New Age Islam
Mon Oct 07 2024, 08:57 PM

Urdu Section ( 5 Sept 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Chavhanke, Bindas Bol is Far From Reality حقیقت سے کوسوں دور ہے’بنداس بول‘ مسٹر چوانکے


محمدوجیہہ الدین

4 ستمبر 2020

میرے مرحوم والد کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ میں سول سروسز کے امتحان میں شریک ہوں اور میرے ذریعہ عدم دلچسپی کی وجہ سے انہیں زندگی بھر اس بات کا ملال رہاکہ ان کی خواہش یا خواب کو پورا نہیں کرسکا۔دراصل بہار کے بیشتر متوسط ​​طبقے کے والدین کی یہی خواہش رہتی ہے اسی طرح میرے والد محترم کوبھی مجھ سے بہت سی امیدیں وابستہ رہیں۔خیرمیرے والد کی فکر مندی کے درمیان میں نے فیکلٹی تبدیل کرلی اور آرٹس میں گریجویشن کرلیا۔اس عرصہ میں میرے والد مجھے سول سروسز امتحان میں شرکت کے سلسلے میں  وعدہ یاد دلاتے رہے تاکہ میں یونین پبلک سروسز کمیشن (یو پی ایس سی) کے امتحان میں حصہ لے سکوں۔

ان خوابوں اور وعدوں کے درمیان میں خاموشی سے ایک اور خواب میرے دماغ میں پنپ رہا تھا یعنی میں صحافی اور مصنف بننے کی منصوبہ بندی کرنے لگا، جس دن انہیں محسوس ہوا کہ میں نے ان کے خواب سے دوری اختیار کرلی اور اپنی خواہش اور خواب کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس روز وہ مایوس ہوگئے اور اپنے چہیتے خواب کے ٹوٹ جانے پر ان کی آنکھوں میں نمی محسوس کی جاسکتی تھی۔ میرے معاملہ میں وہ ایک ہائی اسکول کے استاد کے طورپردنیا کو فخر سے بتانا چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا آئی اے ایس بن گیاہے۔

انہوں نے کبھی بھی ایک صحافی کے طور پرایک آزاد زندگی گزارنے کے میرے انتخاب اور فیصلہ سے کبھی صلح نہیں کی کیونکہ ان کے نزدیک ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم)ان پسماندہ اور پچھڑے علاقوں میں ایک نوآبادیاتی بادشاہ جیسا ہوتا ہے،ہمارے قریبی علاقوں میں جاگیرداروں کے استحصال کو دیکھ کر ، ان کا خیال تھا ، ایک آئی اے ایس افسر کی حیثیت سے میں اپنے آس پاس بے یار و مددگار افراد اور کسمپرسی کی زندگی میں مبتلا لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لائونگا۔

سول سروس کے امتحانات میں کامیابی کے بعد جوعہدہ اور رتبہ سرکاری ملازمین کو ہندوستان کے دور دراز علاقوں ملتا ہے،اس کی وجہ سے مجھے حیرت نہیں ہونا چاہیے کہ بہت سے ذہین دماغ ہر سال آدھی آدھی رات کو یو پی ایس سی کا سخت امتحان پاس کرنے کے لئے موم بتی جلا کر اپنی آنکھیں نہ پھوڑتے ۔ یہ ایک اعلیٰ سطحی ایساامتحان ہے جس کے لئے آپ شفافیت کی قسم کھا سکتے ہیں۔ آئی اے ایس ، آئی ایف ایس اور آئی پی ایس افسران کے لیے ہونے والے امتحانات کا بڑی ایمانداری اور حسن وخوبی سےانٹرویو کا استعمال کیا جاتا ہے، اس تعلق سے اس بات کی گواہی دی جاسکتی ہے کہ اس موقع پر آپ کا نام اور نہ ہی آپ کے معاشرتی اور معاشی پس منظرکا کسی کوئی لاعلم ہوتاہے۔ اگر آپ اس پر یقین رکھتے ہیں تو مذکورہ امتحان میں شفافیت کاخیال رکھا جاتا ہے،ہاں تھوڑی بہت قسمت بھی شامل حال ہوتی ہے۔

   سدرشن چینل کے مالک اور مدیر اعلیٰ سریش چوانکے نے ایک متنازع ٹوئیٹ کرکے ہندوستانیوں کو حیران کردیا کیونکہ ان کا یقین ہے کہ ملک میں یہی ایک شعبہ ہے جس میں شفافیت کاخیال رکھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مذکورہ پروگرام کے پرمو میں جو اشتعال انگیزی کی گئی ،ظاہری بات ہے کہ اس ٹوئیٹ نے انفرادی خدمات انجام دینے والے سبکدوش افسران ،عہدہ پر فائزاعلیٰ سرکاری افسران اورسینئر پولیس اہلکاروں تک کو ہلا کر رکھ دیا اور انہوں نے بیک وقت اس پر احتجاجی رویہ اپنایا ۔دراصل چینل کے اینکرنے پرمو میں مذکورہ مقابلہ جاتی امتحانات اور سرکاری عہدوں میں مسلمانوں کی دراندازی کو بے نقاب کرنے کا وعدہ کیا تھا انہوں نے’ یو پی ایس سی جہاد‘ اور 'جامعہ جہاد 'کا عنوان دے دیا تھا،جس نے سب کے ہوش اڑادئیے۔

 ایک مخصوص فرقے کے خلاف دوسروں کواشتعال دلانے کی کوشش کی ۔اینکر چوانکے نے '’بنداس بول‘کے عنوان سے پروگرام تیار کرکے یو پی ایس سی کے انتخاب کی ایمانداری اور انصاف پسندی پر سوال اٹھانے کی کوشش کی تھی ۔چوانکے کی اشتعال انگیزی سے ہم میڈیا میں سرگرم صحافی بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی دہلی کو بھی نشانہ بنایا ہے جہاں کے تربیتی مرکز سے تربیت حاصل کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔جنہوں نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ حال کے دنوں میں سول سروس امتحان میں جامعہ ملیہ کے مرکز کی کاکردگی قابل ستائش رہی ہے۔ ۲۰۱۹میں منتخب ہونے والے۳۰ امیدواروں میں سے ۱۶ مسلمان اور چودہ غیر مسلم کامیاب ہوئے ہیں۔ جبکہ مرکزی یونیورسٹیوں میں جامعہ ملیہ کو وزارت تعلیم کے ذریعے جاری کردہ رینکنگ میں اول نمبر دیا گیا ہے۔کیا چوانکے کی نظر میں یہ بھی 'جہاد ہے؟

  چوانکے سنسنی پھیلانے کے بجائے ایک بہتر صحافی بننے کے لیے کچھ مطالعہ کرلیتے یا گوگل پر سرچ کرکے حقیقت حال جاننے کی کوشش کرتے تو اچھی معلومات مل جاتی تھی کہ جامعہ ملیہ امسال اپنے قیام کے سوال مکمل کررہا ہے۔مہاتماگاندھی اور مولانا محمود الحسن اس تعلیمی ادارہ کے بانیوں میں سے ہیں ،جی ہاں کیا میں نے گاندھی کابھی نام لیا ہے؟پریوار سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد گاندھی جی سے الرجک پائے جاتے ہیں۔بہت سارے نظریاتی اختلاف کے باوجود موجودہ حالات میں سوچ بھارت ابھیان کو ان سے وابستہ کیا گیا ، لیکن  انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ دنیا گاندھی کے کاموں سے واقفیت رکھتی ہے۔البتہ یہ لاعلم ہیں ان باتوں سے اور اس قربانی سے جوشیخ الھند کہلائے جانے والے  مولانا محمود حسن نے دی اور ان کو یہ خطاب ان وظیفہ یابی اور قابل قیادت کی وجہ سے ملاتھا، جو جدوجہد انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے کی اس کا ثانی نہیں ہے۔

محمود حسن کی آزادی کی بہت سی تحریکوں کے علاوہ ، وہ اپنے پانچ ساتھیوں سمیت ، اور شمالی افریقہ کے ساحل کے مابین وسطی بحیرہ روم میں واقع جزیرہ نما مالٹا میں قید کیے گئے تھے۔ محمود حسن اور ان کے ساتھیوں کو مکہ سے گرفتار کیا گیا تھا جہاں وہ حج کرنے گئے تھے لیکن ، حج کرنے کے بہانے ، وہ اپنی برطانوی مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔  مکہ سے ، انہیں جدہ منتقل کیا گیا۔

اس کے بعد ، انہیں مصر اور وہاں سے مالٹا لے جایا گیا۔

 صحافی اور مصنف سید عبید الرحمٰن نے اپنی کتاب "ہندوستان کی آزادی کی تحریکوں میں علمائے کرام کے کردار" میں لکھا ہے کہ مولانا محمود حسن ، مولانا عزیز گل پیشواری ، مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا واحد احمد مدنی اور حکیم نصرت کو تین سال سے زیادہ غیر انسانی زندگی گزارنے کے لئے مجبور کیاگیا تھا، انہیں مالٹا میں ایک پہاڑی پر واقع ایک پرانے قلعے میں قید رکھا گیا تھا۔ چونکہ حکیم نصرت حسین کے خلاف کوئی مقدمہ موجود نہیں تھا کیونکہ وہ حج کے لئے مکہ مکرمہ تھے اور جب وہ گرفتار ہوئے تھے تو اپنے استاد محمود حسن کے ساتھ مل گئے تھے ، لہذا جیل حکام نے بار بار حکیم صاحب کو رہا کرنے کی پیش کش کی۔ رحمان لکھتے ہیں ، "لیکن ہر موقع پر انہوں نے انکار کرتے ہوئے اپنے اغوا کاروں کو یہ کہا کہ وہ جیل سے باہر نہیں جائیں گے جب تک ان کے استاد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔"  حکیم صاحب بیمار ہوئے اور مالٹا میں ہی فوت ہوگئے۔چندمشہو’ محب وطن‘ کے برخلاف ، جنھوں نے انگریزوں سے رحم کی درخواستیں کیں ، آج ان مولوی اور مولاناکو ہندوستانی عوام کے بارے میں کم جانتے ہیں ، انہوں نے کبھی بھی سامراجیوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا۔ محمود حسن اور اس کے ساتھی اپنی قیدی سے رہائی کے بعد بحری جہاز پر سوارہوکر بمبئی پہنچے تومہاتما گاندھی سمیت  ان کے ہزاروں شیدائی  آزادی کے ان متوالوں کا شاندار استقبال کرنے کے لیے ۸ جون۱۹۲۰ کوبمبئی کی بندرگاہ پرموجود تھے۔

4 ستمبر 2020، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/chavhanke-bindas-bol-far-reality/d/122793


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..