ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
28 جولائی 2023
ہماراملک کرہ ارض کا وہ خطہ
ہے جہاں میری اور آپ کی پیدائش مشیت رب ذوالجلال کا فیصلہ ہے۔ پیدائش اور موت پر اسی
کا اختیار ہے۔ خدائے وحدہ لا شریک کا کوئی
بھی فعل اس کی حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ ہم اپنے ایمان حقیقی و عقیدے کی اجمالی
اساس کو بنیاد بنا کر آگے بڑھتے ہیں۔ وطن عزیز ہندوستان کی اخلاقیات و معاشرت پر کاری
ضرب اور اس کے تمام ہی وحدوتوں پر کم یا زیادہ منفی اثرات ومضمرات سے متعلق عوام و
خواص میں آگاہی پیدا کرنا تو میرے پیش نظر
ہے ہی مگر اس سے کہیں زیادہ وہ بے قابو رویے، زمین و حالات ہیں جو سب کو تشویش میں
مبتلا کئے ہوئے ہیں۔ مسائل کی نشاندہی کردینا، کسی کی تنقید یا قصیدہ خوانی کر دینا
یا کسی کو ہدف معتوب بنا لینا حتیٰ کہ یہ سب کرکے کوئی معرکہ سرکر لینے کا زعم یہ سب
بڑے سطحی کام ہیں۔ ان میں نہ تخلیق کا جز ہوتا ہے اور نہ ہی تعمیر کا! یہ کام تو ہر
دوسرا یا تیسرا شخص اپنے اپنے طریقے سے کر ہی رہا ہے اور اسکے نتائج بھی ہمارے آپ
کے سامنے ہیں۔ زمین اور فضا میں گرد اور آلودگی کا اب سب ہی کو ادراک ہو رہا ہے۔ ہر
مہذب اورمعتبر ہندوستانی کہیں نہ کہیں یہ سوچنے پر مجبور ہورہا ہے کہ کچھ ایسا ضرور
ہے جس کو درست کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ وہ فطری و منطقی دعوت فکر ہے جو ہم سب کی نفسیات کو کچھ ایسا سوچنے
اور کرنے کی طرف مائل کر رہی ہے جو اب تک ہمارے
معاشرے نے شاید نہیں کیا۔یہ جملہ ہندوستانی معاشرے سے مخاطب ہے نہ کہ کسی مخصوص وحدت
سے! جب سے دنیا معرض وجود میں آئی ہے حق و باطل کا معرکہ چلتا آیا ہے اور حشر برپا
ہونے تک یہ سلسلہ جاری رہیگا۔ یہ مشیت ربی ہے جس پر کسی کو کوئی اختیار نہیں! شر اور
خیر ہر دور میں آمنے سامنے رہے ہیں اور آگے بھی رہیںگے۔ لوح محفوظ جسکا تعلق غیب
سے ہے نظام کائنات اس کے مطابق نشیب و فراز سے گزرتا ہوا اپنے منطقی انجام کو پہنچےگا
۔یہ ہمارا اور آپ کا ایمان ہے۔ اس پہلو کو بھی مد نظر رکھیں۔ انسان کو اللہ تبارک
و تعالی نے زمین پر اول اپنا خلیفہ بنا کر اور اس کو اشرف المخلوق کا درجہ عطا کرکے
جہاں اس سے کچھ توقعات باندھی ہیں وہیں اس پر کچھ ذمہ داریاں و فرائض بھی ڈالے ہیں۔
عقل اور ادراک کی صلاحیت اسی کے ساتھ مخصوص رکھی ہے تاکہ وہ بہتر فیصلے کر سکے ۔سیاست،
ریاست، اقتدار اور فیصلہ سازی یہ چار اہم ترین
نکات ہیں۔سیاست ایک ایسا سوچا سمجھا رسمی و غیر رسمی طرز عمل ہےجس کے ذرئعے اقتدار
کا حصول، حکومت سازی ، حکمرانی و فیصلہ سازی اپنے منفرد وجود کے ساتھ سامنے آتے ہیں
۔فیصلہ سازی اس عمل کی بالا دستی ، عملداری و عمل آوری انفرادی، اجتماعی اور ادارہ
جاتی سطح پر ایک پورے نظام کی شکل میں ایک ساتھ ابھر آتے ہیں۔ وطن و قومیت کاتصور، آئین کی تشکیل اور اسکی تابعداری یہ سب
کچھ حرکت میں آجاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے مخصوص نظریات و عوام کی فلاح و بہبود
کے پروگرام ترتیب دیتی ہیں ۔متضاد نظرے اپنی طبع آزمائی کے لئے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔
عوام کو اپنی پسند کے نمائندے منتخب کرنے کا حق ملتا ہے۔ اکثریت کی بنیاد پر اقتدار
اور حزب مخالف طے ہو جاتے ہیں۔ وغیرہریاست نام ہے ان حدود و قیود کا جن کے اند رہتے
ہوئے تمام سرکاری و غیرسرکاری سرگرمیاں چلتی ہیں قانون کی عملداری و عمل آوری اسکی
روح ہوتی ہے۔ اس کی جغرافیائی سرحدیں، اقتدار اعلی، قومی و بین الاقوامی امور چلانے کے لئے مقننہ، منتظمہ،
عدلیہ و میڈیا سب اپنے فعال کردار کے لئے زمین و فضا فراہم پاتے ہیں۔اقتدار کا تعلق
ملک کے نظام سے براہ راست ہے ۔قومی و بین الاقوامی امور میں ہر سطح کی فیصلہ سازی کا
حق یہیں سے حاصل ہوتا ہے۔ سیاسی، اقتصادی، تعلیمی، ثقافتی، دفاعی و حفاظتی، تحقیق،
سفارتی امور، و تعلقات عامہ و جمہور سب اس
جماعت کی قیادت کے حصے میں آجاتے ہیں۔
عوام اپنےووٹ کی طاقت کے استعمال
سے جمہوریت میں واضح اکثریت دیتی ہے۔ وطن عزیز
میں فی الوقت لگ بھگ دس سال سے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی اقتدار
میں ہے جسکا اپنا ایک سیاسی و ثقافتی نظریہ ہے۔فیصلہ سازی اس سارے عمل میں کلیدی حیثیت
رکھتی ہے۔ کسی بھی ملک، معاشرے ، اس کے اداروں کا مزاج و ماحول، نظریے، پالیسی، پروگرام،
و ترجیحات سب اس کے قلم میں قید ہوتے ہیں جو بر سر اقتدار جماعت، اس کی قیادت اور اس
کی نظریاتی اساس و احساس سے براہ راست تعلق رکھتے ہے۔ ہر معاشرے میں اکثریت و اقلیت
دو بنیادی وحدتیں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ اکثریت کا فطری، منطقی اور نفسیاتی طور پر تمام
امور مملکت پر غلبہ ہوتا ہے، آئین برابری کی بات تو کرتا ہے کرنی بھی چاہئے مگر یاد
رکھیں ایک کےپاس عملا” اختیار ہوتاہے اور دوسرے کو معاملہ فہمی، لچک اور رواداری کے
سیاسی و اخلاقی معیار قائم کرکے اپنی زمین اور جگہ خود بنانی ہوتی ہے۔براہ راست ٹکرائو،
تصادم، مخالفت و مخاصمت سے بچنا ہوتا ہے ۔اکثریت کی حساسیت و جذباتیت سے چھیڑ چھاڑ
نہیں کرنی ہوتی، اعتدال اور خیر سگالی سے باہم تعلقات کو استوار کرنا اور رکھنا ہوتا
ہے ۔تمام اقلیتیں ما سوا مسلمانان ہند کے اس طرز عمل کا فیض اٹھاتی آ رہی ہیں ۔ہم
اس فرنٹ پر مکمل فیل اور کورے چلے آرہے ہیں-سیکولر سیاسی جماعتوں سے مسلمانان ہند
ہر طرح جڑے رہے ۔آج بھی ایسا ہی ہے ۔وہ اقتدار ان کے ووٹوں سے حاصل کرتی رہیں۔ علامتی
بیانات، اقدامات، ادارے اور نمائشی حرکات وسکنات کا ملغوبہ بناکر دکھاتی رہیں۔ سنگھ
اور بی جے پی سے ہم کو ایک طرف ڈراتی رہیں
تو دوسری طرف انکے اور ہمارےبیچ میں کھائی کو اتنا گہرا کرتی رہیں کہ ہم اور وہ ایک دوسرے کےآمنے سامںے دشمن کی طرح کھڑے کر دئیے گئے-فساد
ہو یا آئین کی بالا دستی یا قوانین پر عمل آوری کا معاملہ ہو، عدل و انصاف کی بات
ہو ہمارے مخالف کےخلاف فیصلہ لینا ہو، انکوائری کمیشنز کی رپورٹ کو عام کرنا ہو، اس
پر کاروائی کرنی ہو، حادثے یا فساد متاثرین کو ادئیگی کا معاملہ ہو دوہرے معیار ہی
ہمارے حصے میں آئے۔ہمارے چند اداروں کے اقلیتی کردار کامعاملہ ہو ‘زبان و ادب کا معاملہ
ہو‘ حتیٰ کہ واحد اکثریتی مسلم ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ ہو وہاں کےلوگوں کےساتھ بھی ہمیشہ دوغلا اور مشرکانہ عمل ہی روا رکھا گیا
۔’’مسلم قیادت ‘‘انفرادی اور نہ ہی اجتماعی طور پر سیاسی جماعتوں میں کوئی ایسا اپنا
دبائو واثر بناسکی جو کسی کام آتا۔ دور اقتدار میں سبکی زبانیں بند اور حزب مخالف
بننے کے بعد مسلم پرستی اور بڑے بڑے دعوے کے ساتھ قائد ملت کے کردار میں دکھائی دینا
معذرت کے ساتھ یہ منافقت کب تک؟سیاست سے باہر مسلم قیادت نذرانوں، نجی و ذاتی فوائد
یا کسی حد تک کچھ محدود اداروں کی معاونت جس کی ایک شکل معاملات و مالیات سے نظر پوشی
بھی ہے۔ان میں سے جس کو جب اعلیٰ ترین سطح پر بلالیا گیا اس کے ساتھ اپنا ہی کچھ ہوا
ملت کے لئے محض اندر اور باہر تقریر ، چرب زبانی اور طے شدہ پریس رلیز! ہر وفد کا خاتمہ
ان ذاتی کاموں کے کاغذات و گزارشات کی حوالگی
پر ہوتا ہے قوم کے مسئلے وہیں رہ جاتے ہیں قائدین کا کوئی مسئلہ حل ہونے سے
بچتا نہیں۔کسی مربوط، مضبوط حکمت عملی سے فارغ ایک ایسا جم غفیر جو آ ج تک ایک بنیادی
مسئلے کے حل کے حوالے سے کامیابی کا دعوی نہیں
کر سکتا۔ کچھ ایسےعلامتی اقدامات جنکا فیض انکو پہنچے جن کو آپ پہچانا نہیں چاہتے
ایسے فیصلے خوب کئے گئے۔سیا ست لے اور دے کا نام ہے یہ خالص تجارتی بنیادوں پر اپنا
وجود رکھتی ہے۔ اس میں کوئی کسی کا مستقل نہ دوست ہوتا ہے نہ دشمن! ایک ہم اور ہماری
قیادت ہی ایسی رہی کہ جس نے دشمنی باندھی اورجن کے لئے باندھی ان میں سے جب جس کا دل
چاہا وہ من چاہی جگہ چلا گیا۔ ہمارے ووٹ سے جیتا ‘اقتدار میں آیا مگر اس کے فیصلوں
میں آپ کہیں نہیں۔سیکولر سیاست میں یہ ہماری اوقات رہی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اپنی جماعت
اور قائد ہو تو سب ٹھیک ہو جائیگا۔ پارلیمنٹ میں بس تقریر ہو سکتی ہے جس کی نہ کوئی
سنوائی اور نہ اس پر عمل! اراکین ۲۳ ہوں یا ۷۳
نہ فیصلے کر سکتےہیں اور نہ کر وا سکتے ہیں۔در اصل ہمارے
مسائل سیاسی ہیں ہی نہیں ! سب کے سب کہیں نہ کہیں اکٹریت کی نفسیاتی و احساساتی اساس
سے جڑے ہوئے ہیں۔ اور ہم ایک ایسےریگستان میں دوڑ لگا رہے ہیں جہاں پانی دستیاب ہی
نہیں۔ کسی کا آلہ کار بننا بند کیجئے۔ سیاست عشق و محبت یا معاشقہ نہیں ہے جس میں
عقل سلب ہو جائے اور آس و یاس کا شعور ہی ختم ہو جائے۔ ان پر جو بازار سیاست کے دلال،
دوکاندار یا ٹھیکےدار ہیں، نظر رکھئے ان کی اقتصادیات پر جو آپ کا سودا رات کے اندھیروں
میں کرتے ہیں اور باہر علامہ اقبال کے اشعار اور مخصوص آیتوں کا حوالہ دیکر میرے اورآپ
کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔کسی صاحب حیثیت جس کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق سیاست سےہے
اس کی اچانک خوشحالی اور فارغ البالی پر نظررکھئے ۔
آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
عام مسلمان کا مقدر مفلس الحالی ! چور گھر
میں ہے باہر نہیں! سیاست میں کوئی کسی کےخلاف سازش نہیں کرتا۔ بس سیاست کے تقاضوں میں
جنگ رہتی ہے۔ شطرنج کی چوسر کی طرح گوٹوں سے کھیلا جاتا ہے۔ شہ اور مات کا کھیل ہےجس میں کھلاڑی جیت جاتا ہے اور اناڑی بک جاتا ہے یا استعمال
ہو جاتا ہے ۔ہم من حیث القوم ماشاءاللہ کس زمرے میں آتے ہیں یہ فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا
ہوں۔
28 جولائی 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-----------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism