ارشد عالم،
نیو ایج اسلام
11 فروری 2023
وزیر اعظم نے سیدنا پر ہونے
والی داخلی تنقیدوں کو نظر انداز کیا ہے۔
اہم نکات:
1. بار بار، وزیر اعظم نے داؤدی بوہروں کی مذہبی تقریبات
میں شرکت کی، اور ان کے قائدین کی تعریفیں کیں۔
2. وہ شاید اچھے مسلمان سمجھے جاتے ہیں، جو تجارت اور
کاروبار میں مشغول ہیں لیکن سیاسی طور پر شعوری طور پر گمنام ہیں۔
3. اصلاح پسند بوہرہ کا ماننا
ہے کہ تقوی کے اس لباس کے اندر ایک مافیا نما ڈھانچہ ہے، جس پر سیدنا کا کنٹرول سب
سے مضبوط ہے۔
4. ان کا کہنا ہے کہ خواتین
کے ختنہ کے گھناؤنے عمل کو سیدنا پشت پناہی حاصل ہے، جس کی کوئی قرآنی بنیاد نہیں ہے۔
5. اس طرح کے اصلاح پسندوں کو نظر انداز کرتے ہوئے،
خاص طور پر خواتین میں، وزیراعظم کمیونٹی کے اندر ایسے رجعت پسندانہ معمولات کو جائز
قرار دے رہے ہیں۔
------
PM
Modi during Ashara Mubaraka at Indore in 2018. | Twitter
----------
وزیراعظم نے جب سے داؤدی بوہرہ
کمیونٹی کے عربی ادارے، سیفی اکیڈمی کا افتتاح کیا ہے اس سے ایک بار پھر چھوٹی لیکن
بااثر کمیونٹی چرچہ میں ہے۔ افتتاح کے موقع پر اپنی تقریر کے دوران وزیراعظم نے ان
قریبی تعلقات کو یاد کیا جو ان کے اس کمیونٹی کے ساتھ دہائیوں سے رہے ہیں۔ یہ پہلی
بار نہیں ہے کہ وزیر اعظم نے بوہرہ مسلمانوں کے پلیٹ فارم سے بات کی ہو۔ یہاں تک کہ
جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، تب بھی انہوں نے ان کے پروگرام میں شرکت کی تھی، اور
کنزرویشن آف واٹر اور ریاست میں غذائیت کی کمی کو ختم کرنے جیسے سرکاری منصوبوں کی
پرجوش حمایت کے لیے اس کمیونٹی کی تعریف کی تھی۔ کچھ سال پہلے، وہ اندور میں ایک بوہرہ
مذہبی اجتماع میں شریک ہوئے تھے۔
داؤدی بوہرہ برادری کے ساتھ وزیر
اعظم کی اس قربت کو ہم کس طرح دیکھیں؟ وزیر اعظم پر مسلمانوں کے ساتھ دوری رکھنے کا
الزام ہے، تو وہ مسلمانوں کی اس چھوٹی سی جماعت کے ساتھ اپنی قربت کی تشہیر کیوں کریں؟
یہ باتیں متضاد معلوم ہو سکتی ہیں لیکن مسلمانوں کے تئیں وزیر اعظم کا نقطہ نظر واضح
نظر آتا ہے: کہ پارٹی صرف انہیں مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کرے گی جسے وہ اچھا سمجھتی
ہے۔ وزیر اعظم کا ہر قدم سیاست سے متاثر ہے، اس لیے ان کے ہر پیغام کو اسی تناظر میں
دیکھا جانا چاہیے۔ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسلم تعلق کا آغاز ہے، تو وہ اس چال
کو نہیں سمجھ سکے۔ یہ یقینی طور پر مسلمانوں کے ساتھ خوشگوار تعلق کا آغاز نہیں ہے
بلکہ محض اس بیان کردہ موقف کا اعادہ ہے کہ صرف مخصوص مسلم گروہوں پر ہی نظر عنایت
کی جائے گی۔ اس چال کا محرک الیکشن معلوم نہیں ہوتا کیونکہ بوہرہ تعداد کے لحاظ سے
ایک چھوٹی اقلیت ہیں۔ اگرچہ اس کمیونٹی کے مالی غلبہ کا اس میں کوئی کردار ہو سکتا
ہے، لیکن اس کی جو بڑی وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ 'اچھے مسلمانوں' اور 'برے مسلمانوں'
کے درمیان فرق کو اجاگر کرنا ہے۔
شاید اس حکومت کے لیے ایک اچھے
مسلمان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کی کوئی سیاسی خواہشات نہ ہوں۔ اپنی ایک تقریر
میں جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، وزیر اعظم نے کہا تھا کہ بوہرہ تجارت اور اعتماد
کے لحاظ سے فطری قائد ہیں، اور یہ بھی کہا تھا کہ میں کوئی الیکشن لڑنے کی بات نہیں
کر رہا ہوں۔ لہٰذا اچھے مسلمان کو کوئی سیاسی خواہش نہیں رکھنی چاہیے بلکہ بس تجارت
اور کاروبار پر ہی قناعت کرنی چاہیے۔ اچھے مسلمان کی پہچان ان خدمات سے بھی ہوتی ہے
جو وہ قوم کے لیے کرتے ہیں: ملازمتیں پیدا کرنا، پیسہ کمانا اور عوامی فلاح و بہبود
کے لیے کام کرنا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اچھے مسلمان کی پہچان یہ بھی ہے کہ اس
کا کوئی بھی سیاسی عزم اور منصوبہ نہ ہو۔ حکمران جماعت کے لیے، بوہرہ اس معیار پر پورا
اترتے ہیں۔ ان کے جیسے 'مین اسٹریم کے مسلمان' شمالی ہندوستان میں نہیں ہیں۔ اس لیے
انہیں درکنار کیا جانا چاہیے اور ان کی سیاسی شرکت کی کسی بھی بات کو قومی تحفظات کے
خلاف قرار دیا جانا چاہیے۔
لیکن اس اچھی مسلم کمیونٹی کے اندر
سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ اندازے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن داؤدی بوہرہ برادری کی کل تعداد
تقریباً 1.2 ملین ہے، جو زیادہ تر ممبئی اور گجرات اور راجستھان کے چند شہروں میں آباد
ہے۔ اس کمیونٹی کے افراد انتہائی خوشحال ہیں؛ ان کی خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور
ان کی ایک بااثر آبادی پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کمیونٹی پر سیدنا کہلانے والے
ایک مذہبی اور وقتی رہنما کی مضبوط گرفت ہے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں سیدنا کو کمیونٹی
کا روحانی سربراہ کہا لیکن یہ اصل تصویر نہیں ہے۔ سیدنا کا ہر اس کام میں عمل دخل ہوتا
ہے جو اس کمیونٹی کا کوئی فرد کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے۔ حج، جو کہ ایک فرض عبادت ہے
یا بیرون ملک سفر کے لیے بھی سیدنا کی رضامندی ضروری ہے۔ اپنے نمائندوں کے ذریعے وہ
برادری کے افراد کی شادی، پیدائش اور موت جیسے تمام مواقع پر موجود ہوتا ہے۔ لیکن اس
کی یہ موجودگی صرف برکت بانٹنے کے لیے نہیں ہوتی، بلکہ اس لیے بھی ہے ہوتی ہے کہ اسے
برادری کی ان تقریبات شامل ہونے کے لیے فیس ملتی ہے۔ اس عمل میں، سیدنا نے ایک مالیاتی
سلطنت بنائی ہے جس کا تخمینہ 4000 کروڑ روپے ہے۔
عامل کہلانے والے اس کے نمائندے
کمیونٹی کے ہر فرد پر نظر رکھتے ہیں، اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک نگرانی والی
ریاست چلا رہے ہیں۔ آدھار کے رائج ہونے سے بہت پہلے، سیدنا نے اپنے اراکین کے لیے بایو
میٹرک کارڈ متعارف کروائے تھے۔ کوئی بھی ممبر جو مسجد، جماعت خانہ یا دیگر خدمات کا
استعمال کرنا چاہتا ہے اسے کارڈ استعمال کرنا ضروری تھا، جس سے ہر ایک کی سرگرمیاں
سیدنا کی نظر میں ہوتی تھیں۔ عامل ان لوگوں کے گھر جاتے جو روزانہ مسجد میں اپنے کارڈ
سوائپ نہیں کرتے تھے۔
کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس مافیا
نما ڈھانچے کا بیرونی دنیا کو پتہ ہی نہ چلا ہو۔ بوہرہ برادری کے اندر ترقی پسند لوگ
کئی دہائیوں سے سیدنا اور ان کے عاملوں کی تنقید کر رہے ہیں، ان کی زندگیاں اور کاروبار
کو بہت خطرہ لاحق ہے۔ جو لوگ قائدِ محترم کے فرمودات کی پیروی نہیں کرتے انہیں برادری
سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ وہ کمیونٹی سے وابستہ کسی بھی خدمات کا استعمال نہیں کر
سکتے۔ یہاں تک کہ انہیں ان کے قبرستانوں میں دفنانے سے بھی منع کر دیا جاتا ہے۔ یہ
بات سب جانتے ہیں کہ سابق سیدنا کے مریدوں نے ادے پور میں اصلاح پسند بوہروں کی ایک
جماعت پر اس وقت وحشیانہ حملہ کیا جب انہوں نے ان سے ملاقات کی درخواست کی۔ یہ اصلاح
پسند سیدنا اور ان کی جگہ پر کام کرنے والی کونسل سے احتساب کا مطالبہ کرتے رہے تھے۔
ایک عرصے سے، وہ بوہرہ برادری میں خواتین کے ختنہ کے گھناؤنے رواج کو ختم کرنے کا مطالبہ
کر رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت اور عدالتوں سے مداخلت کی درخواست کی ہے تاکہ اس عمل کو
روکا جائے جس کی قرآن میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ لیکن اب تک اس مسئلے کا کوئی حل نہیں
نکل سکا۔
یقین سے یہ بات کہی جا سکتی ہے
کہ حکومت کو اس بات کا علم ہے کہ بوہرہ برادری کے اندر کیا چل رہا ہے لیکن بظاہر وزیر
اعظم کو اس سے کوئی پریشانی نہیں معلوم ہوتی۔ اس طرح کی مذہبی مجالس میں شریک ہو کر
وزیراعظم نے سیدنا کے عہدے کو مزید قانونی حیثیت فراہم کی ہے، اور یہ پیغام دیا ہے
کہ برادری کے اندر موجود اصلاح پسندوں کی سرزنش کی جائے۔ موجودہ حکومت کے پسندیدہ نعروں
میں سے ایک بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کو بوہرہ برادری
کی ان بیٹیوں کی حالت زار کی کوئی پرواہ نہیں ہے جنہیں سیدنا کے فرمان کے تحت ختنہ
کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ حکومت خاندانی سیاست کی بری طرح تنقید کرتی رہی ہے۔ لیکن
اسے بوہرہ قیادت کو قانونی حیثیت دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے جو خاندانی جاگیر کے
سوا کچھ نہیں۔
کیا اس حکومت کے پاس بوہرہ برادری
کے اندر اختلاف کرنے والوں کی آواز سننے کی ہمت ہے؟ یا یہ کہ سیدنا کی حکومت سے قربت
اس کے مہلک اثرات کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گی؟
English
Article: Not everything is Right with the Bohra Community
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism