ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
5جنوری،2024
ہماری روایات کی تاریخ
ایسے ستونو ں پر کھڑی ہے جن میں ہم بیشتر غفلت کے مرتکب پائے گئے ہیں۔چند
مثالیں!ہر لمحہ اتحاد بین المسلمین پر گفتگو،مشورہ، مذاکرہ،قرار دادیں،عہدوپیمان
اورنہ جانے کیا کیا! مگر تفرقے کایہ عالم کہ اس تعلق سے گفتگو کرنے والے متعدد مگر
کوئی کسی ایک کونہ قائد ماننے پہ راضی نہ کوئی کسی کی اتباع پر متفق! نتائج شکست
خوردگی، سب کی اور سفر خیر میں مزید کچھ شر اور فتنوں کااضافہ!
اہداف میں یکسانیت مگر
کسی بھی مسئلے پر نہ کوئی اتفاق،نہ اشتراک او رنہ ہی کوئی بڑا، جس کو سب بڑا مانتے
ہوں بس سب کی اپنی اپنی ڈفلی! ایک مثال: بابری مسجد ایک تھی او رکمیٹیاں دو! نہ
مسجد بچی،نہ عزت نفس، نہ غیرت وملی حمیت، نہ مسئلہ ہی کسی کنارے لگا، نہ تعلقات
عامہ میں کوئی بہتری اور نہ ہی افہام وتفہیم کی کوئی صورت پید ا ہوئی۔البتہ اجتماعی
و ادارہ جاتی بصیرت کا یہ عالم کہ آج اس حوالے سے تنازعات کا متواتر بڑھتا ہوا
سلسلہ!
پوچھنا چاہتا ہوں کہ
مسائل کس قوم وملک وملت کے سامنے نہیں ہوتے،پیچیدگیاں اپنی انتہا پرہوتی ہیں،
ناقابل حل صورتحال بن جاتی ہے،مگر مکالمے ومفاہمت سے راستے بھی نکلا کرتے ہیں اور
ربڑ کو کھینچتے ہی چلے جارہے ہیں۔کہیں کوئی حکمت عملی کا شائبہ بھی تونہیں! اس کے
برعکس اپنے ہی ما بین فتوے بازی، جملے کسنا، ضمیر فروشی کے باہم الزامات، ایک
دوسرے کے قد کو بونا کرکے اپنے کو سرخ رو اور دوسرے کو معتوب کرنا یہ وہ کرامات
عام ہیں جن میں عالمی برادری میں ہم سے بڑا شاید ہی کوئی معرکہ ساز ہو!
پیچھے لے کر چلتا
ہوں۔تقسیم ہوئی۔جناح پاکستان چاہتے تھے انہیں علیحدہ وطن میں ہر مسئلے کا حل
دکھائی دے رہا تھا۔ 24سال میں وہ حل پارہ پارہ ہوگیا او رآج پاکستان ہر زاویے سے
رسوائے زمانہ شناخت کے طور پر اپناوجود رکھتاہے جس پر کسی کو اعتبار نہیں۔ مہذب
دنیا اپنے لئے اسے خطرے کے طور پر دیکھ ررہی ہے وہاں تو کوئی او رنہیں!
دوسرے مولانا ابوالکلام
آزاد جنہوں نے غیر مشروط بنیادوں پرگاندھی کو لبیک کہہ دیا اور ان سے بیعت کرلی،
مسلمانوں خطہ کے ساتھ وہ ظلم ہوا کہ جس کی سزا یہ پوراخطہ اور اسکی تمام وحدتیں
بھگت رہی ہیں۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے!
آج جس کیفیت کا اس پورے
خطے کو سامنا ہے اس حوالے سے کہیں مسئلے کے لئے انہیں مودرالزام ٹھہرانا اور خود
کو بری الذمہ قرار دے لینا کوئی بہت بڑا تیر مارلینا ہے۔ اختلاف ہوتاہے،شکایات
جائز اور ناجائز ہوا کرتی ہیں، الزامات اور اقدامت کے تعلق سے بھی کئی نظریے
ہوسکتے ہیں۔ البتہ راستے ہوں یا نہ ہوں نکالے جاتے ہیں، نکالنے پڑتے ہیں اور اس
کیلئے فریقین کو مل کر بیٹھنا پڑتاہے ایک دوسرے کی کھری کھوٹی سننی پڑتی ہے تب
جاکر کچھ بات بنتی ہے۔
معذرت کے ساتھ نجی
محفلوں، مجلسوں، مذاکروں میں بڑی بڑی باتیں مگر معاملات پس پردہ طے! ایماناً او
رعملاً کون واقعی ملت پرست! معاذ اللہ نفس پرستی کے اس دور میں نفسا نفسی کاعالم
ہے! حس و حسد میں بے لگام ہوئے جارہے ہیں تنزلی کو اپنا مقدر بنانا طے کرلیاہے۔
تلخیاں سامنے ہیں امتحانات وآزمائش بھی مگر صف پھر بھی درست نہیں!
عالمی سطح پر دیکھیں:عرب
اسرائیل تنازعہ میں مصر نے معاملات کا راستہ لیا اپنا سب کچھ وقار کے ساتھ واپس
حاصل کرلیا، اس سے قبل سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد کمال اتاترک نے ایک سو سالہ
مصلحت پر مبنی معاہدہ کیا۔آج ترکی دنیا کی انیسویں بڑی معیشت ہے اور ایک طاقتور
ملک کی حیثیت سے اقوام عالم میں اپنا مقام رکھتاہے۔بنگلہ دیش نے پڑوسی بھارت کے
ساتھ تعلق معمول پررکھے وہ اس خطے کی سب سے تیز معیشت ہے۔ اس کے برعکس پاکستان ہند
دشمنی میں دیوالیہ! سب سے بڑی نظیر صلح حدیبیہ جس کو بظاہر شکست کے طور پر دیکھا
گیا مگر اللہ کی نظر میں سورۃ فتح کی نوید سے امت کو سرفراز کیا گیا۔ فتح مکہ کے
مراحل کا مطالعہ کیجئے۔
لگ بھگ ایک سال سے زیادہ
ہوگیا، ایک فکر آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ کبھی براہ راست بہت کچھ کہہ اور لکھ
رہاہوں،کتنا کچھ اشاروں اور اشاریے کی شکل میں رکھ رہا ہوں،مگر دماغ اس پر زیادہ
ہے کہ خواجہ صاحب نرم گوشہ بی جے پی اور آر ایس ایس کیلئے ہے، انہیں اپنے لئے کچھ
چاہئے،سارے کیڑے انہیں مسلمانوں میں ہی دکھائی دیتے ہیں، ان کے سارے مشورے ہمارے
ہی لئے ہیں، کسی نے کہا لائحہ عمل بتائیے، جب بتایا تو پھر سانس بھی نہ لیا۔کیونکہ
مسند منتقل ہونے کانظم سامنے رکھ دیا، موروثیت پر آنچ نہیں آنی چاہئے،مسند تو
وراثت کاہی حق ہے۔ اپنے یہاں آمریت اورموروثیت بقیہ ہر جگہ جمہوریت! اس پر مساوات
اور عدل کی باتیں ماشاء اللہ!
پہلی صفائی اپنے گھر میں
کی جاتی ہے تب وقعت وحیثیت بنتی ہے، تب کوئی آپ کو گردانتا ہے۔پھر سننے پر آمادہ
ہوتاہے۔ ہم او رہمارا معاشرہ تو ابھی پہلی سیڑھی پر ہیقدم رکھنے کو تیار نہیں!
انقلاب کے ایڈیٹر ودود ساجد نے گزرے اتوار مسلم معاشرے کے حوالے سے جس کرب کااظہار
کیا وہ درست ہے۔ وہ وہی بات کہہ رہے ہیں جس کو میں پوری ملت کے حوالے سے کہہ رہا
ہوں۔ ایسے شعلہ بیانوں سے آپ سب واقف ہیں جو انتخابات کے وقت اس دشمن کو ہرانے
کیلئے جس پر انہوں نے معصوم مسلمانوں کو جذبات کی بھٹی میں جھونک کر پورا قلعہ
بنایا ہوا ہے وہ انتخابات کے وقت ان کا سوداکرتے پھرتے ہیں۔معذرت کے ساتھ!
الحمداللہ یہ ناچیز جب
نرسمہاراؤ کے ساتھ تھا بہ بانگ دہل تھا اورکل بھی اس موقف کاتھا اور آج بھی اس
پرقائم ہے کہ ”اگر اس وقت تم نے کانگریس کو روک لیا تو یہ رک جائیگی اور بی جے پی
کاسفر آگے بڑھنے سے رک جائے گا ورنہ یہ پہلے آئیگی،پھر جائیگی او ربعد میں مستقل
آجائیگی“1996 کے انتخابات سے قبل کہہ رہاہوں۔حالات آپ کے سامنے ہیں۔1996 میں تیرہ
دن کی اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں سرکار بنی جو تیرہ دن میں گر گئی، لیکن جو
بنیاد وہ مستقبل میں بی جے پی کے لئے رکھ گئی یہ آج اسی کاثمرہ ہے کہ بات یہاں تک
آگئی۔ اس وقت میں نے وہ پڑھا جو میری پوری ملت نے نہ پڑھا۔ میں اٹل جی سے کھل کر
جڑا اور ان کے ساتھ ڈٹ کر کام کیا۔ اس وقت کی وہ ضرورت تھی۔ مسلمانان ہند کے لئے
ان کی جماعت میں زمین بھی تھی، گنجائش بھی۔جماعت کی نفسیات بھی اس پیش قدمی کیلئے
تیار تھی۔آپ نے موقع کو غنیمت نہ جانا،نہ آج کو پڑھا او رآنے والے کل کو تو آپ
کیاہی پڑھتے؟
آج آر ایس ایس او ربی جے
پی کے ساتھ ایک پل سازی کی کوشش ہے او رکھل کر ہے۔تمام شکایات وتحفظات کے باوجود
ہے۔2014 میں بی جے پی نریندر مودی کی قیادت میں مرکز اور متعدد ریاستوں میں اقتدار
میں آئی، آپ کی تمام ترمخالفت کے باوجود آئی۔ 2019 میں آپ نے مخالفت کی انتہاکردی
او رکہیں او ربڑی کامیابی سے مرکز میں آئی۔اب 2024 ء میں شاید اس سے بھی بڑی
کامیابی کے ساتھ آئے۔ آپ نے ان دس سالوں میں اس حوالے سے کسی فکر کو اختیار کیا،
کوئی محاسبہ کسی سطح پر ہوا؟ کوئی معاملہ فہمی کی زمین بنانے کی کوشش کی؟
غور سے پڑھئے! آپ نے
تونہیں کی مگر انہوں نے کی۔پہلے دور میں شروعات نواز شریف کو سارک کے تمام
سربراہان کے ساتھ بلا کر ایک امن، صلح و سلامتی کا پیغام دیا، تمام سرکاری فلاحی
اسکیموں کے اطلاق اور نفاذ میں کوئی تفریق نہیں کی، تمام مسلم ممالک سے بہتر
تعلقات، اقلیتی سرکاری ادارے بدستور،علی گڑھ او رجامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی
کردار جو کے توں، تمام مقابلہ جاتی امتحانات میں مسلم نمائندگی میں اض افہ، شہریت
پر ہندستانی مسلمان پر کہیں آنچ نہیں،رام مندر کی تعمیرعدالت کے فیصلے کے مطابق!
بھاگلپور،آسام نیلی یا مراد آباد جیسے فسادات کا نام ونشان نہیں، شکایتیں کب نہ
تھیں! اگر کانگریس سے تمام زیادتیوں کے باوجود الحاق پر ہر وقت آمادگی! تب آر ایس
ایس بی جے پی کے ساتھ ایسا کیوں نہیں؟ دروازے تو دونوں نے کبھی بند نہیں کئے۔ آر
ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے خود کئی کوششوں کا مثبت جواب دیا مگر مذاکرات کا
راستقامت سے خالی!!
مت بھولئے فطرت انسانی سب
کے ساتھ لگی ہے او رانسانی رویوں کے اپنی ایک ساخت ہوتی ہے مخالفت دشمنی کی حد تک
جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے برملا اعلانات واپیلیں اور اس پر آئیڈیل توقعات! حقائق سے
روبرو کب ہونگے؟
5 جنوری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism