عبدالحئی
17 جولائی، 2022
ابن صفی
-------
ابتدائے آفرینش سے آج
تک خیر و شر کا مقابلہ ہوتا رہا ہے اور اس میں ہار ہمیشہ شر کی ہوئی ہے کیونکہ جس
دن شرجیت گیا تو شاید وہ اس جہان کا آخری
دن ہوگا اور پھر دنیا ختم ہوجائے گی۔ اسی لئے جتنی بھی تحریریں لکھی جاتی ہیں ان
میں خیر کو فتح سے ہمکنار کرایا جاتا ہے تاکہ دنیا میں سچ، امن سکون اور شانتی
قائم کی جاسکے۔ ابن صفی نے بھی اپنے ناولوں میں یہی انداز اپنایا ہے۔ ان کے ویلن، خواہ کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، وہ
قانون کے مضبوط پنجے سے نہیں بچ سکتے اور اپنے کیفر کردار کو ضرور پہنچیں گے۔
جاسوسی یا سری ادب اپنے آپ میں نہایت سنجیدہ ادب ہے۔ اگاتھا کرسٹی، جیمس ہیڈلے
چیز اور دیگر مغربی ناول نگاروں کے ناولوں کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ذہن پر کافی
زور دینا پڑتا ہے۔ جب کہ ابن صفی نے ایسے سنجیدہ ادب میں بھی مزاح کی ضرورت کو
محسوس کیا اور اپنے کرداروں کی شوخی اور ظرافت سے بہت سارے مسئلے چٹکی میں حل کروا
لیے۔ابن صفی اردو ادب کے سب سے زیادہ مقبول ناول نگار ہیں۔میں نے لفظ اردو ادب
استعمال کیا ہے جاسوسی یا پاپولر ادب نہیں کیوں کہ موجودہ دور ابن صفی کی مقبولیت
کا دور ہے اور ان کی تحریریں جاسوسی ہونے کی وجہ سے محض پاپولر ادب میں نہیں رکھی
جاسکتی ہیں ۔ ابن صفی کے ناولوں میں حیات و کائنات کے مختلف موضوعات کو سمیٹا گیا
ہے، انسان اور فلسفہ زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اپنے معاشرے کی اپنے
پڑھنے والوں کی اصلاح کی کوشش کی گئی ہے اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ ابن صفی کے
ناولوں کو ادب عالیہ میں شامل کرنا ہی بہتر رہے گا۔ ہم اسے محض پاپولر کہہ کر نظر
انداز نہیں کرسکتے۔ابن صفی کی شخصیت اور خدمات پر ایک درجن سے زائد کتابیں چھپ چکی
ہیں۔ ان پر ملک و بیرون ملک قومی وعالمی سطح کے سمینار ہوچکے ہیں۔ ان کے کردار
فریدی، حمید اور عمران آج لاکھوں دلوں میں بستے ہیں۔ اردو کی نئی پناہ گاہوں
انٹرنیٹ، سوشل میڈیا ،مختلف ویب سائٹ، فیس بک اورواٹس اپ کے گروپوں پر ابن صفی کے
چاہنے والوں کی تعداد ہزاروں لاکھوں میں ہے اور ان سے محبت کا جنون یہ ہے کہ ان کے
ناولوں اور ان کے کرداروں کے ناموں پر لوگ اپنا نام رکھتے ہیں۔ کوئی پرنس آف ڈھمپ
ہے تو کوئی رانا تہور علی بنا پھرتا ہے۔ کوئی خود کو صحرائی دیوانہ کہتا ہے تو
کوئی کرنل ہارڈ اسٹون بن گیا ہے۔کچھ کے نام
ایکس ٹو اور بلیک زیرو بھی ہیں۔ یہی نہیں ابن صفی کے چاہنے والوں نے اپنی جماعت کا
نام صفیانے رکھا ہوا ہے۔ بھلا بتائیے کہ اردو کے کس ناول نگار کو اتنی عزت، شہرت
اور مقبولیت ملی ہے۔ٹکساس یونیورسٹی کے استاد میکس بروس نادر جو کسی زمانے میں
لکھنو میں میرے شاگرد رہے تھے، ابن صفی سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ میکس بروس نے
اردو زبان محض شوق کی خاطرسیکھنا شروع کی۔ انھیں اردو شاعری سے کافی دلچسپی ہے اور
آج وہ اردو زبان و ادب پرکافی دسترس رکھتے ہیں۔ شاعری بھی کرتے ہیں اور اپنا تخلص
نادر رکھا ہے۔ فی الحال یونیورسٹی آف ٹکساس میں اردو زبان کے استاد ہیں اور ابن
صفی پر وہاں باضابطہ ایک کورس کا آغازکیا ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد، رتن ناتھ
سرشار، منشی سجاد حسین، کرشن چندر، شوکت تھانوی، عظیم بیگ چغتائی یا دیگر ناول
نگاروں کی تحریریں پڑھ لیں۔ جس طرح کا مزاحیہ انداز انھوں نے اختیار کیا ہے وہ ابن
صفی کے ناولوں میں بھی بدرجہ ٔ اتم موجود ہے۔ خوجی، ظاہر دار بیگ، حاجی بغلول، چچا
چھکن، غفور میاں اور گوہر مرزا کے کردار آج اگر بے مثال اور لازوال ہیں تو ابن
صفی کے کردار عمران، جوزف، قاسم، حمید وغیرہ کو جاننے والوں کی تعداد لاکھوں میں
پہنچتی ہے اور یہ کردار بھی آج امر ہوچکے ہیں۔
ابن صفی کے تقریباً تمام
ناولوں میں ہمیں طنز و مزاح مل جاتا ہے۔ جاسوسی دنیا اور عمران سیریز دونوں کے
پلاٹ اور کردار مختلف رہے ہیں اور طنز و مزاح کے موضوعات میں بھی تکرار کا شائبہ
نہیں نظر آتا۔ابن صفی نے اپنے کرداروں کی تخلیق کرنے میں تخیل کی جس بلند پروازی
سے کام لیا ہے وہ صرف ابن صفی ہی کرسکتا تھا۔ فریدی، حمید اور عمران کو چھوڑدیں تو
قاسم، جوزف، جیمسن اور ظفرالملک جیسے لازوال کردار تخلیق کرنے کا سہرا ابن صفی کے
سر جاتا ہے۔ اپنے کردارں کو جہاں وہ ایک عام انسان کی طرح پیش کرتے ہیں وہیں ان کی
ناہموار شخصیت اور تہہ داری کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ گلہری خانم ، گلرخ یا ثریا
سبھی کے کردار کچھ ایسے بن پڑے ہیں کہ وہ اپنے آپ میں مکمل ہیں۔ مونگ کی دال
اورشراب کی چھ بوتلوں کی بات کریں تو ابن صفی نے ان کو اپنے مزاحیہ پیرائے میں کچھ
اِس طرح ڈھال دیا ہے کہ قاری بے اختیار قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجائے۔ ابن صفی نے
بازاری پن، پھبتی کسنے یا پھکڑپن سے احتراز کیا ہے اور ناولوں میں زیادہ سے زیادہ
ایسی زبان استعمال کی جو ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ مذاق اور ہنسی کے دوران کرتے
ہیں۔ناولوں کا مطالعہ کرتے ہوئے کئی مقامات پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ارے یہ تو
ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے۔ سرسید کی عام فہم نثر کی تحریک کو سب سے زیادہ جس ادیب نے
عام کیا وہ ابن صفی تھے۔ نہ ہی انھوں نے دیومالائی اور مافوق الفطرت عناصر کا
سہارا لیا اور نہ ہی انہیں فحش نگاری کرنی پڑی ۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ایسے
ادیب کو ناقدین نے قابل اعتنا نہ سمجھااور ادب کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔
میں ادب میں کسی تخصیص کا قائل نہیں ہوں لیکن جب بات ادب عالیہ اور پاپولر ادب کی
ہوتی ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ آخر ابن صفی کی تحریروں میں کیا کمی تھی جس کی وجہ سے
انھیں جاسوسی ادب تک محدود کردیا گیا۔گذشتہ سو برسوں کا زمانہ دیکھ لیں یا اردو
ادب کے آغاز سے لے کر ابھی تک کا عہد دیکھ لیں، عمران جیسا لافانی کردار نہیں ملے
گا جس پر آج بھی ناول لکھے جارہے ہیں۔ یہ شہرت و مقبولیت ابن صفی کے حصے میں آئی
کہ انھوں نے عمران کو پیدا کیا اور عمران نے درجنوں لکھاریوں کو کامیابی دلائی اور
عمران سیریز لکھ کر وہ مشہور ہوئے۔ عمران محض ایک کردار نہیں رہا بلکہ ادیبوں نے ،
پبلشروں نے اسے ایک پروڈکٹ کی طرح استعمال کیا،عمران کامیابی اور شہرت کا ایک
برانڈ بن گیا۔فیس بک گروپ دی گریٹ ابن صفی فینز کلب کے ممبران طاہر جبران، سید اسد
عادل، ابراہیم جمالی، ڈاکٹر حامد حسن، یاسر حسنین، مرزا صہیب اکرام، ملک فرخ، محسن
قاضی اور سید فہد حسینی وغیرہ کی تیار کردہ فہرست کے مطابق تقریبا ً134 قلم کاروں
نے عمران کے کردار کو مرکز میں رکھ کر ناول تحریر کیے ہیں۔جن میں نجمہ صفی، این
صفی، ایچ اقبال،مظہر کلیم، ارشاد العصر جعفری، ایم اے راحت، مشتاق احمد قریشی،
ظہیر احمد،سید علی حسن گیلانی، محی الدین نواب، شکیل انجم، انور صدیقی، احمد
فاروق، وید پرکاش شرما جیسے کئی نام یہاں پیش کیے جاسکتے ہیں۔ خود ایم اے راحت نے
کئی ناموں سے عمران سیریز لکھی تھی۔اردو کے کئی اہم ادیبوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ
انھوں نے اردو ابن صفی کی بدولت سیکھی اور ان کے ناولوں کی وجہ سے ان کی اردو نکھر
گئی اور بعد میں وہ ادب عالیہ کے اہم ستون بن گئے ،اور بات جب خود ابن صفی کے ادب
عالیہ میں شامل کرنے کی ہوتی ہے تو ناقدین چپ ہوجاتے ہیں جب کہ آج ضرورت اس بات
کی ہے کہ اردو ادب کی جو بھی تاریخ لکھی جائے اس میں ابن صفی کا بطور خاص ذکر ہونا
چاہئے کیوں کہ اردو کی کوئی بھی تاریخ ابن صفی کے ذکر کے بغیر ادھوری مانی جائے
گی۔ابھی کچھ مہینوں قبل ادیب آن لائن کے ایک پروگرام میں ماہر اقبالیات اور ابن
صفی کے ناولوں پر دانش منزل اور رانا پیلس جیسی کتابوں کے خالق خرم علی شفیق نے
بڑی اچھی بات کہی تھی کہ ابن صفی کے قارئین نے انھیں مقبولیت عطا کی اور اردو زبان
میں ان کی شناخت مستحکم کی۔ ابن صفی کو بھلے ناقدین نے نظرانداز کیا لیکن ابن صفی
کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب اردو والے ابن صفی کو
تسلیم کرلیں کہ وہ ادب کا ایک حصہ ہیں اور انھیں نصاب میں بھی شامل کرایا جائے
تاکہ نئی نسل اور آنے والی نسلیں قانون کا حترام کرنا سیکھیں، حب الوطنی سیکھیں
اور معاشرے میں ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ عام ہو۔
ابن صفی کے چاہنے والوں
کی کمی نہیں ہے۔ معروف ناقد و محقق شمس الرحمٰن فاروقی، پروفیسر گوپی چند نارنگ،
پروفیسر عقیل ہاشمی، پروفیسر سید سجاد حسین، ڈاکٹر محمودحسن الہ آبادی، مشتاق
احمد قریشی، خرم علی شفیق، شکیل عادل زادہ، محمد حنیف، پروفیسر مجاہد حسین حسینی،
عقیل عباس جعفری،امجد اسلام امجد،حسن کمال،پروفیسر خالد جاوید،کرسٹینا
آسٹرہیلڈ،نصرت ظہیر،عارف اقبال،راشد اشرف،لئیق رضوی، مناظر عاشق ہرگانوی، میکس
بروس نادر، ادریس شاہجہاں پوری جیسے درجنوں قلم کاروں نے ابن صفی کی عظمت کو تسلیم
کیا اور ابن صفی کی ادبی حیثیت مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان سب ناموں میں بھی اگر
چند نام ایسے لیے جائیں جنھوں نے ابن صفی کو اکیسویں صدی میں زندہ رکھنے کی کوشش
کی ہے تو اس میں شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر خالد جاوید، مشتاق احمد قریشی، خرم
علی شفیق، راشد اشرف، عارف اقبال اور ادریس شاہجہاں پوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان
ناموں کے علاوہ فیس بک اور واٹس اپ پر ابن صفی سے جنون کی حد تک چاہنے والوں کے ناموں کو یہاں لکھا جائے تو صرف
ناموں سے کئی صفحات بھر جائیں گے۔ ان سبھی نے اپنی اپنی سطح پرابن صفی کو Re-Establish کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔یہاں میرا موضوع
گفتگو ادریس شاہجہاں پوری کی کتاب فنگر پرنٹس ہے۔800 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو
دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ادریس صاحب نے کس قدر خون جگر صرف کیا ہے۔ ان
کا ایک مضمون عمران: احمق ترین عقل مندمیری ادارت میں شائع ہونے والے رسالے فکر
وتحقیق ،میں شائع ہوا تھا۔ مضمون پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ ابن صفی کی محبت کم
نہیں ہوئی ہے اور اب یہ کتاب دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب ابن صفی کے عشق میں
پور پور ڈوبے ہوئے ہیں۔اس کتاب میں انھوں نے جاسوسی دنیا اور نکہت پبلی کیشنز کے تحت
شائع ہونے والے تمام ناولوں کے سر اوراق کو جمع کردیا ہے اور ان کے حوالے سے تمام
معلومات بھی درج کردی ہیں۔ ایک دفعہ ان کا فون آیا اور انھوں نے بتایا کہ وہ ابن
صفی کے ناولوں کے پرانے ایڈیشن کے سراوراق تلاش کر رہے ہیں، اس وقت مجھے یہ لگا کہ
آخر ٹائٹل جمع کر کے کیا کریں گے۔ اب جب یہ کتاب دیکھی تو تو اندازہ ہوا کہ انھوں
نے ابن صفی پر مکمل انسائکلوپیڈیا ترتیب دے دیا ہے۔ روایتی انداز کی کتابوں سے ہٹ کر یہ کتاب ابن صفی
شناسی کے میدان میں میل کا پتھر ثابت ہوگی۔ کتاب کا آغاز پیش تحریر سے ہوتا ہے جس
میں ادریس صاحب نے اپنے بچپن کے حالات لکھے ہیں اور کتاب کی غرض و غایت بیان کی
ہے۔پیش تحریر سے معلوم ہوا کہ یہ کتاب ان کی چھے برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔
ابن صفی کے حوالے سے لکھی
گئی یہ کتاب اس لحاظ سے معتبر کہی جائے گی کہ ادریس صاحب نے ان کے تمام ناولوں کے حالات و واقعات اور مختصر
تفصیلات جمع کردی ہیں اور گویا دریا کو کوزے میں بند کرنے کا کام کیا ہے۔کتاب پڑھ
کر قاری بخوبی ابن صفی کی انفرادیت اور امتیازات سے واقف ہوجائے گا۔یہ کتاب ادریس
شاہجہاں پوری کی علمی وتحقیقی ریاضت کا عمدہ نقش ہے اورابن صفی پر تحقیق کرنے
والوں کے بھی بہت مفید ثابت ہوگی۔
17 جولائی، 2022، بشکریہ:
انقلاب، نئی دہلی
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism