New Age Islam
Sun Oct 06 2024, 12:22 PM

Urdu Section ( 5 Jun 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Both of Them are Your Benefactors یہ دونوں آپ کے محسن ہیں

حامد میر

30مئی،2017

احمد نواز نے بتایا کہ کوئین ایلزبتھ ہاسپٹل برمنگھم میں اس کے بائیں بازو کا چودہ گھنٹے طویل آپریشن ہوا۔ بازو میں گولی لگنے سے ہڈی ٹوٹ گئی تھی بازو کو بچانے کے لئے اس میں میٹل پلیٹ لگائی گئی۔ اس کی بازو بچ گئی لیکن اس کا بایاں ہاتھ ابھی تک کام نہیں کرتا۔ میں نے اس کے ہاتھ کی مڑی ہوئی انگلیاں دیکھیں تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر کہا کہ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات پر بھروسہ رکھو اِن شاء اللہ تمہارا یہ ہاتھ ٹھیک ہوجائے گا۔ احمد نواز 2014ءمیں آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والے حملے میں زخمی ہوا تھا۔ اس حملے میں اس کا بھائی حارث نواز شہید ہوگیا تھا۔ احمد نواز کو علاج کے لئے کوئین ایلزبتھ ہاسپٹل برمنگھم بھجوایا گیا۔ یہ وہی ہاسپٹل تھا جہاں ملالہ یوسف زئی کا بھی علاج ہوا تھا۔ شروع شروع میں تو وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا کی حکومت نے احمد نواز کا خیال رکھا لیکن کچھ ماہ گزرنے کے بعد اسے بھلادیا گیا حالانکہ اس کے والد محمد نواز سے وعدہ کیا گیا تھا کہ جب تک ان کے بیٹے کی بازو ٹھیک نہیں ہوتی اس کی دیکھ بھال حکومت کرے گی۔ احمد نواز اور اس کے والد سے میری برمنگھم میں ملاقات ملالہ یوسف زئی کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے کرائی۔ یہاں پر ا ٓرمی پبلک اسکول پر حملے میں شدید زخمی ہونے والا ایک اور طالبعلم ولید خان بھی موجود تھا۔

ولید خان کو آٹھ گولیاں ماری گئی تھیں۔ اس کے چہرے پر دو گولیاں لگی تھیں اور اس کا جبڑا ٹوٹ گیا تھا۔ اللہ کریم نے اس کی جان بچالی۔ ولید خان کو بولنے میں دشواری ہوتی ہے لیکن اس بہادر بچے نے بڑے اعتماد کے ساتھ مجھے بتایا کہ اس نے برطانیہ میں علاج کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے تاہم اس نے بھی یہی شکوہ کیا کہ خیبر پختونخوا حکومت اور وفاقی حکومت نے اسے فراموش کردیا ہے۔ ولید خان کے والد گلزار محمد نے مجھے بتایا کہ انہیں پاکستان آرمی کی طرف سے کچھ نہ کچھ امداد ابھی تک مل رہی ہے لیکن بڑے سیاستدان اپنے وعدے بھول چکے ہیں۔ احمد نواز کے والد نے بہت تلخ لہجے میں کہا کہ میرے بیٹے کو تو ا وپر اللہ تعالیٰ اور نیچے صرف ملالہ یوسف زئی کے خاندان کا سہارا ہے اور تمام تر مشکلات کے باوجود میرے بیٹے نے بھی تعلیم کے فروغ کے لئے مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس تمام گفتگو کے دوران ملالہ یوسف زئی خاموش تھی۔ احمد نواز کہہ رہا تھا کہ وہ ملالہ کے راستے پر چلے گا اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تعلیم پھیلانے کی مہم میں حصہ لے گا۔ یہ سن کر میں ان تعلیم یافتہ لوگوں کے بارے میں سوچنے لگا جو ابھی تک ملالہ یوسف زئی پر حملے کو ایک ڈرامہ قرار دیتے ہیں اور بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر دہشت گردوں کے نقطہ نظر کی حمایت میں مصروف رہتے ہیں۔ اچھی بات یہ تھی کہ ملالہ یوسف زئی اس قسم کے سازشی مفروضے پھیلانے والوں سے بالکل بے پروا ہوچکی ہے۔

اس نے میرے ساتھ اپنی تعلیم کے بارے میں باتیں کیں۔ وہ بڑی خوش تھی کہ اسے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلے کی آفر مل چکی ہے جہاں وہ فلسفہ اور سیاسیات پڑھے گی لیکن اس نے اپنے خلاف پروپیگنڈے پر کوئی بات نہیں کی۔ پاکستانی قوم کی اس بہادر بیٹی کے رویے میں مجھے ایک تجاہل عارفانہ نظر آیا۔ وہ غیبت اور چغل خوری سے کوسوں دور ہے۔ اسے یا تو تعلیم کی فکر رہتی ہے اور یا پھر اپنے سر پر موجود دوپٹے کی فکر رہتی ہے۔ وہ اس دوپٹے کو سر سے سرکنے نہیں دیتی۔ اس کی منزل ابھی بہت دور ہے لیکن وہ آئے دن صرف اپنے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے لئے بھی کامیابیاں اور نیک نامی حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ اس کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ2012میں اپنے ساتھ زخمی ہونے والی شازیہ اور کائنات کو بھی برطانیہ لے آئی اور اب ان دونوں بچیوں کو ایڈن برگ یونیورسٹی نے داخلے کی آفر کردی ہے۔ اس سے بھی بڑی کامیابی یہ ہے کہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں زخمی ہونے والے دو طلبا احمد نواز اور ولید خان بھی ملالہ کے قافلے میں شامل ہوچکے ہیں۔ احمد نواز کو برطانیہ کے مختلف اسکولوں اور کالجوں میں لیکچر اور گفتگو کے لئے بلایا جاتا ہے۔ یہ سولہ سالہ بچہ اپنے سینے پر پاکستان کے پرچم والا بیچ سجا کر کبھی بریڈ فورڈ اور کبھی مانچسٹر جاتا ہے اور مقامی طلبا و طالبات کو اپنا متاثرہ ہاتھ دکھا کر کہتا ہے کہ مجھے دیکھو، میں نے دہشت گردوں کے ظلم و بربریت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے جسم پر برداشت کیا، نام نہاد مجاہدین اسلام نے میری آنکھوں کے سامنے 132نہتے طلبہ سمیت کئی خواتین اساتذہ کو قتل کیا، یہ دہشت گرد اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ کچھ دن پہلے مانچسٹر میں ایک میوزک کنسرٹ پر ہونے والے خود کش حملے کے بعد سے احمد نواز کو بہت سے تعلیمی اداروں میں گفتگو کے لئے بلایا جارہا ہے کیونکہ برطانوی سیکورٹی اداروں کا خیال ہے کہ برطانیہ میں آباد 28لاکھ مسلمانوں میں کم از کم23ہزار ایسے مسلمان نوجوان ہیں جو انتہا پسندانہ رجحانات رکھتے ہیں اور ان میں سے تین ہزار ایسے ہیں جو مسلسل زیر نگرانی ہیں۔ مانچسٹر حملے میں ملوث عرب نوجوان سلمان عابدی بھی زیر نگرانی تھا۔ اس کے بارے میں مقامی مسجد کے امام اور اس کی والدہ نے پولیس کو قبل ا ز وقت بتادیا تھا کہ وہ’’خطرناک‘‘ ہے لیکن ایسے نوجوانوں کو فوری طور پر جیل میں ڈالنے سے گریز کیا جاتا ہے کیونکہ برطانوی قانون کے مطابق ٹھوس شہادتوں کے بغیر کسی کو جیل میں نہیں ڈالا جاتا۔ سلمان عابدی کے خاندان کا تعلق لیبیا سے تھا لیکن وہ برطانیہ میں پیدا ہوا تھا۔ یہ پہلو انتہائی قابل غور ہےکہ انتہا پسندانہ رجحانات کے شکار اکثر نوجوان برطانیہ میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے۔ ایسے کچھ نوجوانوں کو میں نے بریڈ فورڈ میں دیکھا جو برطانیہ میں رہتے ہیں۔ ایک غیر مسلم حکومت سے سوشل سیکورٹی کے نام پر ماہانہ بے روزگاری الائونس لیتے ہیں، مفت رہائش بھی لیتے ہیں اور برطانوی سرزمین پر اسلام نافذ کرنے کا نعرہ بھی لگاتے ہیں۔ یہ نوجوان صرف اپنے ساتھ نہیں بلکہ برطانیہ میں آباد لاکھوں مسلمانوں اور دنیا بھر کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کے مرتکب ہورہے ہیں کیونکہ ان کی انتہا پسندی سے اسلام کو فائدہ نہیں بلکہ شدید نقصان پہنچتا ہے۔

احمد نواز جیسے بہادر نوجوان برطانیہ میں صرف اسلام نہیں بلکہ پاکستان کے امن پسند سفیر کا کردار ادا کررہے ہیں۔ احمد نواز اور ولید خان کو پاکستان کی سیاسی حکومتوں سے کئی شکایتیں ہیں لیکن وہ اپنی شکایتوں کا تماشا لگانے کی بجائے ہر جگہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں اور دنیا کو بتاتے ہیں کہ پاکستان نے اس جنگ میں ساٹھ ہزار افراد کی قربانی دی اور چار سو ارب روپے سے زیادہ کا نقصان برداشت کیا لہٰذا دہشت گردوں کے لگائے گئے زخموں کا درد اہل پاکستان سے زیادہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ برطانیہ کے حالیہ سفر کے مقصد برطانیہ میں ہونے والے قبل ا ز وقت انتخابات کے لئے لنے والی مہم کا جائزہ لینا تھا اور اس مقصد کے لئے مجھے لندن کے علاوہ برمنگھم، برڈ فورڈ اور مانچسٹر میں بہت سے برطانوی ارکان پارلیمنٹ اور انتخابی امیدواروں سے بات چیت کا موقع ملا۔ مانچسٹر دھماکے میں مرنے والوںکی یاد میں اکٹھے ہونے والوں کے اجتماع میں ایک برطانوی صحافی نے کہا کہ پہلے ہر دھماکے کے بعد پاکستانیوں پر شک کیا جاتا تھا اب ہر دھماکے کے بعد جب برطانوی پولیس کسی پاکستانی پر شک کرتی ہے تو اس کی نظروں کے سامنے ملالہ یوسف زئی اور احمد نواز کا چہرہ گھوم جاتا ہے، یہ دونوں آپ کے محسن ہیں۔

30مئی،2017 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر ، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/both-them-benefactors-/d/111406

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..