غلام علی نظامی فیضی
25 دسمبر،2021
دور حاضر میں امت مسلمہ
جس دور انحطاط سے گزر رہی ہے اسلامی تاریخ میں کہیں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ قوم کا
درد رکھنے والے ہر فرد کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر کیا سبب ہے جو اتنی
شاندار تاریخ رکھنے والی قوم زبوں حالی کا شکار ہے۔ چند اہم اسباب یہ ہیں:
(1) ایمان کی کمزوری
۔موجودہ دور میں مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان نہ رہے ۔اگر صحیح معنوں میں مسلمان
ہوتے تو اس قدر پستی میں نہ ہوتے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا وعدہ ہے: سستی نہ کرو او
رنہ غم کھاؤ تم ہی غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو ۔ جب مسلمان صحیح معنوں میں
مسلمان تھے اور دینی تعلیمات پر عمل پیرا تھے تو انہوں نے ہر چہار جانب فتح و
کامرانی کے جھنڈے گاڑ ے ۔ آج مسلمان کثرت کے باوجود ذلت و روسوائی کا سامنا کررہے
ہیں۔
(2) تعلیم سے دوری۔ آج بعض قومیں جن کی تعداد قلیل ترین ہے تعلیم
کی بنا پر پوری دنیا پر چھارہی ہیں۔ جب مسلم قوم تمام علوم و فنون میں ماہر تھی تو
ہر طرف اس کا بول بالا تھا اور پوری دنیا میں اس کا رعب و دبدبہ تھا۔
آزاد اور خود مختار
اسلامی ممالک کی تعداد 57 ہے۔ ان کی مجموعی آبادی تقریباً سو ارب ہے۔ اس آبادی
کا تقریباً 40 فیصد حصہ ان پڑھ ہے ۔ سائنس او رٹیکنالوجی کے شعبوں میں اس اسلامی
ممالک کی مجموعی اور افرادی قوت صرف 80 لاکھ کے قریب ہے جو ان شعبوں میں مصروف
عالمی آبادی کا تقریباً چار فیصد ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد سائنسی
کتب اور بیس لاکھ سے زائد سائنسی مقالات شائع ہوتے ہیں۔ جب کہ اسلامی ممالک سے
شائع ہونے والی سائنسی اور تحقیقی کتب اور مقالات کی سالانہ تعداد ایک ہزار سے بھی
کم ہے۔
(3)اتحاد کا فقدان ۔ اللہ اور اس کے رسول نے بار بار مسلمانوں کو
متحد رہنے کی ہدایت کی ہے اور اختلاف و انتشار سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ ایک جگہ
ارشاد فرمایا ’’ او راللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور آپس میں ، جھگڑونہیں کہ
پھر بزدلی کروگے اور تمہاری بندھی ہوئی ہوا جاتی رہے گی اور صبر کرو بے شک اللہ
صبر والوں کے ساتھ ہے۔ اس سلسلے میں متعدد احادیث بھی مروی ہیں۔ ایک حدیث میں ہے
کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مومن دوسرے مومن کے لئے اس
عمارت کی مانند ہے جس کا بعض حصہ بعض کو مضبوط کرتا ہے( صحیحین )۔ ان تمام ہدایات
کے باوجود قوم مسلم تفرقہ بازی اور اختلافات و انتشار کاشکار ہوگئی جس کے نتیجے
میں اس کی طاقت و قوت ماند پڑگئی اور دنیا کی سب سے طاقتور قوم ہوکر بھی بے بس او
رکمزور ہوگئی۔
(4) دنیا کی محبت اور موت کا خوف۔ دنیا کی محبت نے ہمیں دین سے
غافل کردیا‘ مقصد حیات بھلا دیا او رموت کا ڈر دل میں پیدا کردیا۔ حضرت ثوبان رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریب ہے کہ
دیگر قومیں تم پر ٹوٹ پڑنے کے لئے ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دیں گے جیسی لوگ کھانے
پر ایک دوسرے کو دعوت دیتے ہیں ۔ کسی نے پوچھا کیاہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟
آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم اس وقت بہت ہوگے لیکن تم سیلاب میں بہنے والے جھاگ اور
گوڑے کرکٹ کے مانند ہوگے۔
شام ، مصر، لبنان ،عراق ،
فلسطین او ربرما وغیرہ کے حالات سے اس بات کابخوبی اندازہ ہوتاہے کہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان پاک پورے طور پر صادق آرہا ہے۔ ہمارے اندر دنیا کی
محبت پیدا ہوگئی جس نے دین سے غافل کردیا اور کثرت کے باوجود ہماری طاقت ختم ہوگئی
او رہم ریزہ ریزہ ہوگئے۔
(5) اخلاقی قدروں کا زوال۔ قوموں کی تاریخ پرنظر رکھنے والے عظیم
مورخ ابن خلدون اپنی شہرہ آفاق کتاب ’ مقدمہ‘ میں لکھتے ہیں کہ دنیا میں عروج و
ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جب کہ بڑے اخلاق کی
حامل قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے۔
اگر امت مسلمہ دوبارہ
اپنی عظمت رفتہ بحال کرناچاہتی ہے اور ذلت و رسوائی کی پستیوں سے نکل کر شاہراہ
ترقی پرگامزن ہونے کی خواہش مند اور ساتھ ہی ساتھ ظلم کا خاتمہ کرنے کی خواہاں ہے
تو اسے مذکورہ بالا کمزوریوں کی اصلاح کرنی ہوگی او رمندرجہ ذیل امور پر سنجیدگی
سے عمل کرناہوگا۔
(1) ایمان کو مضبوط او رمستحکم بنانا ہوگا۔
(2) اپنے آپسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر نصرت دین اور قوم کی
فلاح وبہبود کے لئے متحد ہوناہوگا جیسا کہ ڈاکٹر اقبال نے کہا ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی
پاسبانی کے لئے
تیل کے ساحل سے لے کر
کرتا بخاک کا شغر
(3)دنیا کی محبت او رموت کا ڈر اپنے دلوں سے نکال کر پھینکنا ہوگا۔
(4) اخلاق و مروت کے اعلی درجے پر فائز ہونا ہوگا۔
(5) سب سے اہم او ربنیادی بات یہ ہے کہ ان تمام امور سے پہلے
تعلیمی میدان میں آگے بڑھناہوگا۔
کیونکہ وہ علم ہی ہے جس
کے ذریعہ اچھائی او ربرائی کے مابین امتیاز کیا جاسکتا ہے اور قوم کی تنزلی و
پسماندگی کے اسباب پر آگئی حاصل کرکے ان کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔
قرآن کریم میں ہمیں اسی
نقطہ نظر کی طرف توجہ دلاتاہے کہ پہلے علم
حاصل کیا جائے پھر معاشرے کی برائیوں کامقابلہ کیا جائے، کیونکہ قرآن میں سب سے
پہلے نازل ہونے والی آیت میں پڑھنے کاحکم دیا گیا ہے کہ حالانکہ اس کا پس منظر
دیکھیں اوراسلام سے قبل عرب معاشرے کاجائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ اس وقت سرزمین
عرب کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ دین ابراہیمی کی جگہ شرک او ربت پرستی نے لے
لی تھی قبائلی عصبیت او رنسلی تفاخر ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا چھوٹی
چھوٹی باتوں پر تلواریں نکل آتی اور پھر سالہا سال لڑائیاں جاری رہتی ،انتقام
لینازندگی کامقصد بن جاتا، جھوٹ چوری دھوکا فریب ، خود غرضی ، مفاد پرستی زنا شراب
نوشی اور جو ا وغیرہ ہر طرح کی برائیاں زوروں پر تھیں۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا
جاتا، بیواؤں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا تھا، یتیموں کے حقوق کی پامالی کی
جاتی تھی الغرض اس وقت پورا عرب کفر و شرک کے دلدل میں پھنساہوا تھا اور تمام طرح
کی برائیوں کامجسمہ بنا ہوا تھا۔
ایسی نازک حالت میں بظاہر
صورتحال اس بات کی متقاضی تھی کہ سب سے پہلے جو آیت نازل ہواوہ اللہ کی وحدانیت
اور رسول کی رسالت کے بارے میں ہو ، کفر و شرک او ربت پرستی پر پابندی عائد کرنے
سے متعلق ہو، بچیوں کو زندہ دفن کے خلاف ہو، یتیموں پر دست شفقت پھیر نے کی ترغیب
دلائی ہو، غرض کہ بظاہر وقت کا تقاضا تو یہ تھا کہ پہلی آیت میں امر بالمعروف او
رنہی عن المنکر کا حکم دیا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا، رب حکیم نے پہلی آیت میں
پڑھنے کا حکم دے کر گویا کہ ہمیں یہ درس دے دیا کہ جہاں بہت ساری برائیاں جنم لے
چکی ہوں جس کے باعث پورے معاشرے کانظام درہم برہم ہوگیا ہو تو اس معاشرے کو چاہئے
کہ پہلے خود کو زیور علم سے آراستہ کرے پھر معاشرے کی برائیوں کامقابلہ کرے تبھی
ان کاخاتمہ کرسکتا ہے او رپستی و پسماندگی سے نکل کر شاہراہ ترقی پر گامزن ہوسکتا
ہے ۔
25 دسمبر، 2021 ، بشکریہء انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism