New Age Islam
Fri Apr 25 2025, 11:03 AM

Urdu Section ( 12 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Child Labour in Islamic Countries Has Become a Humanitarian Crisis اسلامی ممالک میں چائلڈ لیبر ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے

 نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 29 اگست 2023

 اسلامی ممالک چائلڈ لیبر کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

 اہم نکات:

 1. پاکستان میں 3.3 ملین بچے مزدوری کرتے ہیں

 2. یمن میں اس کی تعداد 1.3 ملین ہے

 3. افغانستان میں 25 فیصد بچے مزدور ہیں

4. اردن میں 1.6 ملین بچے مزدوری کر کے زندگی بسر کرتے ہیں۔

4. طالبان کے دور میں افغانستان کے اندر بچوں کی مزدوری میں بیس گنا اضافہ ہوا ہے۔

 ------

For representational purpose. Photo: Indian Express

------

 چائلڈ لیبر (بچہ مزدوری) کو دنیا کے بڑے انسانی مسائل میں سے ایک مانا گیا ہے۔ چائلڈ لیبر دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں پایا جاتا ہے لیکن اسلامی ممالک میں دشمنی، تنازعات، خانہ جنگی، غربت، ناخواندگی اور حقوق اطفال کے حوالے سے شعور کی کمی کی وجہ سے اس کی شدت تشویشناک ہے۔

 عرب ممالک اور ایشیا کے اسلامی ممالک میں چائلڈ لیبر کافی وسیع پیمانے پر رائج ہے۔ 22 عرب ممالک میں سے تقریباً آدھے تنازعات، جنگوں اور خانہ جنگیوں سے گزر رہے ہیں اور ان تنازعات سے بچوں کی زندگی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ عرب ممالک میں 15 فیصد بچے مزدوری کرتے ہیں ہیں۔ مثال کے طور پر یمن میں جہاں حوثیوں اور حکومت کے درمیان 2014 سے جنگ جاری ہے، وہاں بچوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ انہیں مجبوری میں اسکول چھوڑنا پڑا اور سرکاری مسلح افواج میں بطور چائلڈ سولجر ملازمت اختیار کر لی۔ 17 فیصد یمنی بچے مزدوری کرتے ہیں۔ یمن کے بچے تجارتی جنسی استحصال سمیت چائلڈ لیبر کا بدترین شکار ہیں۔

 انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق عرب ممالک میں چائلڈ لیبر میں وہاں کی 280 ملین آبادی کا نصف حصہ ملوث ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس خطے کے تمام بچوں میں سے 13.4 ملین یا تقریباً 15 فیصد بچے مزدور ہیں۔ چائلڈ لیبر کی حقیقی سطح اس سے کافی زیادہ ہو سکتی ہے، تاہم، غیر رسمی شعبے میں بڑے پیمانے پر چائلڈ لیبر کی وجہ سے، اس کی صحیح پیمائش کرنا مشکل ہے۔ شہری غیر رسمی شعبے میں مزدوری، زراعت، سڑکوں پر مزدوری اور گھریلو مزدوری میں بچوں کا پایا جانا خاص طور پر تشویش کا باعث ہے۔ اسکول میں بچیوں کے داخلے پر پابندی کا صنفی عدم مساوات بھی چائلڈ لیبر میں اضافے ایک اہم مسئلہ ہے۔

عرب ریاستوں میں چائلڈ لیبر کی سب سے زیادہ بد ترین شکل بچوں کی اسمگلنگ ہے، اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں کئی ممالک میں جاری ہیں۔ یمن کی حکومت نے پڑوسی ممالک کے ساتھ اسمگلنگ کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، سیکیورٹی اور سرحدی اہلکاروں کو اس بات کی تربیت فراہم کی گئی ہے کہ اسمگل کیے گئے بچوں کی کیسے تشخیص کی جائے اور ان کی دیکھ بھال کی جائے۔

 مصر بھی ایک ملک ہے جہاں چائلڈ لیبر ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، بالخصوص 2022 میں اسکندریہ کے ایک پولٹری فارم میں کام سے واپسی کے دوران دریائے نیل میں 8 بچو کے غرقاب پائے جانے کے بعد۔ حکومت متحرک ہوئی اور چائلڈ لیبر کو روکنے کے لیے کچھ اقدامات کیے لیکن وہ بھی جلد بازی میں لیے گئے اقدامات تھے۔ وہاں پولٹری فارمنگ ایک بڑی صنعت ہے جہاں بچوں کو ملازمت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہاں بچے کھیتوں اور غیر قانونی فیکٹریوں میں بھی کام کرتے ہیں۔

 اردن میں 2007 کے بعد سے چائلڈ لیبر میں اضافہ دیکھا گیا ہے جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ملک کے سماجی و اقتصادی حالات ابتر ہو چکے ہیں اور حکومت اپنے قوانین پر عمل درآمد اور بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ 69,000 بچے اردن میں بطور مزدور کام کرتے ہیں۔ وہ ماہی گیری، جنگلاتیات، زراعت اور تھوک اور رٹیل تجارت میں کام کرتے ہیں۔ اس سے بچوں کی صحت کے لیے خطرات پیدا ہوتے۔

 شام میں حالات اور۔ ھی زیادہ ابتر ہیں۔ شام میں 60 فیصد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں اور ان میں سے کتنے تو ایسے ہیں جو اپنے خاندان کی کفالت کے لیے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ پناہ گزینوں کے بچوں کو بھی اپنا گزر بسر کرنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔

 طالبان کے دور حکومت میں سب سے زیادہ نقصان افغانستان کے بچوں کو ہوا ہے۔ افغانستان میں تقریباً 20 لاکھ بچوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا ہے۔ لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی کے بعد وہ گھر میں ہی رہنے پر مجبور ہو گئیں، جبکہ لڑکے اپنے والدین کے ساتھ ان کے کاروبار یا کام میں ہاتھ بٹانے لگے۔ افغانستان کے تقریباً 25 فیصد بچے مزدور ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق:

5 سے 14 سال کے درمیان کم از کم ایک چوتھائی افغان بچے روزی روٹی کے لیے یا اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے کام کرتے ہیں۔ بہت سے بچے ایسے کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو کام کے دوران حفاظتی تدابیر کی کمی کے باعث بیمار اور زخمی ہوتے ہیں اور کبھی کبھی لقمہ اجل بھی بن جاتے ہیں۔ افغانستان میں بچے عموماً لمبی ساعتوں تک کام کرتے ہیں، جس کی اجرت یا تو بہت کم ہوتی ہے یا ملتی ہی نہیں، وہ گھر سے چلنے والی قالین کی صنعت میں، اینٹوں کے بھٹوں میں بندھوا مزدور کے طور پر، دھات کی صنعت میں ٹنسمتھ اور ویلڈر کے طور پر، کانوں میں اور کھیتوں میں، سڑکوں پر چھوٹی موٹی اشیاء بیچنے اور جوتے پالش کرنے اور بھیک مانگنے کا کام کرتے ہیں۔"

 پاکستان میں چائلڈ لیبر ادارہ جاتی شکل میں موجود ہے، حالانکہ وہاں کا قانون چائلڈ لیبر پر پابندی لگاتا ہے اور وہاں کا قانون 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو لازمی تعلیم کی ضمانت دیتا ہے۔ پھر بھی پاکستان میں 25 لاکھ بچے ایسے ہیں جو کبھی اسکول نہیں گئے۔ پاکستان میں 3.3 ملین بچے اپنے والدین کے ساتھ فارم ہاؤسوں میں چائلڈ لیبر یا بندھوا مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں یا زمینداروں، ججوں، صوفیاء، وزیروں اور امیر خاندانوں میں گھریلو ملازم کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ گیراجوں، چھوٹی فیکٹریوں اور دکانوں میں کام کرتے ہیں۔ ان پر جسمانی اور نفسیاتی طور پر تشدد کیا جاتا ہے۔ نابالغ لڑکیوں کو ان کے آجر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، بھوکا رکھتے ہیں، ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں اور یہاں تک کہ انہیں مارتے پیٹتے ہیں۔ حکومت کے پاس چائلڈ لیبر کو روکنے اور بچوں کو تشدد اور استحصال سے بچانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ گزشتہ سات سالوں کے دوران پیروں اور ججوں اور ان کی بیویوں کے ہاتھوں کم سن بچیوں پر تشدد اور ان کے جنسی استحصال کے تین بڑے واقعات سامنے آ چکے ہیں لیکن حکومت پاکستان چائلڈ لیبر پر پابندی نہیں لگا سکی۔ پاکستان میں چائلڈ لیبر کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ پاکستانی خاندانوں اور بالخصوص سندھ، بلوچستان اور سوات کے قبائلی علاقوں کے گھرانوں میں عموماً دس، پندرہ بچے ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر لڑکیاں ہوتی ہیں۔ والدین انہیں سکول بھیجنے یا کھانا کھلانے کے متحمل نہیں ہوتے۔ اس لیے وہ اپنے بچوں کو گھریلو ملازم کے طور پر کام کرنے بھیج دیتے ہیں۔

اسلام بچوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے ساتھ محبت و ہمدردی کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دیتا ہے۔اسلام میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں بچے سیاسی عدم استحکام، غربت اور معاشی ترقی کی کمی کی وجہ سے جسمانی اور نفسیاتی صدمے کا شکار ہیں۔ جن ممالک میں کسی نہ کسی طرح کا عدم استحکام پایا جاتا ہے وہ بچوں کی کوئی خاص پرواہ نہیں کرتے اور رسمی قوانین کو چھوڑ کر چائلڈ لیبر کو روکنے کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کرتے۔

-----------------

English Article: Child Labour in Islamic Countries Has Become a Humanitarian Crisis

 URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/child-labour-islamic-countries-humanitarian/d/130657

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..