New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 04:14 PM

Urdu Section ( 31 Aug 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Lack of Interest in Books Is Contributing To Mental Waywardness کتابوں سے رغبت کا فقدان ذہنی قلاشی کا سبب بنتا جا رہا ہے

جمال رضوی

27 اگست،2023

انسان کو متمدن اور مہذب بنانے میں کتابوں کا بنیادی رول رہا ہے۔ انسان خواہ کسی بھی مذہب،خطہ،رنگ اور نسل سے تعلق رکھتا ہو اس کی زندگی کو ایک واضح سمت عطا کرنے میں کتابوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔دنیا میں رائج تمام مذاہب کے پاس کوئی ایک ایسی کتاب ضرور ہے جو اس مذہب کے پیروکاروں کے درمیان عظمت و تقدس کا مقام رکھتی ہے ۔ ان مقدس کتابوں نے نوع انسانی کو زندگی کے اسرار و رموز سے آگاہ کیا اور دنیوی زندگی کو کامیاب بنانے کے ایسے نسخے فراہم کئے جن کے استعمال سے دنیا و مافیہا دونوں کو سنوارا جا سکتا ہے۔اس ضمن میں ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جو دہریہ اور لامذہب ہوتے ہیں اور زندگی کے ہر معاملے میں عقلی دلائل اور منطقی جواز ہی کو تسلیم کرتے ہیں وہ بھی کتابوں کی معرفت ہی فہم و دانش کی اس سطح پر پہنچتے ہیں ۔اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی نظریہ ٔ حیات کا پابند انسان یا انسانی معاشرہ اس وقت تک کامیابی و کامرانی کی منزلیں سر نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ کتابوں سے اپنی وابستگی کو مسلسل اور محکم نہ بنائے رکھے۔

 کتاب نے انسان کو فہم و شعور کی دولت عطا کی۔ زمین کی تہوں تک جانے کی ہمت اور خلاؤں میں سیر کرنے کا حوصلہ دیا۔ حیات و کائنات کے اسرار کی گرہ کشائی میں معاونت کی اور زندگی کو آرام و آسودگی کے وسائل سے مالامال کرنے کے اسباب تک اس کی رہنمائی کی۔ اخلاق و اطوار کو معیاری صورت عطاکرنے نیز دل کو ہمدردی اور اخوت پسندی کے جذبات سے پر کرنے میں کتابیں موثر وسیلہ رہی ہیں ۔غرض یہ کہ انسان کی دینی و دنیوی زندگی کے ہر دور کو معیار و اعتبار عطا کرنے میں کتابوں کا کلیدی رول رہا ہے۔ اس عہد میں بھی جبکہ انسانی زندگی بہ یک وقت کئی خانوں میں بٹ چکی ہے اور زندگی کے معمولات میں پیچیدگی لازمی عنصر کے طور پر شامل ہو چکی ہے، اس وقت بھی انسان کا کتاب سے رشتہ پوری طرح منقطع نہیں ہوا ہے۔ آج بھی ہر سماج اور ہر مذہبی عقیدے کے پیروکاروں کے پاس ایک مقدس صحیفہ موجودہے۔ اس ضمن میں اگر بات خالص طور پر دنیوی علوم و فنون کی جائے تو یہاں بھی کتابوں کی نہ صرف موجودگی بلکہ مختلف علوم و فنون سے وابستہ کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ متواتر جاری ہے۔ اس حقیقت کے مساوی ایک دوسری ناقابل تردید سچائی یہ ہے کہ کتابوں سے اس وابستگی کے باوجود انسانی معاشرہ فہم و دانش کی اس سطح پر ہنوز نہیں پہنچ سکا جہاں پہنچنے کے بعد وہ حقیقی طور پر ترقی یافتہ ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔

  دنیا نے ترقی اور خوشحالی کے جو پیمانے طے کر رکھے ہیں وہ بھی پوری طرح ترقی اور خوشحالی کے حقیقی تصور کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ انسان نے مادی سطح پر جو حیرت انگیز کارنامے انجام دئیے ہیں وہ بجا طور پر پذیرائی کا حق رکھتے ہیں اور بعض صورتوں میں انسان کی اخلاقی ترقی بھی لائق تحسین ہے لیکن ان سب کے ساتھ اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ترقی کا یہ سفر اب بڑی حد تک یک رُخی ہو کر رہ گیا ہے۔ مادی دنیا میں انسان کامیابی کے نئے مدارج طے کرتا جا رہا ہے لیکن اخلاقی معاملات میں ایسا لگتا ہے کہ اس کا سفر مخالف سمت میں جاری ہے۔اس سفر معکوس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی نظر میں وسعت اور دانش میں وہ گہرائی اور گیرائی نہیں رہی جو اس مرحلے پر اس کی مددگار ثابت ہو ۔ اس کے علاوہ زندگی کے بیشتر معاملوں میں انسانی رویہ ایسی افراط و تفریط کا شکار نظر آتا ہے جس کے بارے میں یقینی طور سے یہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس رویہ کو رو بہ عمل لانے والا کا ذہنی معیار کیا ہے؟ یا یہ کہ اس کی فہم و دانش کے گوشے علم کے نور سے منور ہیں بھی یا نہیں ؟ یہ سوال اسلئے اپنا جواز رکھتا ہے کہ اگر عمومی سطح پر انسانی عمل اور رویہ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بیشتر نے کسی امر کی حقیقت کو دریافت کرنے کے علمی راستوں پر سفر تو دور کی بات ہے، قدم تک رکھنے کی زحمت نہیں کی۔ سماج میں اس صورتحال کے پیدا ہونے کا واحد سبب یہ ہے کہ اب انسان کتابوں سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ انسان کی کتابوں سے یہ دوری صرف دنیوی علوم کی کتابوں سے نہیں ہے بلکہ وہ مذہبی صحائف جنھیں وہ بہت مقدس اور بابرکت سمجھتا ہے ان سے بھی وہ دور ہوتا جا رہا ہے۔یہی سبب ہے کہ آج کی دنیا میں انسان ہر دو سطح پر ذہنی قلاشی میں مبتلا نظر آتا ہے ۔

 زندگی کا جو بیش قیمت وقت کتابوں کے مطالعے میں صرف ہونا چاہئے وہ اب بیشتر ایسے کاموں میں صرف ہونے لگا ہے جن سے علم و آگہی کا تعلق برائے نام ہوتا ہے۔ معاشرہ دن بہ دن کتاب سے دور ہوتا جا رہا ہے اسی لئے کتاب خوانی کا کلچر اب اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب لائبریری اور کتب خانوں پر اداسی کے جالے لٹکتے نظر آتے ہیں ۔ اگرچہ لائبریریاں اس دور میں بھی اپنا وجود باقی رکھے ہوئے ہیں لیکن ان کا رکھا رکھاؤ جس طرح سے ہونا چاہئے، ویسا نہیں ہے۔ کتب خانوں کے ساتھ یہ رویہ سماج کی اس بے حسی کو ظاہر کرتا ہے جس کے نزدیک علم کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی ہے۔اس ضمن میں اگر مغربی ملکوں خصوصاً امریکہ اور برطانیہ کی بات کی جائے تو وہاں آج بھی لوگوں میں کتابوں کی مقبولیت ہندوستانی سماج سے کہیں زیادہ ہے۔ ان ملکوں کے علاوہ وہ دیگر ممالک جنھوں نے کتب خوانی کے کلچر کو نہ صرف باقی رکھا ہے بلکہ اس کلچر کو متحرک اور توانا بنائے رکھنے کیلئے منظم اقدامات بھی کرتے رہتے ہیں ، وہ ممالک فہم و دانش کی سطح پر ہندوستانی بلکہ بر صغیر کے انسانی معاشرہ سے کہیں زیادہ بلند مقام رکھتے ہیں ۔ ان کی فہم و دانش کی اس بلندی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کتابوں سے اپنے تعلق کو برقرار رکھنے والے ممالک کے عوام ایک ذمہ دار شہری کے طور پر جو زندگی بسر کرتے ہیں اس کا دھندلا سا عکس بھی اس خطہ کی عوامی زندگی پر نظر نہیں آتا ۔

 کتاب سے دوری کا ہی نتیجہ ہے کہ زندگی پر محرومی اور اداسی کا عکس گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تلخ حقیقت کا ادراک بھی بہت کم لوگوں کو ہے اور جنھیں ہے بھی وہ بھی اس عکس کے حصار سے باہر نکلنے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ اس کا ایک خاص سبب یہ ہے کہ سماج کے بیشتر افراد نے اب ان الیکٹرانک آلات کو کتاب پر ترجیح دے دی ہے جن آلات کی حیرت انگیز کرشمہ سازیاں تحیر اور سنسنی خیزی کی فضاؤں میں تو لے جاتی ہیں لیکن ذہن کو علم و آگہی کی وہ دولت نہیں عطا کر پاتیں جو صرف ایک کتاب کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتی ہے۔کتاب سے یہ دوری نہ صرف علم و آگہی کی دولت سے دامن عقل کو محروم رکھتی ہے بلکہ اس کے سبب انسان زندگی سے وابستہ بیشتر معاملات میں کوئی واضح موقف اختیار کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ جو زندگی گزارتا ہے وہ مانگے کے اس اجالے کی حیثیت رکھتی ہے جس کی روشنی پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا ۔ادھار کی یہ روشنی کب اس کے ذہن کے نہاں خانوں کو تاریکی کے حوالے کر دے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ انسان اگر اپنے ذہن کے نہاں خانوں کو روشنی سے منور رکھنا چاہتا ہے تو یہ لازم ہے کہ وہ کتاب سے اپنے تعلق کو اس حد تک استوار کرے کہ زندگی کے کسی بھی مرحلے پر اسے ادھار کی روشنی پر منحصر نہ ہونا پڑے۔ اس عہد میں جبکہ انسان نے اپنی زندگی کو آسودہ حال بنانے کیلئے مختلف قسم کے مادی وسائل پر انحصار کر لیا ہے ،کتاب سے اس کی دوری ان وسائل کو بے معنی بنائے دے رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے جسم کی آسودگی کے سامان تو جمع کر لئے ہیں لیکن ذہن کی آسودگی کی اسے مطلق پروا نہیں رہی۔ اس عدم توازن نے اس کی زندگی کو عدم اطمینان کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے ۔اس کیفیت سے باہر نکلنے میں جو اسباب اس کی مدد کر سکتے ہیں ان میں کتاب کو نمایاں حیثیت حاصل ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عارضی حظ اور فرحت کا دلدادہ ہو چکا انسان یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ کتاب سے اس کی دوری خود اس کے اور اس کے سماج کیلئے سنگین مسائل کے پیدا ہونے کا سبب بن رہی ہے۔

 کتاب سے ربط دوام ہی ذہن کو وہ روشنی عطا کرتا ہے کہ انسان مشکل اور سنگین حالات سے نہ صرف خود کو بلکہ معاشرہ کو محفوظ نکال لاتا ہے۔ کتاب علوم و فنون کے نئے جہانوں کی سیر کراتی ہے ۔ کتاب فہم و آگہی کو اعتبار عطا کرتی ہے۔ کتاب اخلاق و اطوار کی تربیت کا وسیلہ ہوتی ہے ۔ اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ کتاب انسان کو انسان ہونے کا احساس دلاتی ہے ۔ اگر دل اس احساس سے خالی ہو جائے تو انسان روئے زمین پر ایک بار گراں کی حیثیت اختیار کر لے۔ کتاب سے دوری اب رفتہ رفتہ اس درجہ کی طرف گامزن نظر آتی ہے جہاں پہنچ کر اس احساس کے معدوم ہونے کے امکان کو یکسر خارج نہیں کیا جا سکتا۔ اس سفر مضرت رساں کو مفید اور کار آمد اسی وقت بنایا جا سکتا ہے جب کہ اس کا رخ مخالف سمت موڑ دیا جائے اور کتاب سے قربت کا وہ انداز اختیار کر لیا جائے جس کے بغیر زندگی کا یہ سفر ترقی کی حقیقی منزلوں سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔

27گست،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

---------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/books-contributing-mental-waywardness/d/130569

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..