مندروں اور درگاہوں نے ہندوستان
کے لوگوں کے درمیان کبھی بھید بھاؤ نہیں کیا
اہم نکات:
1. بہت سے مندر اور مسجدیں
ایسی ہیں جو صدیوں سے ایک ساتھ کھڑی ہیں
2. تاریخ بتاتی ہے کہ بہت
سے مندروں کی تعمیر خود مسلم بادشاہوں اور نوابوں نے کی تھی
3. بے شمار درگاہیں ہیں
جہاں ہندو اور مسلمان دونوں حاضر ہوتے ہیں
4. نواب شجاع الدولہ نے
ہنومان گڑھی مندر کے لیے زمین عطیہ کیا تھا
5. کشمیر میں اب بھی بہت
سے مندر ایسے ہیں جن کی دیکھ بھال مسلمان کرتے ہیں
----
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
30 مارچ 2022
مندر
-------
مندروں کے احاطے میں مسلم
تاجروں پر پابندی کے حالیہ مطالبے نے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ اس اقدام کا ایک پہلو
مذہبی و سیاسی بھی ہے اس لیے اس کی مخالفت وہ ہندو بھی کر رہے ہیں جو ہندوستان کی صدیوں
پرانی ہم آہنگی کی ثقافت اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔
مندروں، مسجدوں اور صوفی درگاہوں
نے کبھی ہندوؤں اور مسلمانوں میں بھید بھاؤ نہیں کیا بلکہ مختلف مذہب کے پیروکاروں
کے مابین ثقافتی بندھن کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ملک کے اندر بہت سے
ایسے صوفی مزارات ہیں جہاں ہندو اور مسلمان دونوں حاضری دیتے ہیں۔ درحقیقت اب بھی کئی
درگاہوں پر عرس کا انتظام ہندو اور مسلمان مشترکہ طور پر کرتے ہیں۔ بہت سے مندر ایسے
ہیں جن کی تعمیر یا تو مسلم بادشاہوں اور نوابوں نے کی ہے یا ان کی تعمیر میں انہوں
نے مالی امداد فراہم کیے ہیں۔ کشمیر میں بہت سے مندروں کی دیکھ بھال مقامی مسلمان ہی
کرتے ہیں۔
بالخصوص کشمیر سے کشمیری پنڈتوں
کے اخراج کے بعد بہت سے شیو مندروں کی دیکھ بھال اور حفاظت کی ذمہ داری کشمیری مسلمانوں
نے ہی اٹھا رکھی ہے اور وہ معمول کے مطابق اب تک اس ذمہ داری کو نبھاتے آ رہے ہیں۔
مثلاً مہاراشٹرا میں بہت سی
درگاہیں ہیں جن کو ہر مذہب و ملت کے لوگ احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں وہاں حاضری دینے
آتے ہیں۔ جلگاؤں ضلع کے کیگاؤں میں زندہ پیر کی درگاہ اور اسی ضلع میں دادا غلام علی
شاہ کی درگاہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مراکز ہیں۔ درگاہ غلام علی شاہ کا صدر دروازہ
علاقے کے ایک ہندو تاجر نے عطیہ کیا تھا۔
کرناٹک میں، کہ جہاں مسلم
دکانداروں پر پابندی عائد کرنے کا اقدام اٹھایا گیا ہے، ہم آہنگی کا کلچر اب بھی مضبوط
ہے۔ بیجاپور ضلع کے ڈومنال گاؤں میں واقع صوفی بزرگ داول ملک کی درگاہ کی تعظیم و تکریم
ہندو اور مسلم دونوں ہی کرتے ہیں اور عرس کے دوران ہندو ہی اس کے انتظام و انصرام کی
ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔
کرناٹک کے کلبرگی میں حضرت
رکن الدین ٹولہ کی درگاہ ہے۔ چونکہ ہندو بھی صوفی مزارات پر حاضری دینے آتے ہیں، اس لیے عقیدت مندوں کو وہاں عام ہدایت ہے کہ لوگ نان ویجیٹیرین کھانا کھانے
کے بعد درگاہ پر حاضری دینے نہ آئیں۔
مالیگاوں مہاراشٹر میں، مہادیو مندر اور جامع مسجد ایک گنجان
آبادی والے علاقے میں ساتھ ساتھ واقع ہیں جہاں ہندو اور مسلمانوں دونوں اپنی اپنی دکانیں
اور کرگھے چلاتے ہیں۔
جب کشمیری پنڈت شورش کے دوران
کشمیر چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو انہوں نے اپنے مسلم پڑوسیوں سے مندروں کی دیکھ بھال
کرنے کی درخواست کی اور مسلمانوں نے ان سے عہد کیا کہ وہ ان مندروں کی ہر قیمت پر حفاظت
کریں گے۔ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اب بھی شیو مندروں کی حفاظت وہی مسلمان کر
رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، سری نگر کے مضافات میں زوباریہ پہاڑیوں پر واقع شیو مندر
کی دیکھ بھال نثار نامی ایک مسلم شخص 2004 سے کر رہا ہے۔ ان سے پہلے نثار کے والد اس
مندر کے متولی تھے۔ پایار میں ایک اور قدیم شیو مندر کی دیکھ بھال مشتاق احمد شیخ کر
رہے ہیں۔ یہ سری نگر سے 45 کلومیٹر دور واقع ہے۔ مشتاق اور ان کے خاندان نے 1990 کی
دہائی میں شورش کے عروج کے دوران اس مندر کی حفاظت کی تھی۔
جامع مسجد، دہلی
--------
ایک اور 900 سالہ قدیم ممالکا
مندر جو دریائے لڈر کے کنارے پر واقع ہے۔ چونکہ اس مندر میں کوئی پجاری نہیں ہے اس
لیے دو مسلمان محمد عبداللہ اور غلام حسن بطور پجاری کے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ
ہر روز مندر کی صفائی کرتے ہیں اور جھاڑو لگاتے ہیں اور ہر آنے والے کو پرساد پیش کرتے
ہیں۔ کشمیر سے نکلتے وقت پنڈتوں نے ان سے مندر کو کھلا رکھنے کی درخواست کی تھی، انہوں
نے پنڈتوں کی درخواست قبول کی جس پر وہ اب تک کاربند ہیں۔
درگاہ خانقاہ مولا اور راما
کول مندر کشمیر میں آمنے سامنے واقع ہیں اور ہندوستانیوں کو ملک کی مذہبی ہم آہنگی
کی شاندار تاریخ کی یاد دلاتے ہیں۔
مغل بادشاہوں اور خصوصاً اکبر
اور جہانگیر نے ہندو مندروں کو مالی تعاون اور زمین فراہم کر مذہبی ہم آہنگی کو فروغ
دیا ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جہانگیر نے ورنداون کا دورہ کیا تھا اور مندر کے سیوکوں
کو زمین دی تھی۔ مغل بادشاہ اور اودھ کے نواب ایودھیا اور دیگر مقامات پر بہت سے مندروں
کی سرپرستی بھی کرتے تھے۔
درگاہ، اجمیر شریف
----------
یہ ہندوستان میں مندروں، مسجدوں
اور درگاہوں سے فروغ پانے والی مذہبی ہم آہنگی کی صرف چند مثالیں ہیں۔ اب ہر درگاہ
اور مندر کے احاطے میں بازار کھل گئے ہیں جہاں ہر مذہب و ملت کے لوگوں کی دکانیں ہوتی
ہیں۔ جس طرح مسلمان مندروں کے احاطے میں دکانیں لگاتے ہیں، اسی طرح ہندوؤں کی بھی درگاہوں
کے احاطے میں دکانیں ہوتی ہیں۔ ہندو دکاندار بمقابلہ مسلم دکاندار کا جھگڑا پہلے نہ
کبھی سنا گیا اور نہ ہی کبھی دیکھا گیا۔ بڑی بڑی درگاہوں پر عرس کے دوران میلے لگتے
ہیں جن میں ملک بھر سے مختلف ذات اور برادری سے تعلق رکھنے والے تاجر اور کاریگر مل
کر دکانیں لگاتے اور کاروبار کرتے ہیں۔ ہندو تاجروں پر پابندی لگانے کا سوال مسلمانوں
کے ذہن میں کبھی نہیں آیا۔
لہذا، عبادت گاہوں کے احاطے
سے ایک مخصوص برادری کے تاجروں پر پابندی لگانے کا فرقہ وارانہ اقدام ہندوستان کے کثیر
ثقافتی تانے بانے کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اور یہ قدم معیشت کے لیے بھی اچھا نہیں ہے۔
English Article: Contrary To The Current Communal Narrative, Temples,
Mosques And Dargahs Have Been A Part Of India's Syncretic Culture For Centuries
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism