سیم جوڈا
1 اگست 2023
محققین کا کہنا ہے کہ چین
بیرون ملک مقیم اویغوروں پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی مہم چلانے والوں
کی جاسوسی کریں۔ اور وہ ایسا چین میں ان کے اہل خانہ کو دھمکا کر کر رہا ہے۔
پناہ گزینوں اور کارکنوں نے
بی بی سی کو بتایا کہ چین کے دھمکی والے ہتھکنڈے ان کی برادری کو توڑ رہے ہیں۔
جیسے ہی علیم کی والدہ کی
سکرین پر جھلک نظر آئی انھوں نے کہا: 'میرے پیارے بیٹے، میں نے نہیں سوچا تھا کہ میں
مرنے سے پہلے تمہیں دیکھ بھی سکوں گی۔'
علیم (اصلی نام نہیں ہے) کہتے
ہیں کہ وہ اس لمحے سے مغلوب ہو گئے۔ ویڈیو کال پر دوبارہ والدہ سے ملاپ ان کا چھ سالوں
میں پہلا رابطہ تھا کیونکہ وہ چھ سال قبل پناہ گزین کے طور پر برطانیہ فرار ہو گئے
تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ لیکن یہ
کڑوا سکھ تھا۔ کال پر کسی اور کا کنٹرول تھا۔ تمام اویغوروں کی طرح (شمال مغربی چین
سے تعلق رکھنے والی زیادہ تر مسلم اقلیت) علیم کی والدہ بھی سخت نگرانی اور کنٹرول
میں رہتی ہیں۔ وہ کبھی بھی ایک دوسرے کو براہ راست فون کال نہیں کر سکتے ہیں۔
اس کے بجائے ایک درمیانی شخص
نے علیم اور ان کی والدہ کو دو الگ الگ موبائلوں سے فون کیا۔ انھوں نے دونوں فون کی
سکرینوں کو ایک دوسرے کے سامنے تھامے رکھا تھا تاکہ دونوں ایک دوسرے کی جھلملاتی تصویر
ہی دیکھ سکیں اور سپیکروں سے دبی ہوئی آواز سن سکیں۔
علیم کا کہنا ہے کہ وہ بمشکل
بول سکے اور کال کے دوران تقریبا تمام تر وقت صرف روتے ہی رہے۔
علیم کو یہ نہیں معلوم کہ
ان کی ماں کے پیچھے جو سادہ سفید دیوار نظر آ رہی تھی وہ سنکیانگ میں ان کے گھر کی
دیوار تھی یا کسی حراستی کیمپ کی دیوار تھی، جہاں چینی حکومت پر دس لاکھ سے زیادہ اویغوروں
کو حراست میں رکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ چین طویل عرصے سے ان الزامات کی تردید
کرتا رہا ہے۔
لیکن علیم کا کہنا ہے کہ انھیں
اس بات کا احساس تھا کہ والدہ کے ساتھ ان کے رابطے کے عوض ان سے کچھ مطلوب ہوگا۔ کیونکہ
کال کرنے والا شخص چینی پولیس افسر تھا۔
جب افسر نے دوبارہ فون کیا
تو اس نے علیم سے کہا کہ وہ انسانی حقوق کے اویغور کارکنوں کی میٹنگوں میں شرکت کرے،
انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرے اور اسے چینی ریاست کو فراہم کرے۔
علیم کہتے ہیں کہ 'جب بھی
لندن میں چین مخالف احتجاج ہوتا تو وہ مجھے فون کرتے اور پوچھتے کون کون اس میں شرکت
کر رہا ہے۔ علیم نے بی بی سی کے ساتھ فون کالز کی ریکارڈنگ شیئر کی ہیں جس میں انھیں
جاسوس کے طور پر کام کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
علیم کو پیسوں کی بھی پیشکش
کی گئی تاکہ وہ مہم گروپس کے رہنماؤں سے دوستی کرنے کی کوشش کریں اور انھیں ریستورانوں
میں لے جائیں اور ان کا بل ادا کریں۔ ان رہنماؤں میں سے بہت سے برطانیہ کے شہری ہیں۔
افسر نے علیم کو ایک کمپنی
قائم کرنے کا مشورہ دیا تاکہ ان کی نئی دولت کے بارے میں کسی کو شکوک و شبہات پیدا
نہ ہو۔ علیم کو بتایا گیا کہ اسی مقصد کے لیے دوسروں کی جانب سے بہت سارے کاروبار پہلے
ہی قائم کیے جا چکے ہیں۔
اس پیشکش میں دھمکی بھی چھپی
تھی کہ اگر علیم نے انکار کیا تو ان کے خاندان کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس بات نے
انھیں ایک موذی چکر میں جکڑ لیا۔
علیم نے کہا: 'وہ میرے خاندان
کو یرغمال بنا کر استعمال کر رہے ہیں۔ میں تاریکی میں جی رہا ہوں۔'
حکومتوں کی جانب سے بیرون
ملک مقیم اپنے تارکین وطن کی نگرانی کے لیے استعمال کیے جانے والے حربے کو 'بین الاقوامی
جبر' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس
خاص قسم کا حربہ چین میں پولیس عام طور پر استعمال کرتی ہے کہ وہ بیرون ملک کام کرانے
کے لیے ویڈیو کالز کے ذریعے اپنے ملک میں ان کے خاندان کے افراد تک رسائی حاصل کرتی
اور ان کو کنٹرول کرتی ہے۔
شیفیلڈ یونیورسٹی میں ڈاکٹر
ڈیوڈ ٹوبن نے اپنی ساتھی نیرولا ایلیما کے ساتھ مل کر اس موضوع پر آج تک کی سب سے زیادہ
جامع تحقیق کی ہے۔ انھوں نے متعدد ممالک میں اویغور تارکین وطن کے 200 سے زائد ارکان
سے بات چیت کی ہے اور سروے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین سے باہر رہنے والے تمام اویغور
بین الاقوامی جبر کے شکار ہیں۔
وہ کہتے ہیں: 'خاندان سے علیحدگی
اصل حربہ ہے۔' ڈاکٹر ٹوبن کے مطابق جہاں فون کالز تکنیکی طور پر ممکن ہیں وہاں بھی
چین میں رہنے والے رشتہ دار فون نہیں اٹھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں
کالز کی نگرانی کی جائے گی، اور انھیں یہ خوف رہتا ہے کہ کھل کر بات چیت کرنا کہیں
انھیں خطرے میں نہ ڈال دے۔'
خاندانی تعلقات کے اس طرح
ٹوٹنے سے چینی پولیس کو اپنے مشن میں آگے بڑھنے اور سخت کنٹرول کے ساتھ انھیں رسائی
دلانے کا موقع ملتا ہے۔ ویڈیو کالز کے ذریعے انھیں اپنے احکامات پر تعمیل کرانے کا
موقع ملتا ہے کہ اگر وہ ان کے مطابق نہیں کرتے ہیں تو خاندان کے لیے نتائج اچھے نہیں
ہوں گے۔
ڈاکٹر ٹوبن نے برطانیہ میں
تقریباً 400 افراد کی آبادی میں سے 48 اویغوروں کا سروے یا انٹرویو کیا۔ ان میں سے
دو تہائی نے بتایا کہ چینی پولیس نے ان سے براہ راست رابطہ کیا ہے اور ان پر جاسوسی
کرنے، طرفداری کے کام سے باز رہنے، یا میڈیا سے بات کرنا بند کرنے کے لیے دباؤ ڈالا
گیا ہے۔
اور برطانیہ میں رہنے والے
اویغور سب سے زیادہ متاثرہ افراد میں شامل نہیں ہیں۔
ترکی روایتی طور پر اویغوروں
کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے جہاں 50,000 اویغور رہتے ہیں اور یہ چین سے باہر ان کی
سب سے بڑی آبادی ہے۔ 148 میں سے 80 فیصد جواب دہندگان نے بتایا کہ انھیں چینی حکام
کی جانب سے اسی طرح کے خطرات کی اطلاع دی گئی ہے۔
عبدالرحیم پراک سنہ 2014 میں
استنبول پہنچے۔ لیکن وہ اس سے ایک سال قبل چین سے فرار ہوئے تھے۔
انھوں نے کہا: 'ترکی اس سے
ہر طرح سے بالکل مختلف تھا جس کا ہمیں تجربہ تھا۔ ہم جہاں چاہیں سفر کر سکتے تھے۔ پولیس
نے ہمیں پریشان نہیں کیا۔ میں یقین نہیں کر سکتا تھا کہ ایسی بھی زندگی ممکن ہے۔'
لیکن پچھلے کچھ سالوں میں
ترکی میں ایغوروں کے لیے تصویر بدل گئی ہے۔ ایسی رپورٹس ہیں کہ چین میں مقیم پولیس
نے لوگوں پر ایک دوسرے کی جاسوسی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے جس سے ان کی برادری میں
دراڑ پڑ گئی ہے اور دوستی کا احساس ٹوٹ گیا ہے۔
فیس بک پر پوسٹ کی گئی ایک
ویڈیو میں ایک نوجوان ایغور شخص اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں پکڑا اور مارا پیٹا ہوا
دکھائی دیتا ہے اس نے ایک پریشان کن اعتراف کیا ہے کہ اس نے بیجنگ کے کہنے پر جاسوسی
کی۔ اگرچہ جائے وقوعہ کے حالات واضح نہیں ہیں لیکن اس فوٹیج کو اویغور برادری میں پھیلایا
گیا ہے اور اس شخص کی آن لائن پر بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔
عبدالرحیم کا کہنا ہے کہ اس
طرح کی کہانیوں کے جمع ہونے کا اثر ہو رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'نوجوان خود
کو اویغور مظاہروں اور جلسوں سے دور کر رکھ رہے ہیں۔ انھیں یہ خطرہ لاحق ہے کہ وہاں
کے لوگ جاسوس ہو سکتے ہیں۔ چین کا منصوبہ کام کر رہا ہے۔'
ڈاکٹر ٹوبن کا خیال ہے کہ
ترک حکام اس سے واقف ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور وہ جواب دینے میں سست روی کا مظاہرہ
کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'جو ملک چین کی سرمایہ کاری پر جتنا زیادہ انحصار کرتا
ہے، اس کے تعاون کرنے یا آنکھیں بند کرنے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔'
ترکی کو حالیہ برسوں میں چین
کے قریب تر ہوتے دیکھا جا رہا ہے، اور اویغور برادری کے تحفظ کے لیے اس کے عزم پر سوالات
اٹھائے جا رہے ہیں۔
ترکی کی حکومت سے اس کے متعلق
تبصرہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی جس کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔
لیکن چین صرف انہی ممالک کے
لوگوں کو نشانہ نہیں بنا رہا ہے جہاں اس کی معاشی بالادستی ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں ایغور ہیومن
رائٹس پروجیکٹ کے ساتھ کام کرنے والی امریکی نژاد کارکن جولی ملساپ کا کہنا ہے کہ چین
نے ان پر ان کے سسرال والوں کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
ان کے شوہر ہان نسل کے چینی
ہیں جو ملک کا سب سے بڑا نسلی گروہ ہے۔ ان دونوں کی ملاقات سنہ 2020 میں امریکی دارالحکومت
منتقل ہونے سے پہلے چین میں ہوئی تھی۔
جب جولی نے اویغوروں کے لیے
مہم چلانا شروع کیا تو مقامی پولیس نے چین میں ان کے سسرال والوں سے یہ کہتے ہوئے رابطہ
کرنا شروع کیا کہ وہ ان کے 'دوست بننا چاہتے ہیں'۔
انھیں اور ان کے شوہر کو ان
کی بھابھی کے فون سے دھمکی آمیز پیغامات موصول ہونے لگے۔ جس میں دھمکی دی گئی کہ جولی
کے بچے 'یتیم' ہو سکتے ہیں۔ جولی کہتی ہیں کہ 'وہ اس زبان اور انداز میں نہیں لکھے
گئے تھے جو وہ (ان کی بھابھی) استعمال کرتی تھی۔' انھیں شک ہے کہ پولیس انھیں یہ پیغامات
بھیجنے کی ہدایت کر رہی تھی۔
واشنگٹن ڈی سی میں ان کے شوہر
اور چین میں ان کی بہن کے درمیان حالیہ ویڈیو کال کے دوران پولیس افسر سے براہ راست
بات کرنے کا موقع ملا۔
وہ کہتی ہیں کہ 'وہ لڑکھڑا
کر بولا اور ہم سے کہا کہ ہم انھیں غلط نہ سمجھیں۔' افسر نے بتایا کہ پولیس امریکہ
اور چین کے درمیان 'نازک' تعلقات کے پیش نظر امریکی رشتہ داروں کے ساتھ تمام مقامی
خاندانوں کے دورے کا انتظام کرا رہی ہے۔
جولی اس بات کو تسلیم کرتی
ہے کہ ایک سفید فام امریکی اور ایک ہان چینی خاندان کو ایک حد تک تحفظ فراہم کیا جاتا
ہے جو کہ اویغوروں کو حاصل نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ 'لیکن ہم اب بھی پولیس کی ہراسانی
کے بارے میں، دھمکیوں کے بارے میں، روزمرہ کی حقیقت کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو
کچھ بھیہے اچھا نہیں ہے۔'
ان کے خیال میں چینی حکام
کا غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنانے اور اپنا کام کروانے کا رجحان تشویش ناک ہے۔
امریکی حکومت اس مسئلے کو
باضابطہ طور پر حل کرنا شروع کر رہی ہے۔
مارچ میں سینیٹرز نے بین الاقوامی
جبر کی پالیسی ایکٹ متعارف کرایا ہے جس میں 'پراکسی کے ذریعے زبردستی' متعدد زیادتیوں
کی فہرست دی گئی، جو بیرون ملک مقیم خاندان کے افراد کو لاحق خطرات کا احاطہ کرتی ہے۔
یہ قانون اگر منظور ہو جاتا ہے تو دھمکیوں کی اطلاع دینے کے لیے ایک وقف شدہ فون لائن
کی تخلیق کی جائے گی اور جہاں بھی ممکن ہو کانگریس کو مجرموں کے خلاف پابندیاں لگانے
کا اشارہ کرے گا۔
ناروے میں مقیم اویغور حقوق
کی مہم چلانے والے عبدالولی ایوب کا خیال ہے کہ امریکی قانون سازی درست سمت میں ایک
قدم ہو گا لیکن مغربی حکومتوں کو مزید آگے بڑھنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی
معاملے کی حکام کو اطلاع دی جائے تو سوالات براہ راست چینی حکومت کے پاس درج کیے جانے
چاہئیں اور اس بات کی یقین دہانی کی درخواست کی جانی چاہیے کہ خاندان کے افراد محفوظ
رہیں۔
1 اگست 2023،بشکریہ: روزنامہ چٹان ، نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism