New Age Islam
Sun Jul 20 2025, 02:53 PM

Urdu Section ( 11 Jan 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Compared To Other Forms of Art, Literature Has a Closer Connection to Life ادب کاتعلق جتنا براہ راست زندگی سے ہے اتنااو رکسی دوسرے فن لطیف کا نہیں ہے

سید محمد عقیل

9 جنوری،2023

ادب کے سلسلہ میں جب فن کاسوال آتاہے تو بہت سے دھوکے پیدا ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ فن کا مقصد صرف الفاظ کی تراش خراش، لفظوں کی بندش، بحر ردیف اور قافیہ کا التزام سمجھتے ہیں۔کچھ لوگ نثر میں بھی فنکاری کا تقاضاکرتے ہیں۔ کچھ نثر کو فن کے لئے مناسب نہیں سمجھتے۔فن ان کے نزدیک صرف شاعری میں ہی مل سکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ فن،نثر نظم سب میں ہوتا ہے۔ صرف مقررہ اصول ہی نہیں بلکہ وہ روح وہ جذبہ بھی کام کرتا رہتا ہے جو ہر فن کی جان ہے۔ شاعری کے سلسلے میں فن،الفاظ کے انتخاب،ردیف، قافیہ،بحر،موسیقیت او رسب سے زیادہ اس مواد میں ہوتا ہے جو پیش کیا گیا ہے اور طرز پیشکش جس میں مواد ڈھا لا گیا ہے۔مقالات او رمضامین میں فن اس مقصد کے اتمام میں پوشیدہ ہوتا ہے جس کے لئے وہ لکھا جارہا ہے اور وہ طرز ادا جس کے ساتھ دو پیش کیا گیا ہے۔ ناول اور مختصر افسانوں میں فن، کردار نگاری، پلاٹ، ارتقا،منتہا،اختتام او رمواد و طرز پیشکش میں مخفی ہے۔ ایسا مواد جو مادی ہو، جسے انسانی حیات سے علاقہ ہو اور اس بات کا اطلاق پورے ادب پر ہوتا ہے، اس لئے کہ ادب کا تعلق جتنا براہ راست زندگی سے ہے اتناتعلق او رکسی فن لطیف کانہیں ہے۔

ایک اور محدود طبقہ کے نزدیک ادبی فن او رادبی محاسن کے معنی بالکل مختلف ہیں۔ ادب کا مطلب اول تو اس طبقہ کے نزدیک، صرف شعر خوانی ہوتا ہے جس میں فن صرف لفظی بازیگری،ردیف قافیہ کاکھٹکا، صنعت لفظی، بندش وغیرہ ہوتا ہے۔ مگر یہ خیال صرف متشاعر اور چند ادیب نما لوگوں کاہے جو ادب کااصل مفہوم نہ سمجھتے ہیں او رنہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ادب نہ صرف شعرو شاعری ہے او رنہ فن سے مراد صرف ردیف قافیہ، الفاظ کی تراش خراش اور ضائع لفظی ہیں۔ ادب میں ناول،افسانہ نگاری، داستان،نثر سبھی کچھ شامل ہے اور ان سب چیز وں میں فنکاری موجود ہوتی ہے مگر ادب کے لئے پہلی اور سب سے ضروری چیز مواد ہے جس کی بنیاد کسی مادی خیال پر رکھی گئی ہو،باقی چیزیں صرف مشاطگی کا کام کرتی ہیں۔ انسانوں کا ادب انسانی زندگی کا عکس ہے اور اس لئے اس ادب کا مواد انسانی سماج ہی اکٹھا کرتا ہے اور پھر اس کو فنکاری سان پر چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ ماحول اور سماج ادب کی جان اور ادیب کادماغ ہیں۔ سماج او رماحول میں خوبیاں بھی ہوسکتی ہیں،خرابیاں بھی۔ ادب کا مقصد زندگی کو سنوارناہے، اس سے آنکھیں چرانانہیں۔ اس لئے خوبیاں، خرابیاں سب کچھ پیش کی جاتی ہیں مگر دیانتداری شرط ہے۔ خرابی پیش کرنے یا اس کامذاق اڑانے میں اگر اصلاح مقصود ہے تو ایسی خرابی کے بیان کرنے میں چنداں ہرج نہیں مگر جب اس کو خرابی او رگندگی کی بنا کر محض ذہنی تعیش کے لئے پیش کیا جاتا ہے تب وہ یقینا تخریبی ہوجاتی ہے جس کامقصد محض شرارت اور بدنفسی کے کچھ او رہوہی نہیں سکتا۔ یہ غلطی خواہ کسی بھی اسکول کے ماننے والے سے سرزد ہو۔

ادب کی فنی خصوصیت کا ایک پہلو حقیقت نگاری بھی ہے، مگر صرف دو اور دو چار والی حقیقت، سائنسی ہوجائے گی اگر فنکار اس کو اپنے تخیل کے سحر میں غرق نہیں کرتا۔فنکاری کے لئے ادب میں سب سے بڑی مشکل یہیں آپڑتی ہے۔ اسے حقیقت سے بھی کنارہ کش نہ ہوناچاہئے اور ساتھ ہی ساتھ پیشکش ایسی ہو جس نے تخیل و محسوسات کی مدد تولی ہو مگر ہوا میں معلق نہ ہوگئی ہو۔ فلسفہ او رسائنس حقیقت کلّی پر یقین رکھتے ہیں او راسی وجہ سے ان کی دنیا میں ادبی فن کامذاق اڑایا جاتا ہے۔ اس کو حقیقت سے گریزاں او ربے عمل کہا جاتاہے۔ سائنس کی دنیا میں رات صرف ایک مقررہ وقت کے بعد غروب آفتاب ہونے پر جب تاریکی پھیل جائے اس کا نام ہے، مگر ادب کی دنیا میں فنکارکی رات اس سے ہنس ہنس کر باتیں کرتی ہے، اس سے میخانے میں چلنے کو کہتی ہے، کسی لالہ رخ کے کاشا نے کی طرف اس کادامن کھینچتی ہے۔ اب یہ واقعہ حقیقت سے دور بھی نہیں ہے۔ انسانی دماغ میں بعض اوقات یہ خواہش پیدا ہوتی ہے،لطف تو یہ ہے کہ سائنس بھی فن ہے اور ادب بھی اور یہ دونوں فن بھی ایک دوسرے میں اس طرح سموئے ہوئے ہیں کہ الگ نہیں کئے جاسکتے۔ ادب کو سائنٹفک ہوناچاہئے جب کہ سائنس پر ادب کے بھی اصول قائم کئے جاتے ہیں۔

فن کو صرف ادب، صرف شاعری نہ سمجھ کر اگر اس کے وسیع معنی میں اسے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ ضروری ہے کہ اس بات پر نظر رکھی جائے کہ لفظ فن کا استعمال کس ضمن میں اور کس موقع پر ہوا ہے۔ اگر ”فن“ موسیقی کے سلسلہ میں آیا ہے تو وہاں اس سے مراد آواز،سُر تال، نغمہ راگ، راگنی، لہجے کا اتار چڑھاؤ اور پھر اس کے بعد وہ گیت ہے جس پر موسیقی کے ان لوازمات کا تجربہ کیا جاتا ہے اورپھر گیت میں وہ جذبہ جو کسی گیت یانغمہ کو مؤثر بناتا ہے۔ اگرحقیقت میں نظروں سے دیکھا جائے تو موسیقی کی روح وہی جذبہ ہے جو کسی گیت میں سمویا ہوا ہے اور جو موسیقی کے لوازمات کیساتھ مل کر دل پر ایک چوٹ مارتا ہے۔اسی طرح صرف ساز سے پیدا کی ہوئی موسیقی میں اگر یہ روح موجود نہیں تو فن موسیقی کاظاہری فن جذبات کو برانگیختہ نہیں کرسکتا، قوت سامعہ شاید متلذذ ہوجائے، مثال کے لئے ہم مضطر خیر آبادی کامشہور شعر لئے لیتے ہیں:

اسیر پنجہ عہد شباب کرکے مجھے

کہاں گیا مرا بچپن خراب کرکے مجھے

اب اس شعر میں جو تاسف، کرب، ملی ہوئی خواہش اور تڑپ موجود ہے وہ موسیقی کی سان پر چڑھ کر جتنااثر پیدا کرے گی اتنا:

گرا کے غار کی تہ میں اکیلا پا کے مجھے

چلا گیا وہ مٹر خاں رُلا رُلا کے مجھے

میں نہیں پیدا ہوسکتی چاہے مو سیقی کے فن کا اظہار انتہائی بلندی کے ساتھ کیوں نہ کیا جائے۔ سامعہ تو لذت حاصل کرے گا مگر وہ بھی ظاہری ہوگی اس لئے کہ سامعہ پر بھی جذبات اثر انداز ہوتے ہیں۔موسیقی، سا۔رے۔گا۔ماسے زیادہ اس احساس کانام ہے جو مغنی کے دل میں کسی جذبہ کے تحت پھوٹ پڑتا ہے اور ساز ہاتھ سے زیادہ دل سے بجایا جاتا ہے۔

اسی طرح رقص صرف آگے بڑھنے، پیچھے ہٹنے، جسم کی گردش، اعصاب کی مختلف جنبشوں کا نام نہیں بلکہ رقص کی روح، رقاصہ یا رقاص کا وجود او راس کے جذبات ہیں۔ رقص کے لئے اگر رقاص کے حرکات و سکنات ہی کافی ہوتے تو کٹھ پتلی یا کسی بھی میکانکی رقص میں زیادہ دلفریبی ہوتی اور اگر رقاصہ یا رقاص کی جذباتیت رقص پر اثر انداز نہ ہوتی تو ہر آدمی تھوڑے سے اصول سیکھ کر رقص کرسکتا تھا۔ادا، یا،طرزادا، جس کا نام ہے وہ کٹھ پتلی میں پیدا ہوسکتی نہ اصول رقص میں۔ صرف ظاہری فن کہیں بھی کام نہیں دیتا اگر مواد موجود نہ ہو،ایسا مواد جس میں مادی لطافتیں موجود ہوں۔ فن اور مواد ایک دوسرے کے لئے ہر میدان عمل میں لازم وملزوم ہیں۔

مصوری کے سلسلہ میں بھی خیال کو صرف ثانوی بلکہ اس سے بھی کم اہمیت حاصل ہے۔ مصوری کے لئے ضروری ہے کہ مصور میں قوت مشاہدہ زبردست قسم کی ہونی چاہئے۔ ذہن میں مختلف قسم کے رنگو ں کے اثرات سے کیفیت پیدا ہونے کی صلاحیت موجود ہو، باریک بیں اتنا ہو کہ فطری اور مصنوعی پیشکش کی تہ تک پہنچ جائے، طبیعت ایسی حساس ہو جس کے خمیر میں مناظر فطرت حل کردیئے گئے ہوں اور جس کے لئے یہ مادی دنیا ایک منظر ہو۔ اسی طرح سنگ تراشی، مجسمہ سازی، ہر ایک کے لئے کچھ میکانکی اصول اور واجبات ہیں جن کے تذکرے میں کوئی دلکشی اس موقع پر پیدا نہ ہوگی۔

اعلیٰ فنون کے بارے میں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اعلیٰ فنون کی تخلیق کہیں الگ سے یکبارگی نہیں ہوجایا کرتی۔اس کی اساس بالکل ادنیٰ فن پر قائم ہے۔ پیراڈائزلاسٹ،اینیٹڈ، ایلیڈ، شاہنامہ مراثی انیس کا وجود قلم کی گردش، خطاطی،الفاظ، جملے،نشست، علم بیان جیسے چھوٹے چھوٹے فنون کی مدد اور ان کے اجتماع ہی سے ہوا۔تاج کے مینارے،موتی مسجد کی سادگی، مدوراکے مندر،اجنتااو رایلوراکی اپسرائیں،آخری فیصلہ، مائیکل انجیلو کا فن ٹٹین، مانی، بہزاد کی مصوری ونقاشی بھی موقلم، رنگوں کی پیالیاں اور سنگتراشی کے ابتدائی اوزار کی مرہون منت ہیں او ریہ ابتدائی چیزیں ادنیٰ فن کا ایک جزو ہیں جو اعلیٰ فنون کی تخلیق کا باعث بنتی ہیں۔ اس بحث کے بعد جب فن کو ہم بحیثیت مجموعی دیکھتے ہیں تو بے ساختہ ہماری زبان سے یہی نکلتا ہے کہ فن مادّی حسن کی نقالی کا نام ہے۔

9 جنوری،2023،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

-----------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/compared-forms-literature-connection-life/d/128847

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..