عید میلاد
النبی کی تقریبات کے دوران مسلمان نا عاقبت اندیش جوش و جذبے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
اہم نکات:
1. پیغمبر اسلام کے یوم
پیدائش کے موقع پر مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول۔
2. یوپی کے بھدوہی میں
عید میلاد النبی کے موقع پر کرنٹ لگنے سے چھ افراد کی موت۔
3. بنگلورو میں عید میلاد
النبی کے جلوس میں تلواریں چمکانے کے الزام میں انیس مسلم نوجوان گرفتار۔
----
نیو ایج اسلام
اسٹاف رائٹر
12 اکتوبر 2022
9 اکتوبر کو پیغمبر اسلام کے
یوم ولادت (عید میلاد النبی) کو مذہبی جوش و جذبے سے منائے ہوئے تین دن گزر جانے کے
باوجود اس دوران رونما ہونے والے ناخوشگوار واقعات کے نشانات تادیر باقی رہیں گے۔ اتر
پردیش کے بھدوہی کے ایک گاؤں میں پیغمبر اسلام کے یوم پیدائش کے موقع پر نکالے گئے
جلوس کے دوران بجلی کا کرنٹ لگنے سے چھ مسلمان ہلاک ہو گئے۔ یہ سانحہ اس وجہ سے پیش
آیا کہ لوگ ایسے جھنڈے اٹھائے ہوئے تو گلی میں لٹکتے ہوئے بجلی کی تار کو چھو رہے تھے۔
جشن کے موقع پر اقبال پور کے مسلم
اکثریتی علاقے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئیں کیونکہ
ہندوؤں نے میور بھنج روڈ کی مخلوط آبادی میں گلیوں میں اسلامی پرچم لگانے پر اعتراض
کیا۔ دونوں برادریوں کے لوگ آپس میں لڑ پڑے اور ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔ علاقے میں
دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے اور پولیس نے دونوں برادریوں کے درجنوں شرپسندوں کو گرفتار
کر لیا ہے۔
بنگلورو میں، 19 مسلم نوجوانوں
کو، جن میں زیادہ تر نابالغ تھے، جلوس کے دوران تلواریں چمکانے پر پولیس نے گرفتار
کیا ہے۔
یہ واقعات بتاتے ہیں کہ کس طرح
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کے موقع پر نکالے جانے والے جلوس تیزی سے
فرقہ وارانہ کشیدگی اور حادثات کی وجہ بنتے جا رہے ہیں۔ ہندوستان میں اتنے بڑے پیمانے
پر عید میلاد النبی کی تقریبات کا منعقد کیا جانا ایک حالیہ رجحان ہے۔ صرف دو دہائیاں
قبل اسے کسی بڑے تہوار کی شکل میں نہیں منایا جاتا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
کی یوم پیدائش کے دن راجیو گاندھی کے دور میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔ انہو
نے سیاسی وجوہات کی بنا پر مسلمانوں پر یہ احسان کیا تھا۔ اس سے مسلمانوں کو جشن منانے
کی ایک وجہ مل گئی۔ اور ایسا کرنے کے لیے ایک طویل عرصے سے فراموش کردہ تاریخی واقعے
کو زندہ کیا گیا۔ برطانوی حکومت کی جانب سے جلسہ عام کے لیے چھاؤنی کے میدان کے استعمال
پر عائد پابندیوں کو توڑنے کے مقصد سے آزادی سے قبل جمعیۃ علمائے ہند کی نے سب سے پہلے
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا جلوس نکالا تھا۔ یہ جلوس نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے یوم ولادت پر نکالا گیا تھا اس لیے اس کا نام جلوس محمدی رکھا گیا۔ اس
جلوس میں کئی سرکردہ ہندو اور مسلم قائدین نے شرکت کی تھی۔ یہ ایک سالانہ تقریب بن
گئی جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شرکت کرتے تھے۔ تاہم، آزادی کے بعد فرقہ وارانہ اختلافات
کی بنا پر بڑے پیمانے پر خونریزی کی وجہ سے اس جلوس کو روک دیا گیا تھا اور اس کی ایک
وجہ یہ بھی تھی کہ جلوس محمدی کا آغاز برطانوی حکومت کی مخالفت میں کیا گیا تھا۔ اس
کی نوعیت مذہبی سے زیادہ سیاسی تھی۔
اب المیہ یہ ہے کہ جلوس محمدی ایک
خالصتاً مذہبی تقریب میں تبدیل ہو گیا ہے۔ جوں جوں سال گزرتے جا رہے ہیں، جشن منانے
کا جذبہ اور جوش و خروش بڑھتا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ
جشن عید میلاد النبی منانا اور عید میلاد النبی کے جلوس میں شامل ہونا حضور صلی اللہ
علیہ وسلم سے محبت کا ثبوت ہے۔ مسلمانوں کے ایک طبقے کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ اس دن نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر تشریف لاتے ہیں اس لیے ان کے استقبال کے لیے گلیوں
اور گھروں کو سجانا اور روشن کرنا ضروری ہے۔ کچھ جگہوں پر، مسلمان تلوار سے حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہیں اور 'ہیپی برتھ ڈے یا رسول اللہ' کہتے
ہیں۔ اور یہی عقیدہ مسلم آبادیوں میں بے انتہا جوش اور ولولے کی وجہ بھی ہے۔
لیکن یہ جوش اور جذبہ تقریبات کے
دوران فرقہ وارانہ کشیدگی، اموات اور حادثات کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ اسلام مذہبی فرائض
کی انجام دہی اور تہواروں کی تقریبات میں سادگی اور اخلاص کی تعلیم دیتا ہے۔ عیدالفطر
اور عیدالاضحی جیسے بڑے تہوار دنیا بھر میں امن اور سادگی کے ساتھ منائے جاتے ہیں۔
ان مواقع پر نہ کوئی شور شرابہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی نعرے بازی کی جاتی ہے۔ اسلام
میں صرف دو عیدیں ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کو بھی عید کا
درجہ دیا گیا ہے۔
عید میلاد النبی کے موقع پر ہونے
والے فرقہ وارانہ کشیدگی، حادثات اور سانحات ہمیں بتاتے ہیں کہ تقریبات کے حوالے سے
مسلمانوں کے نقطہ نظر میں کچھ خامی ہے۔ اگر کوئی تہوار حقیقی اسلامی روح کے ساتھ منایا
جائے تو ہلاکتیں، حادثات اور فسادات کبھی نہ ہوں۔ ناخوشگوار واقعات اس بات کا ثبوت
ہیں کہ مسلمانوں کا طرز عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی تعلیمات
کے مطابق نہیں ہے۔ علمائے کرام کے مطابق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
ولادت سوموار کو ہوئی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کا روزہ رکھا۔ اس
کے برعکس مسلمان روزے کی بجائے دعوتیں کرتے ہیں۔ اسلام سادگی کی تلقین کرتا ہے لیکن
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کے یوم پیدائش پر مسلمان گھروں اور گلیوں کو سجانے اور روشن
کرنے پر بے پناہ خرچ کرتے ہیں۔ ڈی جے پر نعتیں بجائی جاتی ہیں۔ ڈی جے کی اونچی آواز
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سکون اور نیند میں خلل ڈالتی ہے۔ بعض جگہوں پر لاؤڈ سپیکر
پر فرقہ وارانہ نعرے بھی لگائے جاتے ہیں۔ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔
عام مسلمانوں کو یہ بتایا گیا ہے
کہ اس طریقے سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کر کے وہ خدا اور اس کے پیغمبر
کو راضی کرسکتے ہیں۔ لیکن تشدد اور گھٹیا حرکتوں میں ملوث ہو کر وہ صرف موت کو دعوت
دیتے ہیں اور اسلام کی شبیہ کو داغدار کرتے ہیں۔ خدا اور مقدس پیغمبر جشن کے نام پر
تشدد اور نفرت کی تبلیغ نہیں کرتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کو احساس ہو جائے کہ
اسلام سادگی اور امن پر یقین رکھتا ہے۔ یہ مسلمانوں کو عشق رسول کے نام پر تشدد کرنے
کی اجازت نہیں دیتا۔
---------------
English Article: Communal Tensions, Deaths and Arrests Mark Eid Milad
un Nabi Celebrations in India
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism