مشتاق الحق احمد سکندر،
نیو ایج اسلام
8 جون 2023
موسمی تبدیلی: قرآن اور
حدیث کی روشنی میں
مصنف: مولانا انیس الرحمن
ندوی
ناشر: کے اے نظامی سنٹر
فار قرآنی اسٹڈیز، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
صفحات: 120، قیمت: ذکر
نہیں۔
------
گزشتہ چار دہائیوں سے
موسمی تبدیلی ایک حقیقت بن چکی ہے۔ قدرتی وسائل کی کمی اور اوزون کی تہہ کے پتلے
ہونے، کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے، مونو آکسائیڈ گیسوں کی وجہ سے زمین کے درجہ
حرارت میں اضافہ، سمندر کے پانی کی سطح میں اضافے کے ساتھ ساتھ جیواشم ایندھن کے
جلنے سے زمین کے غیر آباد ہونے کا خطرہ، اس عمل کی تمام وجوہات کارفرما ہیں ۔ اس
سنگین عمل سے زمین پر رہنے والے جانداروں کو خطرہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے خلاف
کارکنوں، عالمی اداروں اور حکومتوں کی طرف سے عوام کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی
اثرات سے آگاہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ منفی موسمیاتی تبدیلیوں کو
روکنے کے لیے بہت ساری پالیسیاں بنائی گئیں، چند پر عمل درآمد کیا گیا اور شاذ و
نادر ہی لاگو کیا گیا۔
فطرت، اس کے اصولوں، مظاہر
اور عمل کے خلاف انسانی مداخلت کے نتیجے میں شدید عدم توازن پیدا ہوا ہے۔ قدرت
اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا بدلہ اپنے طریقے سے لیتی ہے۔ سیلاب، خشک سالی، شدید
موسمی حالات کو انسانی خلاف ورزیوں کے خلاف قدرت کا انتقام قرار دیا جا سکتا
ہے۔ CoVID-19 کو انسانوں کے خلاف
فطرت کا انتقام بھی کہا جا سکتا ہے جس نے پوری دنیا کو ٹھپ کر کے رکھ دیا، اور اس
طرح فطرت مے آلودگی کی سطح کو کم کر کے اور اوزون کی تہہ کو مضبوط کر کے خود اپنی
مدد آپ کی۔
کیا مذہبی صحیفے موسمیاتی
تبدیلی کے حوالے سے کچھ رہنمائی فراہم کرتے ہیں؟ یہ کافی دلچسپ سوال ہے۔ اسلام
بحیثیت دین کے اور بالخصوص اس کی شریعت اور بیانیہ اس انداز میں تشکیل دیا گیا ہے
گویا کہ یہ بنی نوع انسان اور مجموعی طور پر انسانیت کو پریشان کرنے والے ہر مسئلے
کا جواب اور حل معلوم ہوتا ہے۔ یہ بیانیہ
معمولی اور سطحی بات پر مبنی ہے کیونکہ اسلام اور اس کی منزل من السماء کتاب قرآن
پاک میں ہر مسئلے کا حل نہیں ہے، کسی بھی آسمانی یا تحریر شدہ کتاب میں ایسا بلند
و بانگ دعویٰ کرنے کی جرات نہیں ہے۔ اسلام کے ساتھ ساتھ قرآن بھی کچھ اقدار پیش
کرتا ہے، کچھ رہنما اصول وضع کرتا ہے اور چند ہدایات فراہم کرتا ہے، جو ایک مخصوص
پالیسی تشکیل دینے اور حل تلاش کرنے میں بطور اشارے کے کام کر سکتے ہیں۔'
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے
اجتہاد پر زور دیا ہے۔ اجتہاد کرنے والا مجتہد کہلاتا ہے۔ چونکہ مجتہد کا کام قرآن
و سنت کے مطابق سلگتے ہوئے مسئلے کا حل فراہم کرنا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس کا
اجتہاد کوئی حل پیش نہ کر سکے یا اسلام کی حقیقی تعلیمات کے خلاف ہو، تب بھی اس کے
لیے ایک نیکی کی بشارت ہے، کیونکہ کم از کم اس نے انسانیت کو فائدہ پہنچانے کی
کوشش کی۔
چونکہ موسمیاتی تبدیلی ایک
حقیقت اور آج کا سلگتا ہوا موضوع ہے، علماء اسلام اس مسئلے سے اپنا دامن نہیں
چھوڑا سکتے۔ چنانچہ ہمارے پاس مولانا انیس الرحمن ندوی کی یہ کتاب ہے جو قرآن و
حدیث کی روشنی میں موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے متعلق ہے۔ مولانا نے اس موضوع پر تحقیق کیا ہے اور سائنس
دانوں اور منفی موسمیاتی تبدیلی کے خلاف کارکنوں کی طرح ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ
اگر بروقت عملی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹا نہ گیا تو یقیناً حالات منفی سمت
میں جا سکتے ہیں اور زمین پر زندگی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔
گرین ہاؤس گیسوں کی وجہ سے
تبدیلیاں آتی ہیں اور زمین کے درجہ حرارت میں ایک، دو یا تین ڈگری کا اضافہ بھی
تباہی پھیلا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اوزون کی تہہ کی کمی اور تیزابی بارش فصلوں،
عمارتوں اور انسانوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ لہذا، اس قسم کے حقیقی مسائل اور اس
تباہی کے بارے میں مسائل جو موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہو سکتے ہیں، ان پر
بہت کم۔ لکھا یا بولا گیا ہے کیونکہ وہ بہت سے اشرافیہ کو بے نقاب کر سکتے ہیں۔
یہاں تک کہ جب موسمیاتی کارکن موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے بارے میں مختلف
رپورٹیں پیش کرتے ہیں، تب بھی انہیں مفاد پرست جماعتیں اور حکومت انہیں غیر مستند
یا غیر افادیت بخش قرار دیتے ہیں۔ میڈیا بھی ان خطرات پر زیادہ توجہ نہیں دیتا،
کیونکہ ان میں بغاوتوں کو جنم دینے اور حکومتوں کو گرانے کی طاقت ہے۔ لہذا، لوگوں
کو دوسرے قسم کے مسائل میں مصروف رکھا جاتا ہے جو یقینی طور پر انہیں حقیقی جلتے
ہوئے مسائل سے غافل کر دیتے ہیں۔ لہذا، اس طرح لوگوں کو اس تباہی کے لیے تیار کیا
جا رہا ہے۔
مولانا نے قرآن و حدیث سے
موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں بہت سی پیشین گوئیاں نقل کی ہیں۔ اس میں سورہ روم کی
آیات بھی شامل ہیں، جو مولانا کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی پیشین گوئی کرتے ہیں،
''خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ انہیں
ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وه باز آجائیں۔
زمین میں چل پھر کر دیکھو تو سہی کہ اگلوں کا انجام کیا ہوا۔ جن میں اکثر لوگ مشرک
تھے(42-30:41) لیکن کیا واقعی ان آیات میں موسمیاتی تبدیلی کی پیش گوئی کی گئی ہے
یا ہم ان آیات میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں؟ کیا واقعی ان آیات کا
مطلب وہی ہے یا یہ صرف ان آیات پر ان
معانی کو فٹ کرنے کی کوشش ہے جو وہاں مراد ہی نہیں ہیں؟ لیکن یقینی طور پر، منفی
موسمیاتی تبدیلی زمین اور سمندر میں بدعنوانی ہے، جس میں انسانوں کا ہاتھ ہے۔
مولانا، پھر کسی دوسرے
مصنف کی طرح جو موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر غور کرتے ہیں، قاری کو آگاہ کرتے ہیں
کہ کس طرح صنعت کاری اور انسانی سرگرمیاں موسمیاتی تبدیلی کے لیے ذمہ دار
ہیں۔ یہ چیزیں جنگل میں لگنے والی آگ اور
گلوبل وارمنگ کیسے پیدا کرتے ہیں، ایمیزون کے بارشی جنگلات کو محفوظ کرنے کی
ضرورت، اضافی Co2 کو جذب کرنے والے درخت اور وہ اس عمل کو بھی پلٹ سکتے ہیں۔ برف کا پگھلنا، سطح سمندر میں اضافہ جو سیلاب
اور رہائش کے قابل ساحلی زمینوں کو بہا لے گا، جس سے بستیوں کی تباہی اور انسانوں
کی نقل مکانی ہوگی۔
کتاب میں اعلیٰ معیار کے
کاغذ پر چھپی ہوئی تصویریں قابل دید ہیں جو کہ قاری کو موسمیاتی تبدیلی کے مختلف
اثرات کو سمجھنے میں مدد بھی کرتی ہیں۔ اردو جاننے والوں کے لیے یہ ایک بہترین
کتاب ہے، ورنہ انگریزی زبان میں ہمارے پاس پہلے سے ہی ایسے ماہرین موجود ہیں جو
گرین دین جیسے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، جو مساجد کو سبز بنا کر کاربن فوٹ پرنٹس
کو کم کرنے پر زور دیتے ہیں۔ اسے چند جگہوں پر لاگو کیا گیا ہے خاص طور پر مغرب کے
مسلمانوں نے مغربی ممالک میں اس کی پہل کی ہی۔
مجموعی طور پر، مولانا نے اس موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے، اور اس چیلنج کے
زیادہ تر شکلوں کا تجزیہ کیا ہے جو انسانیت کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
English Article: Climate Change: In The Light Of Quran and Hadith
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism