پروفیسر محمد قطب الدین
23 اگست،2023
انگریزی اخبار ’دی ٹائمس
آف انڈیا‘دہلی،۱۱؍اگست
۲۰۲۳ء میں شائع
ایک خبر کے مطابق منی پور کی۳۷؍سالہ
ایک خاتون نے ۹؍
اگست کو ایف آئی آر درج کراتے ہوئے شکایت کی ہے کہ۳؍مئی
کو منی پور میں نسلی فسادات کے درمیان اس کا گھر جلادیا گیا اور اپنی جان بچا کر
جب وہ بھاگنے لگی تو کچھ فسادیوں نے اسے پکڑ لیا اور اس کی اجتماعی عصمت دری
کی۔یاد رہے کہ اس سے قبل بھی منی پور میں دو خواتین کی عصمت دری اور پھر انھیں
برہنہ کرکے سڑکوں پر پریڈ کرانے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکا ہے،جس نے پورے
ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور انسانیت کو شرمسار کردیا۔اس انسانیت سوز ویڈیو کے
وائرل ہونے کے بعد منی پور کی انتظامیہ نے فساد زدہ علاقوں میں خواتین کو اپنی
شکایت درج کرانے کی راہ ہموار کی ہے جس کے بعد بڑی تعداد میں خواتین اپنے اوپر
ہوئے ظلم و بربریت کے خلاف آواز بلند کرنے لگی ہیں، چنانچہ ۳؍مئی
کو ہوئے نسلی فساد،قتل و غارت گری اور لوٹ کھسوٹ کے درمیان خواتین پر ہوئی زیادتی
کے مزید واقعات سامنے آنے لگے ہیں۔
دراصل منی پور کا یہ
ہولناک واقعہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی
کوئی فرقہ وارانہ فساد یا نسلی جھڑپوں کا واقعہ پیش آتاہے تو لازماً خواتین کو
جنسی زیادتی کا شکار بنایاجاتاہے اور سماج مخالف عناصر ظلم و بربریت کی تمام حدیں
پارکرجاتے ہیں۔ عالمی منظرنامے میں بھی اکثر دو ملکوں کے درمیان جنگوں یا فرقہ
وارانہ فسادات کے دوران خواتین کو ہدف بنایا جاتاہے۔
خواتین کے خلاف اس نوعیت
کے تشد داور ظلم و زیادتی کے اسباب و محرکات پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ
اس انسانی سماج میں خواتین کسی بھی فرد،کسی بھی طبقے اور کسی بھی سماج کی عزت و
آبرو اور اس کی شان و شوکت ہوتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس مردانہ معاشرے اور سماج میں
خواتین کے ساتھ بدسلوکی و آبرو ریزی کے معاملات صرف جنگوں اور فرقہ وارانہ و نسلی
فسادات کے دوران ہی پیش نہیں آتے بلکہ عام دنوں میں بھی ذات پات،
برادری اور مذہب کی بنیاد پر ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا جاتاہے۔،ایک طبقہ دوسرے
طبقے کو کمزور و کمتر اور خود کوطاقت ور و برتر دکھانے کے لیے اوربدلہ کی غرض سے
مخالف طبقہ کی بہو بیٹیوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ ،اغوا اور آبروریزی
جیسی بدترین حرکتیں کرتاہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اب تک
عالمی پیمانہ پر جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان میں اپنے دشمنوں کو رسواکرنے اور کمتر
دکھانے کے لیے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ان کی خواتین کو جنسی زیادتیوں کا
نشانہ جان بوجھ کر بنایا گیا ۔اعداد و شمار کے مطابق برلن کی جنگ کے دوران اور اس
کے بعد بھی سویت فوجوں کے ذریعے تقریباًایک لاکھ خواتین اور دوشیزاؤں کی عصمت دری
کی گئی جس کے نتیجے میں جنسی زیادتی کی شکار خواتین کی ایک بڑی تعداد لقمۂ اجل
بھی بن گئی۔کہا جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران کئی ملین خواتین اور
دوشیزاؤں کا جنسی استحصال کیا گیا جو تاریخ کے صفحات پر بدنما داغ ہے۔
ایک اندازے کے مطابق
تقسیم ہند کے وقت جو فرقہ وارنہ فسادات ہوئے اور ملک کے مختلف طبقوں اور مذہب کے
ماننے والوں کے مابین جو جھڑپیں ہوئیں ان میں تقریباً ۷۵؍ہزار
سے ایک لاکھ خواتین کی آبروریزی،اجتماعی عصمت دری اور مختلف جنسی زیادتی کے
واقعات رونما ہوئے۔اسی طرح خواہ وہ ۱۹۹۲؍کاممبئی
فساد ہو یا ۲۰۰۲ء
میں گجرات
کا فرقہ وارانہ فسادیا پھر منی پور کا تازہ واقعہ یا اسی طرح دیگر فرقہ وارانہ
،نسلی اور طبقاتی جھڑپیں ، ہر جگہ خواتین اوردوشیزاؤں کو نشانہ بنایا گیا اور ان کی عزت و
آبرو پامال کی گئی ۔حقیقت میں آج انسان مذہبی و نسلی جنون میں تمام تر
شرافت،انسانیت اور تہذیب وثقافت کو بھلا کر شقاوت و سنگ دلی،درندگی،قتل و غارت گری
اور بے دردی و بے رحمی کی تمام حدودپار کرچکا ہے۔
دراصل کسی بھی سماج میں
اشتعال انگیزی،دوسروں کو زیر کرنے اور کمتر دکھانے کی تمنا اور نفرت کی سیاست
وغیرہ ایسی سماجی برائیاں ہیں جو سماج میں فرقہ وارانہ ونسلی فسادات کو جنم دیتی
ہیں ۔ان برائیوں کو روکنا اور تحمل و برداشت،ایک دوسرے کی خیر خواہی اور مشتعل نہ
کرنا اور نہ ہونا،سماج کے ہرفرد کی ذمے داری ہے۔بقول مشہور اسلامی اسکالر مولانا
وحیدالدین خاںؒ:’’ہرقسم کے فساد کے خلاف سب سے بڑی روک صرف یہ ہے؛اشتعال انگیزی کے
باوجود مشتعل نہ ہونا ،اس میں شک نہیں کہ یہی فسادات کو روکنے کاواحد کارگر اصول
ہے۔اس کے سوا جو باتیں کہی جاتی ہیں وہ سب کی سب صرف جھگڑے کو بڑھانے والی ہیں نہ
کہ اس کو ختم کرنے والی ۔مزیدیہ کہ اس اصول کا تعلق صرف ہندوستان سے نہیں ،بلکہ
تمام دنیا سے ہے۔خواہ مسلم ملک ہو یاغیر مسلم ملک،ایک قوم کا معاملہ ہو یا کئی
قوموں کا،ہر جگہ فساد سے بچنے اور پر امن زندگی گزارنے کا یہی بے خطااصول ہے۔خدا
نے اپنی دنیا کا جو نظام بنایاہے ،اس میںبرائی کا خاتمہ جوابی برائی سے نہیں
ہوتا۔بلکہ اس کاخاتمہ اس طرح ہوتاہے کہ برائی کے جواب میں بھلائی کی جائے۔خدا کی
دنیا میں صبر کی طاقت غصہ سے زیادہ ہے ۔ یہاں جہالت کے مقابلہ میں برداشت زیادہ
وزن رکھتی ہے۔یہاں انتقام کی بجائے معاف کردینا اپنے اندر تسخیری قوت رکھتاہے۔یہاں
دشمن کو زیر کرنے کا سب سے زیادہ کارگرطریقہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ دوستی اور خیر
خواہی کا معاملہ کیا جائے۔۔۔صبر و اعراض ایک اعلیٰ ترین حفاظتی تدبیر ہے،اس تدبیر
کے ذریعہ آپ فساد کے ہر بم کویقینا ناکارہ (Defuse)کرسکتے ہیں۔‘
(کاروان ملت ۔ص:۱۵۹۔۱۵۶) مولانا موصوف ؒمزید لکھتے
ہیں : ’جب بھی کوئی آدمی آپ پر تنقید کرتاہے،آپ کے خلاف کوئی سخت بات کہہ
دیتاہے تو آپ کے بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔آپ چاہنے لگتے ہیں کہ اس کو بھسم کردیں
جس طرح اس نے آپ کو بھسم کیاہے،مگر یہ طریقہ شیطانی طریقہ ہے۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ
آپ اس کڑواہٹ کوپی جائیں۔جو جھٹکا آپ پر لگا ہے اس کو دوسرے کے اوپر ڈالنے کی
بجائے خود آپ برداشت کر لیں،جب آپ ایسا کریں گے تو آپ کو ایک نئی قوت حاصل
ہوگی۔آپ اس حکمت کو جانیں گے کہ کڑوے الفاظ کا جواب میٹھے الفاظ سے دینا زیادہ
سخت جواب ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اشتعال کے وقت جو شخص صبر کرلے اور سوچ سمجھ کر
بولے وہ زیادہ طاقت ور انداز میں اپنی بات کہنے کے لائق ہوجاتاہے،وہ اس قابل ہوجاتاہے
کہ مشتعل الفاظ کا جواب ٹھنڈے الفاظ سے دے اور ٹھنڈک آگ کو زیادہ بجھانے والی ہے
۔وہ اس قابل ہوجاتاہے کہ وہ اپنے مخالف کو معاف کردے اور معاف کردینا یقیناً سب سے
بڑا انتقام ہے۔
(رازِ حیات۔ص:۲۶۵)
بہر حال آج جب کہ ہم
ملکِ عزیز کی آزادی کا جشن منارہے ہیں ،ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں ،سرکاری
وغیر سرکاری ادارے، انتظامیہ و پولیس ہر قسم کے فساد کی روک تھام اور خواتین کی
عزت و آبرو کے تحفظ کی ہر ممکن تدبیر کرے،نیز سماج کے ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ
ہر قسم کی اشتعال انگیزی سے دوررہے اور خواتین کے تئیں اپنی حساسیت و سنجیدگی کا
ثبوت دے تاکہ سماج میں خواتین کو عزت و احترام کا وہ مقام مل سکے جس کی وہ مستحق
ہیں۔
23 اگست،2023،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism