اداریہ
17 نومبر،2022
پاکستان پوری طرح سے
سرنڈر کرچکا ہے۔ وہاں کے سیاست دان، فوجی کمانڈر، صحافی اور مذہبی رہنما ملک سے
باہر دولت جمع کررہے ہیں تاکہ ملک کے ٹوٹ جانے کی صورت میں اپنے آپ کومحفوظ رکھ
سکیں۔ موجودہ حکومت اکھنڈ بھارت کو ایک حقیقت تسلیم کرچکی ہے جلد از جلد اس کو
حتمی شکل دینے میں لگی ہوئی ہے۔ ادھر ہندوستان نے چین کوبھی دیوار سے لگا دیا۔ کل
تک چین جیسے آنکھیں دکھا رہا تھا حالات میں تبدیلی آچکی ہے۔ اس کے باوجود یہاں کے
عوام اصل صورتحال سمجھ نہیں رہے ہیں۔ نوجوان اب بھی بندوق اٹھانے اور خلافت قائم
کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ پچھلے تین سالوں سے سیکورٹی فورسز بندوق بردار وں کو
گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔ دہلی سرکار کا خیال تھا ایک آدھ سال کے اندر ملی
ٹنٹوں کی تعداد صفر ہوجائے گی۔ ایساتو نہیں ہوسکا۔ تاہم اس بات کا اندازہ لگا
نامشکل نہیں کہ عوام کابڑا طبقہ مین اسٹریم لیڈروں کے حلقے میں آچکا ہے۔بلکہ اس سے
زیادہ عوامی حمایت سیکورٹی فورسز کومل رہی ہے۔ جنگجو کہیں سے بھی سرنکالیں تو ان
کو فنا کے گھاٹ اتارنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ اس کا واحد سبب لوگوں کاملی ٹنٹ
مخالف آپریشنوں میں تعاون ہے۔ یہ ایسے حقائق ہیں جن کی روشنی میں آئندہ کے لئے
اسٹریٹجی بنانی چاہئے۔ آنکھیں بند کرکے بندوق اٹھانا کیا درست طریقہ ہے۔ اس بارے
میں سوچنا ضروری ہے۔
نوجوان بندوق اٹھانا
ضروری سمجھتے ہیں انہیں اس راستے سے موڑنا بہت مشکل ہے۔ ان کے اندر مذہب کا ایسا
جوش و جنون پایا جاتاہے کہ وہ اس عمل کو ہر گز غلط نہیں سمجھتے۔ یہ الگ بات ہے کہ
جن لوگوں نے انہیں ایسا سبق پڑھایا خود وہ بڑے آرام سے زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں
نے اپنے او راپنی کئی نسلوں کے لئے دھن دولت جمع کرکے رخصت لی ہے۔ اب نامعلوم اور
غریب گھروں سے تعلق رکھنے والے جذباتی جوان بندوق کو کندھوں پر سجائے ہوئے ہیں۔
ایسے نوجوانوں کو کوئی یہ سمجھانے کو تیار نہیں کہ اس کا صرف ایک انجام ہے او روہ
موت ہے۔پہلے ایسے حلقوں کانعرہ تھا کہ شہادت یا آزادی۔ اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
انجام کار اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا ہے۔ پچھلے تین سالوں سے یہاں حالات جس نہج پر
جارہے ہیں ان کو دیکھ کر یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کوئی بندوق کا نام لینے کی
جرأت کرے گا۔ اس کے باوجود کچھ سرپھرے نوجوان اب بھی اس راستے کو اپنانے میں لگے
ہیں۔ انہیں خود بھی معلوم ہے کہ لوگ ان کاساتھ دینے کو تیار نہیں۔ اس کے باوجود
اکادنوجوان اب بھی گھروں سے نکل کر اچانک غائب ہوجاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کوئی بڑا
کارنامہ انجام پاناممکن نہیں۔ بلکہ کسی دوردراز علاقے کی گمنام قبروں میں جگہ پانا
ان کامقدر بن گیاہے۔ایسے نوجوان کئی طرح کی غلط فہمیوں کاشکار ہیں۔ ان کا خیال ہے
کہ حالات بدل کر ان کے حق میں نیا رخ اختیار کریں گے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں دکھائی
دیتا ہے۔ لوگوں نے جس طرح سے اپناراستہ بدل کر منہ پھیر لیا ہے ایسے میں کوئی مثبت
تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ لوگ ملی ٹنسی کاتوڑ کر نے کے لئے کسی بھی حد کو جانے کے لئے
تیار ہیں۔ ملی ٹنٹ مخالف لوگ یہ کام رضا کارانہ طور پر انجام دیتے ہیں۔ اس کے
باوجود کچھ علاقوں سے اطلاع ہے کہ ملی ٹنسی زندہ ہے۔ یہاں تک کہ جموں سے بھی کبھی
کبھار کوئی حادثہ پیش آنے کی خبر ملتی ہے۔ پچھلے دنوں وہاں دوٹائم بم پکڑے گئے۔
کشمیر میں بھی سڑکوں پر آئی ای ڈی پکڑے جانے کی اطلاع ہے۔ ایسے واقعات کو پس منظر
میں یہ سوچنا کہ ایک بارپھر نوے کے حالات پیدا ہونگے بڑی کم فہمی ہے۔ پورے خطے کے
اندر طاقت کا توازن تبدیل ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے افغانیوں کی سوچ کی تعریف کی جانی
چاہئے کہ انہوں نے اتحادی فوجوں سے سمجھوتہ کرکے حالات کواپنے حق میں کیا۔ یہ بات
بھی بڑی اہم ہے کہ وہاں پاکستان کی نہیں بلکہ ہندوستان کے کام کی تعریفیں کی جاتی
ہیں۔ نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے کابل پر یلغار کرکے افغانستان کواپنے ماتحت
کیا تو ہندوستان نے فوجی تعاون کے بجائے وہاں سرمایہ کاری کرکے عوام کی ہمدردی
حاصل کی۔ وہاں کے عوام سمجھتے ہیں کہ افغانستان کا بچا کھچاانفرااسٹرکچر ہندوستان
کی وجہ سے بحال ہے۔ ورنہ پورا ملک کھنڈرات میں بدل گیا ہوتا۔ ایسانہیں ہے کہ ان
حالات سے مایوس ہوکر کسی کونے میں بیٹھاجائے۔بہت جلد سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہونے
والا ہے۔ وزیر داخلہ نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کرانے کا گرین سگنل دیا ہے۔ آنے
والے دن بڑے اہم ہونگے۔ جس طرح سیاسی حلقہ بندی ہورہی ہے لگتا ہے اس پہلو سے بھی
ہم ناکام ہوجائیں گے۔ مقامی سیاسی حلقے دم توڑ رہے ہیں او رنئے بازی گرسامنے آنے
والے ہیں۔ ایسے سیاسی لیڈرو ں سے بھلائی کا کوئی کام ہونے کے بجائے عوامی مفادات
کاگلاگھونٹنا یقینی ہے۔ اس حوالے سے سوچ وبچار کرنے کی ضرورت ہے۔ محض بندوق او
رمار دھاڑ جاری رکھنے سے کیا حاصل ہونے والا ہے اس بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
17 نومبر،2022، بشکریہ: روز نامہ چٹان،
سرینگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism