے آزاد ہوکر مستقبل کے فیصلے جلد از جلد کریں۔ ایک کمیونٹی
کے طورپر ہمارا طرز عمل ملک کی آزادی کے بعد سے ہی فائر فائٹنگ کررہا ۔جہاں بھی
کوئی مسئلہ پیش آیا ،کہیں فساد رونما ہوا یا مسلمانوں کے خلاف کوئی نفرت انگیزی
ہوئی تو کمیونٹی کے لوگوں اور قیادت نے حتی المقدور ان واقعات کااثر کم کرنے کی
کوشش کی۔ اس طرح کے واقعات مستقبل میں پیش نہ آئیں ،اس کی کوئی پیش بندی نہیں کی
گئی ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ حکومتیں ہمیں مختلف ہتھکنڈوں میں الجھا کر ہماری مثبت
توانائی کو ضائع کرکے ہمیں مستقبل کے بارے میں سوچنے اور غور وفکر کرنے پر روکتی
ہیں جب کہ مسلمانوں کے پا س اس ملک میں تعلیم وترقی کا ایک طویل مدتی ٹھوس منصوبہ
ہوناچاہئے ۔اگر ملک کی پانچ سالہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے تو ہم ایک کمیونٹی کے طور
پر پانچ سال کے لئے چند اہداف طے کرکے اس پر عمل پیرا کیوں نہیں ہوسکتے؟ یہ اہداف
،تعلیمی ،سماجی ، سیاسی اور دیگر بھی ہوسکتے ہیں۔
اس وقت ہے کہ ملت کے
دانشوران اور درد رکھنے والے لوگ آپس میں بیٹھ کر نہ صرف مسائل کی نشاندہی کریں
بلکہ اس کا حل پیش کرتے ہوئے لوگوں کی رہنمائی بھی کریں۔ محض مسائل کی نشاندہی
کرنا یا مسائل پر تشویش کا اظہار کرنا کافی نہیں ۔ اگر آپ سوشل میڈیا پر دیکھیں تو
اس طرح کے واقعات پر مسلمانوں کی بے چینی او رمایوسی میں مسلسل اضافہ ہورہا
ہے۔بلڈوزر چاہے نوح کے مسلمانوں کے گھروں پر چلا ہو، لیکن ہر مسلمان خود کو اس
بلڈوزر کی زد میں محسوس کرتاہے۔ترپتا تیاگی نے چاہے محمد ارشاد کے 7 سالہ بچے کو
ہندو بچوں سے پٹوایا ہو،لیکن یہ تھپڑ ہر مسلمان اورانصاف پسند شخص اپنے بچوں کے
چہرے پر محسوس کررہا ہے ۔آر ایس ایس او ربی جے پی نے اس ملک کو مذہبی منافرت کی جس
راہ پرڈال دیا ہے اس سے جلد چھٹکارہ پانا ممکن نہیں ۔ یہ نفرت انگیزی جنگل کی آگ
کی طرح ہے کہ آپ ایک جگہ پانی ڈالتے ہیں اور دوسری جگہ پھر سے چنگاری شعلہ میں بدل
جاتی ہے۔خطرہ اب ایک چلتی ٹرین، اسکول کے کلاس روم جیسی بے ضرر جگہ پر بھی موجود
ہے،لیکن سوال ہے کہ ان واقعات کو روکنے کیلئے ہماری حکمت عملی کیا ہے؟۔
1 ستمبر،2023،بشکریہ : انقلاب،نئی دہلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism