ڈاکٹر سہیل زبیری
2 فروری 2024
گیارہویں صدی کے آخر تک،
خدا، اس کی فطرت، پیغمبر کے کردار، اور قرآن کو سمجھنے کے لیے کئی انداز فکر
اپنائے گئے۔ یہاں میں چند اہم کا تذکرہ کرتا ہوں۔
مضامین کے اس سلسلے میں،
اب تک میں نے بنیادی طور پر اس فلسفیانہ تحریک کا احاطہ کیا ہے جو یونانی روایات،
خاص طور پر ارسطو اور پلوٹینس سے بہت زیادہ متاثر تھی۔ اس دور کے عظیم ترین مسلمان
فلسفی الکندی، الفارابی اور ابن سینا تھے۔ وہ مذہب کے معاملے میں عقل کی برتری پر
یقین رکھتے تھے۔ فلسفیانہ نقطہ نظر کی بنیاد پر انہوں نے خدا اور اس کی فطرت کے
ایسے ثبوت پیش کیے جو قرآن میں دی گئی خدا کی صفات سے مطابقت رکھتے تھے۔
مثال کے طور پر الفارابی
اور ابن سینا نے انسانوں اور خدا کے درمیان ذہانت کے دس دائروں کی ایک درجہ بندی
قیاس کی تھی۔ یہ دائرے انسان اور خدا کے درمیان درمیانی دائروں کی نمائندگی کرتے
تھے۔ ان فلسفیوں کے نزدیک انسان کا حتمی مقصد خدا کے ساتھ یگانگت حاصل کرنا تھا۔
عقلی بنیاد پر دی گئی خدا کی اس تصویر میں، خدائے واحد، کائنات کے ان کروں سے اس
طور باہر ہے کہ انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ کائنات کے چلانے کے معاملات میں اس کا
کوئی رول نہیں۔ کائنات قوانین فطرت کے مطابق چل رہی ہے اور خدا کا اس میں براہ
راست کوئی عمل دخل نہیں۔
اس کے بعد اشعری روایات
تھیں جو عقلیت پسندی کے نقطہ نظر اور فلسفیانہ سوچ کے بالکل برعکس تھیں۔ اشعری
تعلیمات کے مطابق، خدا ہر چیز کو کنٹرول کرتا ہے۔ خدا کی واضح شمولیت کے بغیر کوئی
چیز حرکت نہیں کر سکتی اور ارتقاء وقوع پذیر نہیں ہو سکتا۔ یہ انسانوں کی آزاد
مرضی کے بجائے خدا کی مرضی ہے جو کائنات کے ایک لمحے سے دوسرے لمحے تک کے ارتقا ء
کا تعین کرتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق فطرت کے کوئی قوانین نہیں ہیں۔ ہم جسے فطرت کے
قوانین کے طور پر سمجھتے ہیں وہ صرف خدا کی ’عادات‘ ہیں لیکن وہ کسی بھی لمحے
فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا اس طریقے سے کام کرنا ہے جو ان قوانین کے مطابق ہیں جن کو
ہم قوانین فطرت سمجھتے ہیں، یا پھر اس طریقے کے مطابق جو ان قوانین سے ہٹ کر ہیں۔
سورج ہمیشہ مشرق سے نکلتا ہے لیکن اللہ چاہے تو کسی دن مغرب سے بھی نکل سکتا ہے۔
اشعری روایت میں خدائی انصاف کا تصور نہیں ہے۔ جو کچھ خدا کرتا ہے وہی خدائی انصاف
ہے۔ بے بس انسانوں کے طور پر ، ہم کبھی بھی خدا کے ’ذہن‘ اور اس کے اس احساس کو
نہیں سمجھ سکتے کہ کیا منصفانہ ہے۔
ایک اور روایت صوفیاء کی
تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ روح جب انسانی جسم میں مقید ہوتی ہے تو اسے کمتر مادی
دنیا سے تعلق قائم کرنا پڑتا ہے۔ تاہم، روح کا حتمی مقصد تو خالق کے ساتھ اتحاد
کرنا ہے۔ صوفیا ءکے نزدیک ایسا اتحاد عقلی اور فلسفیانہ دلائل سے ممکن نہیں۔ ایک
صوفیانہ تجربہ صرف غور و فکر سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی نمایاں مثال ان انبیاء
کی تھی جو وحی کے فرشتے جبرائیل کے ذریعے خدا کا تصوراتی علم حاصل کر سکتے تھے۔
ایسا علم عقل اور منطق سے سمجھنا ناممکن ہے۔ خدا اور انسان کے درمیان تعلق سے
وابستہ فلسفیوں کے عقلی دلائل صوفیاء کے مذہبی تجربات کی وضاحت کرنے سے قاصر تھے۔
جس شخص نے مذہبی معاملات
میں فلسفیانہ افکار کی بالا دستی کو بہت شد و مد اور فلسفیانہ دلائل کو استعمال
کرتے ہوئے چیلنج کیا وہ مسلم مفکر ابو حامد الغزالی تھے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا
ہے کہ الغزالی نے اسلام میں فلسفیانہ تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور
مسلم دنیا میں اشعری اور صوفیانہ روایات کو تقویت دی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ الغزالی
کے بارے میں یہ تاثرات کس حد تک صحیح ہیں کیونکہ جب انھوں نے اپنے خیالات کو بیان
کیا تو اشعری اور صوفیانہ تحریکیں پہلے سے موجود تھیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک
طرف تو الغزالی کا شمار اسلامی تاریخ کے عظیم ترین دانشوروں اور فلسفیوں میں ہوتا
ہے لیکن دوسری طرف بہت سے لوگوں کے نزدیک وہ اسلام میں عقلی اور فلسفیانہ افکار کے
خاتمے کی علامت ہیں۔
ایک اور افسوسناک حقیقت
یہ ہے کہ الغزالی فلسفے کے بالکل خلاف نہیں تھے، پھر بھی انہیں ایک ایسے شخص کے
طور پر سمجھا جاتا ہے جس نے اسلام میں مذہبی معاملات میں عقلیت کی برتری کو ختم کر
دیا اور بنیاد پرستی کو فروغ دیا۔ اس لیے الغزالی کے خیالات، تعلیمات اور طرز عمل
کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے۔
ابو حامد محمد بن محمد
الغزالی 1058 عیسوی میں طبران۔ طوس میں، جو ایران میں جدید مشہد کے 15 میل شمال
میں واقع ہے، پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق فارس سے تھا۔ انہوں نے 1111 عیسوی میں طوس
میں وفات پائی۔ الغزالی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر طوس اور بعد ازاں نیشاپور
کے مدرسہ نظامیہ میں حاصل کی۔ 1091 عیسوی میں ان کا تقرر بغداد کی نظامیہ
یونیورسٹی میں کیا گیا جو اس وقت مسلم دنیا کی سب سے باوقار علمی درسگاہ تھی۔
وہ بلاشبہ اپنے وقت کے سب
سے زیادہ با اثر دانشور تھے۔ ان کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی تب آئی جب انھوں نے
1095 میں اچانک اپنے عہدے سے استعفی دے دیا اور بغداد چھوڑ کر صوفی ادب کے زیر اثر
اپنا طرز زندگی بدلنا شروع کر دیا تھا۔ 1096 عیسوی میں، الغزالی دمشق اور بغداد کے
راستے اپنے آبائی شہر طوس واپس آ گئے، جہاں انھوں نے ایک چھوٹا پرائیویٹ اسکول اور
ایک صوفی خانقاہ قائم کی۔ 1106 میں، وہ نیشاپور میں ریاست کے زیر اہتمام نظامیہ
مدرسہ میں پڑھانے کے لیے واپس آئے، جہاں وہ خود بھی طالب علم رہ چکے تھے۔ 1096 سے
1106 کے دوران انھوں نے بہت سی عظیم تصانیف تحریر کیں۔
میری رائے میں، الغزالی
کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ انھوں نے خدا کے تصور سے
وابستہ تینوں مذکورہ بالا اسلامی تصورات کو قبول کیا، کچھ جوش کے ساتھ اور کچھ
نسبتاً ہچکچاہٹ کے ساتھ۔
میں پہلے اسلام میں
فلسفیانہ تحریک کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کا جائزہ لیتا ہوں۔
ابن سینا کا نیوپلاٹونک
نقطہ نظر، اسلام کے کچھ روایتی پہلوؤں سے متصادم تھا۔ مثال کے طور پر ، قرآنی
تشریح کے مطابق، کائنات ابدی نہیں ہے۔ اسے خدا نے بنایا ہے جو خود ابدی ہے۔ تاہم،
ابن سینا کے مطابق، ہر چیز جو موجود ہے اس کا سبب خدا کی فطرت ہے۔ چونکہ خدا ازلی
ہے اور دنیا اور اس میں موجود ہر چیز اس کی فطرت سے چلتی ہے، اس لیے یہ دنیا بھی
ابدی ہے۔ ابن سینا کے فلسفے میں خدا واحد لا وجود ہے جو ہماری دنیا کی خامیوں سے
پاک ہے۔
تاہم، ابن سینا کا خدا کی
وحدانیت کا تصور خدا کے عام تصور کے بالکل برعکس تھا۔ جیسا کہ پہلے زیر بحث آیا،
فلسفی نظریات میں خدا کی وحدانیت اس بات کی متقاضی تھی کہ ایسے خدا کی فطرت ایک سے
زیادہ خوبیوں کی مالک نہیں ہو سکتی تھی اور اس طرح صرف اپنے آپ میں محدود تھی۔
فلسفیوں کا یہ خدا، عرش پر اس طور تخت نشین ہے کہ وہ اپنے ”تخت“ سے اتر کر اس دنیا
میں انسانوں کے دنیاوی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ اسلام کے بہت سے روایت
پرست مذہبی ماہرین کے لیے، خدا کی یہ تصویر قرآن کے خدا کے مطابق نہیں تھی اور
انتہائی غیر اطمینان بخش تھی۔
الغزالی خدا کی وحدانیت
کے تصور سے متفق نظر آتے ہیں جو اپنے آپ میں ضروری ہے، اور جو اس کائنات میں ہونے
والی ہر چیز کا سرچشمہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر فلسفیوں کے تصور خدا سے ہم آہنگ تھا۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ
الفارابی اور ابن سینا جیسے فلسفیوں سے ان کا کیا اختلاف تھا؟
ان کا بنیادی اعتراض یہ
تھا کہ مسلم فلسفیوں نے یونانی فلسفہ کو اندھا دھند اپنایا جب کہ یونانی فلسفہ میں
خود بھی بہت سی خامیاں تھیں۔ Neoplatonism کو اپنانے اور ارسطو
پر اندھا دھند اعتماد ان کو ایک ایسے خدا کی طرف لے گیا جس سے قرآن میں بیان کردہ
بہت سی مثبت صفات چھین لی گئیں۔ ان کے نزدیک الفارابی اور ابن سینا کا خدا محض ایک
استعارہ تھا جو قرآن میں بیان کردہ خدا کی ننانوے صفات بیک وقت نہیں رکھ سکتا تھا۔
الغزالی کا مرکزی موقف اس
طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔ ان کے نزدیک فلسفہ اور مذہب کے دائرے بالکل مختلف ہیں۔
لہٰذا، فلسفیوں کا یہ دعویٰ کہ خدا کے وجود اور اس کی خصوصیات کو انہی دلائل سے
ثابت کرنا ممکن ہے جن کا استعمال ہم ریاضی اور منطق میں کرتے ہیں، درست نہیں ہے
اور یہ طرزعمل غیرمنطقی نتائج کی طرف لے جا سکتا ہے۔ الغزالی کے مطابق مذہب کے
حقائق کو فلسفیانہ دلائل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ فلسفیانہ اور منطقی سوچ سائنس
میں تو معقول نتائج اخذ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے لیکن مذہبی معاملات میں نہیں۔
یہ ان کی مشہور کتاب
تحافت الفلاسفیہ (فلسفیوں کی بے ربطی) کا مرکزی موضوع ہے۔ اس کتاب نے اسلامی سوچ
پر گہرے نقوش چھوڑے۔ اسلامی فکر کی نشوونما پر اس کتاب کے اثرات کے پیش نظر میں اس
کتاب میں پیش کیے گئے الغزالی کے فلسفے کی وضاحت کے لیے ایک مکمل مضمون مختص کروں
گا۔ میری رائے میں، فلسفہ کے بارے میں الغزالی کے خیالات کو انتہائی غلط انداز میں
پیش کیا گیا ہے۔
اب میں مذہب کے بارے میں
الغزالی کے خیالات پر بحث کرتا ہوں جس کی بنیاد الاشعری کی تعلیمات پر رکھی گئی
تھیں۔
الغزالی نیشاپور سے آئے
تھے جو اشعری روایات کا مرکز تھا۔ ان کو اشعری فلسفے کے سب سے اہم حامیوں میں سے
ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس فلسفے کے مطابق خدا اس کائنات میں ہونے والی ہر چیز اور ہر
حرکت کا سبب ہے۔ یہ نظریات الفارابی اور ابن سینا کے فلسفے سے مختلف تھے جن کا
ماننا تھا کہ خدا سب سے برتر، یکتا اور سادہ ہے اور اس لیے وہ انسانوں سمیت کائنات
کے معاملات میں براہ راست مداخلت نہیں کر سکتا۔ ان فلسفیوں کے نزدیک کائنات میں
تخلیق کردہ ترتیب ثانوی ذرائع سے چلتی تھی۔ اشعری فلسفہ نے سبب اور اثر کے تعلق سے
انکار کیا جو سائنسی فکر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک ہر لمحہ
پر ہوتا ہوا ہر عمل خدا کی طرف سے مقرر ہے۔
یہ سوال اب بھی موجود ہے
کہ الغزالی اسباب سے وابستہ اس سوال پر کہاں کھڑے ہیں کہ کیا ہر سبب کا اثر ہوتا
ہے؟ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ الغزالی علت و معلول کو رد کرتے ہیں، جب کہ بعض
دوسروں کا خیال ہے کہ انھوں نے اسباب کے متعلق اشعری کے موقف کو قبول نہیں کیا،
بلکہ واقعات کے عقلی اسباب سے متعلق مسلم فلسفیوں کے خیالات سے اتفاق کیا ہے۔ یعنی
ہر سبب کا اثر ہوتا ہے جس میں خدا کا دخل نہیں ہوتا۔
میرے نزدیک الغزالی کی
پوزیشن فلسفیانہ سوچ اور اشعری نظریات کے درمیان میں ہے۔ ان کے نزدیک ہر سبب کا
اثر ہوتا ہے، لیکن اس لیے نہیں کہ خدا انسانی معاملات میں دخل نہیں دیتا، بلکہ اس
لیے کہ تمام اسباب کا وجود خدا کے حکم سے ہے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے ہر سبب
کو اس کی فطرت عطا کی اور یہ فطرت ایک اثر میں ظاہر ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر
سبب کا اثر ہوتا ہے۔ الغزالی کے نزدیک جنہیں ہم سائنسی نظریات یا فطرت کے قوانین
کہتے ہیں وہ خدا کے بنائے ہوئے ہیں۔ خدا ہی نے ہر سبب کے ساتھ ایک مخصوص اثر
وابستہ کیا ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی۔
غیر معمولی صورت حال کے
علاوہ، خدا ہمیشہ ایک ہی فطرت کو کسی خاص وجہ سے جوڑتا ہے۔ الغزالی کی یہ توجیح
بتاتی ہے کہ انسانوں کے دریافت کردہ ’قوانین فطرت‘ پر ہمیشہ عمل کیوں ہوتا نظر اتا
ہے۔
تاہم الغزالی کے نزدیک،
خدا کے پاس اسباب کی نوعیت کو تبدیل کرنے کی طاقت ہے اور وجہ اثر کا رشتہ ٹوٹ سکتا
ہے۔ اس طور ان معجزات کو سمجھنا ممکن ہو جاتا ہے جو پیغمبروں سے وابستہ ہیں۔
چنانچہ الغزالی کی طرف منسوب مشہور مثال کے مطابق جب بھی آگ کو روئی کے قریب لایا
جائے تو روئی جل جائے گی۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ خدا نے آگ کی فطرت میں جلانے کا
حکم دیا ہے۔ تاہم، بعض نادر صورتوں میں خدا آگ کی اس نوعیت کو بدل سکتا ہے۔
الغزالی نے کاسمولوجی اور
الہیات پر اپنے نظریات کی وضاحت پانی سے چلنے والی گھڑی کی مثال سے کی ہے۔ ان کے
زمانے میں ایسی گھڑی کو نماز کے اوقات کو مانیٹر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا
تھا۔ الغزالی اس مثال کے ذریعے کائنات کے چلانے میں خدا کے کردار کو واضح کرتے
ہیں۔ اس طرح خدا کے رول سے متعلق سوالات پر ان کے موقف کو اچھی طرح سے سمجھنا ممکن
ہو جاتا ہے۔ یہ خوبصورت مثال ظاہر کرتی ہے کہ الغزالی کی اشعری الہیات میں فطرت کے
سائنسی قوانین کس طرح فٹ بیٹھتے ہیں۔ میں اس دلچسپ تشبیہ کے لیے ایک مکمل مضمون
وقف کروں گا۔
آخر میں، میں اپنی زندگی
کے اخری دور میں الغزالی کے تصوف کی طرف مائل ہونے کے بارے میں بیان کرتا ہوں۔
الغزالی نے اپنی سوانح
عمری میں وضاحت کی ہے کہ وہ تصوف کی طرف کیوں مائل ہوئے۔ انھوں نے اپنے آپ کو ایک
ایسے شخص کے طور پر بیان کیا ہے جسے بچپن سے ہی سچائی کی شدید تلاش تھی۔ دوسروں کی
اندھی تقلید کرنے کی بجائے وہ ایسا علم حاصل کرنا چاہتے تھے جو کسی شک و شبہ سے
بالاتر ہو۔ شروع میں تو سچائی کی یہ تلاش، خود انہیں شکوک کی طرف لے گئی۔ پھر
بالآخر انہوں نے روشنی کو پا لیا۔ وہ روشنی جسے انہوں نے ’وہ روشنی جو خدا تعالیٰ
نے میرے دل میں ڈالی ہے‘ کے طور پر بیان کیا، وہ انھوں نے دلائل کی بنیاد پر نہیں
بلکہ ایک صوفیانہ تجربے کے ذریعے حاصل کی۔
اس تجربے نے ان کا نقطہ
نظر بدل دیا۔
انہوں نے فلسفیانہ سوچ کو
ختم نہیں کیا جیسا کہ عام طور پر ان کے بارے میں الزام لگایا جاتا ہے۔ وہ عقل کو
سچائی کی تلاش کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے۔ تاہم، فلسفے نے ان کی زندگی میں ثانوی
حیثیت اختیار کر لی۔ اس کے نزدیک یہ دماغ نہیں، بلکہ دل ہے جو خدا کا اعلیٰ ترین
اور حقیقی علم فراہم کرتا ہے۔ تاہم یہ علم توحید کی ان خصوصیات کے مطابق ہے جو
فلسفیوں نے عقلی دلائل کے ذریعے حاصل کیا۔
خدا کو پانے کے لیے ہمیں
کون سی خوبیاں پیدا کرنی ہوں گی؟
خدا ے ساتھ اتحاد کا
تجربہ کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
الغزالی رہنمائی کے لیے
قرآن اور پیغمبر کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک، خدا تک پہنچنے
کا راستہ اس کی صفات کی تقلید ہے اور یہ صفات قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔ قرآن مجید
میں خدا کو ننانوے ناموں سے بیان کیا گیا ہے اور ہر نام ایک خوبی کی نمائندگی کرتا
ہے جن میں نیک، احسان کرنے والا، رحم کرنے والا، وفادار، انصاف کرنے والا اور صبر
کرنے والا شامل ہیں۔ الغزالی کے نزدیک خدا تک پہنچنے کا راستہ یہ ہے کہ نیک،
مہربان، رحم دل، وفادار، انصاف پسند اور صبر کرنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کی دوسری
صفات کو حاصل کیا جائے۔ ان اوصاف کا ورد کرتے ہوئے، ایک صوفی اپنے آپ کو زندگی کے
آخری مقصد کی مسلسل یاد دلاتا رہتا ہے۔
خدا کے بارے میں الغزالی
کے رویے کی مندرجہ بالا تشریحات کی روشنی میں یہ واضح نظر آتا ہے کہ یہ دعویٰ کہ
وہ عقلیت اور فلسفے کے خلاف تھے، بے بنیاد ہے۔ ان کا خیال تھا کہ فلسفیانہ سوچ علم
کے بہت سے شعبوں کے لیے موزوں ہو سکتی ہے لیکن خدا، وحی اور صحیفوں کی تفہیم کے
لیے نہیں۔ یہ بات اس وقت مزید واضح ہو جائے گی جب میں ایک اگلے مضمون میں ان کی
اہم کتاب تحافت الفلاسفہ (فلسفیوں کا عدم توازن) پر بحث کروں گا۔ میرے نزدیک اس
کتاب کو اکثر غلط طریقے سے اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ الغزالی
نے استدلال کا انکار کیا اور اس طرح اسلام میں عقلی افکار کے زوال کے ذمہ دار
ٹھہرے۔
الغزالی کی سب سے اہم اور
دیرپا تصنیفات میں سے ان کی ایک کتاب احیاء علوم الدین ہے۔ یہ کتاب سنی اسلام میں
قرآن و حدیث کے بعد سب سے زیادہ اثر انگیز کتاب بن کر ابھری۔ احیاء علوم الدین نے
سنی دینیات اور صوفی تصوف کو یکجا کیا۔ اس کتاب نے مسلمانوں کو زندگی کے تمام
پہلوؤں پر ایک جامع رہنمائی فراہم کی۔
2 فروری 2024،
بشکریہ:روزنامہ چٹان سرینگر
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism